جزاکم اللہ خیرا شاہد نذیر بھائی!دئے گئے لنک میں یزیدیت کی تردید میں سخت جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ اشتہار میں زبان بھی گندی اور سخت استعمال ہوئی ہے لگتا ہے یہ نام نہاد اہلسنت دیوبندی ہیں۔ بہرحال یزید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا اس اشتہار سے معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ اختلافی ہے جس میں خاموشی بہتر ہے۔ واللہ اعلم
میں نے آپ کے پہلے اور چوتھے اعتراض کے جواب میں کہا تھا کہ1. دئے گئے لنک میں یزیدیت کی تردید میں سخت جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ 2. اشتہار میں زبان بھی گندی اور سخت استعمال ہوئی ہے 3. لگتا ہے یہ نام نہاد اہلسنت دیوبندی ہیں۔ 4. بہرحال یزید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا اس اشتہار سے معلوم ہوتا ہے 5. یہ مسئلہ اختلافی ہے جس میں خاموشی بہتر ہے۔ واللہ اعلم
آپ کے دوسرے اعتراض (کہ ’’شتہار میں زبان بھی گندی اور سخت استعمال ہوئی ہے۔‘‘) کی اگرچہ آپ نے کوئی وضاحت نہ دی تھی، بہرحال میں نے جواب دیا تھا:آپ کو ’یزیدیت‘ کے حوالے سے جس بات پر اعتراض ہے تو آپ کو چاہئے کہ آپ اسے پوائنٹ کریں اور پھر دلیل کے ساتھ اسے ردّ کریں! اگر آپ کی دلیل زیادہ قوی ہوگی تو لازماً اسی کی طرف رجوع ہونا چاہئے، لیکن اس طرح مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں۔
آپ کے تیسرے اعتراض (لگتا ہے یہ نام نہاد اہلسنت دیوبندی ہیں۔) کے جواب میں کہا تھا کہانبیاء کرام کے بعد کوئی بھی معصوم نہیں، کتاب وسنت کے علاوہ کوئی شے ’خیر محض‘ نہیں، ہر شے میں اچھائی کے پہلو بھی ہوتے ہیں اور برائی کے بھی۔ شراب اور جوئے جیسی چیزوں میں بھی ’بعض‘ منافع ہیں، لیکن مفاسد بہت زیادہ ہیں: ﴿ وإثمهما أكبر من نفعها ﴾ ... سورة البقرة تو کسی شے کے اچھے ہونے کا پیمانہ یہ نہیں کہ اس میں کسی قسم کی ’کوئی ئ ئ‘ خامی نہ ہو، کیونکہ وہ تو وحی کے علاوہ کوئی شے نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح کسی شے کے برے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں خیر کوئی ایک بھی پہلو نہ ہو، بلکہ جس کے نقصانات منافع سے زیادہ ہوں گے، وہ ’غلط‘ ہوگی، اور جس کے منافع نقصانات سے زیادہ ہوں گے وہ چیز ’بہتر‘ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کے اچھے اور برے ہونے کا یہی معیار رکھا ہے: ﴿فمن ثقلت موازينه فالئك هم المفلحون ومن خفت موازينه فأولئك الذين خسروا أنفسهم في جهنم خلدون ﴾ ... سورة الأنبياء
جہاں تک آپ کا پانچواں اعتراض ہے کہ تو میری رائے میں اختلافی مسئلوں کا حل خاموشی نہیں ہوتا۔اس اشتہار میں مجھے یہ بات اچھی لگی کہ ہر بات قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ کے ساتھ کوٹ کی گئی ہے، جو ایک بہت اچھا پہلو ہے، جس کی تعریف ہونی چاہئے، خواہ وہ پیش کرنے والے کوئی بھی ہوں (ویسے مجھے علم نہیں کہ یہ اشتہار کن لوگوں نے تیار کیا ہے۔) کیونکہ اچھی بات کہیں سے بھی ملے لے لینی چاہئے۔ اگر اس میں ’یزیدیت‘ کے حوالے سے آپ کو ’اعتراض والی کوئی بات‘ نظر آئی ہے تو گویا آپ کے نزدیک ’رافضیت‘، ’ناصبیت‘ اور مشاجرات صحابہ والے حصے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ گویا مکمل اشتہار غلط نہیں؟؟؟
جی مجھے آپ کی پہلی تجویز سے اتفاق ہے، اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ اچھی باتوں کا کھلے دل سے اعتراف ہونا چاہئے اور غلط بات کی دلیل کے ساتھ نشاندہی ہونی چاہئے (جو ابھی تک آپ نے - معذرت کے ساتھ - نہیں کی۔) کیونکہ انسان غلطی کا پتلا ہے، ممکن ہے مجھے ایک خرابی نظر نہ آئی ہو یا علم نہ ہو، لیکن آپ جیسا کوئی بھائی اس کی اصلاح کر دے، جسے قبول کیا جانا چاہئے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی منہج انبیاء کرام کا ہے اور یہی منہج ہمیں قرآن کریم میں سیکھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’سورہ ابراہیم‘ میں انبیاء کرام اور ان کی قوموں کے مابین عمومی مکالمہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیشہ قوموں نے انبیاء پر اعتراض کیا:﴿ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾ کہ ’’انہوں (قوموں) نے کہا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو۔‘‘مجھ ناچیز اور عامی کے نزدیک ایسی تحریرات پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ جو تحریر زیادہ تر صحیح باتوں پر مشتمل ہو اور کچھ غلط باتیں بھی اس میں شامل ہو تو اسے پیش کرتے وقت غلط باتوں کی نشاندہی کر دی جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایسی تحریر کو پیش کرنے سے پہلے اس میں سے غلط باتوں کو حذف کردیا جائے۔تاکہ تحریر سے کسی کی بھی ممکنہ گمراہی کے امکانات ختم ہوجائیں۔
جہاں تک یزید کا تعلق ہے تو جس واقعہ یعنی سانحہ کربلا کی ذمہ داری اس کے سر ڈال کر اسے مطعون کیا جاتا ہے اس معاملہ میں حق تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ واقع اسلام مکمل ہونے کے بہت بعد میں پیش آیا تھا اس لئے اس کی کوئی رہنمائی قرآن اور حدیث میں موجود نہیں ہے صرف تاریخ کی بنیاد پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تاریخ کا غیر مستند ہونا کسی پر مخفی نہیں۔ اس لئے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اسی لئے اختلافی ہے اور اس پر خاموشی بہتر ہے۔
کیا کسی خلیفہ کی بیعت نہ توڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کوئی عمل قابل مذمت نہیں؟؟ کیا کسی اموی خلیفہ کی کوئی بات قابل مذمت نہیں تھی، حالانکہ کتنے جلیل القدر صحابہ کرام نے ان کی بیعت نہیں توڑی۔ کئی صحابہ کرام نے تو بعد میں عبد الملک بن مروان کی بیعت بھی نہیں توڑی تھی حالانکہ اس کے دور میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر کو عین خانہ کعبہ میں شہید کیا گیا، ان کی نعش کی اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی کی گئی، اس کے گورنر حجاج بن یوسف نے کئی جلیل القدر علماء کے ساتھ ساتھ کتنوں کو شہید کیا، کتنے ظلم ڈھائے وغیرہ وغیرہ۔ویسے میرے نزدیک یزید اس لئے قابل ملامت نہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی بہت سے جلیل القدر صحابہ نے یزید کی بیعت نہیں توڑی تھی اگر یزید اتنا ہی برا ہوتا جتنا آج کچھ لوگوں کی جانب سے بیان کیا جاتا ہے تو صحابہ اس کی بیعت پر قائم نہ رہتے۔ واللہ اعلم
میرے بھائی! یہی تو آپ سے عرض کیا ہے کہ صحیح موقف کی وضاحت آپ دلیل کے ساتھ فرما دیں، تاکہ اختلاف ختم ہوجائے۔مذکورہ اشتہار میں یزید سے متعلق سب سے بڑی غلط بات یہ ہے کہ اس میں ایک ہی موقف کو حق بنا کر پیش کیا گیا ہے۔جبکہ سلف صالحین میں سے بہت سوں سے یزید کی تعریف ثابت ہے۔پھر صحیح احادیث کا سہارا لے کر اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ احادیث میں یزید کا اشارہ تک نہیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے صرف ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے قول کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ کسی کے قول کی بنیاد پر احادیث کا فیصلہ کیسے ممکن ہے؟ اور کیا امت کا اس قول پر اتفاق ہے کہ ان احادیث سے یزید مراد ہے؟
میرا خیال ہے کہ تقریباً یہی نقطہ نظر میں کوئی گذشتہ چار پانچ سال سے نیٹ پر بیان کرتا آ رہا ہوں۔ اور اس ضمن میں بہترین حوالہ امام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی منہاج السنہ اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی سانحہ کربلا نامی کتب ہیں۔قتل حسین دین کا مسئلہ نہیں ہے اس سلسلہ میں جہلاء میں جو مشہور ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے کر کربلا کے بعد۔ دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ اور کوفیوں کے درمیان معرکہ کفراور اسلا م کی جنگ نہیں تھی صرف ایک سیاسی اور دنیاوی مسئلہ تھا۔ اس دنیاوی اور سیاسی مسئلہ کو تاریخی روایات پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کوئی بھی فریق حق پر ہو اس کے یا اس کے مخالف کے دین اور اسلام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔تو پھر اگر اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کی جائے تو کیا برائی ہے؟ ہاں البتہ! وہ مسائل جن کا تعلق دین سے ہے تو ایسے مسائل میں تو میں بھی خاموشی کو جرم سمجھتا ہوں۔
اور مجھے ذاتی طور پر مصنفِ کتاب کا یہی موقف بہتر اور قابل قبول لگتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں اس پوسٹر کی یہ ہیڈنگ {سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) جمل اور صفین میں حق پر تھے} نظرانداز کئے جانے کے قابل ہے۔نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ نہیں کہا کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) حق پر ہوں گے بلکہ یہ کہا کہ "حق کے زیادہ قریب ہوں گے" ۔۔۔۔ حق پر ہونا اور حق کے زیادہ قریب ہونا ۔۔۔۔ ان دو باتوں میں بہرحال فرق ہے۔
ظاہر ہے کہ ہم اہل سنت ایسا ہرگز نہیں کرتے۔اگر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے قاتلوں کو جاننے کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کیا بلکہ ان میں سے چند کو حکومتی عہدے بھی دئے تو کیا ہم حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس طرز عمل پر سنگین اعتراضات وارد کر سکتے ہیں؟ اور ان (رضی اللہ عنہ) پر قاتلینِ عثمان (رضی اللہ عنہ) کی پشت پناہی کا الزام عائد کر سکتے ہیں؟
جزاک اللہ خیرا بھائی! آپ نے بہت بہتر انداز میں اشتہار میں موجود غلطی کو واضح کیا ہے، جس کا میں بار بار آپ سے تقاضا کر رہا تھا، میں اس معاملے میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔محترم شیخ مجھے آپ کے اشتہار پیش کرنے پر کوئی اعتراض نہیں اصل اعتراض یہ ہے کہ آپ نے غلط مقامات کی نشاندہی کئے بغیر اسے شیئر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ آپ اشتہار سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں تو عرض ہے کہ اشتہار میں دھوکہ دیتے ہوئے یزیدیت کو ایک تیسرے فرقے یا فکر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ رافضیت اور ناصبیت کا وجود تو ایک فرقے کی صورت میں موجود ہے لیکن یزیدیت نام کا فرقہ شاید اشتہار والوں کی کوئی نئی دریافت ہے۔کیونکہ عملی زندگی میں اس کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ کم ازکم اس غلط بات کی نشاندہی ضروری تھی۔
مجھے آپ کا یہ جملہ بہت اچھا لگا، میں بھی آپ کے جملے کو دہراتے ہوئے ہی کہوں گا کہ اگر میری کوئی بات بری لگے تو پیشگی معذرت!اگر کوئی غلطی ہوئی تو معذرت چاہتا ہوں۔
نہیں ہرگز نہیں! میں ایسا نہیں سمجھتا، مجھے آپ کے متعلّق کافی حُسنِ ظن ہے، جس کا میں نے شروع میں اظہار بھی کیا تھا۔محترم انس نضر بھائی آپ نے میرے الفاظ کی گرفت کرکے مسئلہ کو الجھا دیا ہے۔ اگر چہ وقت کی کمی کے باعث میرا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ جواب ضروری ہے ورنہ شاید آپ یہ سمجھیں کہ اسکا تو کام ہی بلادلیل ہر مسئلہ میں ٹانگ اڑانا ہے۔
جی آپ نے بالکل صحیح کہا کہ واقعی ہی آپ نے مکمل اشتہار پر اعتراض نہیں کیا تھا اور میں نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا، لیکن چونکہ آپ نے باقی مسائل جن پر آپ کو اتفاق تھا، کے متعلّق مثبت تبصرہ بھی نہیں کیا تھا، تو میرا توجہ دلانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ اس پر تنقید کرتے ہوئے - جو آپ کا حق تھا - شروع میں مثبت تبصرہ بھی کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اسی کے متعلق میں نے سورۃ آل عمران اور سورۃ ابراہیم کی آیات مبارکہ کوٹ کی تھیں!آپ نے اعتراض کیا: لیکن اس طرح مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں
محترم شیخ! میں نے مکمل اشتہار پر تبصرہ کیا ہی کب ہے؟ میں نے تو صرف اشتہار کے ایک خاص حصہ جو کہ رد یزیدیت پر مشتمل تھا پر تبصرہ کیا ہے۔ اور اس حصہ پر اعتراض بھی صرف اتنا ہے کہ ایک سخت اختلافی مسئلہ کے صرف ایک ہی موقف کو صحیح احادیث پر مشتمل کا تاثر دے کر حق بنا کر پیش کرنا نا مناسب ہے کیونکہ جو احادیث پیش کئی گئی ہیں ان میں کہیں بھی یزید کی صراحت یایزید کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ صرف ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کی بنیاد پر( جبکہ جمہور محدیثین نے ان احادیث سے یزید مراد نہیں لیا) بھلا کیسے اس معرکتہ الآرا مسئلہ کا فیصلہ ہوسکتا ہے؟
آپ نے خود اقرار کیا کہ میں نے یزیدیت کے علاوہ دیگر عنوانات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس کا مطلب آپ نے یہ لیا کہ میرے نزدیک مکمل اشتہار غلط نہیں۔ جو کہ بالکل درست بات ہے۔ پھر آپ کا یہ اعتراض کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں۔
اگر آپ کے نزدیک یزید تابعی ہونے کے کی بناء پر عظیم ترین مقام کا مالک ہے، تو کیا یہی عظیم ترین مقام آپ سیدنا حسین، سیدنا زبیر، سیدنا سعید بن جبیر وغيرہم کو شہید کرنے والوں اور مروان بن حکم، عبد الملک بن مروان، حجاج بن یوسف اور ان شیعوں وغیرہ کو بھی دیں گے جو شیخین پر سب وشتم نہیں کرتے بلکہ وہ صرف سیدنا علی کی سیدنا عثمان پر فوقیت کے قائل تھے وغیرہ وغیرہ؟؟؟میرے نزدیک یہ زبان گندی بھی ہے اور سخت بھی کیونکہ یزید کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ اور جو شخص مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے جتنا بڑا ہوتا ہے اس کی ہلکی سی توہین بھی شدید گستاخی شمار ہوتی ہے۔
یہ معرکہ واقعی ہی کفر واسلام کا معرکہ نہ تھا، اور نہ ہی میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن اسے ایک دنیاوی وسیاسی مسئلہ کہہ کر دین کے دائرے سے نکالنے کا مطلب یہی نکل سکتا ہے، کہ شائد آپ کے نزدیک (سیکولر ازم کی طرح) دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ کیا آپ وضاحت فرما سکتے ہیں کہ آپ کے نزدیک وہ کون سے دنیاوی اور سیاسی مسائل ہیں جو دین کے زمرے میں نہیں آتے، کیا ہماری تعلیم، عدالت، معاشرت، معیشت، سیاست، خارجہ تعلقات وغیرہ آپ کے نزدیک دنیاوی اُمور ہونے کی بناء پر شریعت کے زمرے میں نہیں آتے؟؟؟شیخ محترم اس اعتراض کے بعد آپ نے جو کچھ لکھا ہے میرے نزدیک اس کی بنیاد غلط فہمی ہے۔بے شک دین مکمل ہوچکا ہے لیکن اس طرح کہ قیامت تک پیش آنے والے دینی مسائل کے حل کے ساتھ۔لیکن یاد رہے دینی مسائل دنیاوی نہیں۔ قتل حسین دین کا مسئلہ نہیں ہے اس سلسلہ میں جہلاء میں جو مشہور ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے کر کربلا کے بعد۔ دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ اور کوفیوں کے درمیان معرکہ کفراور اسلا م کی جنگ نہیں تھی صرف ایک سیاسی اور دنیاوی مسئلہ تھا۔ اس دنیاوی اور سیاسی مسئلہ کو تاریخی روایات پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کوئی بھی فریق حق پر ہو اس کے یا اس کے مخالف کے دین اور اسلام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔تو پھر اگر اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کی جائے تو کیا برائی ہے؟ ہاں البتہ! وہ مسائل جن کا تعلق دین سے ہے تو ایسے مسائل میں تو میں بھی خاموشی کو جرم سمجھتا ہوں۔
لیکن اگر آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں دنیاوی مسائل کا حل بھی موجود ہے تو ذرا کمپیوٹر کو درپیش مسائل کا حل نکا ل کر دکھائیں۔
میرے بھائی! اسلام کا دائرہ کار حلال وحرام بتانے کی حد تک ہے، آپ کمپیوٹر کے متعلق مختلف اُمور کے جائز وناجائز ہونے کا حل قرآن وحدیث سے نہیں تو پھر کیا تورات وانجیل یا فلسفہ یونان سے نکالیں گے؟؟؟ واللہ تعالیٰ اعلم!اگر اسلام میں دنیاوی مسائل کا حل ہے تو ذرا کمپیوٹر کو درپیش مسائل کا حل نکال کر دکھائیں!