• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناصبیت، رافضیت اور یزیدیت

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
دئے گئے لنک میں یزیدیت کی تردید میں سخت جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ اشتہار میں زبان بھی گندی اور سخت استعمال ہوئی ہے لگتا ہے یہ نام نہاد اہلسنت دیوبندی ہیں۔ بہرحال یزید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا اس اشتہار سے معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ اختلافی ہے جس میں خاموشی بہتر ہے۔ واللہ اعلم
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
دئے گئے لنک میں یزیدیت کی تردید میں سخت جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ اشتہار میں زبان بھی گندی اور سخت استعمال ہوئی ہے لگتا ہے یہ نام نہاد اہلسنت دیوبندی ہیں۔ بہرحال یزید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا اس اشتہار سے معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ اختلافی ہے جس میں خاموشی بہتر ہے۔ واللہ اعلم
جزاکم اللہ خیرا شاہد نذیر بھائی!
آپ نے مکمل اشتہار پڑھا جس کے لئے میں آپ کا شکر گزار ہوں، علاوہ ازیں مجھے آپ کی ’حمیت‘ نے بھی متاثر کیا ہے کہ فرمان نبویﷺ کے مطابق آپ باطل کو دل میں برا جاننے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
البتہ اس حوالے سے میری چند گزارشات بھی ہیں:
  • انبیاء کرام﷩ کے بعد کوئی بھی معصوم نہیں، کتاب وسنت کے علاوہ کوئی شے ’خیر محض‘ نہیں، ہر شے میں اچھائی کے پہلو بھی ہوتے ہیں اور برائی کے بھی۔ شراب اور جوئے جیسی چیزوں میں بھی ’بعض‘ منافع ہیں، لیکن مفاسد بہت زیادہ ہیں: ﴿ وإثمهما أكبر من نفعها ﴾ ... سورة البقرة تو کسی شے کے اچھے ہونے کا پیمانہ یہ نہیں کہ اس میں کسی قسم کی ’کوئی ئ ئ‘ خامی نہ ہو، کیونکہ وہ تو وحی کے علاوہ کوئی شے نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح کسی شے کے برے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں خیر کوئی ایک بھی پہلو نہ ہو، بلکہ جس کے نقصانات منافع سے زیادہ ہوں گے، وہ ’غلط‘ ہوگی، اور جس کے منافع نقصانات سے زیادہ ہوں گے وہ چیز ’بہتر‘ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کے اچھے اور برے ہونے کا یہی معیار رکھا ہے: ﴿فمن ثقلت موازينه فالئك هم المفلحون ومن خفت موازينه فأولئك الذين خسروا أنفسهم في جهنم خلدون ﴾ ... سورة الأنبياء
  • اس اشتہار میں مجھے یہ بات اچھی لگی کہ ہر بات قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ کے ساتھ کوٹ کی گئی ہے، جو ایک بہت اچھا پہلو ہے، جس کی تعریف ہونی چاہئے، خواہ وہ پیش کرنے والے کوئی بھی ہوں (ویسے مجھے علم نہیں کہ یہ اشتہار کن لوگوں نے تیار کیا ہے۔) کیونکہ اچھی بات کہیں سے بھی ملے لے لینی چاہئے۔ اگر اس میں ’یزیدیت‘ کے حوالے سے آپ کو ’اعتراض والی کوئی بات‘ نظر آئی ہے تو گویا آپ کے نزدیک ’رافضیت‘، ’ناصبیت‘ اور مشاجرات صحابہ﷢ والے حصے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ گویا مکمل اشتہار غلط نہیں؟؟؟
  • آپ کو ’یزیدیت‘ کے حوالے سے جس بات پر اعتراض ہے تو آپ کو چاہئے کہ آپ اسے پوائنٹ کریں اور پھر دلیل کے ساتھ اسے ردّ کریں! اگر آپ کی دلیل زیادہ قوی ہوگی تو لازماً اسی کی طرف رجوع ہونا چاہئے، لیکن اس طرح مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں۔
واللہ اعلم
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

محترم انس نضر بھائی اس طرح کے معاملات میں میرا نقطہ نظر آپ سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اکثر گمراہ گروں کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ بہت ساری صحیح باتوں کے ساتھ ایک آدھ اپنے مطلب کی غلط بات بھی پیش کردی جائے جیسے موجودہ دور کا دجال طاہر القادری۔ موصوف اپنی گفتگو کا آغاز اکثر صحیح احادیث سے کرتے ہیں پھر اس کی تشریح میں گمراہ کن باتوں کو پیش کرتے ہیں ایسی صورت میں عوام کی اکثریت دھوکہ کھا جاتی ہے۔

مجھ ناچیز اور عامی کے نزدیک ایسی تحریرات پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ جو تحریر زیادہ تر صحیح باتوں پر مشتمل ہو اور کچھ غلط باتیں بھی اس میں شامل ہو تو اسے پیش کرتے وقت غلط باتوں کی نشاندہی کر دی جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایسی تحریر کو پیش کرنے سے پہلے اس میں سے غلط باتوں کو حذف کردیا جائے۔تاکہ تحریر سے کسی کی بھی ممکنہ گمراہی کے امکانات ختم ہوجائیں۔

جہاں تک یزید کا تعلق ہے تو جس واقعہ یعنی سانحہ کربلا کی ذمہ داری اس کے سر ڈال کر اسے مطعون کیا جاتا ہے اس معاملہ میں حق تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ واقع اسلام مکمل ہونے کے بہت بعد میں پیش آیا تھا اس لئے اس کی کوئی رہنمائی قرآن اور حدیث میں موجود نہیں ہے صرف تاریخ کی بنیاد پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تاریخ کا غیر مستند ہونا کسی پر مخفی نہیں۔ اس لئے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اسی لئے اختلافی ہے اور اس پر خاموشی بہتر ہے۔ ویسے میرے نزدیک یزید اس لئے قابل ملامت نہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی بہت سے جلیل القدر صحابہ نے یزید کی بیعت نہیں توڑی تھی اگر یزید اتنا ہی برا ہوتا جتنا آج کچھ لوگوں کی جانب سے بیان کیا جاتا ہے تو صحابہ اس کی بیعت پر قائم نہ رہتے۔ واللہ اعلم

مذکورہ اشتہار میں یزید سے متعلق سب سے بڑی غلط بات یہ ہے کہ اس میں ایک ہی موقف کو حق بنا کر پیش کیا گیا ہے۔جبکہ سلف صالحین میں سے بہت سوں سے یزید کی تعریف ثابت ہے۔پھر صحیح احادیث کا سہارا لے کر اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ احادیث میں یزید کا اشارہ تک نہیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے صرف ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے قول کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ کسی کے قول کی بنیاد پر احادیث کا فیصلہ کیسے ممکن ہے؟ اور کیا امت کا اس قول پر اتفاق ہے کہ ان احادیث سے یزید مراد ہے؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم شاہد نذیر بھائی!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے شروع میں کہا تھا کہ
1. دئے گئے لنک میں یزیدیت کی تردید میں سخت جانبداری سے کام لیا گیا ہے۔ 2. اشتہار میں زبان بھی گندی اور سخت استعمال ہوئی ہے 3. لگتا ہے یہ نام نہاد اہلسنت دیوبندی ہیں۔ 4. بہرحال یزید کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا اس اشتہار سے معلوم ہوتا ہے 5. یہ مسئلہ اختلافی ہے جس میں خاموشی بہتر ہے۔ واللہ اعلم
میں نے آپ کے پہلے اور چوتھے اعتراض کے جواب میں کہا تھا کہ
آپ کو ’یزیدیت‘ کے حوالے سے جس بات پر اعتراض ہے تو آپ کو چاہئے کہ آپ اسے پوائنٹ کریں اور پھر دلیل کے ساتھ اسے ردّ کریں! اگر آپ کی دلیل زیادہ قوی ہوگی تو لازماً اسی کی طرف رجوع ہونا چاہئے، لیکن اس طرح مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں۔
آپ کے دوسرے اعتراض (کہ ’’شتہار میں زبان بھی گندی اور سخت استعمال ہوئی ہے۔‘‘) کی اگرچہ آپ نے کوئی وضاحت نہ دی تھی، بہرحال میں نے جواب دیا تھا:
انبیاء کرام﷩ کے بعد کوئی بھی معصوم نہیں، کتاب وسنت کے علاوہ کوئی شے ’خیر محض‘ نہیں، ہر شے میں اچھائی کے پہلو بھی ہوتے ہیں اور برائی کے بھی۔ شراب اور جوئے جیسی چیزوں میں بھی ’بعض‘ منافع ہیں، لیکن مفاسد بہت زیادہ ہیں: ﴿ وإثمهما أكبر من نفعها ﴾ ... سورة البقرة تو کسی شے کے اچھے ہونے کا پیمانہ یہ نہیں کہ اس میں کسی قسم کی ’کوئی ئ ئ‘ خامی نہ ہو، کیونکہ وہ تو وحی کے علاوہ کوئی شے نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح کسی شے کے برے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں خیر کوئی ایک بھی پہلو نہ ہو، بلکہ جس کے نقصانات منافع سے زیادہ ہوں گے، وہ ’غلط‘ ہوگی، اور جس کے منافع نقصانات سے زیادہ ہوں گے وہ چیز ’بہتر‘ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی انسان کے اچھے اور برے ہونے کا یہی معیار رکھا ہے: ﴿فمن ثقلت موازينه فالئك هم المفلحون ومن خفت موازينه فأولئك الذين خسروا أنفسهم في جهنم خلدون ﴾ ... سورة الأنبياء
آپ کے تیسرے اعتراض (لگتا ہے یہ نام نہاد اہلسنت دیوبندی ہیں۔) کے جواب میں کہا تھا کہ
اس اشتہار میں مجھے یہ بات اچھی لگی کہ ہر بات قرآن کریم اور صحیح احادیث مبارکہ کے ساتھ کوٹ کی گئی ہے، جو ایک بہت اچھا پہلو ہے، جس کی تعریف ہونی چاہئے، خواہ وہ پیش کرنے والے کوئی بھی ہوں (ویسے مجھے علم نہیں کہ یہ اشتہار کن لوگوں نے تیار کیا ہے۔) کیونکہ اچھی بات کہیں سے بھی ملے لے لینی چاہئے۔ اگر اس میں ’یزیدیت‘ کے حوالے سے آپ کو ’اعتراض والی کوئی بات‘ نظر آئی ہے تو گویا آپ کے نزدیک ’رافضیت‘، ’ناصبیت‘ اور مشاجرات صحابہ﷢ والے حصے میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ گویا مکمل اشتہار غلط نہیں؟؟؟
جہاں تک آپ کا پانچواں اعتراض ہے کہ تو میری رائے میں اختلافی مسئلوں کا حل خاموشی نہیں ہوتا۔

تو پیارے بھائی! اب آپ نے فرمایا ہے کہ
مجھ ناچیز اور عامی کے نزدیک ایسی تحریرات پیش کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ جو تحریر زیادہ تر صحیح باتوں پر مشتمل ہو اور کچھ غلط باتیں بھی اس میں شامل ہو تو اسے پیش کرتے وقت غلط باتوں کی نشاندہی کر دی جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایسی تحریر کو پیش کرنے سے پہلے اس میں سے غلط باتوں کو حذف کردیا جائے۔تاکہ تحریر سے کسی کی بھی ممکنہ گمراہی کے امکانات ختم ہوجائیں۔
جی مجھے آپ کی پہلی تجویز سے اتفاق ہے، اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ اچھی باتوں کا کھلے دل سے اعتراف ہونا چاہئے اور غلط بات کی دلیل کے ساتھ نشاندہی ہونی چاہئے (جو ابھی تک آپ نے - معذرت کے ساتھ - نہیں کی۔) کیونکہ انسان غلطی کا پتلا ہے، ممکن ہے مجھے ایک خرابی نظر نہ آئی ہو یا علم نہ ہو، لیکن آپ جیسا کوئی بھائی اس کی اصلاح کر دے، جسے قبول کیا جانا چاہئے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہی منہج انبیاء کرام﷩ کا ہے اور یہی منہج ہمیں قرآن کریم میں سیکھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ’سورہ ابراہیم‘ میں انبیاء کرام﷩ اور ان کی قوموں کے مابین عمومی مکالمہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیشہ قوموں نے انبیاء﷩ پر اعتراض کیا:﴿ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ﴾ کہ ’’انہوں (قوموں) نے کہا کہ تم تو ہمارے جیسے انسان ہو۔‘‘
جس کے جواب میں انبیاء کرام﷩ نے ان کی مکمل بات کا ردّ کرنے کی بجائے پہلی صحیح بات کی تصدیق کی، پھر غلطی واضح کی، فرمان باری ہے: ﴿ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾ کہ ’’ان سے ان کے رسولوں نے (جواب میں) کہا کہ واقعی ہی ہم تمہارے جیسے انسان ہیں (صحیح بات کی تصدیق) لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے (وحی بھیج کر) احسان فرما دے (غلطی کی اصلاح: کہ ہیں تو ہم تمہارے جیسے انسان ہی لیکن ہم پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔)‘‘
اسی طرح سورہ آل عمران میں اہل کتاب کو دعوت دیتے ہوئے ان کے اور مسلمانوں کے درمیان مشترک بات سے آغاز کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللهِ ﴾
اگر کسی شے میں بعض غلطیوں کی بناء پر پوری شے کو غلط کہہ دیا جائے تو صحیح چیزوں کا بھی ردّ ہوجاتا ہے، جو صحیح نہیں، مثلاً اگر کوئی شخص اپنے موقف میں ضعیف حدیث یا قیاس فاسد پیش کرے تو مطلقا حدیث یا قیاس کا انکار کرنے کی بجائے واضح کرنا چاہئے کہ صحیح حدیث اور قیاس سے واقعتاً استدلال کیا جاتا ہے، لیکن آپ نے یہاں ضعیف حدیث یا غلط قیاس کیا ہے، جو صحیح نہیں۔
آپ کی درج ذیل بات ’انتہائی خطرناک‘ ہے کہ
جہاں تک یزید کا تعلق ہے تو جس واقعہ یعنی سانحہ کربلا کی ذمہ داری اس کے سر ڈال کر اسے مطعون کیا جاتا ہے اس معاملہ میں حق تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ واقع اسلام مکمل ہونے کے بہت بعد میں پیش آیا تھا اس لئے اس کی کوئی رہنمائی قرآن اور حدیث میں موجود نہیں ہے صرف تاریخ کی بنیاد پر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور تاریخ کا غیر مستند ہونا کسی پر مخفی نہیں۔ اس لئے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا اسی لئے اختلافی ہے اور اس پر خاموشی بہتر ہے۔
  • کیا اسلام مکمل ہونے (نبی کریمﷺ کے فوت ہونے) کے بعد رونما ہونے والے کسی واقعہ کی کوئی دلیل کتاب وسنت میں موجود نہیں ہوگی؟؟؟
  • کیا اسلام صرف نبی کریمﷺ کی زندگی میں مسائل حل کر سکتا تھا، اب نہیں کر سکتا؟؟
  • کیا اسلام میں قیامت تک آنے والے مسائل کیلئے راہنمائی موجود نہیں؟
  • کیا کوئی تاریخی بات صحیح سند سے ثابت بھی ہو، غیر مستند ہوگی؟؟
  • کیا ہر اختلافی مسئلے کا حل خاموشی ہے؟؟ اس طرح تو آج شرک وبدعات اور ہر مسئلے میں ہی اختلاف ہے کیا تمام میں خاموشی اختیار کی جائے؟؟؟
آپ نے فرمایا:
ویسے میرے نزدیک یزید اس لئے قابل ملامت نہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد بھی بہت سے جلیل القدر صحابہ نے یزید کی بیعت نہیں توڑی تھی اگر یزید اتنا ہی برا ہوتا جتنا آج کچھ لوگوں کی جانب سے بیان کیا جاتا ہے تو صحابہ اس کی بیعت پر قائم نہ رہتے۔ واللہ اعلم
کیا کسی خلیفہ کی بیعت نہ توڑنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کوئی عمل قابل مذمت نہیں؟؟ کیا کسی اموی خلیفہ کی کوئی بات قابل مذمت نہیں تھی، حالانکہ کتنے جلیل القدر صحابہ کرام﷢ نے ان کی بیعت نہیں توڑی۔ کئی صحابہ کرام﷢ نے تو بعد میں عبد الملک بن مروان کی بیعت بھی نہیں توڑی تھی حالانکہ اس کے دور میں سیدنا عبد اللہ بن زبیر﷜ کو عین خانہ کعبہ میں شہید کیا گیا، ان کی نعش کی اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی کی گئی، اس کے گورنر حجاج بن یوسف نے کئی جلیل القدر علماء کے ساتھ ساتھ کتنوں کو شہید کیا، کتنے ظلم ڈھائے وغیرہ وغیرہ۔
میرے پیارے بھائی! یزید کو کافر، مشرک اور لعنتی وغیرہ کہنا تو غلط ہے، لیکن اس کے تعریفوں کے پل باندھنا کہاں سے جائز ہوگیا؟؟ سیدنا معاویہ﷜ کے بارے میں تو ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ صحابی تھے، کاتب وحی تھے، لیکن کیا یزید میں کوئی بڑی خامی موجود نہ تھی؟؟
آپ نے فرمایا:
مذکورہ اشتہار میں یزید سے متعلق سب سے بڑی غلط بات یہ ہے کہ اس میں ایک ہی موقف کو حق بنا کر پیش کیا گیا ہے۔جبکہ سلف صالحین میں سے بہت سوں سے یزید کی تعریف ثابت ہے۔پھر صحیح احادیث کا سہارا لے کر اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ احادیث میں یزید کا اشارہ تک نہیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے صرف ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے قول کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ کسی کے قول کی بنیاد پر احادیث کا فیصلہ کیسے ممکن ہے؟ اور کیا امت کا اس قول پر اتفاق ہے کہ ان احادیث سے یزید مراد ہے؟
میرے بھائی! یہی تو آپ سے عرض کیا ہے کہ صحیح موقف کی وضاحت آپ دلیل کے ساتھ فرما دیں، تاکہ اختلاف ختم ہوجائے۔
جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ کیا یزید مغفور لہم فوج کا سپہ سالار تھا کہ نہیں، اس لئے ماہنامہ محدث جنوری 2010ء میں ڈاکٹر عبد اللہ دامانوی﷾ (اس کا لنک دستیاب نہیں) اور اس کے جواب میں ماہنامہ محدث اپریل 2010ء میں مولانا عبد الولی حقانی﷾ کے مضمون کا مطالعہ فرمائیں۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!

محترم انس نضر بھائی آپ نے میرے الفاظ کی گرفت کرکے مسئلہ کو الجھا دیا ہے۔ اگر چہ وقت کی کمی کے باعث میرا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ جواب ضروری ہے ورنہ شاید آپ یہ سمجھیں کہ اسکا تو کام ہی بلادلیل ہر مسئلہ میں ٹانگ اڑانا ہے۔

آپ نے اعتراض کیا: لیکن اس طرح مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں

محترم شیخ میں نے مکمل اشتہار پر تبصرہ کیا ہی کب ہے؟ میں نے تو صرف اشتہار کے ایک خاص حصہ جو کہ رد یزیدیت پر مشتمل تھا پر تبصرہ کیا ہے۔ اور اس حصہ پر اعتراض بھی صرف اتنا ہے کہ ایک سخت اختلافی مسئلہ کے صرف ایک ہی موقف کو صحیح احادیث پر مشتمل کا تاثر دے کر حق بنا کر پیش کرنا نا مناسب ہے کیونکہ جو احادیث پیش کئی گئی ہیں ان میں کہیں بھی یزید کی صراحت یایزید کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ صرف ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کی بنیاد پر( جبکہ جمہور محدیثین نے ان احادیث سے یزید مراد نہیں لیا) بھلا کیسے اس معرکتہ الآرا مسئلہ کا فیصلہ ہوسکتا ہے؟

آپ نے خود اقرار کیا کہ میں نے یزیدیت کے علاوہ دیگر عنوانات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس کا مطلب آپ نے یہ لیا کہ میرے نزدیک مکمل اشتہار غلط نہیں۔ جو کہ بالکل درست بات ہے۔ پھر آپ کا یہ اعتراض کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں۔

آپ نے اعتراض کیاکہ میں نے اشتہار میں گندی اور سخت زبان استعمال کرنے کی شکایت کی لیکن نشاندہی نہیں کی۔

لیجیے شیخ محترم دلیل بھی حاضر ہے۔
یزیدیت کا رد
عراقی، کوفی ، نجدی
یزید قریش کا خطرناک لڑکا
یزید کے سیاہ کارنامے
میرے نزدیک یہ زبان گندی بھی ہے اور سخت بھی کیونکہ یزید کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ اور جو شخص مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے جتنا بڑا ہوتا ہے اس کی ہلکی سی توہین بھی شدید گستاخی شمار ہوتی ہے۔

دیگر اعتراضات کا مختصر جواب:

محترم شیخ مجھے آپ کے اشتہار پیش کرنے پر کوئی اعتراض نہیں اصل اعتراض یہ ہے کہ آپ نے غلط مقامات کی نشاندہی کئے بغیر اسے شیئر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ آپ اشتہار سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں تو عرض ہے کہ اشتہار میں دھوکہ دیتے ہوئے یزیدیت کو ایک تیسرے فرقے یا فکر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ رافضیت اور ناصبیت کا وجود تو ایک فرقے کی صورت میں موجود ہے لیکن یزیدیت نام کا فرقہ شاید اشتہار والوں کی کوئی نئی دریافت ہے۔کیونکہ عملی زندگی میں اس کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ کم ازکم اس غلط بات کی نشاندہی ضروری تھی۔

آپ نے اعتراض کیاکہ آپ کی درج زیل بات انتہائی خطرناک ہے کہ......

شیخ محترم اس اعتراض کے بعد آپ نے جو کچھ لکھا ہے میرے نزدیک اس کی بنیاد غلط فہمی ہے۔بے شک دین مکمل ہوچکا ہے لیکن اس طرح کہ قیامت تک پیش آنے والے دینی مسائل کے حل کے ساتھ۔لیکن یاد رہے دینی مسائل دنیاوی نہیں۔ قتل حسین دین کا مسئلہ نہیں ہے اس سلسلہ میں جہلاء میں جو مشہور ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے کر کربلا کے بعد۔ دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ اور کوفیوں کے درمیان معرکہ کفراور اسلا م کی جنگ نہیں تھی صرف ایک سیاسی اور دنیاوی مسئلہ تھا۔ اس دنیاوی اور سیاسی مسئلہ کو تاریخی روایات پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کوئی بھی فریق حق پر ہو اس کے یا اس کے مخالف کے دین اور اسلام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔تو پھر اگر اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کی جائے تو کیا برائی ہے؟ ہاں البتہ! وہ مسائل جن کا تعلق دین سے ہے تو ایسے مسائل میں تو میں بھی خاموشی کو جرم سمجھتا ہوں۔
لیکن اگر آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں دنیاوی مسائل کا حل بھی موجود ہے تو زرا کمپیوٹر کو درپیش مسائل کا حل نکا ل کر دکھائیں۔

الحمداللہ میں محدث، الحدیث اور ایقاظ کا مستقل قاری ہوں۔ مذکورہ دونوں مضامین میرے مطالعے سے گزر چکے ہیں جن میں میرا رجحان موخر الذکر مضمون کی طرف ہے جسے آپ نے مجھے پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔اشتہار میں موجود رد یزیدیت کے رد میں اس کتاب کا مطالعہ کریں جس میں دلائل سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
رسومات محرم الحرام اور سانحۂ کربلا - کتب لائبریری - کتاب و سنت کی روشنی میں لکھی جانے والی اردو اسلامی کتب کا سب سے بڑا مفت مرکز

والسلام ۔اگر کوئی غلطی ہوئی تو معذرت چاہتا ہوں۔
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
قتل حسین دین کا مسئلہ نہیں ہے اس سلسلہ میں جہلاء میں جو مشہور ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے کر کربلا کے بعد۔ دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ اور کوفیوں کے درمیان معرکہ کفراور اسلا م کی جنگ نہیں تھی صرف ایک سیاسی اور دنیاوی مسئلہ تھا۔ اس دنیاوی اور سیاسی مسئلہ کو تاریخی روایات پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کوئی بھی فریق حق پر ہو اس کے یا اس کے مخالف کے دین اور اسلام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔تو پھر اگر اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کی جائے تو کیا برائی ہے؟ ہاں البتہ! وہ مسائل جن کا تعلق دین سے ہے تو ایسے مسائل میں تو میں بھی خاموشی کو جرم سمجھتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ تقریباً یہی نقطہ نظر میں کوئی گذشتہ چار پانچ سال سے نیٹ پر بیان کرتا آ رہا ہوں۔ اور اس ضمن میں بہترین حوالہ امام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی منہاج السنہ اور حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی سانحہ کربلا نامی کتب ہیں۔

ویسے اس تحقیقی پرچے پر میرے بھی کچھ اعتراضات ہیں۔

خاص طور پر "یزیدیت" کی اصطلاح کا استعمال ۔۔۔۔ یہ یزیدیت کیا ہے؟ اگرچہ "ناصبیت" ضرور معروف اصطلاح ہے اور اس ناصبیت کا رد بھی ہر طبقہ کے معروف و مقبول علمائے کرام کی طرف سے کیا گیا ہے۔
جبکہ "یزیدیت" کا پروپگنڈہ صرف ایک خاص طبقہ یا اس طبقہ کے حمایتی چند مزید طبقہ جات کیا کرتے ہیں۔ اگر اس اصطلاح کی معنویت اور حقانیت پر موقر و معتبر سلفی علمائے کرام نے مہر تصدیق ثبت کی ہے ، تو شائد پھر یہ میری کم علمی ہو کہ میں یہ نہیں جانتا۔ اگر کسی کے علم میں ہو تو ضرور حوالہ دیجئے گا۔ معلومات میں اضافہ ہوگا۔

ایک ہیڈنگ لگائی گئی ہے :
سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) جمل اور صفین میں حق پر تھے۔
اور اس ہیڈنگ کی تائید میں مسلم کی جس حدیث کا اردو ترجمہ فراہم کیا گیا ہے ، اس میں صاف لکھا ہے :
۔۔۔۔ جو اس وقت حق کے زیادہ قریب ہوگا۔

آئینہ ایام تاریخ نامی کتاب میں مصنف نے اسی حدیثِ مسلم کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ نہیں کہا کہ سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) حق پر ہوں گے بلکہ یہ کہا کہ "حق کے زیادہ قریب ہوں گے" ۔۔۔۔ حق پر ہونا اور حق کے زیادہ قریب ہونا ۔۔۔۔ ان دو باتوں میں بہرحال فرق ہے۔
اور مجھے ذاتی طور پر مصنفِ کتاب کا یہی موقف بہتر اور قابل قبول لگتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں اس پوسٹر کی یہ ہیڈنگ {سیدنا علی (رضی اللہ عنہ) جمل اور صفین میں حق پر تھے} نظرانداز کئے جانے کے قابل ہے۔

پوسٹر میں ایک ہیڈنگ یہ بھی ہے :
یزیدیت کا رد : مظلوم کربلا سیدنا حسین (رضی اللہ عنہ) کے فضائل و مناقب
یہ بھی بڑی عجیب بات ہے۔ لاریب حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) مظلوم شہید ہوئے ، ہم بےشک انہیں شہیدِ کربلا مانتے ہیں ، اور ان کے صحیح فضائل و مناقب سے بھی اہل السنہ کا کوئی بھی فرد (سوائے ناصبیوں کے) انکار نہیں کرتا۔
لیکن ، اگر حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کی شہادت سے یزید کا ملزم / مجرم ہونا ثابت ہوتا ہے (یا اس کی کردارکشی کا جواز ثابت ہو جاتا ہے) ۔۔۔
تو نعوذ باللہ نعوذ باللہ ۔۔۔۔
کیا ہم یہ منطق بھی نکال سکتے ہیں کہ ۔۔۔۔ جیسا کہ اس کی طرف شیخ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اپنی کتاب "خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت" میں اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ۔۔۔۔۔
اگر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے قاتلوں کو جاننے کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کیا بلکہ ان میں سے چند کو حکومتی عہدے بھی دئے تو کیا ہم حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس طرز عمل پر سنگین اعتراضات وارد کر سکتے ہیں؟ اور ان (رضی اللہ عنہ) پر قاتلینِ عثمان (رضی اللہ عنہ) کی پشت پناہی کا الزام عائد کر سکتے ہیں؟
ظاہر ہے کہ ہم اہل سنت ایسا ہرگز نہیں کرتے۔
تو بالکل اسی منطق و دلیل پر "یزیدیت" جیسا ہوا بھی نہیں کھڑا کیا جانا چاہئے۔
یہ بالکل بجا ہے کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور یزید کے شرف و فضل کا کوئی تقابل نہیں ہے۔ مگر بات یہاں شرف و فضل کی نہیں ہے بلکہ اس "موقف" کی ہے جو
  • ایک معاملے میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے قاتلین کے لئے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے اپنایا
  • اور ایک معاملے میں حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) کے قاتل یا قاتلین کے خلاف یزید نے اپنایا

اگر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی کوئی مجبوری تھی تو یزید کی بھی کوئی مجبوری رہی ہوگی۔ جبکہ دونوں صحابہ (حضرت عثمان اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم) شرف و فضل میں اعلیٰ تھے۔
مگر کیا یہ جانبداری نہیں کہ ایک جیسا موقف جب صحابی اپنائے تو اس کے لیے کوئی اصطلاح استعمال نہ ہو لیکن کوئی تابعی اپنائے تو اس کے حوالے سے "یزیدیت" والی اصطلاح کا پروپگنڈہ شروع کر دیا جائے؟

رہ گیا وہ ڈیٹا جو اس ہیڈنگ
یزید بن معاویہ قریش کے خطرناک لڑکوں میں شامل تھا
کے تحت بیان کیا گیا ہے ۔۔۔۔۔ تو اس کے حقائق اور شرح و تفصیل کافی کچھ کتب میں بیان ہو چکی ہے۔
ان تفاصیل کے مطالعے سے واضح ہو جائے گا کہ "یزیدیت" کی اصطلاح گھڑنا محض ایک مخصوص طبقہ کی شرارت ہے ، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ اگر خیر القرون کی ہستیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کو نشانہ بنا کر "اصطلاحات" گھڑنے کا عمل (خدانخواستہ خدانخواستہ) اگر شروع کر دیا جائے تو پھر ایسی سینکڑوں اصطلاحات وجود میں آ جائیں گی اور خیر القرون ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جائے گا۔
کیا یہ معقول طرز عمل کہلایا جا سکتا ہے؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ مجھے آپ کے اشتہار پیش کرنے پر کوئی اعتراض نہیں اصل اعتراض یہ ہے کہ آپ نے غلط مقامات کی نشاندہی کئے بغیر اسے شیئر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کہیں کہ آپ اشتہار سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں تو عرض ہے کہ اشتہار میں دھوکہ دیتے ہوئے یزیدیت کو ایک تیسرے فرقے یا فکر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ رافضیت اور ناصبیت کا وجود تو ایک فرقے کی صورت میں موجود ہے لیکن یزیدیت نام کا فرقہ شاید اشتہار والوں کی کوئی نئی دریافت ہے۔کیونکہ عملی زندگی میں اس کا کوئی وجود نہیں پایا جاتا۔ کم ازکم اس غلط بات کی نشاندہی ضروری تھی۔
جزاک اللہ خیرا بھائی! آپ نے بہت بہتر انداز میں اشتہار میں موجود غلطی کو واضح کیا ہے، جس کا میں بار بار آپ سے تقاضا کر رہا تھا، میں اس معاملے میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔
اگر کوئی غلطی ہوئی تو معذرت چاہتا ہوں۔
مجھے آپ کا یہ جملہ بہت اچھا لگا، میں بھی آپ کے جملے کو دہراتے ہوئے ہی کہوں گا کہ اگر میری کوئی بات بری لگے تو پیشگی معذرت!
محترم انس نضر بھائی آپ نے میرے الفاظ کی گرفت کرکے مسئلہ کو الجھا دیا ہے۔ اگر چہ وقت کی کمی کے باعث میرا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ جواب ضروری ہے ورنہ شاید آپ یہ سمجھیں کہ اسکا تو کام ہی بلادلیل ہر مسئلہ میں ٹانگ اڑانا ہے۔
نہیں ہرگز نہیں! میں ایسا نہیں سمجھتا، مجھے آپ کے متعلّق کافی حُسنِ ظن ہے، جس کا میں نے شروع میں اظہار بھی کیا تھا۔
آپ نے اعتراض کیا: لیکن اس طرح مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں
محترم شیخ! میں نے مکمل اشتہار پر تبصرہ کیا ہی کب ہے؟ میں نے تو صرف اشتہار کے ایک خاص حصہ جو کہ رد یزیدیت پر مشتمل تھا پر تبصرہ کیا ہے۔ اور اس حصہ پر اعتراض بھی صرف اتنا ہے کہ ایک سخت اختلافی مسئلہ کے صرف ایک ہی موقف کو صحیح احادیث پر مشتمل کا تاثر دے کر حق بنا کر پیش کرنا نا مناسب ہے کیونکہ جو احادیث پیش کئی گئی ہیں ان میں کہیں بھی یزید کی صراحت یایزید کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ صرف ابن حجر رحمہ اللہ کے قول کی بنیاد پر( جبکہ جمہور محدیثین نے ان احادیث سے یزید مراد نہیں لیا) بھلا کیسے اس معرکتہ الآرا مسئلہ کا فیصلہ ہوسکتا ہے؟
آپ نے خود اقرار کیا کہ میں نے یزیدیت کے علاوہ دیگر عنوانات پر کوئی اعتراض نہیں کیا جس کا مطلب آپ نے یہ لیا کہ میرے نزدیک مکمل اشتہار غلط نہیں۔ جو کہ بالکل درست بات ہے۔ پھر آپ کا یہ اعتراض کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ مکمل اشتہار پر منفی تبصرہ مناسب نہیں۔
جی آپ نے بالکل صحیح کہا کہ واقعی ہی آپ نے مکمل اشتہار پر اعتراض نہیں کیا تھا اور میں نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا، لیکن چونکہ آپ نے باقی مسائل جن پر آپ کو اتفاق تھا، کے متعلّق مثبت تبصرہ بھی نہیں کیا تھا، تو میرا توجہ دلانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر آپ اس پر تنقید کرتے ہوئے - جو آپ کا حق تھا - شروع میں مثبت تبصرہ بھی کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، اسی کے متعلق میں نے سورۃ آل عمران اور سورۃ ابراہیم کی آیات مبارکہ کوٹ کی تھیں!
بہرحال یہ میری رائے ہے، جس سے دلیل کے ساتھ آپ کو اختلاف کا حق حاصل ہے۔
میرے نزدیک یہ زبان گندی بھی ہے اور سخت بھی کیونکہ یزید کا شمار تابعین میں ہوتا ہے۔ اور جو شخص مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے جتنا بڑا ہوتا ہے اس کی ہلکی سی توہین بھی شدید گستاخی شمار ہوتی ہے۔
اگر آپ کے نزدیک یزید تابعی ہونے کے کی بناء پر عظیم ترین مقام کا مالک ہے، تو کیا یہی عظیم ترین مقام آپ سیدنا حسین﷜، سیدنا زبیر﷜، سیدنا سعید بن جبیر﷫ وغيرہم کو شہید کرنے والوں اور مروان بن حکم، عبد الملک بن مروان، حجاج بن یوسف اور ان شیعوں وغیرہ کو بھی دیں گے جو شیخین پر سب وشتم نہیں کرتے بلکہ وہ صرف سیدنا علی﷜ کی سیدنا عثمان﷜ پر فوقیت کے قائل تھے وغیرہ وغیرہ؟؟؟
علاوہ ازیں میرے بھائی! اگر بالفرض یزید خیر القرون میں شامل ہونے کی بناء پر بڑے مقام کا حامل تھا، تو آپ کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ جو بڑے مقام کا حامل ہو، یا جو ایام یا اوقات افضل ہوں، ان میں گناہ بھی زیادہ ہوتا ہے، مثلاً صحیح حدیث مبارکہ کے مطابق نبی کریمﷺ کو بخار دو آدمیوں کے برابر ہوتا تھا، اسی طرح فرمان باری ہے: ﴿ وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴿٧٤﴾ إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ﴾ازواج مطہرات کا درجہ اگر عام عورتوں سے زیادہ تھا تو غلطی کا گناہ بھی عام عورتوں سے زیادہ تھا: ﴿ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَاعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللہِ يَسِيرًا ﴿٣٠﴾ وَمَن يَقْنُتْ مِنكُنَّ لِلہِ وَرَسُولِهِ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ﴾یہی معاملہ رمضان یا مسجد میں یا افضل اوقات میں گناہ کرنے کا ہے۔
شیخ محترم اس اعتراض کے بعد آپ نے جو کچھ لکھا ہے میرے نزدیک اس کی بنیاد غلط فہمی ہے۔بے شک دین مکمل ہوچکا ہے لیکن اس طرح کہ قیامت تک پیش آنے والے دینی مسائل کے حل کے ساتھ۔لیکن یاد رہے دینی مسائل دنیاوی نہیں۔ قتل حسین دین کا مسئلہ نہیں ہے اس سلسلہ میں جہلاء میں جو مشہور ہے کہ اسلام زندہ ہوتا ہے کر کربلا کے بعد۔ دین سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ اور کوفیوں کے درمیان معرکہ کفراور اسلا م کی جنگ نہیں تھی صرف ایک سیاسی اور دنیاوی مسئلہ تھا۔ اس دنیاوی اور سیاسی مسئلہ کو تاریخی روایات پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کوئی بھی فریق حق پر ہو اس کے یا اس کے مخالف کے دین اور اسلام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔تو پھر اگر اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کی جائے تو کیا برائی ہے؟ ہاں البتہ! وہ مسائل جن کا تعلق دین سے ہے تو ایسے مسائل میں تو میں بھی خاموشی کو جرم سمجھتا ہوں۔
لیکن اگر آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام میں دنیاوی مسائل کا حل بھی موجود ہے تو ذرا کمپیوٹر کو درپیش مسائل کا حل نکا ل کر دکھائیں۔
یہ معرکہ واقعی ہی کفر واسلام کا معرکہ نہ تھا، اور نہ ہی میں ایسا سمجھتا ہوں، لیکن اسے ایک دنیاوی وسیاسی مسئلہ کہہ کر دین کے دائرے سے نکالنے کا مطلب یہی نکل سکتا ہے، کہ شائد آپ کے نزدیک (سیکولر ازم کی طرح) دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ کیا آپ وضاحت فرما سکتے ہیں کہ آپ کے نزدیک وہ کون سے دنیاوی اور سیاسی مسائل ہیں جو دین کے زمرے میں نہیں آتے، کیا ہماری تعلیم، عدالت، معاشرت، معیشت، سیاست، خارجہ تعلقات وغیرہ آپ کے نزدیک دنیاوی اُمور ہونے کی بناء پر شریعت کے زمرے میں نہیں آتے؟؟؟
میرے انتہائی محترم اور عزیز بھائی! میرے نزدیک اسلام اس دُنیا میں اللہ کے دین کو غالب کرنے آیا تھا جس کے متعلق آپ فرما رہے ہیں کہ
اگر اسلام میں دنیاوی مسائل کا حل ہے تو ذرا کمپیوٹر کو درپیش مسائل کا حل نکال کر دکھائیں!
میرے بھائی! اسلام کا دائرہ کار حلال وحرام بتانے کی حد تک ہے، آپ کمپیوٹر کے متعلق مختلف اُمور کے جائز وناجائز ہونے کا حل قرآن وحدیث سے نہیں تو پھر کیا تورات وانجیل یا فلسفہ یونان سے نکالیں گے؟؟؟ واللہ تعالیٰ اعلم!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه .....
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
السلام وعلیکم،
بہت افسوس ہوا کہ اب بھی کچھ اہلحدیث بھائیوں میں فیض عالم اور محمود عباسی کی طرح ناصبیت کے جراثیم پائے جاتے ہیں- یزید ابن معادیہ کے بارے میں محدثین کی رائے، یزید، قسطنطنیہ والی حدیث کی حقیقت کے لئے یہ لنک وزٹ کریں-
http://www.ircpk.com/Mujalat/Al-Hadith/AL-HADITH 6.pdf
زبیر علئ زئی حفظہ اللہ کی رائےیزید ابن معادیہ کے بارے
‪Hafiz Zubair Ali Zai (Ahle Hadeeth) Scholar about Yazeed - www,Aliwalay.com‬‏ - YouTube
سیدنا علی حق پر تھے-حق کے قریب نہیں-
‪Hazrat Aisha kay baray main Rasool-Allah(SAW) ki prediction‬‏ - YouTube
--
مزید تشفی کے لئے وزٹ کریں- ‪YouTube - Maulana Ishaq Yazeed (LA) Ehulhadees Or Ehulsunat Ullmah Ki Nazar Main Part 5.flv‬‏ - YouTube
مولوی اسحٰق ہیں تو متنازعہ لیکن لیکچر میں صلاح الدین یوسف کی کتاب رسومات محرم الحرام اور سانحۂ کربلا کا رد علمائے اہلحدیث کی کتب سے کیا ہے۔
سیدنا علی جنگ جمل و صفین و نہروان میں حق پر تھے-حق کے قریب نہیں-صحیح احادیث کی روشنی میں-
جنگ جمل -‪4. Khilafat aur Karbala - Hazrat ALI RA ka Daur - Jang e Jamal - maulana ishaq‬‏ - YouTube
صفین- ‪5. Khilafat aur Karbala - Hazrat Maaviya RA aur Jang Sifeeen - maulana ishaq‬‏ - YouTube
نہروان- ‪6. Khilafat aur Karbala - Jang Naharwan - Ahl e sunnat ka Jangon Per Aqeeda - maulana ishaq‬‏ - YouTube
یہ نا دیکھیں کے کون کہ رہا ہے، یہ دیکھیں کیا کہ رہا ہے-لیکچر میں دئے گئے دلائل غور سے سنئے گا-

جزاک اللہ
 

ابو تراب

مبتدی
شمولیت
مارچ 29، 2011
پیغامات
102
ری ایکشن اسکور
537
پوائنٹ
0
السلام وعلیکم،
کچھ یزید ابن معادیہ کے بارے میں:
عن ابی عبيدة قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم لا يزال امرامتی قائما بالقسط حتی يکون اول من يثلمه رجل من بنی اميةيقال له يزيد۔
ترجمہ:سید نا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت کا معاملہ عدل کے ساتھ قائم رہے گا یہاں تک کہ سب سے پہلے اس میں رخنہ ڈالنے والا بنی امیہ کاایک شخص ہوگا جس کویزید کہا جائے گا۔(مسندابو یعلی ،مسند ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ )ونیز مشہور مفسرابو الفداء اسمعیل بن عمر، معروف بہ ابن کثیر (مولود 700ھ متوفی 774ھ) نے اپنی کتاب البدایۃ والنہایۃج6ص256میں اس حدیث پاک کونقل کیا ہے۔اس حدیث شریف کو ابن حجر مکی ہیتمی نے بھی الصواعق المحرقہ ص132 میں نقل فرما یاہے۔آپ نے اس سلسلہ کی مزید ایک روایت الصواعق المحرقہ ص132 میں ذکر فرمائی ہے

عن ابی الدرداء رضی الله عنه قال سمعت النبی صلی الله عليه وسلم يقول اول من يبدل سنتی رجل من بنی اميةيقال له يزيد۔
ترجمہ:سیدناابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا میں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے ہوئے سنا:سب سے پہلے جومیری سنت کو بدلے گاوہ بنو امیہ کا ایک شخص ہوگا جس کو یزید کہا جائیگا۔
اس حد یث شریف کوعلامہ ابن کثیرنے بھی حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روا یت سے نقل کیا۔
صحیح شریف ج2ص1046میں حدیث پاک ہے

حدثناعمروبن يحيی بن سعيد بن عمروبن سعيد قال اخبرنی جدی قال کنت جالسا مع ابی هريرة فی مسجد النبی صلی الله عليه وسلم بالمدينة ومعنا مروان قال ابوهريرة سمعت الصادق المصدوق صلی الله عليه وسلم يقول هلکة امتی علی ايدی غلمة من قريش فقال مروان لعنة الله عليهم غلمة فقال ابوهريرة لوشئت ان اقول بنی فلان وبنی فلان لفعلت فکنت اخرج مع جدی الی بنی مروان حين ملکوابالشام فاذاراٰهم غلما نا احداثا قال لنا عسیٰ هؤلاء ان يکونوامنهم قلنا انت اعلم۔
ترجمہ: عمروبن یحی بن سعید بن عمروبن سعیداپنے دادا عمروبن سعیدرضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا:میں مدینہ طیبہ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہواتھا اورمروان بھی ہمارے ساتھ تھا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں نے حضرت صادق مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کوارشادفرماتے ہوئے سنا:میری امت کی ہلاکت قریش کے چند لڑکوں کے ہاتھوں سے ہوگی۔مروان نے کہااللہ تعالی ایسے لڑکوں پر لعنت کرے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر میں کہنا چاہوں کہ وہ بنی فلاں اور بنی فلاں ہیں توکہہ سکتا ہوں،حضرت عمروبن یحی کہتے ہیں میں اپنے داداکے ساتھ بنی مروان کے پاس گیا جب کہ وہ ملک شام کے حکمران تھے ،پس انہیں کم عمرلڑکے پائے تو ہم سے فرمایا عنقریب یہ لڑکے اُن ہی میں سے ہوں گے ،ہم نے کہاآپ بہتر جانتے ہیں ۔
شارح بخاری صاحب فتح الباری حافظ احمدبن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (مولود ۷۷۳ ھ متوفی۸۵۲ ھ) مذکورہ حدیث پاک کی شرح میں مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

وفی رواية ابن ابي شيبة ان اباهريرة کان يمشی فی السوق ويقول اللهم لاتدرکنی سنة ستين ولاامارة الصبيان وفي هذا اشارة الی ان اول الاغيلمة کان فی سنة ستين وهوکذلک فان يزيد بن معاوية استخلف فيها وبقی الی سنة اربع وستين فمات -
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بازار میں چلتے ہوئے بھی یہ دعاکرتے اے اللہ ! سن ساٹھ ہجری او رلڑکوں کی حکمرانی مجھ تک نہ پہنچے‘‘ اس روایت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلالڑکا جو حکمران بنے گا وہ 60ھ میں ہوگاچنانچہ ایسا ہی ہواکہ یزیدبن معاویہ اسی سال تخت حکومت پر مسلط ہوا او ر 64ھ تک رہ کر ہلاک ہوا ۔ سید الشہداء حسین علیہ السلام کی شہادت کے واقعۂ جانکاہ کی وجہ سے اہل مدینہ یزید کے سخت مخالف ہوگئے اور صحابی ابن صحابی حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما کے دست مبارک پر بیعت کرلئے تو یزیدپلید نے ایک فوج مدینہ طیبہ پرچڑھائی کیلئے روانہ کی جس نے اہل مدینہ پر حملہ کیا اور اس کے تقدس کو پا مال کیا اس موقع پر حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما نے اہل مدینہ سے روح پرور خطاب کیااور اس میں یزید کی خلافِ اسلام عادات واطوار کا ذکر کیا جیساکہ محدث وقت مؤرخ اسلام محمدبن سعدرحمۃ اللہ علیہ (مولود168ھ ۔متوفی230 ھ)کی طبقات کبری ج 5ص66میں اس کی تفصیل موجودہے

اجمعواعلی عبدالله بن حنظلةفاسندواامرهم اليه فبايعهم علی الموت وقال ياقوم اتقوا الله وحده لاشريک له فوالله ماخرجنا علی يزيد حتی خفنا ان نرمی بالحجارة من السماء ان رجلا ينکح الامهات والبنات والاخوات ويشرب الخمر ويدع الصلوة والله لو لم يکن معی احد من الناس لابليت لله فيه بلاء حسنا۔
حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہما نے اہل مدینہ سے تادم زیست مقابلہ کرنے کی بیعت لی او رفرمایا:اے میری قوم ! اللہ وحدہ سے ڈرو جس کا کوئی شریک نہیں ،اللہ کی قسم ! ہم یزید کے خلاف اس وقت اُٹھ کھڑے ہوئے جبکہ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہوجائے ،وہ ایسا شخص ہے جو ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں سے نکاح جائزقرار دیتا ہے ، شراب نوشی کرتا ہے ،نماز چھوڑتا ہے، اللہ کی قسم !اگر لوگوں میں سے کوئی میرے ساتھ نہ ہوتب بھی میں اللہ کی خاطر اس معاملہ میں شجاعت وبہادری کے جوہر دکھاؤں گا۔
علامہ ابن اثیر (مولود 555 ھ متوفی630 ھ )کی تاریخ کامل51ہجری کے بیان میں ہے

وقال الحسن البصری ۔ ۔ ۔ سکير اخميرا يلبس الحرير ويضرب بالطنابير :
حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ یزید کے بارے میں فرماتے ہیں وہ انتہادرجہ کا نشہ باز، شراب نوشی کا عادی تھا ریشم پہنتا اور طنبور ے بجاتا۔
علامہ ابن کثیر(مولود 700 ھ متوفی 774 ھ) نے البدایۃ والنہا یۃ ج6ص262میں لکھاہے:

وکان سبب وقعة الحرةان وفدامن اهل المدينة قدمواعلی يزيد بن معاوية بدمشق ۔ ۔ ۔ فلمار جعوا ذکروا لاهليهم عن يزيد ماکان يقع منه القبائح فی شربه الخمرو مايتبع ذلک من الفواحش التی من اکبر ها ترک الصلوة عن وقتها بسبب السکر فاجتمعوا علی خلعه فخلعوه عند المنبرالنبوی فلما بلغه ذلک بعث اليهم سرية يقدمها رجل يقال له مسلم بن عقبة وانما يسميه السلف مسرف بن عقبة فلما وردالمدينة استباحها ثلاثة ايام فقتل فی غضون هذه الايام بشرا کثيرا ۔
ترجمہ:واقعۂ حرہ کی وجہ یہ ہوئی کہ اہل مدینہ کا وفد دمشق میں یزید کے پاس گیا ،جب وفد واپس ہواتواس نے اپنے گھر والوں سے یزید کی شراب نوشی اور دیگر بری عادتوں اور مذموم خصلتوں کا ذکر کیا جن میں سب سے مذموم ترین عادت یہ ہیکہ وہ نشہ کی وجہ سے نماز کو چھوڑدیتا تھا ،اس وجہ سے اہل مدینہ یزید کی بیعت توڑنے پر متفق ہوگئے او رانہوں نے منبر نبوی علی صاحبہ الصلوۃ والسلام کے پاس یزید کی اطاعت نہ کرنے کا اعلان کیا ،جب یہ بات یزید کو معلوم ہوئی تو اس نے مدینہ طیبہ کی جانب ایک لشکر روانہ کیا جس کا امیر ایک شخص تھا جس کو مسلم بن عقبہ کہا جاتا ہے سلف صالحین نے اس کو مُسرِف بن عقبہ کہا ہے جب وہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوا تو لشکر کے لئے تین دن تک اہل مدینہ کے جان و مال سب کچھ مباح قرار دیاچنانچہ اس نے ان تین روز کے دوران سینکڑوں حضرات کوشہید کروایا ۔
امام بیقہی(مولود384 ھ متوفی458 ھ) کی دلائل النبوۃ میں روایت ہے

عن مغيرة قال أنهب مسرف بن عقبة المدينةثلاثة ايام فزعم المغيرة أنه افتض فيها الف عذراء۔
ترجمہ: حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں مسرف بن عقبہ نے مدینہ ٔطیبہ میں تین دن تک لوٹ مار کی اورایک ہزارمقدس و پاکبازان بیاہی دخترانِ اسلام کی عصمت دری کی گئی۔العیاذ باللہ !
جبکہ اہل مدینہ کو خوف زدہ کرنے والے کیلئے حدیث شریف میں سخت وعید آئی ہے مسند احمد، مسند المدنيين میں حدیث مبارک ہے

عن السائب بن خلاد ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من اخاف اهل المدينة ظلماًاخافه الله وعليه لعنة الله والملائکة والناس اجمعين لايقبل الله منه يوم القيامةصرفاولاعدلا ۔
ترجمہ : سیدنا سائب بن خلادرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اہل مدینہ کو ظلم کرتے ہوئے خوف زدہ کیا اللہ تعالی اس کوخوف زدہ کرے گا او راس پر اللہ کی، فرشتوں کی اورتمام لوگوں کی لعنت ہے ، اللہ تعالی اس سے قیامت کے دن کوئی فرض یا نفل عمل قبول نہیں فرمائے گا -
(حدیث نمبر :15962)اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس شخص کاکیا انجام ہوگا جو اہل مدینہ کو صرف خوفزدہ وہراساں ہی نہیں کیا بلکہ مدینہ طیبہ میں خونریزی قتل وغارتگری کیا اور ساری فوج کے لئے وحشیانہ اعمال کی اجازت دیدی۔

عن عائشة قالت قال رسول الله صلی عليه وسلم من وقرصاحب بدعة فقد اعان علی هدم الاسلام۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی یقینا اس نے اسلام کو مہندم کرنے میں مدد کیا ۔(معجم اوسط للطبرانی(مولود260ھ متوفی360ھ باب المیم من اسمہ محمد ،حدیث نمبر:6263)
امام بیہقی(مولود384ھ متوفی458 ھ) کی شعب الایمان میں حدیث پاک ہے

عن انس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم اذامدح الفاسق غضب الرب واهتزله العرش۔
ترجمہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو پر وردگار کا جلال ظاہر ہوتا ہے او راس کی وجہ عرش لرزتاہے۔ (الرابع والثلاثون من شعب الایمان وھوباب فی حفظ اللسان (حدیث نمبر 4692)
یزیدکی نسبت امیر المومنین کہنے والے کو بنی امیہ کے خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ نے مستحق تعزیر قراردیاہے جیسا کہ فن رجال کی مستند کتاب تہذیب التہذیب ج11 حرف الیاء ص 316میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریرفرمایا:

ثنانوفل بن ابی عقرب ثقة قال کنت عندعمر بن عبدالعزيز فذکر رجل يزيد بن معاوية فقال قال اميرالمؤمنين يزيد فقال عمرتقول اميرالمؤمنين يزيد وامربه فضرب عشرين سوطا -
نوفل بن ابوعقرب فرماتے ہیں ، میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا ایک شخص نے یزید کا ذکر تے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین یزید نے یوں کہا ہے ،حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو یزید کوامیرالمؤمنین کہتا ہے پھر اس شخص کو کوڑے لگوانے کا حکم فرمایا چنانچہ اسے بیس کوڑے لگوائے گئے ۔

جزاک اللہ
 
Top