• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نام محمد ؐ سن کرانگوٹھوں کوچومنا

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم سن کرانگوٹھوں کوچومنا اور آنکھوں پر لگانا کیا قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟

الجواب بعون الوہاب: نام محمدسن کر صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہئے جو کہ مسنون ہے کئی لوگ نام محمد سن کر صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہتے۔

[حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:
''جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔''
(مسلم:٤٠٨)

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
''بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور وہ مجھ پر درود نہ پڑھے ''
سنن الترمذی:٣٥٤٦،اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ،ابن حبان (٨٠٩)امام حاکم(١/٧٣٤)اور امام البانی (ارواء الغلیل :١/٣٥)نے صحیح کہا ہے حافظ ابن حجر نے کہا :یہ حدیث حسن درجہ سے کم نہیں ہے ۔(فتح الباری :١١/١٦٨)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضابھی یہی ہے ۔]

بلکہ اپنے انگوٹھے چومتے ہیں اور انھیں آنکھوں پر لگاتے ہیں اور یہ عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے یہ عقیدت کا جھوٹا انداز ہے ،محبت اورعقیدت بھی وہی صحیح ہوتی ہے جو قرآن وحدیث کے تحت ہو ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاک اللہ ابن بشیر بھائی۔
یہ حضرات انگوٹھے چومنے والی روایت کو خود بھی ضعیف سمجھتے ہیں اور پھر بھی اس پر نہ صرف یہ کہ خود عمل کرتے ہیں بلکہ نہ کرنے والوں کو مطعون بھی کرتے ہیں۔ جاء الحق میں پورا ایک باب اسی پر بحث ہے جس کا مفصل جواب دین الحق بجواب جاء الحق کی دوسری جلد میں دے دیا گیا ہے ، الحمدللہ۔
 

رفی

رکن
شمولیت
اگست 15، 2013
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
46
جزاک اللہ خیرا ابن بشیر بھائی،
اگر انگوٹھے چومنے والی روایت اور اس کا ضعف بھی اسی موضوع میں بیان کر دیا جائے تو اس سے کافی لوگوں کو افاقہ ہو گا۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 5615

اشہد ان محمدا رسول اللہ کے سننے کے وقت انگوٹھے چومنا
شروع از M Aamir بتاریخ : 05 July 2013 10:10 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ ناواقف علم حدیث جن کو صحیح اور سقیم اور ضعیف اور موضوع اورغیر موضوع میں کچھ امتیاز نہیں ہے ، مؤذن سے اشہد ان محمدا رسول اللہ کے سننے کے وقت انگوٹھے چوم کر آنکھوں پرلگاتے ہیں اور اس فعل کو چند احادیث کتب طبقہ رابعہ سےحجت لاکرسنت جانتے ہیں، اس باب میں کتب معتبرہ سےجوصاف صاف حکم ہو، ارشادفرمائیں۔ بینو ا توجروا۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مقدمہ مذکور میں جتنی حدیثیں کہ مذکور ہیں ان میں سے ایک بھی صحیح و ثابت نہیں اور نہ ان کا کسی معتمد کتاب میں پتہ و نشان پایا جاتا ہے ، محققین و نقاد احادیث نے ان سب احادیث میں کلام کرکے تصریح غیر صحیح اور موضوع ہونے کی کردی ہے تفصیل اس اجمال اور تریح اس مقال کی یہ ہے کہ اول تو یہ سب حدیثیں کتب احادیث طبقہ رابعہ سے ہے اور اس طبقہ کی احادیث اس قابل نہیں کہ کسی عقیدہ اور عمل کے ثابت کرنے میں ان پر اعتماد کیاجائے اور ان کو تمسک بہ ٹھہرایا جائے، چنانچہ مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی  عجالہ نافعہ میں ارشاد فرماتے ہیں۔
چوتھے طبقہ کی وہ حدیثیں ہیں، جن کا پہلے زمانہ میں نام و نشان نہ تھا، اور متاخرین نے ان کو روایت کیاہے، ان کا حال دوحیثیتوں سےخالی نہیں ہے یاتو سلف نے ان کو پرکھا اور ان کا کوئی اصل نہ مل سکا کہ ان کی روایت کرتے یا کوئی اصل تو تھا،لیکن ان میں ایسے نقص دیکھے کہ ان کو چھوڑ دینا ہی مناسب معلوم ہوا بہرحال وہ حدیثیں کسی طرح بھی اس قابل نہ تھیں کہ ان پر عقیدہ و عمل کی بنیاد رکھی جاتی۔
دوسرے یہ کہ علامہ شمس الدین ابوالکیر محمد بن وجیہ الدین عبدالرحمٰن سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اور شیخ الاسلام مترجم بخاری اور حسن بن علی ہندی اور ابن ربیع شافعی اور زرقانی مالکی اور محمد طاہر فتنی حنفی نے ان احادیث کو لا یصح لکھا ہے اور لفظ لا یصح کا بمعنے ثابت نہ ہونے کے آتا ہے، چنانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے قولنالم یصح لا یلزم منہ اثبات العدم و انما ھو اخبار عن عدم الثبوت انتہی ، یعنی قول ہمارا لا یصح نہیں لازم آتا ہے اس سے اثبات نہ ہونے کا اور نہیں ہے وہ قول مگر کبر دیتاہےنہ ثابت ہونے سے اور شیخ الاسلام نےترجمہ بخاری میں لکھا ہےکہ ’’مسند فردوس میں حضرت ابوبکر ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ جب وہ مؤذن سے اشہد ان محمدا رسول اللہ سنتے تو اپنی دونوں سبابہ انگلیوں کے پوروں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر لگالیتے ۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا جو کوئی تیری طرح کرے گا اس کےلیےشفاعت واجب ہوجائے گی اور حسن بن علی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو آدمی مؤذن سے یہ کلمہ سن کر کہے مرحبابحبیبی و قرۃ عینی محمد بن عبداللہ اور اپنے انگوٹھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر پھیرے تووہ کبھی نابینا نہ ہوگا اور نہ کبھی اس کی آنکھیں دکھیں گے اور محدثین کے نزدیک یہ دونوں روایتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
اور حسن بن علی ہندی صاحب سبیل الجنان نے تعلیقات مشکوٰۃ المصابیح میں لکھا ہے ۔ کل ماروی فی وضع الابہا مین علی العینین عند سماع الشہادۃ من المؤذن لم یصح انتہی، یعنی جوکچھ روایت کیا گیا ہے ، مؤذن سے رکھنے انگوٹھوں میں آنکھوں پروقت سننے کلمہ شہادت کے ثابت نہیں ہوا اور محمود احمد عینی نےعمدۃ القاری شرح بخاری میں بیچ باب ما یقول اذاسمع المنادی کے لکھا ہے یجب علی السامعین ترک عمل غیر الاجابۃ انتہی ملخصا یعنی اذان کے سننے والوں پر ہر کام کا چھوڑ دینا اور جواب اذان دینا واجب ہے اور یہ بھی شرح مذکور کے اسی باب میں لکھا ہے۔ ینبغی ان لا ینکلم السامع فی خلال الاذان والاقامۃ ولا یقرأ القرآن ولا یسلم ولا یرد السلام ولا یشغل یشئ من الاعمال سوی الاجابۃ انتہی یعنی لائق یہ ہے کہ نہ کلام کرے سننے والا درمیان اذان اور اقامۃ کے اور نہ پڑھے قرآن اور نہ سلام کرے اور نہ جواب سلام کادے اورنہ مشغول ہو ساتھ کسی عمل کے سوا جواب دینے اذان کے۔
اور محمد یعقوب نبنانی نے خیر اری شرح صحیح بخاری میں بعد نقل عبارت عینی کے لکھا ہے واعلم انہ یستفاد من کلام العینی المذکور فیہ منع وضع الابہا مین علی ا لعینین عند سماع اشھد ان محمد ا رسول اللہ یعنی جان تو تحقیق مستفاد ہوتا ہے کلام عینی سے جو یہاں مذکور ہے منع ہونا رکھنے انگوٹھوں کا آنکھوں پروقت سننے اشہد ان محمد رسول اللہ کے ۔
اور علامہ ابواسحاق بن عبدالجبار کابلی نے شرح رسالہ عبدالسلام لاہوری میں لکھا ہے قد تکلموا فی احادیث وضع الابہامن علی العینین فلم یصح شق منہا بروایۃ ضعیفۃ ایضا صرح بعضہم بوضع کلہا انتہی یعنی تحقیق کلام کیا ہے، علمائے محدثین ن حدیثوں میں رکھنے انگوٹھوں کے آنکھوں پر ، پس نہیں ثابت ہوا ہے کچھ ان میں سے ساتھ روایت ضعیفہ کے بھی اور اسی واسطے تصریح کی ہے بعض محدثین نے ساتھ موضوع ہونے کلُ ان احادیث کے چنانچہ امام ابوالحسن عبدالغافر فارسی صاحب مفہم شرح صحیح مسلم اور مجمع الغرائب نےکتاب اقوال الاکاذیب میں لکھا ہے ،بعد نقل احادیث فردو س دیلمی کے جو اس باب میں وارد ہیں لکھا ہے۔ والروایات فی ھذ االباب کثیرۃ لا اصل لہا بسند ضعیف ایضا و قال ابونعیم الاصفہانی ماروی فی ذلک کلہ موضوع انتہی یعنی روایات چومنے اٹگوٹھے اور ان کے آنکھوں پررکھنے کی بہت ہیں، مگر نہیں ہے کچھ اصل ان کی سند ضعیف سے بھی اور فرمایا حافظ ابونعیم اصفہانی نے کہ اس میں جو روایت کیا گیاہے سب موضوع ہے۔
اور امام جلال الدین سیوطی نے کتاب تیسیر المقال میں لکھا ہے ،والاحادیث التی رویت فی تقبیل الانامل وجعلہا علی العینین عندسماع اسمہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن المؤذن فی کلمۃ الشہادۃ کلہا موضوعات انتہی یعنی جو حدیثیں مؤذن سے کلمہ شہادت سننے کے وقت آنحضرتﷺ کےنام پر انگلیاں چومنے اور پھر ان کے آنکھوں پر پھیرنے کے بارہ میں روایت کی گئی ہیں، سب موضوع ہیں اور ایسا ہی امام مذکور نے کتاب الدرۃ المنتشرہ فی احادیث المنتشرہ میں لکھا ہے ،انتہی ما فی بصارۃ العینین ملخصاً مختصراً
پس اس سبب سے معلوم ہوا کہ علمائے محدثین معتبرین کے نزدیک فعل مذکور ثابت و صحیح نہیں ہوا اور کل احادیث جو اس باب میں مذکور ہیں سب موضوع ہیں اور فعل مذکور ہرگز ہرگز سنت و مستحب نہیں ہے بلکہ بدعت و ممنوع ہے ، چنانچہ شاہ عبدالعزیز  اپنے فتوے میں ارقام فرماتے ہیں۔
’’اذان کے وقت جواب کلمات اذان کے سوا اور کوئی چیز ثابت نہیں ہے اور آنحضرتﷺ کا نام سننے پر ان پر درود و سلام بھیجنے کے سوا اور کوئی چیز درست نہیں اور یہ انگوٹھے چومنےکا عمل خلفائے راشدین کے زمانہ میں نہیں تھا پس بو قت اذان نبی ﷺ کا نام سن کر ایسا کرناسنت اور مستحب نہیں بلکہ بدعت ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے اور فقہ کی بعض کتابوں میں جو اس کے جواز کے متعلق لکھا ہے، وہ کتابیں معتبر نہیں ہیں۔‘‘
اور محدث لکھنوی مرز احسن علی صاحب بھی اپنے فتوی میں اسی طرح لکھتے ہیں کہ ’’ایسا کرنا منع ہے اور بدعت اور وہ جو ابوبکرؓ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے وہ حدیث موضوع ہے اور فقہ کی معتبر کتابوں میں بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔‘‘ واللہ اعلم بالصواب ۔
حررہ السید محمد نذیر حسین عفی عنہ (سید محمد نذیرحسین)


جلد 01 ص 245​

محدث فتویٰ​
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 6562

اذان میں یا کسی اور موقعہ پر لفظ محمد ؐ سنکر انگوٹھا چومنا ؟
شروع از M Aamir بتاریخ : 15 August 2013 08:48 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته​
اذان میں یا کسی اور موقعہ پر لفظ محمد ؐ سنکر انگوٹھا چومنا جائز ہے یا نہیں​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لفظ محمد ؐ سنکر انگوٹھا چوم کر آنکھوں سے لگانا بے اصل اور بدعت ہے انگوٹھے چوم کر ان کو آنکھوں سے لگانے کے بارے میں چند حدیثیں آتی ہیں لیکن سب غیر صیح بے اصل موضوع جھوٹی اور بناوٹی ہیں علامہ شوکانی نے الفوائد المجموعہ ص ۱۴ میں علامہ محمد طاہر فتنی حنفی نے تذکرۃ الموضوعات ۳۴ میں، ملا علی۳ قاری حنفی نے موضو عات ص ۶۵ میں، حافظ سیوطی۴ نے تيسيرالمقال میں علامہ ابوالحسن عبدالغافرالفارسی صاحب مفہم شرح صیح مسلم نےاقوال الاكاذيبمیں، علامہ۶ ابواسحق بن عبدالجبار نے شرح رسالہ عبدالسلام لاہوری میں، علامہ ۷محمد یعقوب نیپالی نے الخیرالجادی شرح صیح بخاری میں، علامہ حسن۸ بن علی الہدی نے تعلیقات مشکوۃ میں، حافظ سخاوی۹ نے المقاصد الحسنہ میں، اوردوسرے محدثین نے ان احادیث کے بے اصل وبے ثبوت اور موضوع ہونے کی تصریح کردی ہے اسی لئے شاہ عبدالعزیز صاحب قدس سرہ نے فتوی تقبیل العینین میں اس فعل کو بدعت قرار دیا ہے، عبیداللہ رحمنہ دہلی، محدث دہلے جلد ۸ نمبر۸،


جلد 10 ص 75​

محدث فتویٰ​
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
انگوٹھے چومنا
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق مسند الفردوس از دیلمی میں روایت ہے:
أنّه لمّا سمع قول المؤذّن: أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ، قال ھذا، وقبّل باطن الأنملتین السبّابتین، ومسح عینیه، فقال صلّی اللہ علیہ وسلّم: من فعل مثل مافعل خلیلی، فقد حلّت علیہ شفاعتی
”جب آپ رضی اللہ عنہ نے مؤذن کو أشھد أنّ محمّدا رسول اللہ کہتے سنا تو یہی الفاظ کہے اور دونوں انگشتِ شہادت کے پورے جانبِ زیریں سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ نے فرمایا، جو ایسا کرے، جیسا کہ میرے پیارے نے کیا ہے، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوجائے۔“
(المقاصد الحسنة للسخاوی: ص 384)

من گھڑت: یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود وباطل ہے۔
٭ اس کے "صحیح" ہونے کے مدعی پر سند پیش کرنا ضروری ہے۔ ساتھ ساتھ راویوں کی توثیق اور اتصالِ سند بھی ضروری ہے۔ یہ بدعتیوں کی شان ہے کہ وہ سندوں سے گریزاں ہیں۔
٭پھر مزے کی بات یہ ہے کہ حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ: لا یصح "یہ روایت صحیح نہیں ہے۔"
بعض بدعتی کہتے ہیں کہ لا یصح "یہ روایت صحیح نہیں ہے۔" سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ "حسن " بھی نہیں ہے، یہ ان کے اپنے منہ کی بات ہے، ہمیں اس روایت کی سند درکار ہے، جسے پیش کرنے سے بدعتی لوگ قاصر رہتے ہیں۔

تنبیہ:احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں: "اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، پھر بھی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے۔" (جاء الحق: 401/1)
ہمارا مطالبہ سند کا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق فضائل اعمال سے نہیں، بلکہ شرعی احکام سے ہے کہ اذان میں نبیٔ اکرم ﷺ کا نامِ مبارک سن کر انگوٹھے چومنے چاہئیں یا نہیں، فضائل کی بات تو بعد میں ہے۔ قارئین کرام خوب یاد رکھیں کہ دین "صحیح" روایات کا نام ہے، فضائل کا تعلق بھی دین سے ہے۔

٭ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ولا فرق فی العمل بالحدیث فی الأحکام أو فی الفضائل، أذا لکلّ شرع "احکام یا فضائل میں حدیث پر عمل کرنے میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ دونوں (فضائل اور احکام) شریعت ہی تو ہیں۔" (تبیین العجب بما ورد فی شھر رجب لابن حجر: ص 2)
 
Top