ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت صحیح مسلم سے ثابت ہے، دیگر احادیث سے بھی خلفائے راشدین سے بھی۔
صحيح مسلم :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»
سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز نا پڑھاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھائی اور انہوں نے رفع الیدین نہ کی سوائے پہلی دفعہ یعنی تکبیر تحریمہ کے۔
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے
السنن الكبرى للبيهقي :
قَالَ الشَّيْخُ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ "
مصنف ابن أبي شيبة : (روات کلہم ثقہ)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ»
بے شک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے اس کے بعد نا کرتے۔
روایت کے تمام روات ثقہ ثبت ہیں اور سفیان کا عاصم بن کلیب سے سماع ثابت ہے۔
نا دھوکہ دو اور نا دھوکہ کھاؤ۔
فریب کاری دجالی سے بچو کہ کل قیامت کو پوچھا جائے گا۔
حق کہو اور حق کو اپناؤ۔
جواب
عدم رفع الیدین کے دلائل جوابات و اعتراضات
[قسط اول]
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
محدث فورم پر موجود بعض احباب نے عدم رفع الیدین پر بعض دلائل دئیے ہیں۔ اور یہ باور کرانا چاہا ہے کہ عدم رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
چلیے ان احباب کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
احباب لکھتے ہیں کہ:
"ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت صحیح مسلم سے ثابت ہے، دیگر احادیث سے بھی خلفائے راشدین سے بھی۔"
جواب:
میں کہتا ہوں صحیح مسلم تو دور کی بات دنیا کی کسی صحیح کتاب سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی عدم رفع الیدین والی روایت ثابت نہیں ہوتی۔
پہلی دلیل
احباب نے اپنی دلیل میں صحیح مسلم کی ایک روایت پیش کی جو درج ذیل ہے:
"صحيح مسلم :
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ»"
جواب:
میں کہتا ہوں حدیث کے باقی طریق سے صرف نظر کرتے ہوئے کسی ایک ہی طریق کو سامنے رکھ کر فیصلہ دے دینا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی ایک حدیث کو سامنے رکھ کر باقی احادیثوں سے صرف نظر کرتے ہوئے فتوی دے دیا جائے۔
بحث کا مقصود یہ ہے کہ حدیث کا ایک طریق دوسرے طریق کی تشریح کرتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے ایک حدیث دوسری حدیث کی تشریح کرتی ہے۔
جب ہم اس حدیث کے دوسرے طریق کو سامنے رکھتے ہیں تو حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ حدیث رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین کی دلیل نہیں بنتی بلکہ اس کا تعلق تو تشہد و سلام کے ساتھ ہے
✿ پہلی دلیل:
چنانچہ مسند احمد میں یہیں تمیم بن طرفہ عن جابر ہی کے طریق سے یہیں روایت موجود ہے۔
چنانچہ مسند احمد میں الفاظ ہیں کہ:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَيَّبَ بْنَ رَافِعٍ يُحَدِّثُ عَنْ تَمِيمِ بْنِ طَرَفَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَرَجَ عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَالَ مَا لِي أَرَاكُمْ عِزِينَ وَهُمْ قُعُودٌ
[ مسند أحمد ]
اس روایت میں الفاظ ہیں کہ "وھم قعود" یعنی یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں جاری فرمایا جب صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے۔
لہذا معلوم ہوا اس روایت کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے۔ رکوع کے ساتھ نہیں کیوں کہ نماز میں قیام یا رکوع بیٹھنے کی حالت نہیں ہوتی۔
✿ دوسری دلیل
محدثین نے بالاتفاق یہ بات کہی ہے کہ اس حدیث کا تعلق سلام سے ہے۔ رکوع والے رفع الیدین سے اس کا تعلق نہیں ہے۔
امام بخاری تو فرماتے ہیں کہ یہ روایت تو صرف تشہد کے بارے میں ہے جس شخص کے پاس تھوڑا سا بھی علم ہے وہ اس روایت سے رکوع والے رفع الیدین کے منع پر دلیل نہیں لیتا یہ بات مشہور ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں (یعنی اس بات پر اجماع ہے)
چنانچہ امام بخاری کے الفاظ ہیں کہ:
"فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام» كان يسلم بعضهم على بعض فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن رفع الأيدي في التشهد , ولا يحتج بمثل هذا من له حظ من العلم، هذا معروف مشهور لا اختلاف فيه"
[جزء الرفع اليدين رقم ٣٥]
یعنی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کا تعلق تو سلام کے ساتھ ہے رکوع کے ساتھ نہیں۔
احباب یقیناً اجماع کو مانیں گے ہمیں امید ہے۔
مزید ہم اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے لیکن اگر ضرورت پڑی تو اگلی قسط میں تفصیل بھی پیش کر دیں گے۔
دوسری دلیل:
احباب اپنے دعوی کی دوسری دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"سنن الترمذي كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ
عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز نا پڑھاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھائی اور انہوں نے رفع الیدین نہ کی سوائے پہلی دفعہ یعنی تکبیر تحریمہ کے۔
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے"
جواب:
اس روایت میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور روایت عن سے ہے اور کسی طریق میں سماع کی تصریح موجود نہیں ہے اور مسلم اصول ہے کہ مدلس کا عنعنہ ضعیف ہوتا ہے الا یہ کہ سماع کی توضیح واضح ہو کسی دوسرے طریق سے۔
❀ امام نووی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں کہ:
سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالی مدلس ہیں اور انہوں نے پہلی روایت میں عن علقمہ کہا ہے اور مدلس کا عنعنہ بالاتفاق حجت نہیں ہوتا الا یہ کہ دوسرے طریق سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے۔
[ شرح صحيح مسلم للنووي ١٧٨/٣]
❀ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
"وہ مدلسین جو ثقہ اور عادل ہیں تو ہم ان کی صرف انہیں روایات سے حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کرتے ہیں مثلاََ (سفیان) ثوری"
[صحیح ابن حبان ط دار المعرفہ ص ۱۰۲]
❀ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
"سفیان ثوری مدلس ہیں اور مدلس کا عنعنہ حجت نہیں ہوتا الا یہ کہ سماع کی تصریح ثابت ہو جائے"
[ارشاد الساری ۲۸۶/۱]
❀ امام بدر الدین عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
" سفیان ثوری مدلس ہیں اور مدلس کا عنعنہ حجت نہیں ہوتا الا یہ کہ دوسرے طریق سے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے"
[عمدۃ القاری ۱۱۲/۳]
❀ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
لا نقبل من مدلس حدیثاً حتی یقول فیه حدثنی أو سمعت
"ہم مدلس سے کوئی روایت قبول نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنی روایت میں حدثنی یا سمعت کہے"
[الرسالۃ للشافعی ص ۳۸۰]
❀ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
خَبَرُ الْمُدَلِّسِ لَا يُقْبَلُ إِلَّا أَنْ يُورِدَهُ عَلَى وَجْهٍ مُبَيَّنٍ غَيْرِ مُحْتَمِلٍ لِلْإِيهَامِ فَإِنْ أَوْرَدَهُ عَلَى ذَلِكَ قُبِلَ وَهَذَا هُوَ الصَّحِيحُ عِنْدَنَا
اور دوسروں نے کہا مدلس کی روایت حجت نہیں ہوتی الا یہ کہ وہ وہم کے احتمال کے بغیر صریح طور تصریح سماع کے ساتھ بیان کرے اگر وہ ایسا کرے تو اس کی روایت مقبول ہے اور ہمارے نزدیک یہیں بات صحیح ہے۔
[الكفاية في علم الرواية ٣٦١/١]
اور زیر بحث روایت بھی سفیان ثوری کی عن سے ہے لہذا سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔
محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
✿ امام بخاری نے سفیان ثوری کی اس روایت کو جزء رفع الیدین میں تفصیلی کلام کر کے ضعیف و غیر محفوظ قرار دیا ہے اور اس روایت کو سفیان ثوری کا وہم قرار دیا ہے۔
[دیکھیے جزء رفع الیدین رقم ۳۲,۳۳]
✿ امام ابن مبارک رحمہ اللہ نے اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ:
لَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ،
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف پہلی مرتبہ رفع الیدین کرتے ، ثابت نہیں ہے
[سنن ترمذی رقم ۲۵۶]
✿ امام ابو حاتم رحمہ اللہ اس حدیث کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ
ھذا خطاء
یہ حدیث خطاء ہے
[العلل لابن ابی حاتم ۱۲۴/۲]
✿ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
هو في الحقيقة أضعف شيء يعول عليه لأن له عللاً تبطله
حقیقت میں یہ روایت سب سے زیادہ ضعیف ہے اس روایت کی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں۔
[تلخیص الحبیر لابن حجر ۴۰۲/1]
✿ امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
وهو لا يثبت ولا يحتج به
یہ حدیث ثابت نہیں ہے اور نا ہی قابل حجت ہے۔
[ التمهيد لابن عبد البر ٢٢٠/٩]
✿ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
[ تلخیص الحبیر لابن حجر ۴۰۲/۱، البدر المنیر وابن الملقن نقله من كتاب الرفع اليدين للبخاري]
✿ امام یحیی بن آدم نے بهى اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
[ تلخیص الحبیر لابن حجر ۴۰۲/۱، البدر المنير ۴۹۳/۳ وابن الملقن نقله من كتاب الرفع اليدين للبخاري]
✿ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اس حدیث ابن مسعود اور حدءث براء بن عازب، دونوں کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ:
وهذان حديثان معلولان عند أھل العلم بالحدیث
حدیث کے اہل علم کے نزدیک یہ دونوں (ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی) حدیثیں معلول ہیں۔
[التمھید لابن عبد البر ۲۱۵/۹]
✿ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اتفقوا علی تضعیفه
اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے
[خلاصۃ الأحکام ۳۵۴/۱]
تیسری دلیل اور اس کا جواب:
احباب اپنی تیسری دلیل ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
السنن الكبرى للبيهقي :
قَالَ الشَّيْخُ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ "
جواب
● پہلی علت: محمد بن جابر الیمامی السحیمی الحنفی
جمہور محدثین کے نزدیک محمد بن جابر ضعیف راوی ہے۔
✿ امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
ساقط الحدیث عند أهل العلم
یعنی اہل علم کے نزدیک یہ ساقط الحدیث ہے
[الجرح والتعدیل ۲۲۰/۷]
✿ امام یعقوب بن سفیان الفسوی رحمہ اللہ محمد بن جابر کے متعلق لکھتے ہیں کہ:
"ضعیف"
[ المعرفة والتاريخ للفسوي ٦٠/٣]
✿ امام عمرو بن علی الفلاس رحمہ اللہ محمد بن جابر کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
صدوق، کثیر الوھم متروک الحدیث
یہ سچا راوی ہے، بہت زیادہ وہم کا شکار ہوتا ہے اور متروک الحدیث راوی ہے۔
[الجرح والتعدیل ۲۱۹/۷]
✿ امام ابن شاہین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
لیس بشيء
اس کی کوئی حیثیت نہیں
[تاریخ الثقات لابن شاہین ص ۱۶۵]
✿ امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
"ضعیف"
[الثقات للعجلی ص ۴۰۱]
✿ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ ابن جابر الیمامی کے متعلق کہتے ہیں کہ:
ضعيف
[الجرح والتعدیل ۲۱۹/۷]
✿ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
سيء الحفظ
یہ برے حافظے والا تھا
[ الکاشف للذهبي رقم ٤٧٦٢]
✿ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ محمد بن جابر کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
ھو ضعیف عند الجمھور
محمد بن جابر جمہور کے نزدیک ضعیف ہے
[دیکھیے مجمع الزوائد ۱۹۱/۵]
لہذا معلوم ہوا محمد بن جابر جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔
● دوسری علت: محمد بن جابر عن حماد بن ابی سلیمان کے طریق میں ضعف
محمد بن جابر عن حماد والے طریق میں آئمہ محدثین نے خاص کلام کیا ہے۔
✿ امام العلل امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ:
حديثه عن حماد، فيه اضطراب
محمد بن جابر کی حماد سے حدیث میں اضطراب ہے۔
[الجرح والتعدیل ۲۱۹/۷]
✿ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
حديثه عن حماد، فيه اضطراب
[من کلام أبی عبداللہ الامام أحمد بن حنبل فی علل الحدیث ومعرفۃ الرجال ص ٦١]
یہ جرح خاص ہے کہ حماد سے اس کی روایت میں اضطراب ہے۔
یہ علت اس روایت کے ضعف میں مزید اضافہ کر دیتا ہے
● تیسری علت: حماد بن ابی سلیمان مختلط ہیں
حماد بن ابی سلیمان نامی راوی اختلاط کا شکار ہیں۔
اور محمد بن جابر کا حماد سے اختلاط سے پہلے روایت کرنا ثابت نہیں ہے۔
لہذا اس روایت کے ضعیف ہونے کے لئے یہ علت بھی کافی تھی۔
● آئمہ محدثین کا اس حدیث کی بابت موقف:
✿ امام دار قطنی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
تفرد به محمد بن جابر وکان ضعیفاً
اس روایت کوبیان کرنے میں محمد بن جابر متفرد ہے اور وہ ضعیف ہے
[سنن الدار قطنی ۵۲/۲]
✿ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
هذا حديث منكر
یہ حدیث منکر ہے
[کتاب العلل ۱۴۴/۱]
✿ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اسنادہ ضعیف
اس کی سند ضعیف ہے
[المعرفۃ السنن والآثار ۲۲۰/۱]
لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایت ضعیف و باطل ہے۔
مزید تفصیل میں جانے کی ہم ضرورت نہیں سمجھتے اگر ضرورت پڑی تو انشاء اللہ مزید تفصیل پیش کریں گے
چوتھی دلیل: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا موقوف اثر
مصنف ابن أبي شيبة : (روات کلہم ثقہ)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قِطَافٍ النَّهْشَلِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّ عَلِيًّا، كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ، ثُمَّ لَا يَعُودُ»
بے شک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے اس کے بعد نا کرتے
جواب
اول: یہ اثر ثابت نہیں ہے جمہور محدثین اس کی تضعیف کی طرف گئے ہیں جیسے امام بخاری، امام احمد، امام عثمان بن سعید الدارمی، امام ابن الجوزی اور امام ابن الملقن وغیرھما۔
دوم: اس اثر میں علی رضی اللہ عنہ کے رفع الیدین کے یاد نہیں رکھا گیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
"اس اثر میں علی رضی اللہ عنہ کے رفع الیدین کو یاد نہیں رکھا گیا"
[جزء رفع الیدین]
سوم: سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کی حدیث صحیح سند سے مروی ہے جس میں چار مقامات کے رفع الیدین کا ذکر ہے۔
[دیکھیے سنن ترمذی حدیث 3423]
بھلا سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف عمل کیسے کر سکتے ہیں۔
یہ مرفوع روایت بھی اس چیز کا ثبوت ہے کہ رفع الیدن چھوڑنا علی رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں وگرنہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کریں اور پھر عمل نا کریں۔
چہارم: یہ اثر عام ہے جبکہ سیدنا علی سے رفع الیدین کی حدیث خاص ہے لہذا خاص عام پر مقدم ہوتا ہے۔
پنجم: بالفرض اگر، اگر سیدنا علی سے عدم رفع الیدین ثابت ہوتا تو کیا آپ حدیث کو چھوڑ کر راوی کی عمل پر عمل کرتے؟؟؟
اصول تو یہ ہے کہ راوی کی روایت کا اعتبار ہوتا نا کہ اس کے اس کی اپنی رائے کا۔
------------------------------
ہماری ان گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ عدم رفع الیدین کی کوئی ایک روایت بھی احباب کی طرف سے پیش کردہ ثابت نہیں۔
️حافظ معاویہ الحنبلی السلفی
@بھائی جان