• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناگہانی مصیبت کے وقت آذان دینے کی حسن روایت کی تضعیف پر البانی صاحب کا علمی تعاقب

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محترم اسد الطحاوی ، اسی فورم سے اسی موضوع پر "عدیل سلفی" کا مراسلہ کاپی پیسٹ کر رہا ھوں ، آپ اس پر بھی غور فرمائیں اور مناسب سمجھیں تو لکھیں ۔

"(کِبار فقہاءِ احناف اور اذان)

صاحبِ ھدایہ سے کون واقف نہیں؟ علامہ مرغینانی ہیں، اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الأذان سنة للصلوات الخمس والجمعة، دون ما سواها للنقل المتواتر

پانچ نمازوں اور جمعہ کے لیے اذان دینا سنت ہے جمعہ و پنجگانہ نماز کے علاوہ نہیں ہے اور یہی متواتر عمل ہے

یعنی اذان کو صرف نمازوں اور جمعہ کے لیے خاص کیا اور ان دو کے علاوہ کی نفی اور اسی پر تواتر بھی ہے

علامہ عینی حنفی اسکی شرح میں لکھتے ہیں:

ولم يؤذن عليه الصلاة والسلام - ولا أحد من الأئمة بغير الصلوات الخمس والجمعة.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آئمہ دین (صحابہ تابعین اور فقہاء و محدثین) نے پانچ نمازوں اور جمعہ کے علاوہ اذان نہیں دی
(البنایة شرح الهداية ٧٨/٢ )

احناف سے ان دو فقہاء کی جلالت ڈھکی چھپی نہیں

علامہ کاسانی حنفی بھی اسی پر زور دیتے ہیں کہ:

وليس في هذه الصلاة أذان ولا إقامة؛ لأنهما من خواص المكتوبات

نمازِ کسوف میں کوئی اذان و اقامت نہیں کیونکہ اذان کہنا صرف پانچ نمازوں سے خاص ہے (انکے علاوہ نہیں ہے)
(بدائع الصنائع ٢٨٢/١)"
والسّلام
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
(مجھے ابھی اسکو مکل استعمال کا طریقہ نہیں آرہا فورم کو غلطیاں ہو رہی ہے جوب دینے میں)
جو بات آپ نے اوپر لکھی ہے البانی کے حوالے سے کیا امام طبرانی سے یہ بات ثابت کر سکتے ہیں ؟
کوئی بات نہیں استعمال کرتے رہیں دھیرے دھیرے سدھار آئے گا.
امام طبرانی اور علامہ البانی رحمہما اللہ کی دونوں عبارتیں آپ کے سامنے ہیں اس کے علاوہ اور کیا آپ امام طبرانی سے ثابت کرانا چاہتے ہیں؟
میں بتاتا ہوں البانی صاحب نے کیا گڑبڑ کی ہے یا تسامح ہوا ہے جو بھی
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ
اس روایت کو صفوان بن سلیم سے کوئی بیان نہیں کرتا سوائے عبدالرحمن بن سعد کے اور تفرد ہے :::بکر بن محمد::: کا


البانی صاحب کیا لکھتے ہیں : وہ نقل کرتے ہیں
. وقال الطبراني:
" لم يروه عن صفوان إلا عبد الرحمن، تفرد به بكر أبو همام ".
قلت: ولم أجد من ترجمه، وشيخه عبد الرحمن بن سعد ضعيف، كما في " التقريب "
،وبه أعله الهيثمي (1/328) ، ومع ذلك سكت عن الحديث في " التلخيص "
(1/208) .
(السلسلہ الضعیفہ)
یہ بکر بن محمد سے راوی بر ابو ھمام کہاں سے بن گیا ؟؟؟؟؟؟
میرے ذہن میں یہ تو تھا کہ یہ راوی ابو ھمام تو سند میں نہیں تو یہ تبھی میں نے سوچا کہ ولم اجد من ترجمہ وشیخہ ہوگا اور کومہ غلطی سے بعد میں لگ گیا اور یہ وہ طبرانی کے شیخ کی بات کر رہے ہیں ورنہ مجھے کیا ضرورت پڑی تھی طبرانی کے شیخ کی اتنی توثیق پیش کرنے کی جبکہ بکر بن محمد بن ثقہ راوی ہے
تو جناب یہ آپکے البانی کی غلطی کی وجہ سے میں یہی گمان کیا کہ یہ وہ شیخ طبرانی کی بات کر رہے ہیں ورنہ ابو ھمام تو سند میں نہیں یہ کونسا راوی ہے
تو آپ نے اسکو میری غلطی یا خیانت بنا رہے ہیں تو مجھے واضح کرنا پڑا

چلئے خیر آپ نے مانا تو کہ یہ غلطی آپ کو علامہ البانی رحمہ اللہ کی عبارت میں موجود راوی کے نام بکر ابو ہمام کی وجہ سے لگی!
کاش آپ عبارت میں تھوڑا اور غور کر لیتے تو آپ فاش غلطی سے بچ جاتے اور آپ پر یہ راز کھل جاتا کہ اس روایت کی سند میں بکر نامی راوی تو سند میں صرف ایک ہی ہے جس کا ضعیف شیخ عبد الرحمن بن سعد ہے اور وہ وہی بکر بن محمد القرشي ہی ہے؛ رہی بات أبو ہمام کنیت کی تو عین ممکن ہے البانی رحمہ اللہ نے اس راوی کی یہ کنیت کہیں سے نقل کی ہو، یا پھر یہ بھی ممکن ہے یہ کتابت وغیرہ ہی کی غلطی ہو، بہرحال آپ نے جو سمجھا وہ بہت دور کی کوڑی ہے! خیر انسانی سمجھ ہی تو ہے کوئی کچھ بھی سمجھ سکتا ہے! اب اس میں ایک بات رہ جاتی ہے کہ آپ کے مطابق بکر بن محمد القرشي ثقہ راوی ہے جبکہ علامہ البانی اور ہیثمی کے مطابق مجہول ہے میں نے بھی ممکنہ دستیاب کتابوں میں اس راوی کا ترجمہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں پا سکا، تو آپ اس راوی کا ترجمہ پیش فرما دیں تاکہ بات کلیر ہو جائے؟
دوسری اہم بات :
راوی میں تعین اور تصحیح و توثیق میں غلطی کسی بھی امام سے ہو سکتا ہے اس سے کوئی نہیں بچا


جسکی وجہ سے مجھے ضرورت پڑ گئی لفظ خیانت کی البانی صاحب کے ساتھ لکھنے میں تو مجھے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑا

اور وہ یہ وجہ ہے کہ انہوں نے ایک مشور ثقہ راوی کے مشہور ثقہ شیخ جن سے انکی روایات عام ہوتی ہیں
انہون نے اس مشہور ثقہ شیخ کو چھوڑ کر بغیر تعین کی دلیل کے اپنی مرضی سے ایک مجہول راوی کو شیخ بنا کر راوی کا ایک علت بنا دیا
یہ بات واضح ہے کہ یہاں البانی صاحب زبردستی روایت میں ضعف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں


جزاک اللہ

اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام طبرانی جو تبصرہ کرتے ہیں وہ یہ ہے :

اصل میں البانی صاحب نے عبارت میں ایسی گڑ بڑ کی ہے کہ مجھے بھی سمجھنے میں غلطی لگی ہے لیکن آپ کے کیا کہنے کہ آپکو البانی صاحب کا تسامح چھپا لیا میری غلطی نکالتے وقت یا آپکا ذہن میں بھی اس طرف شاید نہیں گیا ہوگا حسن ظن رکھتے ہیں آپ سے
محترم آپ نے جو بات البانی کے بارے میں کہی جس کو میں نے ہائی لائٹ کر دیا ہے وہ کھلا ہوا بہتان ہے اس سے توبہ کیجئے، البانی صاحب کی عبارت بالکل صاف ہے محض ابو ہمام سے اتنی بڑی غلطی نہیں لگ سکتی، اگر آپ کو غلطی لگی تو یہ آپ کی غلطی ہے
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
صحیح مسلم
کتاب: نماز کا بیان
باب: اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں

ترجمہ:
امیہ بن بسطام، یزید بن زریع، روح، سہیل سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے بنی حارثہ کی طرف بھیجا میرے ساتھ ایک لڑکا یا نوجوان تھا تو اس کو ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا اور میرے ساتھی نے دیوار پر دیکھا تو کوئی چیز نہ تھی میں نے یہ بات اپنے باپ کو ذکر کی تو انہوں نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب تو ایسی آواز سنے تو اذان دیا کرو میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔


اس روایت میں یہ الفاظ قابل غور ہیں کہ صحابى رسولﷺ فرما رہے ہیں :
۔۔۔۔۔اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب تو ایسی آواز سنے تو اذان دیا کرو۔۔۔۔ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔

معلوم ہوا نبی کریم کی اس مرفوع روایت کے شیطان منہ پھیرتا ہے اس سے صحابہ نے مطلق استدلال کیا ہے کہ جب انسان کسی بھی مسلے میں خوفزدہ ہو تو آذان سے اللہ وہ مصیبت ٹال دیگا اور مسلمان کو قلبی سکون حاص ہوگا
جیسا ابن عساکر کی روایت میں حضرت آدم کو پریشانی کے خاتمے کے لئے آذان سنائی گئی

اور حضرت انس سے مرفوع روایت کہ مصیبت کے وقت آذان پڑھی جائے تو اللہ اس بستی سے عذاب کو روک لیتا ہے (مفہوما)اور حضرت انس سے مرفوع روایت کہ مصیبت کے وقت آذان پڑھی جائے تو اللہ اس بستی سے عذاب کو روک لیتا ہے (مفہوما)

اس ایک مستحب عمل کے لئے اتنے دلائل کافی ہیں لیکن مسلہ یہ ہے کہ اتنی تحقیق کے بعد کیا میری قسمت میں ہے کہ کوئی اہل حدیث بھائی اپنی جماعتی تعصب اور اپنے مولویوں کی مخصوص سے نکل کر اپنے نعرہ کے مطابق حدیث رسول اور اثار صحابہ کو حجت مانتے ہوئے میری تائید کر دے

اور کل سے اللہ کی رحمت پر یقین رکھتے آذان دے ۔ ۔ ۔ ۔

جواب کاانتظار رہے گا
1- مسلم کی اس روایت کے راوی سہیل کے والد حضرت ابو صالح السمان ذکوان بن عبد اللہ مولی ام المومنین حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا ہے ان کی وفات 101 ہجری میں ہوئی ، یہ مشہور تابعی ہیں ان کو صحابی کہنا اسد الطحاوی صاحب کی جہالت ہے اگر بات أن کے ہی لحظے میں کی جائے تو بڑی علمی خیانت ہے اس وضاحت کے بعد ان کی صحابہ کے استدلال والی بات خود بخود مردود ہوجاتی ہے، محترم یہ ایک تابعی کا استدلال ہے صحابہ کا نہیں اور اس کو صحابہ کا استدلال بتانا بڑی جہالت ہے، کیا آپ کے یہاں صحابہ و تابعین کے استدلال حجت ہیں؟ اور اس کے لئے جو شرائط احناف کے بنا رکھی ہیں وہ یہاں پائی جا رہی ہیں؟
2- یہ استدلال مطلق نہیں تھا حدیث میں آذان سے شیطان کے بھاگنے کی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے اور تابعی نے استدلال بھی شیطانی وسوسے پر ہی کیا ہے، حالانکہ یہ بھی ان کا محض استدلال ہی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی أموال کی حفاظت والا معاملہ پیش آیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تو آذان کہنے کا حکم نہیں دیا، بہرحال اس استدلال کو مطلق استدلال کا نام دینا محض غلط ہے، طاعون عمواس کی وبا صحابہ کے دور میں پھیلی بہت سارے صحابہ اس کا شکار ہوئے اس موقع پر اگر کسی صحابی نے اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے آذان کہی ہو تو اس کو پیش کریں؟
3- إبن عساکر کی جس روایت کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ سخت ضعیف ہے اس میں علی بن یزید بن بہرام راوی ضعیف ہے، اس کے کلمات بھی وہ نہیں جو آج کل اہل بدعت استعمال کر رہے ہیں، اسی طرح اس روایت سے آپ کے کئی عقیدے زد میں آ رہے ہیں انگوٹھے چومنے والی جالی روایت بھی اس سے رد ہو جاتی ہے جس میں ہے حضرت آدم نے عرش پر " محمد رسول اللہ لکھا دیکھا تھا، اب آپ کے لئے آگے کنواں پیچھے کھائی والی کیفیت ہے!
4- حضرت انس رضی اللہ عنہ کی جس روایت کا مفہوم آپ بیان کر رہے ہیں اس کی اسنادی حیثیت آپ ثابت نہیں کر سکے، نیز اس روایت میں بھی آپ کی مروجہ آذان کا کوئی ثبوت نہیں ہے اس سے زیادہ سے زیادہ پنج وقتہ نماز کی آذان کی فضیلت ثابت ہو رہی ہے فافہم و تدبر
5- جی نہیں یہ دلائل کافی نہیں، کسی عمل کے مستحب ہونے کے لئے صحیح دلیل کی ضرورت ہے اور جو دلائل آپ نے پیش کئے ان سے استدلال درست نہیں، اللہ کی رحمت تو تمام جہاں کو عام ہے اس کو ہر خاص و عام بینا و نابینا دیکھ و محسوس کر رہا ہے، اس کے ثبوت کے لئے لنگڑے لولے اور بے محل دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں.
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
! اب اس میں ایک بات رہ جاتی ہے کہ آپ کے مطابق بکر بن محمد القرشي ثقہ راوی ہے جبکہ علامہ البانی اور ہیثمی کے مطابق مجہول ہے میں نے بھی ممکنہ دستیاب کتابوں میں اس راوی کا ترجمہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن نہیں پا سکا، تو آپ اس راوی کا ترجمہ پیش فرما دیں تاکہ بات کلیر ہو جائے؟

الجواب:

تو جناب بھی مان گئے کہ یہاں تسامح یا فاحش غلطی البانی صاحب سے ہوئی ہے اور انہوں نے راوی کے نام کے ساتھ ابو ھمام کی تصریح خود سے لکھ دی یا کتابت کی غلطی تھی برحال اس پر کوئی ایسا مسلہ نہیں

لیکن میں نے آپکو پچھلی پوسٹ میں کہا تھا کہ غلطی کرنا تسامح ہونا کوئی بڑی بات نہیں اس سے کوئی امام محفوظ نہیں

مسلہ یہ تھا انہوں نے ابن عساکر کی روایت مشہور راوی ابو بکر بن سلمان النجاد کے شیخ محمد بن عبداللہ المطیع کو چھوڑ کو میزان الاعتدال سے ایک مجہولیے کو بغیر تعین کے فقط اپنی مرضی سے ابو بکر احمد بن سلمان کا شیخ کس دلیل سے بنایا ہے ؟؟
میرے اس اعتراض پر آپ خاموش رہے امید ہے اسکا جواب آپ دلیل سے دینگے

باقی رہی بات یہ کہ بکر بن محمد القرشی کا ترجمہ آپکو نہیں ملا
توعرض ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر راوی کے شیوخ کا ذکر محدثین کریں یا ہر راوی کے تلامذہ میں سب کا نام لکھا جائے ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے تبھی محدثین کسی راوی کے شیوخ میں نام لکھ کر آخر میں و جماعتہ یا خلق کثیر لکھ دیتے ہیں

تو راوی کے تعین کے لیے طبقہ بھی دیکھنا پڑتا ہے تو اس سے بھی قررائن واضح ہو جاتے ہیں
ہم اللہ اور اسکے رسولﷺ کے فضل سے آپکو جواب پیش کرتے ہیں

امام طبرانی اپنے جس شیخ سے یہ روایت پیش کرتے ہیں اسکی سند یوں ہے :
حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ شُعَيْبٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ: نا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ
اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ امام طبرانی کا یہ شیخ بصری ہے اور انہوں نے اپنے شیخ بکر بن محمد القرشی کا نام لیا ہے
اور اس طبقے میں ایک راوی موجود ہیں جنکا نام ہے :
بكر بن محمد بن عبد الوهاب أبي عمرو القزاز بالبصرة
یہ بصری راوی ہیں اور ثقہ راوی ہیں
جیسا کہ امام دارقطنی سے انکے بارے پوچھا گیا تو وہ انکی توثیق کرتے ہیں :

213 - وسألته عن بكر بن محمد بن عبد الوهاب أبي عمرو القزاز بالبصرة فقال ثقة
(سؤالات حمزة بن يوسف السهمي)

اور یہ قرشی ہی تھے جیسا کہ امام خطیب بغدادی ایک روایت نقل کرتے ہیں تاریخ میں جسکی سند یوں ہے :

أخبرنا بشرى، قال: حدثنا عبد الله بن إسحاق بن يونس بن إسماعيل المعروف بابن دقيش في سنة اثنتين وستين وثلاث مائة، وحضر ذلك محمد بن إسماعيل الوراق، قال: ؟ََِِِِِِِْؒـ ـ حدثنا بكر بن محمد بن عبد الوهاب القزاز القرشي، بالبصرة، ـ ـ قال: بلخ۔۔۔۔۔۔
(تاریخ بغداد ، برقم:4980)

اور اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ بھی امام طبرانی کے شیوخ میں بھی ہیں امام طبرانی نے ان سے ڈریکٹ بھی روایات بیان کی ہیں اور کچھ روایات شیخ الشیخ سے بیان کی ہیں


انکی کنیت کافی ساری ہیں کچھ محدثین انکو بکر بن محمد العدل کے نام سے لکھتے ہیں
کچھ انکو بکر بن محمد ابو عمرو کے نام سے
کچھ بکر بن محمد البصری
اور کچھ بکر بن محمد البصری الرقشی القزاز کے ساتھ لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ البانی صاحب ان کو کوئی اور راوی سمجھ لیا ہو ۔۔۔۔

بر حال بکر بن محمد القرشی البصری القزاز یہی ایک راوی ہی ہے اور ثقہ راوی ہے
اور ان سے امام صالح بن شعیب البصری بھی روایت کرتے ہیں جو کہ امام طبرانی کے شیخ ہیں اور خود امام طبرانی بھی انہی سے روایت کرتے ہیں
امام ابن حبان اور دوسرے دیگر محدثین بھی انکے شاگردوں میں آتے ہیں

ہمارے قرائن کو رد کرنے کے لیے آپ کوشش کرینگے تو کوئی مضبوط دلیل دیجیے گا
ورنہ اہل علم اور رجال کے محققین کے لیے یہ بات کافی ہے کہ تعین بالکل ٹھیک ہے ان شاءاللہ

 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
3- إبن عساکر کی جس روایت کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ سخت ضعیف ہے اس میں علی بن یزید بن بہرام راوی ضعیف ہے،
الجواب:

جناب من علی بن یزید بن بہرام پر کس نے جرح کی ہے وہ یہاں پیش کریں ورنہ تسلیم کریں کہ آپ نے جلد بازی میں یہ بات اپنی طرف سے لکھ دی یا البانی صاحب اسکو مجہول مانتے ہیں
اور ہماری نظر میں بھی یہ مجہول ہی ہے
البتہ آپ نے اسکے ضعیف ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو دلیل پیش فرمائیں جزاک اللہ!
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
باقی مسلم کی روایت میں استدلال تابعی کا تھا جس پر آپ نے مطلع کیا آپکی بات صحیح ہے
اور میں نے اس حدیث پر غور نہیں کیا کہ استدلال بیان کرنے والا صحابی ہے یا تابع ہے

لیکن ابو صالح السمان تو مشہور تابعی ہیں انکے بارے میں مکمل علم ہے غلطی مجھے یہ لگی کہ میں نے غور ہی نہیں کیا کہ استدلال کے الفاظ کس کے ہیں

برحال امام ابو صالح السمان بہت بڑے فقیہ اور مجتہد و محدث تھے اپنے وقت میں حضرت عمر کے دور خلافت میں پیدا ہوئے اور کثیر صحابہ کے شاگرد ہیں انکا استدلال بھی حجت ہے جب تک انکے برابر یا کسی مجتہد نے انکے استدلال کا انکار نہ کیا ہو

تابعی بھی سلف میں ہیں اور سلف میں ہم کو دلیل بھی مل گئی ہے

اور میں نے صحابی کا قول سمجھا بغیر توجہ کیے جو کہ میری غلطی ہے اور ہم اس پر آپکا شکریہ ادا کرتے ہیں ہم کو مطلع کرنے پر
جزاک اللہ
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
المہم ، کسی صحابی کا قول نہیں ھے کافی ھے ۔ شکریہ
جی تابعی کا قول آگیا وہ بھی ثقہ ثبت اور تابعی کی فضیلت بھی نبی کریمﷺ سے موجود ہے تو سلف سے نماز کے علاوہ آذان دینا تو ثابت تو ہو گیا ۔۔ اب مرضی استدلال کو قبول کریں نہ کریں برحال ہم نے احادیث تو پیش کرچکے ، منوانا ہمارا کام نہیں بس دلائل دینا ہے
جزاک اللہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محض ثابت کرنے اور عمل صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر شواہد پیش کرنے کہا تھا ، بالاختصار ۔ شکریہ
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
محض ثابت کرنے اور عمل صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر شواہد پیش کرنے کہا تھا ، بالاختصار ۔ شکریہ
اگر کسی مسلے پر متعدد احادیث ضعیفہ جو حسن لغیرہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہوں اور اسکی تائید میں تابعی کا فتویٰ بھی ہو اور کسی نے اس پر انکار بھی نہ کیا ہو تو کیا اتنا کافی نہیں ہے ؟ ایک مستحب عمل کو ثابت کرنے کے لیے ؟
ہم کونسا حدیث سے سنت موکدہ یا واجب ثابت کر رہے ہیں ؟ آپ لوگوں کو یہ ہی نہیں معلوم کس عمل کو ثابت کرنے کے لیے کس درجے کی دلیل چاہیے بس اگر سب نے یہی رٹہ لگایا ہوا ہے صحیح حدیث صحیح حدیث

تو جا کر پہلے اپنے محققین جیسا کہ راشدی صاحب یا اثری صاحب کا مقالہ پڑھیں ۔ احادیث ضعیف کو قبول کرنے کی شرائط اور کن کن ابواب میں ضعیف احادیث قبول ہیں اور دوسری بات حدیث حسن لغیرہ اور متقدمین سے متاخرین تک اس کو حجت ماننے کے دلائل (مقالات اثری) ۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی جو اپنی مسلکی جماعت کے تعصب میں ڈوبیں ہیں ان سے دلائل سے بات کرنا وقت کیا ضیاع ہے
جزاک اللہ
 
Top