فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
#فتنہ_انکار_حدیث
"نبوت و رسالت
بسم الله الرحمٰن الرحیم
#فتنہ_انکار_حدیث
"نبوت و رسالت پرویز احمد کی نظر میں "
گزشتہ دنوں پرویز احمد کی کتاب "مقام حدیث " دیکھنے میں آئی .پڑھ کر تعجب اس بات کا ہوا کہ دعوی ٰقرآن کا لیکن مطالعہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کا بھی سرسری ہی لگا ،کتاب میں کئے گئے اعتراضات اس قسم کے سطحی ہیں کہ کوئی بھی عامی جو ذرا سا بھی فہم قران مجید رکھنے والاہو با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اعتراضات کی بنیاد صرف بغض حدیث ہے نہ کہ کوئی علمی .اہل قرآن کا دعویٰ بظاھر تو قرانی علم و تحقیق پے منحصر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی قران کا علم رکھنے والا بخوبی واقف ہوتا ہے کہ جو اعتراضات حدیث پے اٹھائے جاتے ہیں ،یعنی کبھی ،عقل کی کسوٹی پے رد کرنا کبھی تجربہ کی بنیاد پر،،کبھی مشاہد کو جواز بنا کر اور کبھی ، خود ساختہ ترجمہ کر کے قرآن مجید سے متصادم کر کے اور ان تمام کی بنیاد صرف لاعلمی ،جاہلیت اور قرآن مجید سے استہزاء ہے ، اگر معیار یہ ہی ہیں تو ان معیارات کو قران مجید پر رکھیں تو یہ ہی اعتراضات قرآن مجید پے بھی لازم آتے ہیں ،تو پھر کیا بات ما نع ہے کہ اعتراضات صرف حدیث پے کیوں ؟؟
مذکورہ کتاب میں جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ سارے وہ تمام وہ ہی دہرائے گئے موضوعات یعنی حدیث وحی نہیں ،مرکز ملت ،کتابت حدیث پر اعتراض ،صرف قرآن ہی کافی ہے ،اور حدیث قرآن سے متصادم ہیں وغیرہ ہیں جن پر علمائے اسلام دندان شکن جوابات دے چکے ہیں اور الحمدللہ میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق لکھ چکا چکا ہوں ، مگر یہ منکرین حدیث کسی صورت حق کو سمجھنے والے نہیں اور بار بار اپنے اعتراضات دہرا کر ہٹ دھرمی کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ،الله ان لوگوں کو ہدایت دے -
قطع نظر کتاب کے دیگر اعتراضات کتاب کا "حرف آخر نبوت و رسالت " (فوٹو منسلک) غور طلب ہے، جو در حقیقت خلاصہ کتاب اور منکرین حدیث کے عقیدے کی اساس بھی ہے. اسلئے اس خلاصے کا علمی و عقلی محاسبہ ہی رد کتاب و منکرین کی باطل عقیدے کہ لئے کافی ہے، طوالت کے پیش نذر اس عقیدے کے جوابات کو دو حصوں میں تحریر کیا جائیگا ان شاء الله
ملاحظہ ہو پہلا حصہ :
(1) :
"قران علمی لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کے حساب سے اپنے علم کھولتا رہتا ہے ، اور ہر دور میں چوں کہ علم ترقی کررہا ہے تو کسی شخص کاعلمی فہم قرآن کسی دوسرے کے لئے دائمی نہیں ہوسکتا نہ ہی اپنے دور کے شخص کے لئے اور نہ ہی آنے والے کہ لئے حجت یا سند ہوسکتا ہے "
جواب :
بیشک قرآن مجید تمام علوم کی بنیاد ہے ،یعنی قران مجید علم کا منبع ہے ،ہمارا ایمان یہ ہے کہ اب تک ہونے والی تمام تر انسانی و علمی ترقیاں در حقیقت قران مجید کے علمی فہم سے آشنائی کی ہی بدولت ہیں ، جیسے بیش بہا آیات ایسی ہیں جس میں آج ہونے والی اس تحقیق کا اشارہ ،فہم یا نشانی کو چودہ سو سال پہلے الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ،
اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات ایسی بھی ہیں جیسے "ساتھ زمینون کا ذکر "وغیرہ جن کو علمی نظر سے دیکھا جائے تو تحقیق کے دروازے کھل سکتے ہی یا یوں کہیں کہ علم نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ انکی تحقیق و تسخیر کا باعث ہو، ہاں ممکنات میں سے ہے کہ وقت اور علمی ترقی کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسا ہونا کچھ مافوق العقل نہیں .جسے پچھلے زمانوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے کچھ عشروں پہلے تک دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک آواز،شکل ، اور خود کا نمودار ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا .لیکن اب ایسا ہونا عام سی بات ہےیعنی ہم چاہے دنیا کہ کسی کونے میں بھی ہوں اپنے گھر والوں ،احباب ،دوستوں سے وہیں بیٹھے بیٹھے نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں براہ راست، اسی طرح انسان کا ہوا میں اڑنانا گزیر تھا لیکن یہ بھی اب کوئی بات نہیں .. یہ ہے وقت کے ساتھ علمی ترقی .اور اس علمی فہم کو کسی پر بھی مسلط اور حجت نہیں بنایا جسکتا .
، اسی طرح کسی کا بھی فہم قرآن چاہے کتنا ہہی علمی کیوں نہ ہو کسی دوسرے کہ لئے ،حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس علمی فہم کو کسی پے مسلط کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہر دور ہر زمانے کا علمی معیار و علمی سطح الگ ہے ،اور ہر شخص کا فہم اپنی علمیت اور عقل کی مناسبت سے مختلف ہے ،جیسے ایک غیر مسلم سائنس دان اگر قرآن مجید کو پڑھ کر کسی چیز کو مسخر کرتا ہے ،یا کوئی تحقیق کرتا ہے یا کچھ ایجاد کرتا ہے جس کا اشارہ اس نے قرآن مجید سے لیا ہو تو یہ اس شخص کا علمی فہم جو در حقیقت قرآن مجید کا ہی علمی فہم کہلاییگا ،کیا اس کا یہ علمی فہم ہم پر حجت ہوجائیگا ؟؟ کیا اسکو اختیار مل جائیگا کہ وہ دینی احکامات کو بھی متعین کر سکے ؟؟ اگرچہ اسکی اس علمی فہم کو دنیا بھی سراہتی ہو اور تحقیق میں بھی ثابت کیا ہو ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ،کیوں کہ اسکا علمی فہم اس کہ اپنے دور کہ لئے تو ہوسکتا ہے مگر وہ بھی کسی دوسرے کہ لئے حجت نہیں اور آنے والوں کہ لئے تو قطعا نہیں ،
کسی انسان کے قرآن کا علمی فہم ہمارے لئے کسی طور حجت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات انسانی عقل تسلیم کرسکتی کہ کسی کی علمی سطح یا معیار کو کسی دوسرے کہ لئے لازم و حرف آخربنا دیا جائے کیوں کہ ہر دور کے لوگ اور علمی معیارات مختلف ہوتے ہیں یہ تو بات تھی قرآن مجید کا علمی فہم جو یقیناً کسی بھی شخص کا مختلف ہوسکتا ہے اور وہ کسی دوسرے کہ لئے حجت بھی نہیں ،لیکن قرآن مجید علم کے منبع ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کل انسانیت بھی ہے اور اس کا ایک دینی فہم بھی یعنی وہ احکامات جو کل انسانیت کی فلاح کا راستہ ہیں اور وہ ہر انسان کی ابدی زندگی یعنی جنت دوزخ کا فیصلہ کریں گے جو ہر دور کے انسانوں کہ لئے یکساں ہیں جس میں کسی بھی دور میں کسی بھی قسم کی رد و بدل و تبدیلی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ الله نے فرمادیا اسی قرآن میں کہ "دین مکمل ہوگیا" اب قران مجید کے تمام دینی احکامات پر عمل ہر دور کہ انسانوں کہ لئے لازم و سر چشمہ ہدایت ہے کیوں کہ یہ کتاب کسی دور کہ لئے نہیں بلکہ کل انسانیت کہ لئے تاقیامت نازل کی گئی ہے ،اور اس قرآن مجید میں کسی دور کی تخصیص نہیں اور نہ ہی کسی انسان کو ان احکامات میں رد و بدل کا اختیار دیا سوائے رسول کے ،یہ وہ دینی احکامات ہیں جو کل انسانیت کہ لئےلازم و ملظوم ہیں اور یہ احکامات اتمام قران سے قیامت تک آنے والے ہر انسان کہ لئے فلاح کا پیغام ہیں ،تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دینی احکامات و مفہوم کو ہر دور کےایک انسان کے اپنے علمی فہم پے چھوڑ دیا جائے جس پے کل انسانیت کی ابدی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور مختلف ادوار کے حساب سے مختلف کردیا جائے ؟؟؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں دین دین فطرت ہے اسی لئے الله نے اس کا اختیار بھی صرف ایک ہی کو دیا یعنی اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو تاکہ تاقیامت یہ ایک ہی قانون کی طرح ایک ہی دئیے گئے فہم پے رائج رہے اور یہ بات فطرت کہ تقاضوں کہ عین مطابق بھی ہے اور اسی طرح آج تک چلا آرہا ہے بلا کسی انقطاع و تواتر کے ساتھ بلفرض محال منکرین کا دیا گیا کلیہ اپنایا جائے تو سوچئے ہر کسی انسان کا اپنی عقل کی مناسبّت سے علمی فہم مختلف ہے اسلئے دینی فہم بھی ہر شخص کا فطری طور پے مختلف ہی ہوگا اور زمانے کے بدلاؤ کے ساتھ بدلتا ہی رہیگا تو اس اصول کی مناسبت سے قیامت تک دین اسلام کس شکل میں پوہچ جائیگا ،یعنی دین دین نہیں رہیگا بلکہ ایک مذاق بن کر صرف ادوار کے علمی اشخاص کا محتاج ہوجائیگا ،آج امت صرف فروعات میں الجھی ہے جب کہ فہم رسول پر ایک ہے ،کسی نے بھی فہم رسول کو انکار نہیں کیا اور پھر انسانوں کی جنّت دوزخ اور ابدی بقاء کا معاملہ کیسے کسی غیر رسول جو صاحب وحی تک نہ ہو کے سپرد کیا جسکتا ہے ؟؟؟؟؟یہ بھی محال ہے ،اسی لئے الله نے نہ صرف اس دینی فہم و احکامات کو اسی طرح پوھچانے کا ذمہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جس طرح الله نے بیان بلکہ تا قیامت اسی رسول کی اتباع کو ان احکامات دین کے معاملے ہر مسلم و مومن پر فرض کردیا یعنی جس طرح الله کے رسول نے دیا اسی طرح رائج کرنے کہ بھی حکم دیا الله اور اس کے رسول کی اطاعت کو قرآن مجید میں بیان فرما کر ،اور پھر فرما دیا کہ اگر کبھی کسی دور میں اختلاف دیکھو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اسے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ رسول سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں کیوں وہاں امراء کا الگ سے ذکر ہے اور رسول کی طرف لوٹانے کا الگ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول کو ہی اختیار ہے بس ،،اگر رسول سے مراد مرکز ملت ہوتی تو آیت مذکورہ میں خلیفۂ یا امراء کو منفرد نہیں کیا جاتا رسول سے ،، قرآن مجید ایک علم کا سمندر ہے اور عقل والوں کہ لئے نشانیاں بھی ہیں اسلئے علمی فہم جو چاہے لے سکتا ہے .لیکن دینی امور میں تفصیل ،تشریح ،تفسیر صرف اور صرف رسول الله کا اختیار ہے اس میں کوئی ثانی و شریک نہی ہوسکتا ،اسلئے علمی فھم قرآن کو جواز بنا کر ،احکامات و دین کے معاملے میں رسول الله کو حجت و تاقیامت نہ ماننا عقل و شریعت دونوں کے ہی خلاف ہے اسلئے یہ اعتراض علمی فہم قرآن کا جواز ہی کلعدم ہوا یہ ہے منکرین حدیث کی علمیت کی انتہاء، اسی لئے ہم اس خودساختہ جواز کو رد کرتے ہیں جسکی کوئی علمی عقلی دلیل ہی نہیں اور بقول منکرین حدیث اصولی احکامات میں وہ مفہوم قرآن جو رسول الله نے ہمیں دیا یعنی "حدیث رسول " کو من و عن تسلیم کرتے ہیں الحمدللہ .
.خلاصہ یہ کہ علمی باب میں توکسی بھی شخص کا فہم قرآن کسی بھی دور کے دوسرے انسان کے لئے حجت نہیں جیسا اپر ثابت کیا مگر دینی و احکامی باب میں صرف اور صرف رسول الله صلی الہ علیہ وسلم کا ہی فہم ہر دور کے انسان کے لئے ہی حجت حرف آخر و سند ہے الحمدللہ
(2)
،اگر اعتراض یہ کہ مفہوم قرآن(حدیث) امت کو رسول نے مرتب کرکے نہیں دیا تو پھر قرآن مجید بھی اس سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ آپ نے قرآن مجید بھی خود مرتب نہیں کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ذمہ الله کا ہے تو حدیث پے بھی یہ بات ازروئے قرآن مجید "اتباع رسول " لازم آتی ہے ،اور یہ کہا جائے کہ قران یاد کروایا تو احادیث کہ لئے بھی ایسے ثبوت ہیں جس میں باقاعدہ الله کے رسول نے خود کہا لکھو ،آگے پوھچاؤ ،وغیرہ اگر قران مجید تواتر میں پوھچا تو کیا امر معنی ہے کہ حدیث ایسے نہیں پوھنچ سکتی ؟؟؟؟ .یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی قرآن مجید پے بھی ہوگا ....اور جو اس سلسلے صحیح الا لسناد ہم تک پوھچا الحمدللہ وہ ہی در حقیقت مفہوم قرآن ہے،
دوسرا اور آخری حصہ اگلی تحریر میں ان شاء الله ،
سیف علی
پرویز احمد کی نظر میں "
گزشتہ دنوں پرویز احمد کی کتاب "مقام حدیث " دیکھنے میں آئی .پڑھ کر تعجب اس بات کا ہوا کہ دعوی ٰقرآن کا لیکن مطالعہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کا بھی سرسری ہی لگا ،کتاب میں کئے گئے اعتراضات اس قسم کے سطحی ہیں کہ کوئی بھی عامی جو ذرا سا بھی فہم قران مجید رکھنے والاہو با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اعتراضات کی بنیاد صرف بغض حدیث ہے نہ کہ کوئی علمی .اہل قرآن کا دعویٰ بظاھر تو قرانی علم و تحقیق پے منحصر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی قران کا علم رکھنے والا بخوبی واقف ہوتا ہے کہ جو اعتراضات حدیث پے اٹھائے جاتے ہیں ،یعنی کبھی ،عقل کی کسوٹی پے رد کرنا کبھی تجربہ کی بنیاد پر،،کبھی مشاہد کو جواز بنا کر اور کبھی ، خود ساختہ ترجمہ کر کے قرآن مجید سے متصادم کر کے اور ان تمام کی بنیاد صرف لاعلمی ،جاہلیت اور قرآن مجید سے استہزاء ہے ، اگر معیار یہ ہی ہیں تو ان معیارات کو قران مجید پر رکھیں تو یہ ہی اعتراضات قرآن مجید پے بھی لازم آتے ہیں ،تو پھر کیا بات ما نع ہے کہ اعتراضات صرف حدیث پے کیوں ؟؟
مذکورہ کتاب میں جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ سارے وہ تمام وہ ہی دہرائے گئے موضوعات یعنی حدیث وحی نہیں ،مرکز ملت ،کتابت حدیث پر اعتراض ،صرف قرآن ہی کافی ہے ،اور حدیث قرآن سے متصادم ہیں وغیرہ ہیں جن پر علمائے اسلام دندان شکن جوابات دے چکے ہیں اور الحمدللہ میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق لکھ چکا چکا ہوں ، مگر یہ منکرین حدیث کسی صورت حق کو سمجھنے والے نہیں اور بار بار اپنے اعتراضات دہرا کر ہٹ دھرمی کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ،الله ان لوگوں کو ہدایت دے -
قطع نظر کتاب کے دیگر اعتراضات کتاب کا "حرف آخر نبوت و رسالت " (فوٹو منسلک) غور طلب ہے، جو در حقیقت خلاصہ کتاب اور منکرین حدیث کے عقیدے کی اساس بھی ہے. اسلئے اس خلاصے کا علمی و عقلی محاسبہ ہی رد کتاب و منکرین کی باطل عقیدے کہ لئے کافی ہے، طوالت کے پیش نذر اس عقیدے کے جوابات کو دو حصوں میں تحریر کیا جائیگا ان شاء الله
ملاحظہ ہو پہلا حصہ :
(1) :
"قران علمی لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کے حساب سے اپنے علم کھولتا رہتا ہے ، اور ہر دور میں چوں کہ علم ترقی کررہا ہے تو کسی شخص کاعلمی فہم قرآن کسی دوسرے کے لئے دائمی نہیں ہوسکتا نہ ہی اپنے دور کے شخص کے لئے اور نہ ہی آنے والے کہ لئے حجت یا سند ہوسکتا ہے "
جواب :
بیشک قرآن مجید تمام علوم کی بنیاد ہے ،یعنی قران مجید علم کا منبع ہے ،ہمارا ایمان یہ ہے کہ اب تک ہونے والی تمام تر انسانی و علمی ترقیاں در حقیقت قران مجید کے علمی فہم سے آشنائی کی ہی بدولت ہیں ، جیسے بیش بہا آیات ایسی ہیں جس میں آج ہونے والی اس تحقیق کا اشارہ ،فہم یا نشانی کو چودہ سو سال پہلے الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ،
اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات ایسی بھی ہیں جیسے "ساتھ زمینون کا ذکر "وغیرہ جن کو علمی نظر سے دیکھا جائے تو تحقیق کے دروازے کھل سکتے ہی یا یوں کہیں کہ علم نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ انکی تحقیق و تسخیر کا باعث ہو، ہاں ممکنات میں سے ہے کہ وقت اور علمی ترقی کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسا ہونا کچھ مافوق العقل نہیں .جسے پچھلے زمانوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے کچھ عشروں پہلے تک دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک آواز،شکل ، اور خود کا نمودار ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا .لیکن اب ایسا ہونا عام سی بات ہےیعنی ہم چاہے دنیا کہ کسی کونے میں بھی ہوں اپنے گھر والوں ،احباب ،دوستوں سے وہیں بیٹھے بیٹھے نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں براہ راست، اسی طرح انسان کا ہوا میں اڑنانا گزیر تھا لیکن یہ بھی اب کوئی بات نہیں .. یہ ہے وقت کے ساتھ علمی ترقی .اور اس علمی فہم کو کسی پر بھی مسلط اور حجت نہیں بنایا جسکتا .
، اسی طرح کسی کا بھی فہم قرآن چاہے کتنا ہہی علمی کیوں نہ ہو کسی دوسرے کہ لئے ،حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس علمی فہم کو کسی پے مسلط کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہر دور ہر زمانے کا علمی معیار و علمی سطح الگ ہے ،اور ہر شخص کا فہم اپنی علمیت اور عقل کی مناسبت سے مختلف ہے ،جیسے ایک غیر مسلم سائنس دان اگر قرآن مجید کو پڑھ کر کسی چیز کو مسخر کرتا ہے ،یا کوئی تحقیق کرتا ہے یا کچھ ایجاد کرتا ہے جس کا اشارہ اس نے قرآن مجید سے لیا ہو تو یہ اس شخص کا علمی فہم جو در حقیقت قرآن مجید کا ہی علمی فہم کہلاییگا ،کیا اس کا یہ علمی فہم ہم پر حجت ہوجائیگا ؟؟ کیا اسکو اختیار مل جائیگا کہ وہ دینی احکامات کو بھی متعین کر سکے ؟؟ اگرچہ اسکی اس علمی فہم کو دنیا بھی سراہتی ہو اور تحقیق میں بھی ثابت کیا ہو ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ،کیوں کہ اسکا علمی فہم اس کہ اپنے دور کہ لئے تو ہوسکتا ہے مگر وہ بھی کسی دوسرے کہ لئے حجت نہیں اور آنے والوں کہ لئے تو قطعا نہیں ،
کسی انسان کے قرآن کا علمی فہم ہمارے لئے کسی طور حجت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات انسانی عقل تسلیم کرسکتی کہ کسی کی علمی سطح یا معیار کو کسی دوسرے کہ لئے لازم و حرف آخربنا دیا جائے کیوں کہ ہر دور کے لوگ اور علمی معیارات مختلف ہوتے ہیں یہ تو بات تھی قرآن مجید کا علمی فہم جو یقیناً کسی بھی شخص کا مختلف ہوسکتا ہے اور وہ کسی دوسرے کہ لئے حجت بھی نہیں ،لیکن قرآن مجید علم کے منبع ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کل انسانیت بھی ہے اور اس کا ایک دینی فہم بھی یعنی وہ احکامات جو کل انسانیت کی فلاح کا راستہ ہیں اور وہ ہر انسان کی ابدی زندگی یعنی جنت دوزخ کا فیصلہ کریں گے جو ہر دور کے انسانوں کہ لئے یکساں ہیں جس میں کسی بھی دور میں کسی بھی قسم کی رد و بدل و تبدیلی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ الله نے فرمادیا اسی قرآن میں کہ "دین مکمل ہوگیا" اب قران مجید کے تمام دینی احکامات پر عمل ہر دور کہ انسانوں کہ لئے لازم و سر چشمہ ہدایت ہے کیوں کہ یہ کتاب کسی دور کہ لئے نہیں بلکہ کل انسانیت کہ لئے تاقیامت نازل کی گئی ہے ،اور اس قرآن مجید میں کسی دور کی تخصیص نہیں اور نہ ہی کسی انسان کو ان احکامات میں رد و بدل کا اختیار دیا سوائے رسول کے ،یہ وہ دینی احکامات ہیں جو کل انسانیت کہ لئےلازم و ملظوم ہیں اور یہ احکامات اتمام قران سے قیامت تک آنے والے ہر انسان کہ لئے فلاح کا پیغام ہیں ،تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دینی احکامات و مفہوم کو ہر دور کےایک انسان کے اپنے علمی فہم پے چھوڑ دیا جائے جس پے کل انسانیت کی ابدی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور مختلف ادوار کے حساب سے مختلف کردیا جائے ؟؟؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں دین دین فطرت ہے اسی لئے الله نے اس کا اختیار بھی صرف ایک ہی کو دیا یعنی اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو تاکہ تاقیامت یہ ایک ہی قانون کی طرح ایک ہی دئیے گئے فہم پے رائج رہے اور یہ بات فطرت کہ تقاضوں کہ عین مطابق بھی ہے اور اسی طرح آج تک چلا آرہا ہے بلا کسی انقطاع و تواتر کے ساتھ بلفرض محال منکرین کا دیا گیا کلیہ اپنایا جائے تو سوچئے ہر کسی انسان کا اپنی عقل کی مناسبّت سے علمی فہم مختلف ہے اسلئے دینی فہم بھی ہر شخص کا فطری طور پے مختلف ہی ہوگا اور زمانے کے بدلاؤ کے ساتھ بدلتا ہی رہیگا تو اس اصول کی مناسبت سے قیامت تک دین اسلام کس شکل میں پوہچ جائیگا ،یعنی دین دین نہیں رہیگا بلکہ ایک مذاق بن کر صرف ادوار کے علمی اشخاص کا محتاج ہوجائیگا ،آج امت صرف فروعات میں الجھی ہے جب کہ فہم رسول پر ایک ہے ،کسی نے بھی فہم رسول کو انکار نہیں کیا اور پھر انسانوں کی جنّت دوزخ اور ابدی بقاء کا معاملہ کیسے کسی غیر رسول جو صاحب وحی تک نہ ہو کے سپرد کیا جسکتا ہے ؟؟؟؟؟یہ بھی محال ہے ،اسی لئے الله نے نہ صرف اس دینی فہم و احکامات کو اسی طرح پوھچانے کا ذمہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جس طرح الله نے بیان بلکہ تا قیامت اسی رسول کی اتباع کو ان احکامات دین کے معاملے ہر مسلم و مومن پر فرض کردیا یعنی جس طرح الله کے رسول نے دیا اسی طرح رائج کرنے کہ بھی حکم دیا الله اور اس کے رسول کی اطاعت کو قرآن مجید میں بیان فرما کر ،اور پھر فرما دیا کہ اگر کبھی کسی دور میں اختلاف دیکھو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اسے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ رسول سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں کیوں وہاں امراء کا الگ سے ذکر ہے اور رسول کی طرف لوٹانے کا الگ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول کو ہی اختیار ہے بس ،،اگر رسول سے مراد مرکز ملت ہوتی تو آیت مذکورہ میں خلیفۂ یا امراء کو منفرد نہیں کیا جاتا رسول سے ،، قرآن مجید ایک علم کا سمندر ہے اور عقل والوں کہ لئے نشانیاں بھی ہیں اسلئے علمی فہم جو چاہے لے سکتا ہے .لیکن دینی امور میں تفصیل ،تشریح ،تفسیر صرف اور صرف رسول الله کا اختیار ہے اس میں کوئی ثانی و شریک نہی ہوسکتا ،اسلئے علمی فھم قرآن کو جواز بنا کر ،احکامات و دین کے معاملے میں رسول الله کو حجت و تاقیامت نہ ماننا عقل و شریعت دونوں کے ہی خلاف ہے اسلئے یہ اعتراض علمی فہم قرآن کا جواز ہی کلعدم ہوا یہ ہے منکرین حدیث کی علمیت کی انتہاء، اسی لئے ہم اس خودساختہ جواز کو رد کرتے ہیں جسکی کوئی علمی عقلی دلیل ہی نہیں اور بقول منکرین حدیث اصولی احکامات میں وہ مفہوم قرآن جو رسول الله نے ہمیں دیا یعنی "حدیث رسول " کو من و عن تسلیم کرتے ہیں الحمدللہ .
.خلاصہ یہ کہ علمی باب میں توکسی بھی شخص کا فہم قرآن کسی بھی دور کے دوسرے انسان کے لئے حجت نہیں جیسا اپر ثابت کیا مگر دینی و احکامی باب میں صرف اور صرف رسول الله صلی الہ علیہ وسلم کا ہی فہم ہر دور کے انسان کے لئے ہی حجت حرف آخر و سند ہے الحمدللہ
(2)
،اگر اعتراض یہ کہ مفہوم قرآن(حدیث) امت کو رسول نے مرتب کرکے نہیں دیا تو پھر قرآن مجید بھی اس سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ آپ نے قرآن مجید بھی خود مرتب نہیں کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ذمہ الله کا ہے تو حدیث پے بھی یہ بات ازروئے قرآن مجید "اتباع رسول " لازم آتی ہے ،اور یہ کہا جائے کہ قران یاد کروایا تو احادیث کہ لئے بھی ایسے ثبوت ہیں جس میں باقاعدہ الله کے رسول نے خود کہا لکھو ،آگے پوھچاؤ ،وغیرہ اگر قران مجید تواتر میں پوھچا تو کیا امر معنی ہے کہ حدیث ایسے نہیں پوھنچ سکتی ؟؟؟؟ .یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی قرآن مجید پے بھی ہوگا ....اور جو اس سلسلے صحیح الا لسناد ہم تک پوھچا الحمدللہ وہ ہی در حقیقت مفہوم قرآن ہے،
دوسرا اور آخری حصہ اگلی تحریر میں ان شاء الله ،
سیف علی
#فتنہ_انکار_حدیث
"نبوت و رسالت
بسم الله الرحمٰن الرحیم
#فتنہ_انکار_حدیث
"نبوت و رسالت پرویز احمد کی نظر میں "
گزشتہ دنوں پرویز احمد کی کتاب "مقام حدیث " دیکھنے میں آئی .پڑھ کر تعجب اس بات کا ہوا کہ دعوی ٰقرآن کا لیکن مطالعہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کا بھی سرسری ہی لگا ،کتاب میں کئے گئے اعتراضات اس قسم کے سطحی ہیں کہ کوئی بھی عامی جو ذرا سا بھی فہم قران مجید رکھنے والاہو با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اعتراضات کی بنیاد صرف بغض حدیث ہے نہ کہ کوئی علمی .اہل قرآن کا دعویٰ بظاھر تو قرانی علم و تحقیق پے منحصر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی قران کا علم رکھنے والا بخوبی واقف ہوتا ہے کہ جو اعتراضات حدیث پے اٹھائے جاتے ہیں ،یعنی کبھی ،عقل کی کسوٹی پے رد کرنا کبھی تجربہ کی بنیاد پر،،کبھی مشاہد کو جواز بنا کر اور کبھی ، خود ساختہ ترجمہ کر کے قرآن مجید سے متصادم کر کے اور ان تمام کی بنیاد صرف لاعلمی ،جاہلیت اور قرآن مجید سے استہزاء ہے ، اگر معیار یہ ہی ہیں تو ان معیارات کو قران مجید پر رکھیں تو یہ ہی اعتراضات قرآن مجید پے بھی لازم آتے ہیں ،تو پھر کیا بات ما نع ہے کہ اعتراضات صرف حدیث پے کیوں ؟؟
مذکورہ کتاب میں جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ سارے وہ تمام وہ ہی دہرائے گئے موضوعات یعنی حدیث وحی نہیں ،مرکز ملت ،کتابت حدیث پر اعتراض ،صرف قرآن ہی کافی ہے ،اور حدیث قرآن سے متصادم ہیں وغیرہ ہیں جن پر علمائے اسلام دندان شکن جوابات دے چکے ہیں اور الحمدللہ میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق لکھ چکا چکا ہوں ، مگر یہ منکرین حدیث کسی صورت حق کو سمجھنے والے نہیں اور بار بار اپنے اعتراضات دہرا کر ہٹ دھرمی کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ،الله ان لوگوں کو ہدایت دے -
قطع نظر کتاب کے دیگر اعتراضات کتاب کا "حرف آخر نبوت و رسالت " (فوٹو منسلک) غور طلب ہے، جو در حقیقت خلاصہ کتاب اور منکرین حدیث کے عقیدے کی اساس بھی ہے. اسلئے اس خلاصے کا علمی و عقلی محاسبہ ہی رد کتاب و منکرین کی باطل عقیدے کہ لئے کافی ہے، طوالت کے پیش نذر اس عقیدے کے جوابات کو دو حصوں میں تحریر کیا جائیگا ان شاء الله
ملاحظہ ہو پہلا حصہ :
(1) :
"قران علمی لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کے حساب سے اپنے علم کھولتا رہتا ہے ، اور ہر دور میں چوں کہ علم ترقی کررہا ہے تو کسی شخص کاعلمی فہم قرآن کسی دوسرے کے لئے دائمی نہیں ہوسکتا نہ ہی اپنے دور کے شخص کے لئے اور نہ ہی آنے والے کہ لئے حجت یا سند ہوسکتا ہے "
جواب :
بیشک قرآن مجید تمام علوم کی بنیاد ہے ،یعنی قران مجید علم کا منبع ہے ،ہمارا ایمان یہ ہے کہ اب تک ہونے والی تمام تر انسانی و علمی ترقیاں در حقیقت قران مجید کے علمی فہم سے آشنائی کی ہی بدولت ہیں ، جیسے بیش بہا آیات ایسی ہیں جس میں آج ہونے والی اس تحقیق کا اشارہ ،فہم یا نشانی کو چودہ سو سال پہلے الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ،
اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات ایسی بھی ہیں جیسے "ساتھ زمینون کا ذکر "وغیرہ جن کو علمی نظر سے دیکھا جائے تو تحقیق کے دروازے کھل سکتے ہی یا یوں کہیں کہ علم نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ انکی تحقیق و تسخیر کا باعث ہو، ہاں ممکنات میں سے ہے کہ وقت اور علمی ترقی کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسا ہونا کچھ مافوق العقل نہیں .جسے پچھلے زمانوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے کچھ عشروں پہلے تک دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک آواز،شکل ، اور خود کا نمودار ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا .لیکن اب ایسا ہونا عام سی بات ہےیعنی ہم چاہے دنیا کہ کسی کونے میں بھی ہوں اپنے گھر والوں ،احباب ،دوستوں سے وہیں بیٹھے بیٹھے نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں براہ راست، اسی طرح انسان کا ہوا میں اڑنانا گزیر تھا لیکن یہ بھی اب کوئی بات نہیں .. یہ ہے وقت کے ساتھ علمی ترقی .اور اس علمی فہم کو کسی پر بھی مسلط اور حجت نہیں بنایا جسکتا .
، اسی طرح کسی کا بھی فہم قرآن چاہے کتنا ہہی علمی کیوں نہ ہو کسی دوسرے کہ لئے ،حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس علمی فہم کو کسی پے مسلط کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہر دور ہر زمانے کا علمی معیار و علمی سطح الگ ہے ،اور ہر شخص کا فہم اپنی علمیت اور عقل کی مناسبت سے مختلف ہے ،جیسے ایک غیر مسلم سائنس دان اگر قرآن مجید کو پڑھ کر کسی چیز کو مسخر کرتا ہے ،یا کوئی تحقیق کرتا ہے یا کچھ ایجاد کرتا ہے جس کا اشارہ اس نے قرآن مجید سے لیا ہو تو یہ اس شخص کا علمی فہم جو در حقیقت قرآن مجید کا ہی علمی فہم کہلاییگا ،کیا اس کا یہ علمی فہم ہم پر حجت ہوجائیگا ؟؟ کیا اسکو اختیار مل جائیگا کہ وہ دینی احکامات کو بھی متعین کر سکے ؟؟ اگرچہ اسکی اس علمی فہم کو دنیا بھی سراہتی ہو اور تحقیق میں بھی ثابت کیا ہو ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ،کیوں کہ اسکا علمی فہم اس کہ اپنے دور کہ لئے تو ہوسکتا ہے مگر وہ بھی کسی دوسرے کہ لئے حجت نہیں اور آنے والوں کہ لئے تو قطعا نہیں ،
کسی انسان کے قرآن کا علمی فہم ہمارے لئے کسی طور حجت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات انسانی عقل تسلیم کرسکتی کہ کسی کی علمی سطح یا معیار کو کسی دوسرے کہ لئے لازم و حرف آخربنا دیا جائے کیوں کہ ہر دور کے لوگ اور علمی معیارات مختلف ہوتے ہیں یہ تو بات تھی قرآن مجید کا علمی فہم جو یقیناً کسی بھی شخص کا مختلف ہوسکتا ہے اور وہ کسی دوسرے کہ لئے حجت بھی نہیں ،لیکن قرآن مجید علم کے منبع ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کل انسانیت بھی ہے اور اس کا ایک دینی فہم بھی یعنی وہ احکامات جو کل انسانیت کی فلاح کا راستہ ہیں اور وہ ہر انسان کی ابدی زندگی یعنی جنت دوزخ کا فیصلہ کریں گے جو ہر دور کے انسانوں کہ لئے یکساں ہیں جس میں کسی بھی دور میں کسی بھی قسم کی رد و بدل و تبدیلی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ الله نے فرمادیا اسی قرآن میں کہ "دین مکمل ہوگیا" اب قران مجید کے تمام دینی احکامات پر عمل ہر دور کہ انسانوں کہ لئے لازم و سر چشمہ ہدایت ہے کیوں کہ یہ کتاب کسی دور کہ لئے نہیں بلکہ کل انسانیت کہ لئے تاقیامت نازل کی گئی ہے ،اور اس قرآن مجید میں کسی دور کی تخصیص نہیں اور نہ ہی کسی انسان کو ان احکامات میں رد و بدل کا اختیار دیا سوائے رسول کے ،یہ وہ دینی احکامات ہیں جو کل انسانیت کہ لئےلازم و ملظوم ہیں اور یہ احکامات اتمام قران سے قیامت تک آنے والے ہر انسان کہ لئے فلاح کا پیغام ہیں ،تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دینی احکامات و مفہوم کو ہر دور کےایک انسان کے اپنے علمی فہم پے چھوڑ دیا جائے جس پے کل انسانیت کی ابدی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور مختلف ادوار کے حساب سے مختلف کردیا جائے ؟؟؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں دین دین فطرت ہے اسی لئے الله نے اس کا اختیار بھی صرف ایک ہی کو دیا یعنی اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو تاکہ تاقیامت یہ ایک ہی قانون کی طرح ایک ہی دئیے گئے فہم پے رائج رہے اور یہ بات فطرت کہ تقاضوں کہ عین مطابق بھی ہے اور اسی طرح آج تک چلا آرہا ہے بلا کسی انقطاع و تواتر کے ساتھ بلفرض محال منکرین کا دیا گیا کلیہ اپنایا جائے تو سوچئے ہر کسی انسان کا اپنی عقل کی مناسبّت سے علمی فہم مختلف ہے اسلئے دینی فہم بھی ہر شخص کا فطری طور پے مختلف ہی ہوگا اور زمانے کے بدلاؤ کے ساتھ بدلتا ہی رہیگا تو اس اصول کی مناسبت سے قیامت تک دین اسلام کس شکل میں پوہچ جائیگا ،یعنی دین دین نہیں رہیگا بلکہ ایک مذاق بن کر صرف ادوار کے علمی اشخاص کا محتاج ہوجائیگا ،آج امت صرف فروعات میں الجھی ہے جب کہ فہم رسول پر ایک ہے ،کسی نے بھی فہم رسول کو انکار نہیں کیا اور پھر انسانوں کی جنّت دوزخ اور ابدی بقاء کا معاملہ کیسے کسی غیر رسول جو صاحب وحی تک نہ ہو کے سپرد کیا جسکتا ہے ؟؟؟؟؟یہ بھی محال ہے ،اسی لئے الله نے نہ صرف اس دینی فہم و احکامات کو اسی طرح پوھچانے کا ذمہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جس طرح الله نے بیان بلکہ تا قیامت اسی رسول کی اتباع کو ان احکامات دین کے معاملے ہر مسلم و مومن پر فرض کردیا یعنی جس طرح الله کے رسول نے دیا اسی طرح رائج کرنے کہ بھی حکم دیا الله اور اس کے رسول کی اطاعت کو قرآن مجید میں بیان فرما کر ،اور پھر فرما دیا کہ اگر کبھی کسی دور میں اختلاف دیکھو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اسے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ رسول سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں کیوں وہاں امراء کا الگ سے ذکر ہے اور رسول کی طرف لوٹانے کا الگ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول کو ہی اختیار ہے بس ،،اگر رسول سے مراد مرکز ملت ہوتی تو آیت مذکورہ میں خلیفۂ یا امراء کو منفرد نہیں کیا جاتا رسول سے ،، قرآن مجید ایک علم کا سمندر ہے اور عقل والوں کہ لئے نشانیاں بھی ہیں اسلئے علمی فہم جو چاہے لے سکتا ہے .لیکن دینی امور میں تفصیل ،تشریح ،تفسیر صرف اور صرف رسول الله کا اختیار ہے اس میں کوئی ثانی و شریک نہی ہوسکتا ،اسلئے علمی فھم قرآن کو جواز بنا کر ،احکامات و دین کے معاملے میں رسول الله کو حجت و تاقیامت نہ ماننا عقل و شریعت دونوں کے ہی خلاف ہے اسلئے یہ اعتراض علمی فہم قرآن کا جواز ہی کلعدم ہوا یہ ہے منکرین حدیث کی علمیت کی انتہاء، اسی لئے ہم اس خودساختہ جواز کو رد کرتے ہیں جسکی کوئی علمی عقلی دلیل ہی نہیں اور بقول منکرین حدیث اصولی احکامات میں وہ مفہوم قرآن جو رسول الله نے ہمیں دیا یعنی "حدیث رسول " کو من و عن تسلیم کرتے ہیں الحمدللہ .
.خلاصہ یہ کہ علمی باب میں توکسی بھی شخص کا فہم قرآن کسی بھی دور کے دوسرے انسان کے لئے حجت نہیں جیسا اپر ثابت کیا مگر دینی و احکامی باب میں صرف اور صرف رسول الله صلی الہ علیہ وسلم کا ہی فہم ہر دور کے انسان کے لئے ہی حجت حرف آخر و سند ہے الحمدللہ
(2)
،اگر اعتراض یہ کہ مفہوم قرآن(حدیث) امت کو رسول نے مرتب کرکے نہیں دیا تو پھر قرآن مجید بھی اس سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ آپ نے قرآن مجید بھی خود مرتب نہیں کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ذمہ الله کا ہے تو حدیث پے بھی یہ بات ازروئے قرآن مجید "اتباع رسول " لازم آتی ہے ،اور یہ کہا جائے کہ قران یاد کروایا تو احادیث کہ لئے بھی ایسے ثبوت ہیں جس میں باقاعدہ الله کے رسول نے خود کہا لکھو ،آگے پوھچاؤ ،وغیرہ اگر قران مجید تواتر میں پوھچا تو کیا امر معنی ہے کہ حدیث ایسے نہیں پوھنچ سکتی ؟؟؟؟ .یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی قرآن مجید پے بھی ہوگا ....اور جو اس سلسلے صحیح الا لسناد ہم تک پوھچا الحمدللہ وہ ہی در حقیقت مفہوم قرآن ہے،
دوسرا اور آخری حصہ اگلی تحریر میں ان شاء الله ،
سیف علی
پرویز احمد کی نظر میں "
گزشتہ دنوں پرویز احمد کی کتاب "مقام حدیث " دیکھنے میں آئی .پڑھ کر تعجب اس بات کا ہوا کہ دعوی ٰقرآن کا لیکن مطالعہ نہ صرف حدیث بلکہ قرآن کا بھی سرسری ہی لگا ،کتاب میں کئے گئے اعتراضات اس قسم کے سطحی ہیں کہ کوئی بھی عامی جو ذرا سا بھی فہم قران مجید رکھنے والاہو با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ اعتراضات کی بنیاد صرف بغض حدیث ہے نہ کہ کوئی علمی .اہل قرآن کا دعویٰ بظاھر تو قرانی علم و تحقیق پے منحصر ہوتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی قران کا علم رکھنے والا بخوبی واقف ہوتا ہے کہ جو اعتراضات حدیث پے اٹھائے جاتے ہیں ،یعنی کبھی ،عقل کی کسوٹی پے رد کرنا کبھی تجربہ کی بنیاد پر،،کبھی مشاہد کو جواز بنا کر اور کبھی ، خود ساختہ ترجمہ کر کے قرآن مجید سے متصادم کر کے اور ان تمام کی بنیاد صرف لاعلمی ،جاہلیت اور قرآن مجید سے استہزاء ہے ، اگر معیار یہ ہی ہیں تو ان معیارات کو قران مجید پر رکھیں تو یہ ہی اعتراضات قرآن مجید پے بھی لازم آتے ہیں ،تو پھر کیا بات ما نع ہے کہ اعتراضات صرف حدیث پے کیوں ؟؟
مذکورہ کتاب میں جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ سارے وہ تمام وہ ہی دہرائے گئے موضوعات یعنی حدیث وحی نہیں ،مرکز ملت ،کتابت حدیث پر اعتراض ،صرف قرآن ہی کافی ہے ،اور حدیث قرآن سے متصادم ہیں وغیرہ ہیں جن پر علمائے اسلام دندان شکن جوابات دے چکے ہیں اور الحمدللہ میں بھی اپنی استطاعت کے مطابق لکھ چکا چکا ہوں ، مگر یہ منکرین حدیث کسی صورت حق کو سمجھنے والے نہیں اور بار بار اپنے اعتراضات دہرا کر ہٹ دھرمی کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ،الله ان لوگوں کو ہدایت دے -
قطع نظر کتاب کے دیگر اعتراضات کتاب کا "حرف آخر نبوت و رسالت " (فوٹو منسلک) غور طلب ہے، جو در حقیقت خلاصہ کتاب اور منکرین حدیث کے عقیدے کی اساس بھی ہے. اسلئے اس خلاصے کا علمی و عقلی محاسبہ ہی رد کتاب و منکرین کی باطل عقیدے کہ لئے کافی ہے، طوالت کے پیش نذر اس عقیدے کے جوابات کو دو حصوں میں تحریر کیا جائیگا ان شاء الله
ملاحظہ ہو پہلا حصہ :
(1) :
"قران علمی لحاظ سے ایک ایسی کتاب ہے جو وقت کے حساب سے اپنے علم کھولتا رہتا ہے ، اور ہر دور میں چوں کہ علم ترقی کررہا ہے تو کسی شخص کاعلمی فہم قرآن کسی دوسرے کے لئے دائمی نہیں ہوسکتا نہ ہی اپنے دور کے شخص کے لئے اور نہ ہی آنے والے کہ لئے حجت یا سند ہوسکتا ہے "
جواب :
بیشک قرآن مجید تمام علوم کی بنیاد ہے ،یعنی قران مجید علم کا منبع ہے ،ہمارا ایمان یہ ہے کہ اب تک ہونے والی تمام تر انسانی و علمی ترقیاں در حقیقت قران مجید کے علمی فہم سے آشنائی کی ہی بدولت ہیں ، جیسے بیش بہا آیات ایسی ہیں جس میں آج ہونے والی اس تحقیق کا اشارہ ،فہم یا نشانی کو چودہ سو سال پہلے الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمادیا ،
اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات ایسی بھی ہیں جیسے "ساتھ زمینون کا ذکر "وغیرہ جن کو علمی نظر سے دیکھا جائے تو تحقیق کے دروازے کھل سکتے ہی یا یوں کہیں کہ علم نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی کہ انکی تحقیق و تسخیر کا باعث ہو، ہاں ممکنات میں سے ہے کہ وقت اور علمی ترقی کے ساتھ مستقبل قریب میں ایسا ہونا کچھ مافوق العقل نہیں .جسے پچھلے زمانوں سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے کچھ عشروں پہلے تک دنیا کہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک آواز،شکل ، اور خود کا نمودار ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا .لیکن اب ایسا ہونا عام سی بات ہےیعنی ہم چاہے دنیا کہ کسی کونے میں بھی ہوں اپنے گھر والوں ،احباب ،دوستوں سے وہیں بیٹھے بیٹھے نہ صرف بات کرسکتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں براہ راست، اسی طرح انسان کا ہوا میں اڑنانا گزیر تھا لیکن یہ بھی اب کوئی بات نہیں .. یہ ہے وقت کے ساتھ علمی ترقی .اور اس علمی فہم کو کسی پر بھی مسلط اور حجت نہیں بنایا جسکتا .
، اسی طرح کسی کا بھی فہم قرآن چاہے کتنا ہہی علمی کیوں نہ ہو کسی دوسرے کہ لئے ،حجت نہیں ہوسکتا اور نہ اس علمی فہم کو کسی پے مسلط کیا جاسکتا ہے کیوں کہ ہر دور ہر زمانے کا علمی معیار و علمی سطح الگ ہے ،اور ہر شخص کا فہم اپنی علمیت اور عقل کی مناسبت سے مختلف ہے ،جیسے ایک غیر مسلم سائنس دان اگر قرآن مجید کو پڑھ کر کسی چیز کو مسخر کرتا ہے ،یا کوئی تحقیق کرتا ہے یا کچھ ایجاد کرتا ہے جس کا اشارہ اس نے قرآن مجید سے لیا ہو تو یہ اس شخص کا علمی فہم جو در حقیقت قرآن مجید کا ہی علمی فہم کہلاییگا ،کیا اس کا یہ علمی فہم ہم پر حجت ہوجائیگا ؟؟ کیا اسکو اختیار مل جائیگا کہ وہ دینی احکامات کو بھی متعین کر سکے ؟؟ اگرچہ اسکی اس علمی فہم کو دنیا بھی سراہتی ہو اور تحقیق میں بھی ثابت کیا ہو ؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں ،کیوں کہ اسکا علمی فہم اس کہ اپنے دور کہ لئے تو ہوسکتا ہے مگر وہ بھی کسی دوسرے کہ لئے حجت نہیں اور آنے والوں کہ لئے تو قطعا نہیں ،
کسی انسان کے قرآن کا علمی فہم ہمارے لئے کسی طور حجت نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ بات انسانی عقل تسلیم کرسکتی کہ کسی کی علمی سطح یا معیار کو کسی دوسرے کہ لئے لازم و حرف آخربنا دیا جائے کیوں کہ ہر دور کے لوگ اور علمی معیارات مختلف ہوتے ہیں یہ تو بات تھی قرآن مجید کا علمی فہم جو یقیناً کسی بھی شخص کا مختلف ہوسکتا ہے اور وہ کسی دوسرے کہ لئے حجت بھی نہیں ،لیکن قرآن مجید علم کے منبع ہونے کے ساتھ ساتھ مشعل راہ کل انسانیت بھی ہے اور اس کا ایک دینی فہم بھی یعنی وہ احکامات جو کل انسانیت کی فلاح کا راستہ ہیں اور وہ ہر انسان کی ابدی زندگی یعنی جنت دوزخ کا فیصلہ کریں گے جو ہر دور کے انسانوں کہ لئے یکساں ہیں جس میں کسی بھی دور میں کسی بھی قسم کی رد و بدل و تبدیلی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ الله نے فرمادیا اسی قرآن میں کہ "دین مکمل ہوگیا" اب قران مجید کے تمام دینی احکامات پر عمل ہر دور کہ انسانوں کہ لئے لازم و سر چشمہ ہدایت ہے کیوں کہ یہ کتاب کسی دور کہ لئے نہیں بلکہ کل انسانیت کہ لئے تاقیامت نازل کی گئی ہے ،اور اس قرآن مجید میں کسی دور کی تخصیص نہیں اور نہ ہی کسی انسان کو ان احکامات میں رد و بدل کا اختیار دیا سوائے رسول کے ،یہ وہ دینی احکامات ہیں جو کل انسانیت کہ لئےلازم و ملظوم ہیں اور یہ احکامات اتمام قران سے قیامت تک آنے والے ہر انسان کہ لئے فلاح کا پیغام ہیں ،تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ان دینی احکامات و مفہوم کو ہر دور کےایک انسان کے اپنے علمی فہم پے چھوڑ دیا جائے جس پے کل انسانیت کی ابدی بقاء کا انحصار ہوتا ہے اور مختلف ادوار کے حساب سے مختلف کردیا جائے ؟؟؟؟؟ نہیں ہرگز نہیں دین دین فطرت ہے اسی لئے الله نے اس کا اختیار بھی صرف ایک ہی کو دیا یعنی اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو تاکہ تاقیامت یہ ایک ہی قانون کی طرح ایک ہی دئیے گئے فہم پے رائج رہے اور یہ بات فطرت کہ تقاضوں کہ عین مطابق بھی ہے اور اسی طرح آج تک چلا آرہا ہے بلا کسی انقطاع و تواتر کے ساتھ بلفرض محال منکرین کا دیا گیا کلیہ اپنایا جائے تو سوچئے ہر کسی انسان کا اپنی عقل کی مناسبّت سے علمی فہم مختلف ہے اسلئے دینی فہم بھی ہر شخص کا فطری طور پے مختلف ہی ہوگا اور زمانے کے بدلاؤ کے ساتھ بدلتا ہی رہیگا تو اس اصول کی مناسبت سے قیامت تک دین اسلام کس شکل میں پوہچ جائیگا ،یعنی دین دین نہیں رہیگا بلکہ ایک مذاق بن کر صرف ادوار کے علمی اشخاص کا محتاج ہوجائیگا ،آج امت صرف فروعات میں الجھی ہے جب کہ فہم رسول پر ایک ہے ،کسی نے بھی فہم رسول کو انکار نہیں کیا اور پھر انسانوں کی جنّت دوزخ اور ابدی بقاء کا معاملہ کیسے کسی غیر رسول جو صاحب وحی تک نہ ہو کے سپرد کیا جسکتا ہے ؟؟؟؟؟یہ بھی محال ہے ،اسی لئے الله نے نہ صرف اس دینی فہم و احکامات کو اسی طرح پوھچانے کا ذمہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جس طرح الله نے بیان بلکہ تا قیامت اسی رسول کی اتباع کو ان احکامات دین کے معاملے ہر مسلم و مومن پر فرض کردیا یعنی جس طرح الله کے رسول نے دیا اسی طرح رائج کرنے کہ بھی حکم دیا الله اور اس کے رسول کی اطاعت کو قرآن مجید میں بیان فرما کر ،اور پھر فرما دیا کہ اگر کبھی کسی دور میں اختلاف دیکھو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اسے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ رسول سے مراد آپ صلی الله علیہ وسلم ہی ہیں کیوں وہاں امراء کا الگ سے ذکر ہے اور رسول کی طرف لوٹانے کا الگ جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول کو ہی اختیار ہے بس ،،اگر رسول سے مراد مرکز ملت ہوتی تو آیت مذکورہ میں خلیفۂ یا امراء کو منفرد نہیں کیا جاتا رسول سے ،، قرآن مجید ایک علم کا سمندر ہے اور عقل والوں کہ لئے نشانیاں بھی ہیں اسلئے علمی فہم جو چاہے لے سکتا ہے .لیکن دینی امور میں تفصیل ،تشریح ،تفسیر صرف اور صرف رسول الله کا اختیار ہے اس میں کوئی ثانی و شریک نہی ہوسکتا ،اسلئے علمی فھم قرآن کو جواز بنا کر ،احکامات و دین کے معاملے میں رسول الله کو حجت و تاقیامت نہ ماننا عقل و شریعت دونوں کے ہی خلاف ہے اسلئے یہ اعتراض علمی فہم قرآن کا جواز ہی کلعدم ہوا یہ ہے منکرین حدیث کی علمیت کی انتہاء، اسی لئے ہم اس خودساختہ جواز کو رد کرتے ہیں جسکی کوئی علمی عقلی دلیل ہی نہیں اور بقول منکرین حدیث اصولی احکامات میں وہ مفہوم قرآن جو رسول الله نے ہمیں دیا یعنی "حدیث رسول " کو من و عن تسلیم کرتے ہیں الحمدللہ .
.خلاصہ یہ کہ علمی باب میں توکسی بھی شخص کا فہم قرآن کسی بھی دور کے دوسرے انسان کے لئے حجت نہیں جیسا اپر ثابت کیا مگر دینی و احکامی باب میں صرف اور صرف رسول الله صلی الہ علیہ وسلم کا ہی فہم ہر دور کے انسان کے لئے ہی حجت حرف آخر و سند ہے الحمدللہ
(2)
،اگر اعتراض یہ کہ مفہوم قرآن(حدیث) امت کو رسول نے مرتب کرکے نہیں دیا تو پھر قرآن مجید بھی اس سے نہیں بچ سکتا کیوں کہ آپ نے قرآن مجید بھی خود مرتب نہیں کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید کا ذمہ الله کا ہے تو حدیث پے بھی یہ بات ازروئے قرآن مجید "اتباع رسول " لازم آتی ہے ،اور یہ کہا جائے کہ قران یاد کروایا تو احادیث کہ لئے بھی ایسے ثبوت ہیں جس میں باقاعدہ الله کے رسول نے خود کہا لکھو ،آگے پوھچاؤ ،وغیرہ اگر قران مجید تواتر میں پوھچا تو کیا امر معنی ہے کہ حدیث ایسے نہیں پوھنچ سکتی ؟؟؟؟ .یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی قرآن مجید پے بھی ہوگا ....اور جو اس سلسلے صحیح الا لسناد ہم تک پوھچا الحمدللہ وہ ہی در حقیقت مفہوم قرآن ہے،
دوسرا اور آخری حصہ اگلی تحریر میں ان شاء الله ،
سیف علی