• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبوت کی گواہی کے تقاضے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
513
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
نبوت کی گواہی کے تقاضے
بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اﷲ کتاب التوحید کی شرح میں فرماتے ہیں :

جس نے اشھدان محمدًا عبدہ ورسولہ کا اقرار کرلیا یعنی یقین اور دل کی سچائی کے ساتھ یہ گواہی دے دی کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے بندے اور رسول ہیں تو پھر اس اقرار اور گواہی کا تقاضا ہے کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کرے۔ اس کے امر اور نہی کو اہمیت دے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے معارض کسی شخص کا قول نہ اپنائے اس لیے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات میں خطاء کا امکان ہے جبکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ نے خطاء سے محفوظ رکھا ہے اور ہمیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت اپنانے کا حکم دیا ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت سے منع کیا ہے :

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ (احزاب: ۳۶)

’’ کسی مومن مرد یا عورت کے لئے جائز نہیں کہ جب اﷲ اور اس کا رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ کر دیں تو ان کا کوئی اختیار ہو‘‘۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور: ۶۳)

’’ان لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں کہ کہیں انہیں فتنہ یا دردناک عذاب نہ پہنچے‘‘۔

امام احمد رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کیا آپ جانتے ہیں کہ فتنہ کیا ہے؟ فتنہ شرک ہے کہ جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے کسی قول کو انسان رد کر دے گا تو ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں گمراہی اور کجی آجائے اور اس طرح وہ ہلاک ہوجائے (آج کل بہت سے لوگ صرف اس بناپر حق کو چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات کے خلاف ہوتا ہے ایسے لوگوں کو گمراہی اور ہلاکت سے ڈرنا چاہیے ) نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت میں لوگوں نے بہت کمی کردی ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان پر ان لوگوں کے اقوال کو مقدم کیا جارہا ہے جن سے خطا کا امکان ہے خصوصًا علماء سے بھی یہ غلطی ہو رہی ہے۔

(قرۃ عیون الموحدین : ۲۶)

شیخ سلیمان بن عبداﷲ رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

کہ ابن رجب رحمہ اﷲ نے کہا ہے کہ جو شخص اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے دل کی گہرائیوں سے محبت رکھتا ہے تو یہ محبت اس پر لازم کرتی ہے کہ وہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی پسندیدہ چیزوں کو اپنائے اور ان کے ناپسندیدہ کو ترک کردے جس بات سے اﷲ اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم راضی ہوں اس پر راضی رہیں اور اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناراضگی والی باتوں اور کاموں سے دور رہے اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی مرضی کے کام کرتا رہے۔ اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت کا یہی تقاضا ہے۔

اگر اس نے کوئی ایسا کام کیا جو اس کی محبت کے منافی تھا یعنی اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا ناپسندیدہ عمل کیا یا اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا پسندیدہ عمل ترک کیا تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ اس کے دل میں اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کم ہے لہٰذا اسے توبہ کرنی چاہیے اور اس محبت کی تکمیل کرنی چاہیے جو اس پر واجب اور لازم ہے تمام معصیات اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ انسان اپنی خواہشات کو اﷲ ورسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت پر مقدم رکھتا ہے اسی طرح بدعات پیدا ہونے کی بھی یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو شریعت پر مقدم رکھا جائے،

انسان پر یہ بھی لازم ہے کہ اگر وہ کسی شخص سے محبت کرتا ہے تو یہ محبت اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کے تابع ہونی چاہیے اس پر مقدم نہ ہوجس نے اﷲ کی خاطر محبت کی اور اسی کی خاطر نفرت کی۔ اسکی وجہ سے دیتا ہے اسی کی وجہ سے روکتا ہے تو اسی نے ایمان کی تکمیل کرلی۔ اور جس کی محبت ونفرت دینا نہ دینا صرف اپنی خواہش کی بناپر ہو تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے اس پر تو یہ لازم ہے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی شریعت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کو اپنی خواہش پر مقدم کرنا واجب ہے۔

(تیسیر العزیز الحمید: ۵۷۰،۵۶۹)

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :

لوگوں میں آج کل یہ عادت عام ہوگئی ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی وجہ سے حق کو ٹھکراتے ہیں۔ رائے کی بناپر حق کی مخالفت کرتے ہیں دراصل یہ ایمان و دین کے نقص کی علامت ہے۔

(مجموعہ رسائل والمسائل النجدیۃ: ۴/۲۹۴)
 
Top