saeedimranx2
رکن
- شمولیت
- مارچ 07، 2017
- پیغامات
- 178
- ری ایکشن اسکور
- 16
- پوائنٹ
- 71
معذرت کس وجہ سے؟؟؟
دلیل یہی ہے کہ عاصم جو اس حدیث میں ابو بکر کے استاد ہیں ان سے یہ روایت مرسلا بیان کی گئی ہے:دار قطنی نے بغیر کسی دلیل کے انقطاع کا کہا ہے۔ ابو بکر بن عیاش بخاری کے راوی ہیں۔ اگر ان سے اس روایت میں اختلاط ہوا ہے تو اس کی کوئی دلیل (مثلاً کسی اور مضبوط راوی نے ان کے شیخ سے یہ روایت منقطع ذکر کی ہو وغیرہ) ہونی چاہیے۔
ورنہ صرف اختلاط اور بھول تو بہت سے رواۃ کو ہوتی ہے۔ انہی کے ترجمے میں ابن حبانؒ فرماتے ہیں:
وكان يحيى القطان وعلي بن المديني يسيئان الرأي فيه وذلك أنه لما كبر سنه ساء حفظه فكان يهم إذا روى والخطأ والوهم شيئان لا ينفك عنهما البشر فلو كثر خطاءه حتى كان الغالب على صوابه لا يستحق مجانبة رواياته فأما عند الوهم يهم أو الخطأ يخطىء لا يستحق ترك حديثه بعد تقدم عدالته وصحة سماعه
(الثقات لابن حبان)
ابن حبان كو بے شك متساہل کہا گیا ہے لیکن یہ تو ایک عام فہم بات ہے جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے اور اس بات کا خیال نہ رکھنا تو بذات خود تشدد ہے۔
اس روایت کا مفہوم اہم تو ہے لیکن اس کا مفہوم محتمل قابل تاویل ہے۔ یعنی اس ميں جو حکم ہے "فدعوھا" کا یعنی "اس کو چھوڑ دو" اس کا مطلب اہل سنت کے نزدیک اس روایت کو مطلقاً چھوڑنا نہیں بلکہ تاویل کرنا ہے۔ال
السلام علیکم ! تمام افراد کا شکریہ کہ نہایت سنجیدگی سے اس موضوع پر انی معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔۔اللہ آپ سب کو صحت مند صاف ستھری زندگی عطا کرے۔امین
ایک عرض ہے کہ۔اس روایت کا مفہوم بہت اہم ہے اور اس کی صحت و عدم صحت کی بنیاد پر مزید بہت ساری روایات متاثر ہوتی ہیں۔۔اس کے جتنے بھی طرق موجود ہیں ان میں سے کوئی صحت کے بلند ترین درجے پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ روایت جمہور و اکابر محدثین و فقیہین نے استعمال کی ہے وگرنہ اس کا استعمال ان سب کے ہاں عام ہوتا۔۔
دلیل یہی ہے کہ عاصم جو اس حدیث میں ابو بکر کے استاد ہیں ان سے یہ روایت مرسلا بیان کی گئی ہے:
امام داراقطنی کے الفاظ ہیں: "هَذَا وَهْمٌ وَالصَّوَابُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، مُرْسَلا، عَنِ النَّبِيِّ"
یہی قول امام جورقانی کا بھی ہے۔
حافظ ابن حجر اور حافظ عراقی وغیرہ نے بھی دارقطنی کی موافقت کی ہے۔
جبارہ کا اس شذوذ سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ اعلم۔
یہ مرسل روایت کہاں ہے؟ خود دارقطنیؒ نے بھی ذکر نہیں کی۔ صرف یہ کہا کہ صواب یہ ہے۔ حالانکہ عاصم زر بن حبیش کے کثیر اللقاء شاگرد ہیں اور زر مخضرم ہیں اور حضرت علی رض كے اصحاب ميں سے ہیں۔ اس لیے بلاوجہ اس روایت پر وہم کا الزام لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟اور جبارہ کا ہی سہارا لینا ہوتا تو امام دارقطنی اسے ضعیف بتاتے، وہم نہیں۔
یہ اہم معلومات ہیں جزاک اللہ۔ نہات مضبوط نقطہ ہے۔۔یہ مرسل روایت کہاں ہے؟ خود دارقطنیؒ نے بھی ذکر نہیں کی۔ صرف یہ کہا کہ صواب یہ ہے۔ حالانکہ عاصم زر بن حبیش کے کثیر اللقاء شاگرد ہیں اور زر مخضرم ہیں اور حضرت علی رض كے اصحاب ميں سے ہیں۔ اس لیے بلاوجہ اس روایت پر وہم کا الزام لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
پھر مزید یہ کہ عاصم بن بہدلہ قراءت کے امام اور اتھارٹی ہیں۔ قراءت ان کا فن تھا۔ اور یہ روایت بھی قرآن کریم سے متعلق ہے اور فضائل قرآن میں سے ہے۔ تو عاصم کو یہ بھلا کیوں صحیح یاد نہیں رہے گی؟ عاصم کا اختلاط ایک تو اپنے اساتذہ میں ہوا ہے اسانید میں نہیں، اور دوسرا عام احادیث میں ہوا ہے قرآن کریم میں نہیں۔ فضائل قرآن کی احادیث تو قرآن کریم سے متعلق ہیں تو ان کا یاد رہنا اقرب الی الصواب ہے۔