- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
ہاتھ بڑھایا اور پانسے کا تیر نکال کر یہ جاننا چاہا کہ میں انہیں ضرر پہنچا سکوں گا یا نہیں؟ تو وہ تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا، لیکن میں نے تیر کی نافرمانی کی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا وہ مجھے لے کر دوڑنے لگا۔ یہاں تک کہ جب میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت سن رہا تھا -- اور آپ التفات نہیں فرماتے تھے، جبکہ ابو بکر ؓ باربار مڑ کر دیکھ رہے تھے -- تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جا پہنچے اور میں اس سے گر گیا۔ پھر میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے اٹھنا چاہا لیکن وہ اپنے پاؤں بمشکل نکال سکا۔ بہرحال جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے پاؤں کے نشان سے آسمان کی طرف دھویں جیسا غبار اُڑ رہا تھا۔ میں نے پھر پانسے کے تیر سے قسمت معلوم کی اور پھر وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا۔ اس کے بعد میں نے امان کے ساتھ انہیں پکارا تو وہ لوگ ٹھہر گئے۔اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچا جس وقت میں ان سے روک دیا گیا تھا اسی وقت میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی رسول اللہ ﷺ کا معاملہ غالب آ کر رہے گا۔ چنانچہ میں نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپ ﷺ کے بدلے دیت (کا انعام) رکھا ہے اور ساتھ ہی میں نے لوگوں کے عزائم سے آپ ﷺ کو آگاہ کیا اور توشہ اور ساز و سامان کی بھی پیش کش کی۔ مگر انہوں نے میرا کوئی سامان نہیں لیا اور نہ مجھ سے کوئی سوال کیا۔ صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق رازداری برتنا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پروانہ امن لکھ دیں۔ آپ ﷺ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر میرے حوالے کر دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ آگے بڑھ گئے۔ (صحیح بخاری ۱/۵۵۴۔ بنی مدلج کا وطن رابغ کے قریب تھا اور سراقہ نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدید سے اوپر جا رہے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۵۳) اس لیے اغلب یہ ہے کہ غار سے روانگی کے بعد تیسرے دن تعاقب کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔)
اس واقعے سے متعلق خود ابو بکرؓ کی بھی ایک روایت ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ روانہ ہوئے تو قوم ہماری تلاش میں تھی مگر سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا - جو اپنے گھوڑے پر آیا تھا - اور کوئی ہمیں نہ پاس کا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ پیچھا کرنے والا ہمیں آ لینا چاہتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
لا تحزن إن اللّٰہ معنا
''غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔'' (صحیح بخاری ۱/۵۱۶)
بہرحال سراقہ واپس ہوا تو دیکھا کہ لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کہنے لگا: ادھر کی کھوج خبر لے چکا ہوں۔ یہاں تمہارا جو کام تھا کیا جا چکا ہے۔ (اس طرح لوگوں کو واپس لے گیا) یعنی دن کے شروع میں تو چڑھا آ رہا تھا اور آخر میں پاسبان بن گیا۔ (زادالمعاد ۲/۵۳)
راستے میں نبی ﷺ کو بُرَیْدَہ بن حصیب اَسْلَمی ملے، ان کے ساتھ تقریباً اسی گھرانے تھے۔ سب سمیت
اس واقعے سے متعلق خود ابو بکرؓ کی بھی ایک روایت ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ روانہ ہوئے تو قوم ہماری تلاش میں تھی مگر سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا - جو اپنے گھوڑے پر آیا تھا - اور کوئی ہمیں نہ پاس کا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ پیچھا کرنے والا ہمیں آ لینا چاہتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :
لا تحزن إن اللّٰہ معنا
''غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔'' (صحیح بخاری ۱/۵۱۶)
بہرحال سراقہ واپس ہوا تو دیکھا کہ لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کہنے لگا: ادھر کی کھوج خبر لے چکا ہوں۔ یہاں تمہارا جو کام تھا کیا جا چکا ہے۔ (اس طرح لوگوں کو واپس لے گیا) یعنی دن کے شروع میں تو چڑھا آ رہا تھا اور آخر میں پاسبان بن گیا۔ (زادالمعاد ۲/۵۳)
راستے میں نبی ﷺ کو بُرَیْدَہ بن حصیب اَسْلَمی ملے، ان کے ساتھ تقریباً اسی گھرانے تھے۔ سب سمیت