• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم نبیﷺ کی ہجرت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہاتھ بڑھایا اور پانسے کا تیر نکال کر یہ جاننا چاہا کہ میں انہیں ضرر پہنچا سکوں گا یا نہیں ؟ تو وہ تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا ، لیکن میں نے تیر کی نافرمانی کی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا وہ مجھے لے کر دوڑنے لگا۔ یہاں تک کہ جب میں رسول اللہﷺ کی قراء ت سن رہا تھا -- اور آپ التفات نہیں فرماتے تھے ، جبکہ ابوبکر ؓ باربار مڑ کر دیکھ رہے تھے -- تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوںپاؤں زمین میں دھنس گئے یہاں تک کہ گھٹنوں تک جاپہنچے اور میں اس سے گرگیا۔ پھر میں نے اسے ڈانٹا تو اس نے اٹھنا چاہا لیکن وہ اپنے پاؤں بمشکل نکال سکا۔ بہر حال جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو اس کے پاؤں کے نشان سے آسمان کی طرف دھویں جیسا غبار اُڑرہا تھا۔ میں نے پھر پانسے کے تیر سے قسمت معلوم کی اور پھر وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا۔ اس کے بعد میں نے امان کے ساتھ انہیں پکارا تو وہ لوگ ٹھہر گئے۔اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر ان کے پاس پہنچا جس وقت میں ان سے روک دیا گیا تھا اسی وقت میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی رسول اللہﷺ کامعاملہ غالب آکر رہے گا۔ چنانچہ میں نے آپﷺ سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے آپﷺ کے بدلے دیت(کا انعام ) رکھاہے اور ساتھ ہی میں نے لوگوں کے عزائم سے آپﷺ کو آگاہ کیا اور توشہ اور سازو سامان کی بھی پیش کش کی۔ مگر انہوں نے میرا کوئی سامان نہیں لیا اور نہ مجھ سے کوئی سوال کیا۔ صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق رازداری برتنا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پروانہ ٔ امن لکھ دیں۔ آپﷺ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر لکھ کر میرے حوالے کردیا۔ پھر رسول اللہﷺ آگے بڑ ھ گئے۔1
اس واقعے سے متعلق خود ابوبکرؓ کی بھی ایک روایت ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ہم لوگ روانہ ہوئے تو قوم ہماری تلاش میں تھی مگر سراقہ بن مالک بن جعشم کے سوا -جو اپنے گھوڑے پر آیا تھا - اور کوئی ہمیں نہ پاس کا۔ میں نے کہا :اے اللہ کے رسول ! یہ پیچھا کرنے والا ہمیں آلینا چاہتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :
(( لا تحزن إن اللّٰہ معنا۔))
''غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔''2
بہر حال سراقہ واپس ہوا تو دیکھا کہ لوگ تلاش میں سرگرداں ہیں۔ کہنے لگا: ادھر کی کھوج خبر لے چکا ہوں۔ یہاں تمہارا جو کام تھا کیا جاچکا ہے۔ (اس طرح لوگوں کو واپس لے گیا ) یعنی دن کے شروع میں تو چڑھا آرہا تھا اور آخر میں پاسبان بن گیا۔3
4 راستے میں نبیﷺ کو بُرَیْدَہ بن حصیب اَسْلَمی ملے ، ان کے ساتھ تقریباً اسی گھرانے تھے۔ سب سمیت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۵۴۔ بنی مدلج کا وطن رابغ کے قریب تھا اور سراقہ نے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا کیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قدید سے اوپر جارہے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۵۳ ) اس لیے اغلب یہ ہے کہ غار سے روانگی کے بعد تیسرے دن تعاقب کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
2 صحیح بخاری ۱/۵۱۶ 3 زادالمعاد ۲/۵۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مسلمان ہوگئے اور رسول اللہﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی تو سب نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ بریدہ اپنی ہی قوم کی سرزمین میں قیام پذیر رہے اور احد کے بعد رسول اللہﷺ کی خدمت میں تشریف لائے۔
عبد اللہ بن بریدہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ فال لیتے تھے، بدشگونی نہیں لیتے تھے۔ بریدہ اپنے خاندان بنو سہم کے ستر سواروں کے ساتھ سوار ہوکر نبیﷺ سے ملے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تم کن سے ہو ؟ انہوں نے کہا : قبیلہ اسلم سے۔ آپ نے ابوبکر سے کہا: ہم سالم رہے۔ پھر پوچھا: کن کی اولاد سے ہو ؟ کہا: بنوسہم سے۔ آپ نے فرمایا : تمہارا سہم (نصیب ) نکل آیا۔1
رسول اللہﷺ عرج کے اندر جحفہ اور ہرشی کے درمیان قحداوات میں ابو اوس تمیم بن حجر یا ابو تمیم اوس بن حجراسلمی کے پاس سے گزرے۔ آپﷺ کا کوئی اونٹ پیچھے رہ گیا تھا۔ چنانچہ آپ اور ابوبکر ایک ہی اونٹ پر سوار تھے اوس نے اپنے ایک نر اونٹ پر دونوں کو سوار کیا اور ان کے ساتھ مسعود نامی اپنے ایک غلام کو بھیج دیا اور کہا کہ جو محفوظ راستہ تم کو معلوم ہو ان سے ان کولے کر جاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑنا۔ چنانچہ وہ ساتھ لے کر راستہ چلا اور مدینہ پہنچادیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے مسعود کو اس کے مالک پاس بھیج دیا اور اسے حکم دیا کہ اوس سے کہے کہ وہ اپنے اونٹوں کی گردن پر گھوڑے کی قید کا نشان لگائے۔ یعنی دوحلقے یا دائرے بنائے اور ان کے درمیان لکیر کھینچ دے۔ یہی ان کی نشانی رہے گی۔ جب احد کے دن مشرکین آئے تو اوس نے اپنے اسی غلام مسعود بن ہنید ہ کو ان کی خبر دینے کے لیے عرج سے پید ل رسول اللہﷺ کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ بات ابن ماکولا نے طبر ی کے حوالے سے ذکر کی ہے۔ اوس نے رسول اللہﷺ کے مدینہ آجانے کے بعد اسلام قبول کرلیا مگر عرج ہی میں سکونت پذیر رہے۔2
راستے میں...بطن ریم کے اندر ...نبیﷺ کو حضرت زبیر بن عوامؓ ملے۔ یہ مسلمانوں کے ایک تجارت پیشہ گروہ کے ساتھ ملک شام سے واپس آرہے تھے۔ حضرت زبیر ؓ نے رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کو سفید پارچہ جات پیش کیے۔3
قبا ء میں تشریف آوری:
دوشنبہ ۸؍ ربیع الاول ۱۴ نبوت ...یعنی ۱ ہجری مطابق ۲۳؍ ستمبر ۶۲۲ ء کو رسول اللہﷺ قباء میں وارد ہوئے۔4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اسدالغابہ ۱/۲۰۹ 2 ایضاً ۱/۱۷۳، ابن ہشام ۱/۴۹۱
3 صحیح بخاری عن عروۃ ابن الزبیر ۱/۵۵۴
4 رحمۃ للعالمین۱/۱۰۲۔ اس دن نبیﷺ کی عمر بغیر کسی کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی اور جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز ۹ / ربیع الاول ۴۱ عام الفیل سے مانتے ہیں ان کے قول کے مطابق آپﷺ کی نبوت پر ٹھیک تیرہ سال پورے ہوئے تھے۔ البتہ جو لوگ آپﷺ کی نبوت کا آغاز رمضان ۴۱ عام الفیل سے مانتے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق بارہ سال پانچ مہینہ اٹھارہ دن یا بائیس دن ہوئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ مسلمانانِ مدینہ نے مکہ سے رسول اللہﷺ کی روانگی کی خبرسن لی تھی۔ اس لیے لوگ روزانہ صبح ہی صبح حرہ کی طرف نکل جاتے تھے اور آپﷺ کی راہ تکتے رہتے۔ جب دوپہر کو دھوپ سخت ہوجاتی تو واپس پلٹ آتے۔ ایک روز طویل انتظار کے بعد واپس پلٹ کر لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لیے چڑھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس -جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی - تشریف لارہے ہیں۔ اس نے بیخود ہوکر نہایت بلند آواز سے کہا : عرب کے لوگو! یہ رہا تمہارا نصیب ، جس کا تم انتظار کررہے تھے۔ یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیار وں کی طرف دوڑ پڑے۔ 1(اور ہتھیار سے سج دھج کر استقبال کے لیے امنڈ پڑے ) اور حرہ کی پشت پر رسول اللہﷺ کا استقبال کیا۔
ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عمر و بن عوف (ساکنان ِ قباء ) میں شور بلند ہوا اور تکبیر سنی گئی۔ مسلمان آپﷺ کی آمد کی خوشی میں نعرہ ٔ تکبیر بلند کرتے ہوئے استقبال کے لیے نکل پڑے۔ پھر آپﷺ سے مل کر تحیۂ نبوت پیش کیا اور گرد وپیش پر وانوں کی طرح جمع ہوگئے۔ اس وقت آپﷺ پر سکینت چھائی ہوئی تھی اور یہ وحی نازل ہورہی تھی :
فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِ‌يلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ‌ (۶۶: ۴)
''اللہ آپ کا مولیٰ ہے اور جبریل علیہ السلام اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مددگارہیں۔''2
حضرت عروہ بن زبیرؓ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ ان کے ساتھ داہنے جانب مڑے، اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے۔ یہ دوشنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا۔ ابوبکرؓ آنے والوں کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور رسول اللہﷺ چپ چاپ بیٹھے تھے۔ انصار کے جولوگ آتے تھے، جنہوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا نہ تھا وہ سیدھے ابوبکرؓ کو سلام کرتے۔ یہاں تک کہ رسول اللہﷺ پر دھوپ آگئی اور ابوبکرؓ نے چادر تان کر آپﷺ پر سایہ کیا۔ تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول اللہﷺ ہیں۔3
آپﷺ کے استقبال اور دیدار کے لیے سارا مدینہ امنڈ پڑا تھا۔ یہ ایک تاریخی دن تھا ، جس کی نظیر سر زمین مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ آج یہود نے بھی حبقوق نبی کی اس بشارت کا مطلب دیکھ لیا تھا ''کہ اللہ جنوب سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔''4
رسول اللہﷺ نے قباء میں کلثوم بن ہدم...اور کہا جاتا ہے کہ سعد بن خیثمہ...کے مکان میں قیام فرمایا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۵۵ 2 زاد المعاد ۲/۵۴
3 صحیح بخاری ۱/۵۵۵ 4 کتاب بائبل ، صحیفہ حبقوق ۳ ، ۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پہلا قول زیادہ قوی ہے۔
ادھر حضرت علی بن ابی طالبؓ نے مکہ میں تین روز ٹھہر کر اور لوگوں کی جوامانتیں رسول اللہﷺ کے پاس تھیں انہیں ادا کر کے پیدل ہی مدینہ کا رخ کیا اور قباء میں رسول اللہﷺ سے آملے اور کلثوم بن ہدم کے یہاں قیام فرمایا۔1
رسول اللہﷺ نے قباء میں کل چار دن2(دوشنبہ ، منگل ، بدھ ، جمعرات ) یادس سے زیادہ دن قیام فرمایا اور اسی دوران مسجد قباء کی بنیاد رکھی ، اور اس میں نماز بھی پڑھی۔ یہ آپﷺ کی نبوت کے بعد پہلی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ پانچویں دن (یابارہویں دن ) جمعہ کو آپﷺ حکم الٰہی کے مطابق سوار ہوئے۔ ابوبکرؓ آپﷺ کے ردیف تھے۔ آپﷺ نے بنوالنجار کو - جو آپﷺ کے ماموؤں کا قبیلہ تھا - اطلاع بھیج دی تھی۔ چنانچہ وہ تلوار حمائل کیے حاضر تھے۔ آپﷺ نے (ان کی معیت میں ) مدینہ کا رخ کیا۔ بنو سالم بن عوف کی آبادی میں پہنچے تو جمعہ کا وقت آگیا۔ آپﷺ نے بطن وادی میں اس مقام پر جمعہ پڑھا جہاں اب مسجد ہے ، کل ایک سو آدمی تھے۔3
مدینہ میں داخلہ :
جمعہ کے بعد نبیﷺ مدینہ تشریف لے گئے اور اسی دن سے اس شہر کا نام یثرب کے بجائے مدینۃ الرسول ... شہر رسولﷺ ... پڑگیا۔ جسے مختصراً مدینہ کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت تابناک تاریخی دن تھا گلی کوچے تقدیس وتحمید کے کلمات سے گونج رہے تھے اور انصار کی بچیاں خوشی ومسرت سے ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی تھیں۔
طلـع البـــــدر عـلـیـنـــــــــا مـــــــن ثنیــات الـوداع
''ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب چودھویں کا چاند ہے ہم پر چڑھا
وجــب الشکـــــر علینــــــــا مـــــا دعــا للــــــہ داع
کیسا عمدہ دین اور تعلیم ہے شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۴۵۔ ابن ہشام ۱/۴۹۳
2 یہ ابن اسحاق کی روایت ہے۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۴۹۴صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ آپﷺ نے قباء میں ۲۴ رات قیام فرمایا (۱/۶۱) مگر ایک اور روایت میں دس رات سے چند روز زیادہ (۱/۵۵۵)اور ایک تیسری روایت میں چودہ رات (۱/۵۶۰ ) بتایا گیا ہے ، ابن قیم نے اسی آخری روایت کو اختیار کیا ہے۔ مگر ابن قیم نے خود تصریح کی ہے کہ آپﷺ قباء میں دوشنبہ کو پہنچے تھے اور وہاں سے جمعہ کو روانہ ہوئے تھے۔ (زاد المعاد ۲/۵۴،۵۵) اور معلوم ہے کہ دوشنبہ اور جمعہ دو الگ الگ ہفتوں کالیا جائے تو پہنچ اور روانگی کا دن چھوڑ کر کل مدت دس دن ہوتی ہے اور پہنچ اور روانگی کا دن شامل کرکے ۱۲ دن ہوتی ہے۔ اس لیے کل مدت چودہ دن کیسے ہوسکے گی۔
3 صحیح بخاری ۱/۵۵۵، ۵۶۰۔ زاد المعاد ۲/۵۵۔ابن ہشام ۱/۴۹۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
أیــہــا الـــمـبـعــوث فـیـنـــا جـئـت بـالأمـر الـمـطاع
ہے اطاعت تیرے حکم کی بھیجنے والا ہے تیر ا کبریا1
انصار اگر چہ بڑے دولت مند نہ تھے لیکن ہرا یک کی یہی آرزو تھی کہ رسول اللہﷺ اس کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ آپﷺ انصار کے جس مکان یامحلے سے گزرتے وہاں کے لوگ آپﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑلیتے اور عرض کرتے کہ تعداد وسامان اور ہتھیار وحفاظت فرشِ راہ ہیں تشریف لائیے ! مگر آپﷺ فرماتے کہ اونٹنی کی راہ چھوڑدو۔ یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔ چنانچہ اونٹنی مسلسل چلتی رہی اورا س مقام پر پہنچ کر بیٹھی جہاں آج مسجد نبویﷺ ہے لیکن آپﷺ نیچے نہیں اترے یہاں تک کہ وہ اٹھ کر تھوڑی دور گئی۔ پھرمڑ کر دیکھنے کے بعد پلٹ آئی اور اپنی پہلی جگہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپﷺ نیچے تشریف لائے۔ یہ آپﷺ کے ننہیال والوں، یعنی بنو نجار کا محلہ تھا اور یہ اونٹنی کے لیے محض توفیق الٰہی تھی۔ کیونکہ آپﷺ ننہیال میں قیام فرماکر ان کی عزت افزائی کرنا چاہتے تھے۔ اب بنونجار کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر لے جانے کے لیے رسول اللہﷺ سے عرض معروض شروع کی لیکن ابو ایوب انصاریؓ نے لپک کر کجاوہ اٹھا لیا اور اپنے گھر لے کر چلے گئے۔ اس پر رسول اللہﷺ فرمانے لگے : آدمی اپنے کجاوے کے ساتھ ہے۔ ادھر حضرت اسعد بن زرارہ رضی ا للہ عنہ نے آکر اونٹنی کی نکیل پکڑ لی۔ چنانچہ یہ اونٹنی انھی کے پاس رہی۔2
صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ہمارے کس آدمی کا گھر زیادہ قریب ہے ؟ حضرت ابوایوب انصاری ؓ نے کہا: میرا ، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ رہا میرا مکان اور یہ رہامیرا دروازہ۔ آپﷺ نے فرمایا: جاؤ اور ہمارے لیے قَیْلُولہ کی جگہ تیار کردو۔ انہوں نے عرض کی:آپ دونوں حضرات تشریف لے چلیں اللہ برکت دے۔3
چند دنوں کے بعد آپﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سَوْدَہ ؓ اور آپ کی دونوں صاحبزایاں حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت ام کلثوم ، اور حضرت اسامہ بن زید ؓ اور ام ایمن بھی آگئیں۔ ان سب کو حضرت عبد اللہ بن ابی بکرؓ آل ابی بکر کے ساتھ جن میں حضرت عائشہ ؓ بھی تھیں لے کر آئے تھے۔ البتہ نبیﷺ کی ایک صاحبزادی حضرت زینب، حضرت ابوالعاص ؓ کے پاس باقی رہ گئیں انہوں نے آنے نہیں دیا۔اور وہ جنگ ِ بدر کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اشعار کا یہ ترجمہ علامہ منصور پوری نے کیا ہے۔ علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ اشعار تبوک سے نبیﷺ کی واپسی پر پڑھے گئے تھے۔ او ر جو یہ کہتا ہے کہ مدینہ میں آپﷺ کے داخلے کے موقعے پر پڑھے گئے تھے، اسے وہم ہوا ہے۔ (زادالمعاد ۳/۱۰) لیکن علامہ ابن قیم نے اس کے وہم ہونے کی کوئی تشفی بخش دلیل نہیں دی ہے۔ ان کے برخلاف علامہ منصور پوری نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ اشعار مدینہ میں داخلے کے وقت پڑھے گئے۔ انہوں نے صحف بنی اسرائیل کے اشارات وتصریحات سے اسے مستنبط کیا ہے۔ (دیکھئے رحمۃ للعالمین ۱/۱۰۶ ) ممکن ہے یہ اشعار دونوں موقعوں پر پڑھے گئے ہوں۔
2 زاد المعاد ۲/۵۵۔ ابن ہشام ۱/۴۹۴ - ۴۹۶ 3 صحیح بخاری ۱/۵۵۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
بعد تشریف لاسکیں۔1
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو یہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ وباخیز جگہ تھی۔ وادیٔ بطحان سڑے ہوئے پانی سے بہتی تھی۔
ان کا یہ بھی بیا ن ہے کہ رسول اللہﷺ مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت بلال ؓکو بخار آگیا۔میں نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ اباجان آپ کا کیا حال ہے ؟ اور اے بلال ! آپ کا کیا حال ہے ؟ وہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکر ؓ کو بخار آتا تو یہ شعر پڑھتے :


کل امرئ مصبح فی أہلہ
والموت أدنی من شراک نعلہ


''ہر آدمی سے اس کے اہل کے اندر صبح بخیر کہا جاتا ہے، حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔''
اور حضرت بلالؓ کی حالت کچھ سنبھلتی تو وہ اپنی کربناک آواز بلند کرتے اور کہتے :


ألا لیت شعری ہل أبییتن لیلۃ
بـواد وحولی إذخـر وجلیل
وہل أردن یومـاّ میاہ مجنـــۃ
وہل یبدون لی شامۃ وطفیل


''کاش! میں جانتا کہ کوئی رات وادی (مکہ ) میں گزارسکوں گا اور میرے گرد اِذْخر اور جلیل (گھاس) ہوں گی اور کیا کسی دن مجنہ کے چشمے پروارد ہوسکوں گا اور مجھے شامہ اور طفیل (پہاڑ ) دکھلائی پڑیں گے۔''
حضرت عائشہ ؓکہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میںحاضر ہوکر اس کی خبر دی تو آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ہمارے نزدیک مدینہ کو اسی طرح محبوب کر دے جیسے مکہ محبوب تھا، یااس سے بھی زیادہ اور مدینہ کی فضا ء صحت بخش بنا دے ، اور اس کے صاع اور مد (غلے کے پیمانوں ) میں برکت دے۔ اوراس کا بخار منتقل کرکے جحفہ پہنچادے۔ 2اللہ نے آپﷺ کی دعا سن لی۔ چنانچہ آپ کو خواب میں دکھلایا گیا کہ ایک پراگندہ سر کالی عورت مدینہ سے نکلی اور مہیعہ، یعنی جحفہ میں جااتری۔ اس کی تعبیر یہ تھی کہ مدینہ کی وباء جحفہ منتقل کردی گئی اور اس طرح مہاجرین کو مدینہ کی آب وہوا کی سختی سے راحت مل گئی۔ یہاں تک حیات طیبہ کی ایک قسم اور اسلامی دعوت کا ایک دَور(یعنی مکی دَور ) پورا ہوجاتا ہے۔ آئندہ اختصار کے ساتھ مدنی دور پیش کیا جارہا ہے۔ وباللہ التوفیق۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۵
2 صحیح بخاری ۱/۵۸۸ ، ۵۸۹ حدیث نمبر ۱۸۸۹، ۳۹۲۶، ۵۶۵۴،۵۶۷۷،۶۳۷۲
 
Top