• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور رزق کھاتے ہیں ، با دلائل

شمولیت
اپریل 10، 2015
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
17

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اعرابی کے رسول کی قبر پر آکر اسغفار کا سوال کرنے والی روایت جو عتبی سے مروی ہے اور شعب الایمان میں بھی حرب سے مروی ہے جو درج ذیل لنک میں ہے
http://islamqa.info/ar/179363
یہ قصہ ،روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے ۔۔شعب الایمان ۔۔ میں بھی نقل کی ہے ؛
اور امام ابن کثیر نے بھی تفسیر میں نقل کی ہے ؛
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نامور شاگرد اور معروف محدث ’’ شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي ‘‘ نے (الصارم المنكي في الرد على السبكي) صفحہ ۳۲۱ میں
اس روایت کی حالت خوب واضح کی ہے ، لکھتے ہیں :
فإن قيل: فقد روى أبو الحسن علي بن إبراهيم بن عبد الله بن عبد الرحمن الكرخي عن علي بن محمد بن علي، حدثنا أحمد بن محمد بن الهيثم الطائي، قال: حدثني أبي عن أبيه عن سلمة بن كهيل عن أبي صادق عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال قدم علينا أعرابي بعدما دفنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام فرمى بنفسه إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم، وحثى على رأسه من ترابه، وقال: يا رسول الله قلت فسمعنا قولك، وعينا عن الله عز وجل فما وعينا عنك، وكان فيما انزل الله عز وجل عليك: وقد ظلمت نفسي وجئتك تستغفر لي فنودي من القرب أنه قد غفر لك.

والجواب:
أن هذا خبر منكر موضوع وأثر مختلق مصنوع لا يصح الاعتماد عليه، ولا يحسن المصير إليه، وإسناده ظلمات بعضها فوق بعض، والهيثم جد أحمد بن الهيثم أظنه ابن عدي الطائي، فإن يكن هو، فهو متروك كذاب، وإلا فهو مجهول،وقد ولد الهيثم بن عدي بالكوفة، ونشأ وأدرك زمان سلمة بن كهيل فيما قيل، ثم أنتقل إلى بغداد فسكنها.
قال عباس الدوري (1) : سمعت يحيى بن معين يقول: الهيثم بن عدي كوفي ليس بثقة كان يكذب، وقال المجلي وأبو داود (2) كذاب، وقال أبو حاتم الرازي (3) والنسائي (4) والدولابي (5) والأزدي (6) : متروك الحديث، وقال البخاري (7) : سكنوا عنه أي تركوه،

یعنی یہ روایت منکر اور موضوع (من گھڑت )ہے ،اس پر کسی صورت اعتماد نہیں کیا جا سکتا ،اسکی سند ۔۔ظلمات بعضها فوق بعض ۔۔کا نمونہ ہے،(یعنی اس کا کوئی سرا پیر نہیں ،روات کی کوئی حیثیت نہیں )
اس کا راوی ۔۔ہیثم ۔۔اگر۔۔ابن عدی الطائی ۔۔ہے،تو وہ پرلے درجہ کا جھوٹا ہے ۔۔اس کو امام ابوداود ،،امام یحی بن معین نے کذاب کہا ہے ،اورامام نسائی
اور امام بخاری ۔اور ۔۔الدولابی ۔۔اور ۔۔الازدی نے متروک کہا ہے ،
اور ۔ہیثم ۔۔اگر۔۔ابن عدی الطائی نہیں تو مجہول ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر مزید تفصیل مطلوب ہو تو ۔۔ شیخ محمد نسيب بن عبد الرزاق الرفاعي۔۔کی کتاب
(التوصل إلى حقيقة التوسل ) اور امام ابن عبد الھادی کی بے مثال تصنیف’’ ا(الصارم المنكي في الرد على السبكي)
ملاحظہ فرمائیں ؛
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہ اردو میں مطلوب ہے
امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ شعب الایمان ‘‘ جو مکتبہ الرشد ،الریاض ،سے تیرہ جلدوں میں شائع ہے
اس کی چھٹی جلد صفحہ ۶۰ ) پر آپ کی مذکورہ روایت درج ذیل الفاظ سے مروی ہے ۔
أخبرنا أبو علي الروذباري، حدثنا عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسين بن بقية، إملاء، حدثنا شكر الهروي، حدثنا يزيد الرقاشي، عن محمد بن روح بن يزيد البصري، حدثني أبو حرب الهلالي، قال: حج أعرابي فلما جاء إلى باب مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ راحلته فعقلها ثم دخل المسجد حتى أتى القبر ووقف بحذاء وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"" بأبي أنت وأمي يا رسول الله جئتك مثقلا بالذنوب والخطايا مستشفعا بك على ربك لأنه قال في محكم كتابه {ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما}، وقد جئتك بأبي أنت وأمي مثقلا بالذنوب والخطايا أستشفع بك على ربك أن يغفر لي ذنوبي وأن تشفع في ثم أقبل في عرض الناس، وهو يقول:
[البحر البسيط]
يا خير من دفنت في الترب أعظمه ... فطاب من طيبه الأبقاع، والأكم
نفس الفداء بقبر أنت ساكنه ... فيه العفاف وفيه الجود والكرم
وفي غير هذه الرواية فطاب من طيبه القيعان، والأكم

ترجمہ :
ابو حرب ہلالی کہتے ہیں کہ :ایک اعرابی نے حج کیا ،جب وہ مدینہ منورہ مسجد نبوی میں آیا ،اپنی سواری کو بٹھایا ،اور اس کو باندھ کر مسجد میں داخل ہوا ،
اور قبر کے پاس پہنچا ،اور نبی کریم ﷺ کے وجہ کریم کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا :۔ میرے ماں ،باپ آپ پر قربان !
میں اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ،آپ کے رب کے حضور آپکی سفارش کا طلب گار ہوں ،کیونکہ رب تعالی نے اپنی کتاب
میں فرمایا ہے :(اور اگر وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے کے بعد ،آپ کے پاس آتے ،اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے ،اور ہمارا رسول ﷺ بھی انکے لئے مغفرت کا سوال کرتا ،تو وہ یقیناً اللہ تعالی کو توبہ قبول کرنے والا ،اور بڑا مہربان پاتے ،‘‘
تو اس لئے میں اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ،آپ کے رب کے حضور آپکی سفارش کا طلب گار ہوں ،کہ وہ میرے گناہ معاف کردے
پھر وہ ان اشعار میں اپنی عقیدت عرض کرنے لگا :
اشعار کا ترجمہ حسب ذیل ہے :
’’زمین دفن ہونے والے تمام لوگوں سے افضل و اعلی ہستی، جس (کے جسدِ اقدس) کی پاکیزہ خوشبو سے اس زمین کے ٹکڑے اور ٹیلے بھی معطر و پاکیزہ ہیں،
(یا رسول اللہ!) میری جان اس قبراقدس پر فدا ہو جس میں آپ آرام فرما ہیں اور (اس قبر انور میں محض جسد ہی نہیں ،بلکہ ) پاکدامنی اور جود و کرم موجود ہے ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس کی سند کا حال عرض ہے ؛
اس کے تین راویوں (۱ ۔عمرو بن محمد بن عمرو۔(۲ )محمد بن روح۔(۳) ابو حرب الہلالی ۔۔کے حالات تو سرے نہ مل سکے ۔۔کون ہیں ؟ اور کیسے ہیں ؟
اور اس کے ایک راوی ’’ یزید بن ابان الرقاشی ‘‘انتہائی ضعیف ہیں ؛

موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث‘‘ میں اس راوی کا درج ذیل تعارف ہے :

يزيد بن أبان الرقاشي، أيو عمرو البصري، القاص.(یعنی یزید بن ابان ۔۔محض ایک قصہ گو واعظ تھا )


• وقال المروذى: قال أبو عبد الله: يزيد الرقاشي، ليس ممن يحتج به. «سؤالاته» (88) .
• وقال الميموني: قلت (يعني لأحمد بن حنبل) : شيء يرويه الربيع بن صبيح، عن يزيد. قال لي: يرويه، عن يزيد، عن أنس في الرفع؟ قلت: نعم، فتبسم أبو عبد الله إلي. قلت: تذكره، أي شيء، فيه عن يزيد الرقاشي؟ قال لي: نعم. قلت: وهكذا يزيد ضعيف؟ قال: نعم، هو ضعيف. «سؤالاته» (476)

.
یعنی امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ یزید الرقاشی قابل اعتماد راوی نہیں ۔اس کی روایات دلیل بننے کے قابل نہیں ۔۔یہ انتہائی ضعیف راوی ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ ابن حجر ؒ کی ۔۔تہذیب التہذیب ۔۔ جلد ۱۱ ، صفحہ ۳۱۰ ۔میں ہے :

قال بن سعد كان ضعيفا قدريا وقال عمرو بن علي كان يحيى بن سعيد لا يحدث عنه وكان عبد الرحمن يحدث عنه وقال كان رجلا صالحا وقد روى عنه الناس
وليس بالقوي في الحديث وقال البخاري: تكلم فيه شعبة وقال إسحاق بن راهويه عن النضر بن شميل قال شعبة لأن أقطع الطريق أحب إلى من أن أروى عن يزيد


یعنی امام ابن سعد فرماتے ہیں :کہ یزید ضعیف راوی ہے ،امام یحی بن سعید اس سے روایت نہیں لیتے تھے ، اور امام عبد الرحمن اس سے روایت تو کرتے تھے ،تاہم فرماتے تھے کہ یہ حدیث میں مضبوط ،قابل اعتبار راوی نہیں ،امام بخاری کا بیان ہے کہ امام شعبہ اس میں کلام کرتے تھے ،
اور امام اسحاق نے امام شعبہ ؒ کا قول نقل کیا کہ وہ فرماتے تھے ،یزید بن ابان سے روایت لینا ،ڈاکہ مارنے سے بڑا گناہ ہے ‘‘
 
Top