امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ شعب الایمان ‘‘ جو مکتبہ الرشد ،الریاض ،سے تیرہ جلدوں میں شائع ہے
اس کی چھٹی جلد صفحہ ۶۰ ) پر آپ کی مذکورہ روایت درج ذیل الفاظ سے مروی ہے ۔
أخبرنا أبو علي الروذباري، حدثنا عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسين بن بقية، إملاء، حدثنا شكر الهروي، حدثنا يزيد الرقاشي، عن محمد بن روح بن يزيد البصري، حدثني أبو حرب الهلالي، قال: حج أعرابي فلما جاء إلى باب مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ راحلته فعقلها ثم دخل المسجد حتى أتى القبر ووقف بحذاء وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:"" بأبي أنت وأمي يا رسول الله جئتك مثقلا بالذنوب والخطايا مستشفعا بك على ربك لأنه قال في محكم كتابه {ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم جاءوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحيما}، وقد جئتك بأبي أنت وأمي مثقلا بالذنوب والخطايا أستشفع بك على ربك أن يغفر لي ذنوبي وأن تشفع في ثم أقبل في عرض الناس، وهو يقول:
[البحر البسيط]
يا خير من دفنت في الترب أعظمه ... فطاب من طيبه الأبقاع، والأكم
نفس الفداء بقبر أنت ساكنه ... فيه العفاف وفيه الجود والكرم
وفي غير هذه الرواية فطاب من طيبه القيعان، والأكم
ترجمہ :
ابو حرب ہلالی کہتے ہیں کہ :ایک اعرابی نے حج کیا ،جب وہ مدینہ منورہ مسجد نبوی میں آیا ،اپنی سواری کو بٹھایا ،اور اس کو باندھ کر مسجد میں داخل ہوا ،
اور قبر کے پاس پہنچا ،اور نبی کریم ﷺ کے وجہ کریم کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا :۔ میرے ماں ،باپ آپ پر قربان !
میں اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ،آپ کے رب کے حضور آپکی سفارش کا طلب گار ہوں ،کیونکہ رب تعالی نے اپنی کتاب
میں فرمایا ہے :
(اور اگر وہ اپنے آپ پر ظلم کرنے کے بعد ،آپ کے پاس آتے ،اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے ،اور ہمارا رسول ﷺ بھی انکے لئے مغفرت کا سوال کرتا ،تو وہ یقیناً اللہ تعالی کو توبہ قبول کرنے والا ،اور بڑا مہربان پاتے ،‘‘
تو اس لئے میں اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ،آپ کے رب کے حضور آپکی سفارش کا طلب گار ہوں ،کہ وہ میرے گناہ معاف کردے
پھر وہ ان اشعار میں اپنی عقیدت عرض کرنے لگا :
اشعار کا ترجمہ حسب ذیل ہے :
’’زمین دفن ہونے والے تمام لوگوں سے افضل و اعلی ہستی، جس (کے جسدِ اقدس) کی پاکیزہ خوشبو سے اس زمین کے ٹکڑے اور ٹیلے بھی معطر و پاکیزہ ہیں،
(یا رسول اللہ!) میری جان اس قبراقدس پر فدا ہو جس میں آپ آرام فرما ہیں اور (اس قبر انور میں محض جسد ہی نہیں ،بلکہ ) پاکدامنی اور جود و کرم موجود ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس کی سند کا حال عرض ہے ؛
اس کے تین راویوں (۱ ۔عمرو بن محمد بن عمرو۔(۲ )محمد بن روح۔(۳) ابو حرب الہلالی ۔۔کے حالات تو سرے نہ مل سکے ۔۔کون ہیں ؟ اور کیسے ہیں ؟
اور اس کے ایک راوی ’’ یزید بن ابان الرقاشی ‘‘انتہائی ضعیف ہیں ؛
موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث‘‘ میں اس راوی کا درج ذیل تعارف ہے :
يزيد بن أبان الرقاشي، أيو عمرو البصري، القاص.(یعنی یزید بن ابان ۔۔محض ایک قصہ گو واعظ تھا )
• وقال المروذى: قال أبو عبد الله: يزيد الرقاشي، ليس ممن يحتج به. «سؤالاته» (88) .
• وقال الميموني: قلت (يعني لأحمد بن حنبل) : شيء يرويه الربيع بن صبيح، عن يزيد. قال لي: يرويه، عن يزيد، عن أنس في الرفع؟ قلت: نعم، فتبسم أبو عبد الله إلي. قلت: تذكره، أي شيء، فيه عن يزيد الرقاشي؟ قال لي: نعم. قلت: وهكذا يزيد ضعيف؟ قال: نعم، هو ضعيف. «سؤالاته» (476)
.
یعنی امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ یزید الرقاشی قابل اعتماد راوی نہیں ۔اس کی روایات دلیل بننے کے قابل نہیں ۔۔یہ انتہائی ضعیف راوی ہے ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور حافظ ابن حجر ؒ کی ۔۔تہذیب التہذیب ۔۔ جلد ۱۱ ، صفحہ ۳۱۰ ۔میں ہے :
قال بن سعد كان ضعيفا قدريا وقال عمرو بن علي كان يحيى بن سعيد لا يحدث عنه وكان عبد الرحمن يحدث عنه وقال كان رجلا صالحا وقد روى عنه الناس
وليس بالقوي في الحديث وقال البخاري: تكلم فيه شعبة وقال إسحاق بن راهويه عن النضر بن شميل قال شعبة لأن أقطع الطريق أحب إلى من أن أروى عن يزيد
یعنی امام ابن سعد فرماتے ہیں :کہ یزید ضعیف راوی ہے ،امام یحی بن سعید اس سے روایت نہیں لیتے تھے ، اور امام عبد الرحمن اس سے روایت تو کرتے تھے ،تاہم فرماتے تھے کہ یہ حدیث میں مضبوط ،قابل اعتبار راوی نہیں ،امام بخاری کا بیان ہے کہ امام شعبہ اس میں کلام کرتے تھے ،
اور امام اسحاق نے امام شعبہ ؒ کا قول نقل کیا کہ وہ فرماتے تھے ،یزید بن ابان سے روایت لینا ،ڈاکہ مارنے سے بڑا گناہ ہے ‘‘