ایک موضوع حدیث:
بریلوی علماء ، عوام الناس کو مغالطہ دینے کے لیے حضورﷺ کے نور ہونےکے سلسلہ میں اکثر ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ:
''اول ما خلق اللہ نوری''
لیکن آج تک کسی نے اس کی سند بیان نہیں کی او رنہ بیان کرسکتا ہے ۔ لہٰذا حدیث معلق بلا سند ، استدلال اور احتجاج کے قابل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ اقسام مردود میں سے ہے
8
اسی رح روایان مجہول سے مروی حدیث بھی لائق تسلیم نہیں ہوتی۔اس صورت میں حدیث مذکو رکا متصل، مرفوع اور صحیح ہونا جب تک ثابت نہ ہو، قابل توجہ نہیں ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی سیرة النبیؐ جلد 3 صفحہ 635 میں اس حدیث کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ:
''اسکی روایت عام طور پر زبانوں پر جاری ہے۔ مگراس روایت کا پتہ احادیث کے دفتر میں مجھے نہیں ملا۔ البتہ ایک روایت مصنف عبدالرزاق میں ہے:
''یا جابر اوّل ما خلق اللہ نور نبیک من نورہ''
زرقانی وغیرہ نے اس روایت کونقل کیا ہے مگر افسوس ہے کہ اس کی سند نہیں لکھی۔''
گویا یہ حدیث بھی بغیر سندکے ہے۔ مزید یہ کہ یہ روایت بھی مصنف عبدالرزاق کی ہے جو کہ تیسرے طبقہ کی کتاب ہے او راس تیسرے طبقہ کی کتابوں کے بارے میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی یوں رقم طراز ہیں:
''والتزام صحت نمودہ و کتب آنہادر شہرت و قبول در مرتبہ طبقہ اول و دوم نہ رسیدہ۔ہر چند مصنفین آں کتب موصوف بودند بتجردر علم حدیث و وثوق و عدالت و ضبط و احادیث صحیح و حسن و ضعیف بلکہ متہم بالوضع نیز دراں کتب یافتہ میشود۔ در رجال آں کتب بعضے موصوف بعدالت اندوبعضے مستورو بعضے مجہول و اکثر آن احادیث معمول بہ نزد فقہاء نہ شدہ اند بلکہ اجماع برخلاف انہا منعقد گشتہ........ اسماء آں کتب ایں است ۔ مسند شافعی، سنن ابن ماجہ، مسند دارمی، مسند ابی یعلیٰ، مصنف عبدالرزاق، ابوبکر بن ابی شیبہ الخ۔''
9
کہ ''اصل میں (ان کی ) صحت کا التزام انہوں نے نہیں کیا او رجو شہرت او رمقبولیت طبقہ اوّل اور دوم کو حاصل ہوئی وہ ان (تیسرے طبقہ کی) کتابوں کونہ ہوئی۔ اگرچہ ان کتابوں کے مصنفین (بذات خود) علوم حدیث، وثوق اور عدالت و ضبط میں متبحر تھے، لیکن احادیث صحیح، حسن ، ضعیف بلکہ موضوع تک ان کتابوں میں پائی جاتی ہیں او ران کے راوی بعص ثقہ ہیں، بعض غیر معروف او رمجہول ہیں، اور (اسی لیے) ان کتابوں کی اکثر احادیث ائمہ فقہاء کے نزدیک معمول بہ نہیں ہیں بلکہ ان کے ترک کرنے پر اجماع منعقد ہوا ہے..... ان کے نام یہ ہیں۔ مسند شافعی، ابن ماجہ، دارمی، مسند ابویعلیٰ موصلی، مصنف عبدالرزاق، منف ابوبکر بن ابی شیبہ.... الخ''
یہ ہے وہ مصنف عبدالرزاق جس سے یہ حدیث نقل کی جاتی ہے۔ یعنی اس کتاب میں موضوع احادیث تک موجود ہیں۔ اب اس حدیث کی سند کا حال دیکھے بغیر کوئی کیسے اسے باور کرلے؟
علاوہ ازیں اس حدیث پرایک او رپہلو سے بھی گفتگو ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ اگربالفرض محال اس حدیث کو قابل توجہ بھی سمجھ لیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ سارا جہان ہی نور ہے او راس میں کسی کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کا پورا مضمون یہ ہے کہ:
''سب سے اوّل حضورؐ کا نور پیدا ہوا او رپھر حضورؐ کے نور سے قلم، لوح، عرش الٰہی، حاملین عرش، کرسی، باقی فرشتے، آسمان زمیں سب کچھ پیدا ہوا۔''
بس اس نور سے اگر کوئی چیز مستثنیٰ ہے تووہ صرف بدنصیب انسان ہے، جس کی پیدائش کو حق تعالیٰ نے اپنی تکلیق کا شاہکار بتایا ہے۔ جس خاک سے بشر کا پتلا بنا تھا، وہ تو نور ہے مگر وہ بشر جو اس مٹی سے بنا وہ خاکی کا خاکی ہی رہا۔ بہت خوب!