1۔کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چیزیں بھول جاتے تھے جس سے آپکی ساری دعوت ہی مشکوک ہو جاتی ہے
تو بہرام صاحب وہی اللہ ہی تو قرآن میں فرماتا ہے کہ
واما ینسینک الشیطن
کہ اگر شیطان تجھے بھلا دے تو ----
تو بہرام صاحب قرآن کے مطابق تو شیطان ویسے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا رہا ہے
2-اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہے
تو وہ بتائیں
بہرام
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہوں تو ان سے الگ ہوجاؤ یہاں تک کہ اور باتوں میں مصروف ہوجائیں۔ اور اگر (یہ بات) شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ابن کثیر اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں کہ
( وإما ينسينك الشيطان ) والمراد بهذا كل فرد ، فرد من آحاد الأمة ، ألا يجلس مع المكذبين الذين يحرفون آيات الله ويضعونها على غير مواضعها ، فإن جلس أحد معهم ناسيا ( فلا تقعد بعد الذكرى ) بعد التذكر ( مع القوم الظالمين )
وإما ينسينك الشيطانیہ خطاب امت کے کل افراد سے ہے یعنی امت محمدی کے ہر فرد پر حرام ہے کہ ایسی مجلس میں یا ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہوں ان کے معنی الٹ پلٹ کرتے ہوں اور ان کی بے جا تاویلیں کرتے ہوں اگر بلفرض بھولے سے ان میں بیٹھ جائے تو یاد آنے پر ایسے ظالموں کے پاس بیٹھنا ممنوع ہے
ولهذا ورد في الحديث : " رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه "
حدیث میں ہے کہ" اللہ تعالیٰ نے میری امت کی خطاء اور بھول سے در گذر فرمالیا ہے اور ان کاموں سے بھی جو ان سے زبردستی مجبور کرکے کرائے جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بھول کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ کی جانب آپ کیوں کر رہے ہیں اس کی وجہ بھی امام بخاری کی عزت بچانا ہے کیوں کہ امام بخاری کہتے ہیں کہ
2 - صلَّى النبيُ صلى الله عليه وسلم قال إبراهيم: لا أدري زاد أو نَقَصَ، فلما سلم قيل له: يا رسولَ اللهَ، أَحَدثَ في الصلاةِ شيءٌ ؟ قال: وما ذاك . قالوا: صلَّيْتَ كذا وكذا ، فثنى رِجْلَيْه ، واستقبلَ القبلةَ , وسجد سجدتين ، ثم سَلَّم . فلما أقبل علينا بوجهِه قال: إنه لو حدث في الصلاةِ شيءٌ لنبأتُكم به، ولكن، إنما أنا بشرٌ مثلُكم، أنسى كما تنسوْن، فإذا نَسِيتُ فذكروني، وإذا شك أحدُكم في صلاتِه ، فليتحرَّ الصوابَ فليُتِمَّ عليه، ثم ليُسلِّمْ ، ثم يَسجُدْ سجدتين.
الراوي: عبدالله بن مسعود المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 401
ترجمہ داؤد راز
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور (سہو کے) دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دیتا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے (سہو کے) کر لے۔
اب جن لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کے جادو ہونے کے بعد نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دینی امر میں سےکچھ نہیں بھولے اگر اس حدیث اور اس سے پہلے پیش کی گئی قرآن کی آیت کو بھولنے والی روایت کو اگر جادو کے زمانے کی نہ بھی فرض کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بغیر جادو ہوئے بھی دینی امر سے یہ سب باتیں بھول جایا کرتے تھے یا پھر آپ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ نماز اور قرآن کی آیت کا تعلق دینی امر سے نہیں اگر اس کے علاوہ کوئی بات ہے تو وہ بیان کی جائے