سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد عبداللہ کے ایمان یا عدمِ ایمان کے بارے میں کوئی حدیث صحیح صحاح ستہ میں موجود ہے یا نہیں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح مسلم کے کتاب الایمان میں و سنن ابی داود کے کتاب السنہ میں جو حدیث بروایت حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مروی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد کی وفات ایمان پر نہیں ہوئی ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ اور بعض روایات ضعیفہ غیر صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات ایمان پر ہوئی ہے، مگر چونکہ یہ روایت بہت ہی کمزور و ضعیف ہے، اس لیے قابل حجت اور سند کے نہیں ہے۔ بلکہ صحیح و معتبر وہی روایت ہے جو کہ صحیح مسلم و سنن ابی داود میں ہے۔ لیکن ایسے مسائل میں بحث کرنا عبث و بیکار ہے۔ اس میں سکوت اولیٰ و افضل ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔ (تفصیل کے لے دیکھیں : أدلة معتقد أبي حنیفة فى أبوى الرسول ﷺ للملا على القارى الحنفى (ص: ۸۵) اس کتاب میں مولف نے قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں مذکورہ بالا موقف کا اثبات کیا ہے اور مخالف دلائل کو ضعیف و موضوع اور منکر باور کرایا ہے۔ نیز ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف بایں الفاظ نقل کیا ہے: ’’ ووالدا رسول اللہ ماتا علی الکفر‘‘ (ص:۶۲) نیز ملا علی قاری رحمه اللہ ’’ شرح الفقه الأکبر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ووالدا رسول اللہﷺ ماتا علی الکفر، وھذا رد علی من قال : إنھما ماتا علی الایمان، أو ماتا علی الکفر ثم أحیاھما اللّٰہ فماتا فى مقام الایمان ‘‘ (شرح الفقه الأکبر، ص : ۳۱۰)
عبارت صحیح و مسلم و سنن أبی داود کی ذیل میں مرقوم ہے، مع عبارت شرح صحیح مسلم للنووی رحمہ اللہ کے:
’’ حدثنا موسی بن اسماعیل نا حماد عن ثابت عن أنس أن رجلا قال: یا رسول الله! أین أبى ؟ قال: أبوک فى النار، فلما قفٰی قال : ان أبى وأباک فى النار‘‘ (رواہ أبو داود) (مسند أحمد (۳؍۱۱۹) سنن أبى داود، رقم الحدیث ۴۷۱۸)
’’ہمیں موسیٰ بن اسماعیل نے حدیث بیان کی، انھیں حماد نے ثابت کے واسطے سے اور انھوں نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہا کہ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ ! میرے باپ کا کیا انجام ہوگا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ جہنم میں ہے۔ پھر جب وہ پلٹا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا اور تمھارا باپ جہنم میں ہیں۔‘‘ اس کی روایت ابوداود نے کی ہے۔‘‘
’’ حدثنا أبوبکر بن أبى شیبة قال : ناعفان، قال : نا حماد بن سلمة عن ثابت عن أنس أن رجلا قال: یا رسول اللہ! أین أبى ؟ قال : فى النار، قال فلما قفی دعاہ فقال: ان أبى وأباک فى النار‘‘ (رواہ مسلم) (صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۰۳۰)
’’ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے بتایا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عفان نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے ثابت کے واسطے سے اور وہ انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہ ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! میرے باپ کا کیا انجام ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم میں۔ راوی کا بیان ہے کہ جب وہ شخص پلٹا تو رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور کہا کہ میرے اور تمھارے باپ جہنم میں ہوں گے۔‘‘ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘
قال النووى فى شرح مسلم:
’’ فیه أن من مات علی الکفر فھو فى النار، ولا تنفعه قرابة المقربین، وفیه أن من مات فى الفترة علی ما کانت علیه العرب من عبادة الأوثان فھو من أھل النار، ولیس ھذا مؤاخذة قبل بلوغ الدعوة، فإن ھؤلاء کانت قد بلغتھم دعوة ابراھیم وغیرہ من الأنبیاء صلوات اللہ تعالیٰ وسلامه علیھم۔‘‘ (شرح صحیح مسلم للنووى ۳؍ ۷۹)
’’ امام نووی نے مسلم کی شرح میں فرمایا: اس حدیث میں یہ ہے کہ جس کی موت حالتِ کفر میں ہوئی تو وہ جہنم میں ہوگا اور اس کو مقربین کی قرابت نفع نہ دے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو نبوت سے پہلے والے دور میں، عربوں کی عادت کے مطابق بت پرستی کرتے ہوئے مرا تو وہ بھی جہنمیوں میں سے ہوگا اور یہ مواخذہ ایسا نہیں کہ دعوت اسلامی کے پہنچنے سے قبل ہو، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جن تک دعوت ابراہیمی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی دعوت پہنچ چکی تھی۔‘‘
حررہ
محمد شمس الحق عفا عنه رب الفلق
بقلم عبدالمنان جنگی پوری
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
مجموعہ مقالات، و فتاویٰ
صفحہ نمبر 92
محدث فتویٰ
(9)رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد کے ایمان اور عدم ایمان کا مسئلہ | اردو فتویٰ
(9)رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد کے ایمان اور عدم ایمان کا مسئلہ
urdufatwa.com