• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں قرآن اور حدیث میں کیا فیصلہ ہے۔

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور اس حوالے سے آخری زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا موقف تھا کہ اس بارے میں خاموشی اختیار کی جائے جیسا اس وڈیو میں زبیر علی زئی کی وڈیو کلپ ڈالی گئی ہے
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے یہ بات نہیں کہی!
@difa-e- hadis شیخ زبیر علی زئی کا کلام یہاں لکھیں!
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
اب کوئی یہ کہے کہ اس نے اپنے ''والد'' نہیں بلکہ ''چچا'' کے متعلق پوچھا تھا، تو یہ معقول بات نہیں!
محترم ،
آپ کا یہ موقف قرآن کے صریح آیت کے خلاف ہے
قرآن میں اسماعیل علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام کا ابی کہا گیا ہے جبکہ وہ ان کے چچا ہیں اور اس آیت میں اسحاق علیہ السلام کا بھی ذکر کیا گیا جو ان کے والد ہیں تو قرآن نے ایک ہی لفظ ابی سے یعقوب علیہ السلام کے چچا اور والد دونوں کو مخاطب کیا ہے جب قرآن میں ایک ہی لفظ چچا اور والد کے لیے ہو سکتا ہے تو حدیث میں ابی کا لفظ والد اور چچا کے لئے کیوں نہیں ہو سکتا ہے آیت پیش ہے

quran ki ayat.jpg


اور اسی آیت کے تحت امام ابن کثیر کا قول بھی پڑ لیں

walid ka naam.jpg
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71

یہ وڈیو ہے جس میں شیخ زبیر علی زئی کی کلپ ہے اور اس کو میں نے لکھ دیا ہے


۵۵منٹ ۵۵ سیکنڈ پر دیکھی جا سکتی ہے



زبیر علی زئی رحمہ اللہ کہتے ہیں
اسی طرح والدین کا جو مسئلہ ہے اس بارے میں میرا موقف ہے اس بارے میں سکوت کرنا چاہیے اگرچہ برہلیوں اور دیوبندی کودونوں کے جو مولوی تھے ملا علی قاری اس نے کتاب لکھی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے بارے میں اور اس نے بہت سخت الفاظ لکھے ہے میں یہاں بیان نہیں کر سکتا ہےاس نے سیوطی کا رد کیا تو اس بارے میں جو اہل حدیث نے کہا ہےتو اس نے حدیث پیش کی ہےحدثیں صحیح ہیں صحیح مسلم کی حدیث صحیح ہے مگر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں اللہ جانے اور ان کے والدین کا معاملہ جانے ہماری زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے کہ ہمارے سارے اعمال ہی ضائع ہو جائیں
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
28
پوائنٹ
71
بھائی جان! آپ اسے یونیکوڈ ميں تحریر فرمائیں؛ پھر میں آپ کو اس کا جواب لکھتا ہوں!
محترم،
میں نے زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف لکھنا تھا لکھ دیا اور مجھے یہی موقف احسن معلوم ہوتا ہے رہی بات آپ کی حدیث مسلم کی تو اس کا جواب میں نے دے دیا اب آپ کچھ بھی لکھتے رہیں میرا موقف وہی ہے جو زبیر علی زئی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ سکوت بہت احسن ہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@difa-e- hadis ! میں نے آپ سے عرض کیا ہے کہ آپ نے جو اٹیچمنٹ لگائی ہیں، اسے یونیکوڈ میں تحریر فرمائیں!
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
359
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
سوال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد عبداللہ کے ایمان یا عدمِ ایمان کے بارے میں کوئی حدیث صحیح صحاح ستہ میں موجود ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صحیح مسلم کے کتاب الایمان میں و سنن ابی داود کے کتاب السنہ میں جو حدیث بروایت حضرت انس رضی اللہ عنہ کے مروی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد کی وفات ایمان پر نہیں ہوئی ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ اور بعض روایات ضعیفہ غیر صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات ایمان پر ہوئی ہے، مگر چونکہ یہ روایت بہت ہی کمزور و ضعیف ہے، اس لیے قابل حجت اور سند کے نہیں ہے۔ بلکہ صحیح و معتبر وہی روایت ہے جو کہ صحیح مسلم و سنن ابی داود میں ہے۔ لیکن ایسے مسائل میں بحث کرنا عبث و بیکار ہے۔ اس میں سکوت اولیٰ و افضل ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔ (تفصیل کے لے دیکھیں : أدلة معتقد أبي حنیفة فى أبوى الرسول ﷺ للملا على القارى الحنفى (ص: ۸۵) اس کتاب میں مولف نے قرآن و سنت اور اجماع کی روشنی میں مذکورہ بالا موقف کا اثبات کیا ہے اور مخالف دلائل کو ضعیف و موضوع اور منکر باور کرایا ہے۔ نیز ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف بایں الفاظ نقل کیا ہے: ’’ ووالدا رسول اللہ ماتا علی الکفر‘‘ (ص:۶۲) نیز ملا علی قاری رحمه اللہ ’’ شرح الفقه الأکبر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ووالدا رسول اللہﷺ ماتا علی الکفر، وھذا رد علی من قال : إنھما ماتا علی الایمان، أو ماتا علی الکفر ثم أحیاھما اللّٰہ فماتا فى مقام الایمان ‘‘ (شرح الفقه الأکبر، ص : ۳۱۰)

عبارت صحیح و مسلم و سنن أبی داود کی ذیل میں مرقوم ہے، مع عبارت شرح صحیح مسلم للنووی رحمہ اللہ کے:

’’ حدثنا موسی بن اسماعیل نا حماد عن ثابت عن أنس أن رجلا قال: یا رسول الله! أین أبى ؟ قال: أبوک فى النار، فلما قفٰی قال : ان أبى وأباک فى النار‘‘ (رواہ أبو داود) (مسند أحمد (۳؍۱۱۹) سنن أبى داود، رقم الحدیث ۴۷۱۸)
’’ہمیں موسیٰ بن اسماعیل نے حدیث بیان کی، انھیں حماد نے ثابت کے واسطے سے اور انھوں نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہا کہ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ ! میرے باپ کا کیا انجام ہوگا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ جہنم میں ہے۔ پھر جب وہ پلٹا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرا اور تمھارا باپ جہنم میں ہیں۔‘‘ اس کی روایت ابوداود نے کی ہے۔‘‘

’’ حدثنا أبوبکر بن أبى شیبة قال : ناعفان، قال : نا حماد بن سلمة عن ثابت عن أنس أن رجلا قال: یا رسول اللہ! أین أبى ؟ قال : فى النار، قال فلما قفی دعاہ فقال: ان أبى وأباک فى النار‘‘ (رواہ مسلم) (صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۰۳۰)
’’ہمیں ابوبکر بن ابی شیبہ نے بتایا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عفان نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں حماد بن سلمہ نے ثابت کے واسطے سے اور وہ انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے کہ ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ! میرے باپ کا کیا انجام ہوگا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جہنم میں۔ راوی کا بیان ہے کہ جب وہ شخص پلٹا تو رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور کہا کہ میرے اور تمھارے باپ جہنم میں ہوں گے۔‘‘ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔‘‘

قال النووى فى شرح مسلم:
’’ فیه أن من مات علی الکفر فھو فى النار، ولا تنفعه قرابة المقربین، وفیه أن من مات فى الفترة علی ما کانت علیه العرب من عبادة الأوثان فھو من أھل النار، ولیس ھذا مؤاخذة قبل بلوغ الدعوة، فإن ھؤلاء کانت قد بلغتھم دعوة ابراھیم وغیرہ من الأنبیاء صلوات اللہ تعالیٰ وسلامه علیھم۔‘‘ (شرح صحیح مسلم للنووى ۳؍ ۷۹)
’’ امام نووی نے مسلم کی شرح میں فرمایا: اس حدیث میں یہ ہے کہ جس کی موت حالتِ کفر میں ہوئی تو وہ جہنم میں ہوگا اور اس کو مقربین کی قرابت نفع نہ دے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو نبوت سے پہلے والے دور میں، عربوں کی عادت کے مطابق بت پرستی کرتے ہوئے مرا تو وہ بھی جہنمیوں میں سے ہوگا اور یہ مواخذہ ایسا نہیں کہ دعوت اسلامی کے پہنچنے سے قبل ہو، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جن تک دعوت ابراہیمی اور دوسرے انبیاء علیہم السلام کی دعوت پہنچ چکی تھی۔‘‘

حررہ

محمد شمس الحق عفا عنه رب الفلق
بقلم عبدالمنان جنگی پوری
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
مجموعہ مقالات، و فتاویٰ
صفحہ نمبر 92
محدث فتویٰ

(9)رسول اللہ ﷺ کے والد ماجد کے ایمان اور عدم ایمان کا مسئلہ | اردو فتویٰ

 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
359
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.


شرح حديث: «إن أبي وأباك في النار»

السؤال:


رسالة وصلت من المستمع عبد الرحيم أحمد حميدان عضو البعثة التعليمية المصرية باليمن الشمالي، أخونا يقول: سمعت من أحد العلماء الأفاضل هذا الحديث ونسأل عن صحته، وإذا كان صحيحًا فمن هو والد النبي ﷺ المقصود بالحديث، ولماذا ينطبق عليه هذا الكلام؟ نص الحديث: «دخل يهودي على النبي ﷺ وسأله: يا محمد! أين أبي؟ -وكان أبو اليهودي ميتًا- فقال له الرسول ﷺ: إن أباك في النار فلما تغير وجه اليهودي قال له النبي ﷺ: أبي وأباك في النار؟




الجواب:

هذا الحديث صحيح ثابت في صحيح مسلم عن النبي ﷺ: «أنه جاءه رجل فسأله -وليس في الحديث أنه يهودي، وإنما سأله إنسان، والظاهر أنه من المسلمين الذين آباؤهم ماتوا في الجاهلية أو بعد الدعوة ولكنه لم يسلم- فسأله قال: أين أبي؟ فقال: إن أباك في النار فلما رأى ما في وجهه من التغير قال: إن أبي وأباك في النار يخبره أن الأمر ليس خاصًا بأبيك بل كل من مات على الجاهلية فهو من أهل النار؛ لأنه مات على الكفر بالله إلا من ثبت أنه من أهل الفترة ولم تبلغه رسالة ولا دعوة فهذا أمره إلى الله لكن حكمه في الدنيا حكم الكفار -حكم الجاهلية-: لا يغسل، ولا يصلى عليه، حكم الجاهلية، لكن إذا كان في نفس الأمر لم تبلغه دعوة ولا رسالة فهذا له حكم أهل الفترات: يمتحنون يوم القيامة على الصحيح، فمن أطاع دخل الجنة ومن عصى دخل النار.
فالحاصل أنه حديث صحيح لكن ليس فيه أن السائل يهودي فيما أعلم إنما هو من نفس المسلمين الذين مات آباؤهم في الجاهلية أو بعد ظهور الإسلام لكنه لم يسلم، فقال له النبي ﷺ: «إن أباك في النار» -ثم بين له بقوله:- إن أبي وأباك في النار لأن والد النبي ﷺ مات في الجاهلية، والنبي ﷺ حمل لم يولد بعد ذلك، وقيل: إنه قد ولد، ولكنه صغير جدًا، والمشهور أنه مات والنبي ﷺ حمل، ثم ماتت أمه وهو صغير عليه الصلاة والسلام ابن خمس سنين أو ست سنين.
فالحاصل أن أباه مات في الجاهلية، وهكذا أمه ماتت في الجاهلية، ولهذا قال في حق أبيه: إن أبي وأباك في النار.
والسبب في ذلك والله أعلم أنه قد بلغته الدعوة لدين إبراهيم، فلهذا حكم عليه بالنار، وأما الأم فقد ثبت عنه ﷺ أنه استأذن ربه ليستغفر لها فلم يأذن له في استغفاره لها، فهذا يدل على أن من مات في الجاهلية لا يستغفر له، وله حكم أهل الجاهلية لا يستغفر له، وهو متوعدون بالنار إلا من ثبت أنه من أهل الفترة، من كان الله يعلم أنه من أهل الفترة لم تبلغه رسالة ولا دعوة ولا علم فهذا على الصحيح يمتحن يوم القيامة فإن أجاب إلى ما أمر به دخل الجنة وإن عصى دخل النار. نعم.
المقدم: جزاكم الله خيرًا.




.
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
359
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
178
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
محترم،
میرے خیال سے اس بارے میں خاموشی بہتر ہے اور یہ چچا وغیرہ کہنا اس کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہیں ہوئی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام عبداللہ سے معلوم ہوتا ہےکہ وہ شاید اس وقت فطرت سلیم پر تھے اس لئے میرے خیال سے اس بارے میں ہمیں اچھا گمان رکھنا چاہیے کہ وہ انشاء اللہ اچھے مقام میں ہوں گے واللہ اعلم
بھائی دین آپ کے خیال یا رائے سے نہیں چلنا۔۔۔ ویسے تو سارے یہی کہتے ہیں کہ مالک، شافعی، ابن حنبل، ابو حنیفہ کی رائے کو بھی دیوار پر مار دو جب نبی ﷺ کی سنت کی بات آئے تو۔۔۔
تو پھر کیا آپ ان سے بڑے دین کے عالم ہیں جو اپنی رائے کی بات کررہے ہیں؟
نبی ﷺ نے خاموشی اختیار نہیں کی تو کیا دوسروں پر بھی خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے؟
نبی ﷺ نے ہر طرح کی خبر دی ہے اور شاید اللہ نے آپ کو مطلع کیا ہو کہ مستقبل میں ایسے سوال ضرور ہوں گے تو آپ ﷺ نے اسی کی بنیاد پر یہ باتیں واضح فرمائیں۔
 
Top