لیجئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پیش کئے دیتا ہوں جس سے آپ کو " گستاخی" کے تعین میں کافی مدد ملے گی
(( رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ۔ )) قِیْلَ: مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ: ((مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔ ))
أخرجہ مسلم رقم: ۶۵۱۱
’’ اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو۔ سوال ہوا؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوسکا۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس محاورے کو ماں باپ کی خدمت کرکے جنت حاصل نہ کرنے والے لوگوں کے لئے ارشاد فرمایا وہ بھی تعین کے بغیر یعنی کسی کا نام نہیں لیا صرف اتنا فرمایا جو بھی اس طرح کے لوگ ہونگے ان کی ناک خاک آلود ہو
لیکن صحیح بخاری میں حضرت عمر نے ایسی محاورے کو معین کرکے کہا فلاں و فلاں کی ناک خاک آلود ہو
ہر زبان میں کچھ الفاظ اور محاورے ایسے ہوتے ہیں ،جن کا مفہوم اور مراد ’‘ محل استعمال ’‘ کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے ،
(( رَغِمَ أَنْفُہٗ )) کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ،یہ کبھی ناپسندیدہ افراد کیلئے استعمال ہوتا ہے ،اور کبھی اپنے پیاروں کے لئے اپنائیت و محبت کی بنیاد پر استعمال کیا جاتا ہے ؛
حدیث میں دونوں معنوں میں اس کا استعمال موجود ہے ،ناپسندیدہ کی حدیث توآپ نے پیش کردی کہ والدین کی خدمت سے محروم کیلئے حدیث میں وارد ہے:
(( رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہٗ۔ )) قِیْلَ: مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قَالَ: ((مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَھُمَا أَوْ کِلَیْھِمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ۔ ))
أخرجہ مسلم رقم: ۶۵۱۱
’’ اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو، اس انسان کی ناک خاک آلود ہو۔ سوال ہوا؟ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور (ان کی خدمت کرکے) جنت میں داخل نہیں ہوسکا۔ ‘‘
اب ہم اس کا استعمال ایک مشہور جلیل القدر صحابی ابو ذر رضی اللہ عنہ کیلئے جناب رسول کریم ﷺ سے خو ابو ذر ہی زبانی بتاتے ہیں : جو ان سے جناب علی رضی اللہ عنہ کے مشہور قاضی اور شاگرد ’‘ أبو الأسود الدؤلي ’‘ نے نقل فرمائی ہے ۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر: 5827
ان ابا الاسود الدؤلي حدثه ان ابا ذر رضي الله عنه حدثه قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض وهو نائم ثم اتيته وقد استيقظ فقال:"ما من عبد قال لا إله إلا الله ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة"قلت: وإن زنى وإن سرق قال:"وإن زنى وإن سرق"قلت: وإن زنى وإن سرق قال:"وإن زنى وإن سرق"قلت: وإن زنى وإن سرق قال:"وإن زنى وإن سرق"على رغم انف ابي ذر وكان ابو ذر إذا حدث بهذا قال: وإن رغم انف ابي ذر قال ابو عبد الله: هذا عند الموت او قبله إذا تاب وندم وقال: لا إله إلا الله غفر له.
ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے جسم مبارک پر سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے پھر دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندہ نے بھی کلمہ «لا إله إلا الله» ”اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں“ کو مان لیا اور پھر اسی پر وہ مرا تو جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو، میں نے پھر عرض کیا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو، چاہے اس نے چوری کی ہو۔ میں نے (حیرت کی وجہ سے پھر) عرض کیا چاہے اس زنا کیا ہو یا اس نے چوری کی ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چاہے اس نے زنا کیا ہو چاہے اس نے چوری کی ہو۔ ابوذر کی ناک خاک آلود ہو۔ ابوذر رضی اللہ عنہ بعد میں جب بھی یہ حدیث بیان کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ابوذر کے «على رغم» ( «وإن رغم أنف أبي ذر.») ضرور بیان کرتے۔
ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا یہ صورت کہ (صرف کلمہ سے جنت میں داخل ہو گا) یہ اس وقت ہو گی جب موت کے وقت یا اس سے پہلے (گناہوں سے) توبہ کی اور کہا کہ «لا إله إلا الله» اس کی مغفرت ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال یہ کہ کیا اس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر کو بد دعاء دی ہے ،یا محض اپنائیت و محبت کے اظہار میں یہ جملہ زبان نبوت سے صادر ہوا
جواب خود اسی حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں