لیکن امام بخاری اپنی صحیح میں کچھ اور ہی بیان کرتے ہیںاس سے کیا ثابت ھوا کچھ نہیں
حدیث میں گھر والوں کی گفتگو نقل ھوئی ھے لیکن یہ ان کا ظرف ھے کہ امھات المومنین نے امت کو ایک ایک بات بتائی ھے چاھتیں تو چھپا سکتیں تھیں
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اٹھنا بیٹھنا دشوار ہو گیا اور آپ کے مرض نے شدت اختیار کر لی تو تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے آپ نے میرے گھر میں ایام مرض گزارنے کے لیے اجازت مانگی۔ سب نے جب اجازت دے دی تو آپ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے، آپ دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے تھے اور آپ کے پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے۔ جن دو صحابہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سہارا لیے ہوئے تھے، ان میں ایک عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھے اور ایک اور صاحب۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کی خبر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دی تو انہوں نے بتلایا، معلوم ہے وہ دوسرے صاحب جن کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہیں لیا، کون ہیں؟ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا مجھے تو نہیں معلوم ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ تھے،
صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4442 ،اردو ترجمہ داؤد راز
یہ شاید اس لئے ہو اللہ بہتر جانتا ہے
عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی رضی اللہ عنہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے)وصی تھے تو آپ نے کہا کہ کب انہیں وصی بنایا۔ میں تو آپ کے وصال کے وقت سر مبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے (بجائے سینے کے) کہا کہ اپنے گود میں رکھے ہوئے تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پانی کا) طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں (سر مبارک) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو وصی کب بنایا۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر 2741 ،اردو ترجمہ داؤد راز