مجہول کی روایت اس لیے رد نہیں ہوتی کہ اس کی جہالت کی وجہ سے اس میں کوئی رد کی وجہ پائی جاتی ہے بلکہ اس وجہ سے رد ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قبول کی صفت نہیں پائی جاتی یعنی احتیاطا قبول نہیں کی جاتی۔ اگر اصل راوی میں عدم عدالت ہوتی تو مجہول ہونے پر اس میں عدم عدالت کی صفت رد پائی جاتی۔ درحقیقت مجہول کی روایت کو رد نہیں موقوف کیا جاتا ہے۔
حافظ نے کہا ہے:۔
إنما وجب العمل بالمقبول منها، لأنها إما أن يوجد فيها أصل صفة القبول - وهو ثبوت صدق الناقل -، أو أصل صفة الرد - وهو ثبوت كذب الناقل - أو لا:
فالأول: يغلب على الظن ثبوت به صدق الخبر لثبوت صدق ناقله فيؤخذ به.
والثاني: يغلب على الظن به كذب الخبر لثبوت كذب ناقله فيطرح.
والثالث: إن وجدت قرينة تلحقه بأحد القسمين التحق، وإلا فيتوقف فيه، وإذا توقف عن العمل به صار كالمردود، لا لثبوت صفة الرد، بل لكونه لم توجد به فيه صفة توجب القبول، والله أعلم.
نزہۃ النظر
بھائی ! آپ کی یہ تقریر فائدہ مند ہے اس آدمی کے جواب میں جو ’’ جہالت ‘‘ کو ضعف متحقق سمجھتا ہے ۔
جس طرح جہالت کی وجہ سے راوی کو بالضبط وجوہ جرح میں سے کسی سے متہم نہیں کیا جاسکتا اسی طرح مجہول کو عادل بھی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
اگر راوی میں اصل عدالت ہوتی تو مجہول العین اور مجہول الحال راوی کی روایات ضعیف کی اقسام میں شمار نہ کی جاتی ہیں ۔ بلکہ کہا جاتا ہے چونکہ اس راوی میں جرح ثابت نہیں لہذا یہ عادل ہے کیونکہ راویوں میں اصل عدالت ہوتی ہے ۔ مجہول کی روایت کو قبول نہ کرنا ( یا اس میں توقف کرنا ) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ راوی میں اصل عدالت نہیں ہے ۔
یہاں ایک اور بات : صرف صحت و ضعف کی خبر نہ ہونے کی وجہ سے (مجہول )راوی کی روایت کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ لہذا جب ضعف ثابت ہو جائے گا پھر تو بالاولی چھوڑ دیا جائے گا ۔ اگر ضعیف روایت میں احتیاط ہوتی تو مجہول کی روایت کو بالاولی احتیاطا قبول کرلیا جاتا ۔
عقلا بھی یہی سمجھ آتا ہے کہ جب ایک شخص تمام باطل معبودوں کو چھوڑ رہا ہے تو اسے جھوٹ وغیرہ تو بطریق اولی چھوڑ دینے چاہئیں۔ اس لیے تعدیل ہی راجح ہونی چاہیے۔
آپ کی اس عقلی بات کی امر واقع نفی کرتا ہے ۔ کیونکہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے باطل معبودوں کو تو چھوڑا ہے لیکن جھوٹ یا دیگر ایسی باتوں کو نہیں چھوڑا جو عدالت کے منافی ہیں ۔
روایت میں بھی اسی طرح ضعیف روایات کو متابعت وغیرہ کے لیے لایا جاتا ہے۔ یعنی اصل ثبوت ہے اور ضعف اس ثبوت سے تھوڑا سا دور کردیتا ہے۔ اگر اصل عدم ثبوت ہوتا تو ضعف تو اس میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہیے تھی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر جگہ ضعیف ضعیف سے مل کر قابل قبول نہیں ہوتی ۔ بلکہ بعض دفعہ ضعیف کا دوسری ضعیف سے ملنا ان دونوں کے ضعف کو مزید واضح کردیتا ہے ۔
دوسری بات جہاں مختلف کمزور روایات مل کر ضعف کے درجہ سے نکل کر قبولیت کے درجہ میں آجاتی ہیں در حقیقت وہ ضعیف ہوتی ہی نہیں ہیں ۔ مثلا 3 راوی ہیں تینوں کا حافظہ اس قدر ساتھ نہیں دیتا کہ عام طور پر بات کو یاد رکھ کر دوسرے کو بیان کرسکیں ۔ ان یہ تینوں الگ الگ بیان کریں گے تو ان کی روایات ضعیف ہوں گی کیونکہ یہاں واضح علت ہے کہ ان کو بات یاد نہیں رہتی ۔
لیکن اگر یہ تینوں ایک ہی بات بیان کریں تو ان کی بات قابل قبول ہوگی ۔ کیونکہ ان تینوں کا ایک ہی بات بیان کرنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں یہ بات یاد رہی ہے تو ان کے الفاظ ( یا معنی ) ایک ہے اگر یہ بھولے ہوئے ہوتے تو ظاہر ہے تینوں کا اتفاق نہ ہوتا ۔
اب کہنے کو تو یہ آخری صورت ضعیف روایت کو قبول کرنا ہے ۔ حالانکہ ایسا ہے نہیں درحقیقت ان تینوں ضعیف راویوں نے ایک صحیح بات کو بیان کیا ہے ۔