• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا اپنی قبر میں زندہ ہونا اور امّت کے درود سننے کے عقیدے کی تحقیق

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم -

اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، اسکو ہر پیش آمدہ بات کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ اس نے اس دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تاکہ شرک کا قلع قمع ہو سکے اور اس دنیا میں اللہ کا نظام اسکے بنائے ہوئے قانون کے تحت چلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلایا اور تمام جھوٹے معبودوں کا انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان خالص کی طرف دعوت دی اور شرک کی غلاظت سے لوگوں کو پاک کیا۔

أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلۡخَالِصُ‌
دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا ہے)۔ سورة الزمر ۲

قُلۡ إِنَّمَآ أُمِرۡتُ أَنۡ أَعۡبُدَ ٱللَّهَ وَلَآ أُشۡرِكَ بِهِ
کہہ دو کہ مجھ کو یہی حکم ہوا ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں۔ سورة الرعد ۳٦

قُلۡ إِنَّمَآ أَنَا۟ بَشَرٌ۬ مِّثۡلُكُمۡ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمۡ إِلَـٰهٌ۬ وَٲحِدٌ۬‌ۖ فَمَن كَانَ يَرۡجُواْ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلۡيَعۡمَلۡ عَمَلاً۬ صَـٰلِحً۬ا وَلَا يُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦۤ أَحَدَۢا
کہہ دو کہ میں تمہاری کا ایک بشر ہوں۔ (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ سورة الکھف ۱۱۰


قرآن کی ان واضح تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ عرب کی سر زمین سے شرک کا خاتمہ ہوگیا اور وہ قوم جس نے کعبہ میں ۳٦۰ بت رکھے ہوئے تھے ایک الہٰ کی بندگی پر مجتمع ہو گئی۔ اسطرح خیر القرون کے دور تک اسلامی تعلیمات ہر طرح کے شرک سے پاک رہیں اور عقائد میں کسی بھی قسم کی خرابی کو در آنے کا موقع نہ مل سکا لیکن جب صحابہ رضی اللہ عنہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور انکے تربیت یافتہ تا بعین اور تبع تابعین بھی اس دنیا میں نہ رہے تو شیطان کو وار کرنے کا موقع مل گیا اور اس نے بڑے عالموں کو اپنے جال میں پھنسانا شروع کر دیا اور یوں ان عالموں کے توسط سے غلط عقائد کو اسلامی تعلیمات میں در آنے کا موقع مل گیا اور آہستہ آہستہ امت مسلمہ کے عقائد میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ اور جہاں سماع و موتیٰ اور عود روح جیسے عقائد اسلامی تعلیمات کا حصہ بنے وہی عرض اعمال کا عقیدہ بھی ایجاد کر لیا گیا اور یوں اللہ کے اختیار اور صفات میں غیر اللہ کو شامل کر کے شرک کا دروازہ کھول دیا گیا۔

اللہ ہی اس تمام کائنات کا مالک ہے، ہر چیز ہر عمل اسی کی طرح لوٹایا جانا ہے۔ قرآن اس معاملے میں پوری طرح بین اور واضح ہے اور اس مسئلے پر کسی قسم کی کوئی لچک یا پہلو تشنہ نہیں چھوڑتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میںارشاد فرماتا ہے:

أَفَمَنۡ هُوَ قَآٮِٕمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡ‌ۗ وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ۔
تو کیا جو (اللہ) ہر متنفس کے اعمال کا نگراں (ونگہباں) ہے (وہ تمہارے معبودوں کی طرح بےعلم وبےخبر ہوسکتا ہے) اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں۔ سورة الرعد ۳۳

يَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍ۬‌ۗ۔
ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ سورة الرعد٤۲

وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرً۬ا
اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور دیکھنے کیلئے کافی ہے۔ سورة بنی اسرائیل۱۷

وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ
اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔ سورة البقرہ۲۱۰

وَإِلَيۡهِ يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُ ۥ
اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ سورة ھود ۱۲۳

وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ سورة الحج ٤۱

وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور (سب)کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے ۔ سورة لقمان۲۲

أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلۡأُمُورُ
دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے ۔ سورة الشوریٰ۵۳


مندرجہ بالا آیات سے یہ بات اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے کہ بندوں کے اعمال پیش ہونے کی جگہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے بارگاہ الہیٰ، اور اللہ اپنی اس صفت میں یکتا و ممتاز ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کے اعمال کے پیش ہونے کا عقیدہ رکھنا اللہ کی صفات میں شرک ہے پھر چاہے وہ عام کئے جانے والے اعمال ہوں یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے پڑھا جانے والا درود و سلام۔ ایک انسان کا کیا جانے والا ہر عمل صرف اللہ کی جناب میں پیش ہوتا ہے اور یہ اس مالک کائنات کے اکیلے رب ہونے کی عظیم دلیل ہے۔ احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ افضل البشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اعمال بھی صرف اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ پیر اور جمعرات کو اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں تو میں صائم ہوں۔ جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب صوم الاربع و الخمیس

اسی طرح عام مومنوں کے اعمال بھی اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں

ابو حریم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیر اور جمعرات کے روز پیش ہوتے ہیں- صحیح مسلم باب کتا ب البروالصلوٰۃ والادب حدیث ٦۲۲٤

پس احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مومن و کافر شخص کے ہر طرح کے اعمال صرف اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔ لیکن ان واضح دلائل کے باوجود فرقہ پرستوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اعمال پیش ہونے کا مشرکانہ عقیدہ گھڑ لیا اور امت کےعقائد میں شرک کی ملاوٹ جیسا گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا۔بریلویوں کے نزدیک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے اعمال سے ہر وقت واقف ہیں اور اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ہردم اور ہروقت ہی پیش ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ دیوبندیوں کے اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں کہ:

کوئی دن ایسا نہیں جب امت کے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح و شام نہ پیش کئے جاتے ہوں۔ نشر الطیب ص ۱۴۰

اسی طرح سے ایک اور دیوبندی عالم یوسف کاندھلوی ’اختلاف امت اور صراط مستقیم جلد دوم ص ۸۹‘ میں لکھتے ہیں

اگر کوئی شخص قبر نبوی کے پاس صلوٰۃ و سلام پڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اسکو سنتے ہیں اور دور سے پڑھے ہوئے صلوٰۃ و سلام کو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں جسکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب بھی دیتے ہیں۔‘

امام ابن تیمیہ اپنی کتاب الجواب الباہر ص ۱۲۰‘ پر لکھتے ہیں

’آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب سے سلام سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھا جانے والا سلام ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیتے ہیں‘

قرآن لاکھ کہتا رہے کہ اعمال کے پیش ہونے کی جگہ صرف بارگاہ الہٰی ہے، درود سلام ہو یا اچھے برے اعمال صرف اسی اللہ کی بارگا ہ میں پیش ہوتے ہیں لیکن ہمارے فرقہ پرست عالموں کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی اس صفت میں اسکے ساتھ شریک ہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ نے قرٓان میں فرمایا:

وَمَا يُؤۡمِنُ أَڪۡثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشۡرِكُونَ
اوراکثر لوگ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں تو ا س طرح کہ شرک بھی کرتے جاتے ہیں۔ سورة یوسف۱۰٦


اپنے اس باطل عقیدے کے اثبات کیلئے اوپر دی گئی واضح قرآنی آیات اور احادیث کے باوجود فرقہ پرستوں کی طرف سے موضوع و منکر روایات لائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو گمراہ رکھا جا سکے اور اپنی چودھراہٹ قائم رہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ قارئین کے سامنے ان موضوع روایات کی حقیقت واضح کر دی جائے۔

روایت نمبر۱

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو آپ پر اچھی طرح درود بھیجو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاید پیش کیا جا رہا ہو۔ ابن ماجہ جلد ۱، ص ۲۵۸

عِلّت

اس حدیث کے ایک راوی مسعودی پر محدثین کی جرح موجود ہے۔ ان مسعودی کا پورا نام عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبۃ بن عبداللہ بن السدی بن المسعودی الکوفی تھا۔ بعض اآئمہ نے ان سے روایت کرنا مکروہ خیال کیا ہے، یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۰۹)

اسلئے مسعودی کے ضعف کی وجہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں۔

روایت نمبر۲

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے قریب درود پڑھتا ہے میں اسے سنتا ہوں اور جو میری قبر سے دور مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ درود میرے پاس پہنچا دیا جا تا ہے۔

عِلّت

امام عقیلی اس روایت کو اپنی کتاب ّالضعفا الکبیرٗ میں لائے ہیں جو کہ خود اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ امام عقیلی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا اصل لہ (اسکی کوئی اصل نہیں)۔ اسکے ایک راوی محمد بن مروان کو جریر اور ابن نمیر نے کذاب، ابن حبان اور صالح بن محمد نے حدیثیں گھڑنے والا اور نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے۔ (تہذیب الکمال جلد ۲٦، ص ۳۹۳، ضعفاالکبیر للعقیلی جلد ٤ ص ۱۳٦، کتا ب الضعفا المتروکین النسائی ص ۲۱۹، الکامل فی ضعفا الرجال جلد ۷ ص ۵۱۲)۔ اس مضمون کی دوسری حدیث ابن وہب سے مروی ہے جو سارے اہل علم کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا مشہور ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳، ص ۲۷۸

روایت نمبر ۳

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ میری قبر کے قریب سلام پڑھتا ہے تو اللہ وہاں ایک فرشتہ متعین فرما دیتا ہے وہ مجھ تک سلام پہنچاتا ہے اور اس بندے کی آخرت اور دنیا کے معاملات میں کفایت کی جاتی ہے اور قیامت کے روز میں اس بندے کا شفیع ہونگا۔ ابو داؤد

عِلّت

اس روایت میں ایک راوی محمد بن موسیٰ کذاب اور وضاع ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ محمد بن موسیٰ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ محمد بن موسیٰ اپنی طرف سے روایات گھڑتا اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۱٤۱

اس طرح کی ایک اور روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦

روایت نمبر ٤

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا کہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔ نسائی جلد ۱ ص ۱۳۹، مسند احمد جلد ٤ ص۸، ابو داود جلد ۱ ص۱۵۰

عِلّت

اس روایت کے راوی حماد بن اسامہ نے غلطی سے اس روایت کو ثقہ راوی عبد الرحٰمن بن یزید بن جابر کیطرف منسوب کر دیا جبکہ اصل میں یہ روایت منکرالحدیث راوی عبدالرحٰمن بن یزید بن تمیم سے مروی ہے (التاریخ الکبیر جلد ۳ ص۳۶۵، التاریخ الصغیر ص۱۷۵، للمولف امام بخاری)

جبکہ امام رازی اپنی کتاب ’علل الحدیث جلد ۱ ص۱۹۷‘ میں اس روایت کو منکر قرار دیتے ہیں اور اس روایت سے کسی بھی قسم کے اعتراض کو باطل گردانتے ہیں۔یہی بات امام رازی اپنی کتاب ’کتاب الجرح والتعدیل جلد۵ ص۳۰۰۔۳۰۱ میں لائے ہیں اور اس روایت کو منکر اور موضوع قرار دیا ہے۔

روایت نمبر ۵

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کاسلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔

عِلّت

اسکے ایک راوی ذاذان پر شیعت کا الزام ہے اور شیعہ فرقہ اپنے آئمہ پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اسلئے ذاذان کی یہ روایت اسکے تشیع اور بدعتی عقیدے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ (تقریب التہذیب ص ۱۰۵)

یہ تھی وہ روایات جو کہ اس باطل عقیدے کو ثابت کرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بھی روایت اس قابل نہیں کہ اس پر عقیدے کی بنیاد رکھی جائے، اور حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق کوئی حدیث حدیث کی تین مستند ترین کتابوں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور موطا امام مالک میں نہیں پائی جاتیں۔ ملتی ہیں تو اس طرح کی روایات صرف دوسرے اور تیسرے درجہ کی کتابوں میں۔

اور پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صلوٰۃوسلام شروع تو ہوتا ہے ’اللھم۔۔۔۔‘ یعنی اے اللہ۔۔۔ سے اور فرشتے اسکو لے جائیں نبیؐ کے پاس۔ صلوٰۃوسلام دراصل اللہ سے نبیؐ کیلئے رحمت کی دعا ہے اور دعا جس کیلئے بھی کی جائے وہ اللہ کے حضور ہی جاتی، جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اسکے پاس کبھی دعا نہیں جاتی۔ اور پھر دعا سب سے افضل عبادت ہے اور تمام عبادات صرف اللہ کیلئے اور اللہ کے حضور ہی پیش ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبیؐ نے مسلمانوں کو التحیات میں سکھایا:

التحیات للہ والصلوٰت و الطیبٰت: تمام زبانی عبادتیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں

معلوم ہوا کہ انسانی اعمال صرف اللہ کی بارگاہ میں ہی پیش ہوتے ہیں، نبیؐ کے پاس نہیں اور جو یہ اصرار کریں کہ اعمال آپ ﷺ پر بھی پیش ہوتے ہیں تو انہوں نے نبیؐ کو اللہ کی صفات اور اختیارات میں شریک کر کے الہٰ بنالیا ہے۔لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ صلوٰۃوسلام اللہ کے بجائے یا پھر اللہ کے ساتھ ساتھ نبیؐ کے حضور بھی جاتا ہے صریح شرک ہے ۔ اللہ ہم کو اس طرح کے شرک سے محفوظ رکھے۔ قرآن و حدیث کے خلاف اس عقیدے کو ایمان کا حصہ بنانا کتاب اللہ کا انکار ہے جسکا انجام صرف جہنم کی آگ ہے۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2015
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
42
پوائنٹ
56
امام ابن تیمیہ اپنی کتاب الجواب الباہر ص ۱۲۰‘ پر لکھتے ہیں

’آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب سے سلام سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھا جانے والا سلام ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیتے ہیں‘
السلام علیکم۔
کیا امام ابن تیمیہ کا بھی یہ عقیدہ تھا؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم۔
کیا امام ابن تیمیہ کا بھی یہ عقیدہ تھا؟
و علیکم سلام و رحمت الله -

جی ہاں! امام ابن تیمیہ رح کہتے ہیں-

أنه صلى الله عليه وسلم يسمع السلام من القريب (مجموع الفتاوى ج ٢٧ ص ٣٨٤)
بے شک نبی صلی الله علیہ وسلم قبر کے قریب پکارا جانے والا سلام سنتے ہیں-

امام ابن تیمیہ رح کا یہ فتویٰ اس روایت کی بنیاد پر تھا-

کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے

لیکن مذکورہ بالا روایت انتہائی ضعیف اور من گھڑت ہے- دیکھئے (تہذیب الکمال جلد ۲٦، ص ۳۹۳، ضعفاالکبیر للعقیلی جلد ٤ ص ۱۳٦)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
امام ابن تیمیہ رح کا یہ فتویٰ اس روایت کی بنیاد پر تھا-

کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے

لیکن مذکورہ بالا روایت انتہائی ضعیف اور من گھڑت ہے- دیکھئے (تہذیب الکمال جلد ۲٦، ص ۳۹۳، ضعفاالکبیر للعقیلی جلد ٤ ص ۱۳٦)
ایک روایت پر اصول حدیث کے مطابق کچھ روشنی ڈالیں :
قال الامام أحمد في المسند :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُسَيْطٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ، إِلَّا رَدَّ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ " (1)
__________
مسند احمد کی تحقیق کرنے والےشیخ شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
(1)
إسناده حسن، أبو صخر- وهو حميد بن زياد الخراط- حسن الحديث، روى له مسلم، وباقى رجاله ثقات رجال الشيخين. حيوة: هو ابن شريح.
وأخرجه أبو داود (2041) ، والبيهقى 5/245 من طريق عبد الله بن يزيد المقرىء، بهذا الإسناد.

خلاصہ یہ کہ اس کی اسناد حسن ہے ۔
-------------------------------------------
وقال ابو داود :؛
حدثنا محمد بن عوف حدثنا المقرئ حدثنا حيوة عن ابي صخر حميد بن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " ما من احد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى ارد عليه السلام ".


سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔(قال الشيخ الألباني: حسن )

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف: ۱۴۸۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۲۷) (حسن)
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: If any one of you greets me, Allah returns my soul to me and I respond to the greeting.
English Translation Reference:, Book 10, Number 2036
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میں آپ کا رد تو نہیں کرتا ۔۔۔تاہم ایک روایت پر اصول حدیث کے مطابق کچھ روشنی ڈالیں :
قال الامام أحمد في المسند :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ قُسَيْطٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ، إِلَّا رَدَّ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ " (1)
__________
قال المحقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون
(1) إسناده حسن، أبو صخر- وهو حميد بن زياد الخراط- حسن الحديث، روى له مسلم، وباقى رجاله ثقات رجال الشيخين. حيوة: هو ابن شريح.
وأخرجه أبو داود (2041) ، والبيهقى 5/245 من طريق عبد الله بن يزيد المقرىء، بهذا الإسناد.
-------------------------------------------
وقال ابو داود :؛
حدثنا محمد بن عوف حدثنا المقرئ حدثنا حيوة عن ابي صخر حميد بن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " ما من احد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى ارد عليه السلام ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔(قال الشيخ الألباني: حسن )

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، ( تحفة الأشراف: ۱۴۸۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۵۲۷) (حسن)
Narrated Abu Hurairah: The Prophet ﷺ said: If any one of you greets me, Allah returns my soul to me and I respond to the greeting.
English Translation Reference:, Book 10, Number 2036
السلام و علیکم و رحمت الله -

وقال ابو داود :؛
حدثنا محمد بن عوف حدثنا المقرئ حدثنا حيوة عن ابي صخر حميد بن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " ما من احد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى ارد عليه السلام ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔(قال الشيخ الألباني: حسن )

مذکورہ بالا حدیث میں کچھ علتیں ہیں:

اول: روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦:

دوم: صلوٰۃ وسلام دراصل اللہ سے نبیؐ کریم کیلئے رحمت کی دعا ہے اور دعا جس کیلئے بھی کی جائے وہ اللہ کے حضور ہی جاتی، جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اسکے پاس کبھی دعا نہیں جاتی۔ دعا ایک عبادت ہے جیسے ہم نماز میں تشہد کے دوران پڑھتے ہیں (جیسا کہ نبی مکرم نے سکھایا) -التحیات للہ والصلوٰت و الطیبٰت: تمام زبانی عبادتیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں-

سوم: مذکورہ روایت میں الفاظ نبوی "فعل حال" کے طور پر پیش کیے گئے ہیں - کہ "مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں" - بالفرض اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو الفاظ "فعل مستقبل" پر مبنی ہونے چاہیے تھے نا کہ فعل حال پر- یعنی کہنا یہ ہوتا کہ "میری وفات کے بعد مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر لوٹانے گا یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا سن کر اس کا جواب دونگا"

چہارم: یہ روایت قرآن کے نص صریح سے متصادم ہے - قرآن میں الله کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ - أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢٠-٢١
اور جنہیں یہ الله کے سوا پکارتے ہیں (یعنی انبیاء و اولیاء وغیرہ) وہ کچھ بھی پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور انھیں شعور نہیں کہ وہ کب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے-

جب کہ سلام سن کر سلام کا جواب دینا شعور کے بغیر ممکن نہیں-

پنجم: امّت محمدیہ تو ہر وقت ہر لمحہ الله سے نبی کریم محمّد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آ له وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی درخواست کرتی رہتی ہے- سوال ہے کہ ایسی صورت میں بار بار روح محمّدی کو جسم مبارک میں لوٹانے کا کیا جواز باقی رہتا ہے؟؟؟ جب کہ امّت کی طرف سے بھیجے گئے دررود و سلام کا ایک لمحہ بھی خالی نہیں جاتا ؟؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام و علیکم و رحمت الله -

وقال ابو داود :؛
حدثنا محمد بن عوف حدثنا المقرئ حدثنا حيوة عن ابي صخر حميد بن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " ما من احد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى ارد عليه السلام ".

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔(قال الشيخ الألباني: حسن )

مذکورہ بالا حدیث میں کچھ علتیں ہیں:
اول: روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦:
آپ کے اعتراض دو وجہ سے بالکل غلط ہے :
(۱) یہ کہ ہماری پیش کردہ مسند احمد کی پہلی روایت میں۔۔محمد بن عوف۔۔موجود نہیں ۔۔۔۔۔اس لئے اس راوی کی بنیاد پر ۔۔ضعف ۔۔کا حکم نہیں لگ سکتا؛
(۲) آپ کو بہت بڑی غلط فہمی لگی ہے ،
سنن ابو داؤد میں جس ۔۔محمد بن عوف ۔۔سے روایت مروی ہے ،اس کا ترجمہ میزان الاعتدال میں کیسے آسکتاہے ،میزان میں تو صرف ۔۔ضعیف رواۃ۔۔کا بیان کیا گیا ہے ۔۔۔۔اور سنن ابو داؤد کی اس روایت کے راوی ۔۔محمد بن عوف۔۔کا مفصل ترجمہ خود امام الذہبی نے ۔۔سیر اعلام النبلاء ۔۔کی بارہویں جلد میں بڑے فضائل و مناقب کے ساتھ فرمایا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
( یہاں ۔۔دال ۔۔کی علامت ۔۔سنن ابی داود ۔کیلئے ہے )

محمد بن عوف بن سفيان الطائي * (د)۔۔
الإمام، الحافظ، المجود، محدث حمص، أبو جعفر الطائي، الحمصي.
سمع: عبيد الله بن موسى، ومحمد بن يوسف الفريابي، وأبا المغيرة الخولاني، وأحمد بن خالد الوهبي، وعبد السلام بن عبد الحميد السكوني،
وهاشم بن عمرو شقران، وأبا مسهر، وآدم بن أبي إياس، وعلي بن عياش، وخلقا كثيرا بالعراق والشام.
حدث عنه: أبو داود، وأبو زرعة، وأبو حاتم، والنسائي في (مسند علي) ، وأبو زرعة الدمشقي،
قال أبو حاتم: هو صدوق
وقيل لابن معين في حديث لابن عوف، فقال: هو أعرف بحديث أهل بلده.
وقال ابن عدي: هو عالم بحديث الشام صحيحا وضعيفا.
وكان على ابن عوف اعتماد ابن جوصا، ومنه يسأل، وخاصة حديث حمص .
وعن أحمد بن حنبل، قال: ما كان بالشام منذ أربعين سنة مثل محمد بن عوف (3) .
وكذلك أثنى طائفة من الكبار على ابن عوف، ووصفوه بالحفظ والعلم والتبحر.


اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ :
محمد بن عوف ،،کے راوی ہیں ۔۔۔اور شام کے شہر حمص کے مشہور محدث ہیں ،علم حدیث میں ۔۔امام ۔۔اور ۔۔حافظ ۔۔جیسے عالی مرتبہ پر فائز ہیں ؛
ان سے دور تدوین کے عظیم محدثین ’’ أبو داود، وأبو زرعة، وأبو حاتم، والنسائي في (مسند علي) ، وأبو زرعة الدمشقي ‘‘ نے حدیث کا سماع کیا ہے
اور استاذ المحدثین امام احمد ؒ فرماتےہیں ۔۔چالیس سال سے ملک شام میں ان جیسا محدث نہیں ؛
اکابر محدثین نے ان کے حفظ و امامت اور تبحر علمی کا اعتراف کیا ہے ‘‘
اب آپ انصاف سے بتائیں کسی ۔۔مجہول الحال ۔۔کی ایسے تعریف کی جاتی ہے
بقیہ نکات پر رات کو بات کریں گے ،ان شاء اللہ الکریم
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سنن ابو داؤد کی اس روایت کے راوی ۔۔محمد بن عوف۔۔کا مفصل ترجمہ خود امام الذہبی نے ۔۔سیر اعلام النبلاء ۔۔کی بارہویں جلد میں بڑے فضائل و مناقب کے ساتھ فرمایا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
محمد بن عوف1.gif
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ کے اعتراض دو وجہ سے بالکل غلط ہے :
(۱) یہ کہ ہماری پیش کردہ مسند احمد کی پہلی روایت میں۔۔محمد بن عوف۔۔موجود نہیں ۔۔۔۔۔اس لئے اس راوی کی بنیاد پر ۔۔ضعف ۔۔کا حکم نہیں لگ سکتا؛
(۲) آپ کو بہت بڑی غلط فہمی لگی ہے ،
سنن ابو داؤد میں جس ۔۔محمد بن عوف ۔۔سے روایت مروی ہے ،اس کا ترجمہ میزان الاعتدال میں کیسے آسکتاہے ،میزان میں تو صرف ۔۔ضعیف رواۃ۔۔کا بیان کیا گیا ہے ۔۔۔۔اور سنن ابو داؤد کی اس روایت کے راوی ۔۔محمد بن عوف۔۔کا مفصل ترجمہ خود امام الذہبی نے ۔۔سیر اعلام النبلاء ۔۔کی بارہویں جلد میں بڑے فضائل و مناقب کے ساتھ فرمایا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
( یہاں ۔۔دال ۔۔کی علامت ۔۔سنن ابی داود ۔کیلئے ہے )

محمد بن عوف بن سفيان الطائي * (د)۔۔
الإمام، الحافظ، المجود، محدث حمص، أبو جعفر الطائي، الحمصي.
سمع: عبيد الله بن موسى، ومحمد بن يوسف الفريابي، وأبا المغيرة الخولاني، وأحمد بن خالد الوهبي، وعبد السلام بن عبد الحميد السكوني،
وهاشم بن عمرو شقران، وأبا مسهر، وآدم بن أبي إياس، وعلي بن عياش، وخلقا كثيرا بالعراق والشام.
حدث عنه: أبو داود، وأبو زرعة، وأبو حاتم، والنسائي في (مسند علي) ، وأبو زرعة الدمشقي،
قال أبو حاتم: هو صدوق
وقيل لابن معين في حديث لابن عوف، فقال: هو أعرف بحديث أهل بلده.
وقال ابن عدي: هو عالم بحديث الشام صحيحا وضعيفا.
وكان على ابن عوف اعتماد ابن جوصا، ومنه يسأل، وخاصة حديث حمص .
وعن أحمد بن حنبل، قال: ما كان بالشام منذ أربعين سنة مثل محمد بن عوف (3) .
وكذلك أثنى طائفة من الكبار على ابن عوف، ووصفوه بالحفظ والعلم والتبحر.


اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ :
محمد بن عوف ،،کے راوی ہیں ۔۔۔اور شام کے شہر حمص کے مشہور محدث ہیں ،علم حدیث میں ۔۔امام ۔۔اور ۔۔حافظ ۔۔جیسے عالی مرتبہ پر فائز ہیں ؛
ان سے دور تدوین کے عظیم محدثین ’’ أبو داود، وأبو زرعة، وأبو حاتم، والنسائي في (مسند علي) ، وأبو زرعة الدمشقي ‘‘ نے حدیث کا سماع کیا ہے
اور استاذ المحدثین امام احمد ؒ فرماتےہیں ۔۔چالیس سال سے ملک شام میں ان جیسا محدث نہیں ؛
اکابر محدثین نے ان کے حفظ و امامت اور تبحر علمی کا اعتراف کیا ہے ‘‘
اب آپ انصاف سے بتائیں کسی ۔۔مجہول الحال ۔۔کی ایسے تعریف کی جاتی ہے
بقیہ نکات پر رات کو بات کریں گے ،ان شاء اللہ الکریم
السلام وعلیکم و رحمت الله -

چلیں مان لیتے ہیں کہ محمد بن عوف مجہول الحال نہیں بلکہ عظیم محدثین میں سے ہیں- لیکن ابوداؤد کی روایت کے اگلے راوی "ابي صخر حميد بن زياد" سے متعلق محترم "کفایت الله" صاحب اس تھریڈ میں رقمطرازہیں -

"ہمارے ناقص مطالعہ کی روشنی میں یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ اسے کو روایت کرنے میں ’’أبو صخر حميد بن زياد‘‘ منفرد ہے"

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے یہ لنک :

http://forum.mohaddis.com/threads/درود-وسلام-کا-جواب-دینے-کے-لئےقبرنبوی-میں-روح-کا-لوٹایا-جانا۔.15673/
 
Top