محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
السلام علیکم -
اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، اسکو ہر پیش آمدہ بات کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ اس نے اس دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تاکہ شرک کا قلع قمع ہو سکے اور اس دنیا میں اللہ کا نظام اسکے بنائے ہوئے قانون کے تحت چلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلایا اور تمام جھوٹے معبودوں کا انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان خالص کی طرف دعوت دی اور شرک کی غلاظت سے لوگوں کو پاک کیا۔
أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلۡخَالِصُ
دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا ہے)۔ سورة الزمر ۲
قُلۡ إِنَّمَآ أُمِرۡتُ أَنۡ أَعۡبُدَ ٱللَّهَ وَلَآ أُشۡرِكَ بِهِ
کہہ دو کہ مجھ کو یہی حکم ہوا ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں۔ سورة الرعد ۳٦
قُلۡ إِنَّمَآ أَنَا۟ بَشَرٌ۬ مِّثۡلُكُمۡ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمۡ إِلَـٰهٌ۬ وَٲحِدٌ۬ۖ فَمَن كَانَ يَرۡجُواْ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلۡيَعۡمَلۡ عَمَلاً۬ صَـٰلِحً۬ا وَلَا يُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦۤ أَحَدَۢا
کہہ دو کہ میں تمہاری کا ایک بشر ہوں۔ (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ سورة الکھف ۱۱۰
قرآن کی ان واضح تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ عرب کی سر زمین سے شرک کا خاتمہ ہوگیا اور وہ قوم جس نے کعبہ میں ۳٦۰ بت رکھے ہوئے تھے ایک الہٰ کی بندگی پر مجتمع ہو گئی۔ اسطرح خیر القرون کے دور تک اسلامی تعلیمات ہر طرح کے شرک سے پاک رہیں اور عقائد میں کسی بھی قسم کی خرابی کو در آنے کا موقع نہ مل سکا لیکن جب صحابہ رضی اللہ عنہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور انکے تربیت یافتہ تا بعین اور تبع تابعین بھی اس دنیا میں نہ رہے تو شیطان کو وار کرنے کا موقع مل گیا اور اس نے بڑے عالموں کو اپنے جال میں پھنسانا شروع کر دیا اور یوں ان عالموں کے توسط سے غلط عقائد کو اسلامی تعلیمات میں در آنے کا موقع مل گیا اور آہستہ آہستہ امت مسلمہ کے عقائد میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ اور جہاں سماع و موتیٰ اور عود روح جیسے عقائد اسلامی تعلیمات کا حصہ بنے وہی عرض اعمال کا عقیدہ بھی ایجاد کر لیا گیا اور یوں اللہ کے اختیار اور صفات میں غیر اللہ کو شامل کر کے شرک کا دروازہ کھول دیا گیا۔
اللہ ہی اس تمام کائنات کا مالک ہے، ہر چیز ہر عمل اسی کی طرح لوٹایا جانا ہے۔ قرآن اس معاملے میں پوری طرح بین اور واضح ہے اور اس مسئلے پر کسی قسم کی کوئی لچک یا پہلو تشنہ نہیں چھوڑتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میںارشاد فرماتا ہے:
أَفَمَنۡ هُوَ قَآٮِٕمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡۗ وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ۔
تو کیا جو (اللہ) ہر متنفس کے اعمال کا نگراں (ونگہباں) ہے (وہ تمہارے معبودوں کی طرح بےعلم وبےخبر ہوسکتا ہے) اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں۔ سورة الرعد ۳۳
يَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍ۬ۗ۔
ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ سورة الرعد٤۲
وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرً۬ا
اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور دیکھنے کیلئے کافی ہے۔ سورة بنی اسرائیل۱۷
وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ
اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔ سورة البقرہ۲۱۰
وَإِلَيۡهِ يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُ ۥ
اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ سورة ھود ۱۲۳
وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ سورة الحج ٤۱
وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور (سب)کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے ۔ سورة لقمان۲۲
أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلۡأُمُورُ
دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے ۔ سورة الشوریٰ۵۳
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے کہ بندوں کے اعمال پیش ہونے کی جگہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے بارگاہ الہیٰ، اور اللہ اپنی اس صفت میں یکتا و ممتاز ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کے اعمال کے پیش ہونے کا عقیدہ رکھنا اللہ کی صفات میں شرک ہے پھر چاہے وہ عام کئے جانے والے اعمال ہوں یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے پڑھا جانے والا درود و سلام۔ ایک انسان کا کیا جانے والا ہر عمل صرف اللہ کی جناب میں پیش ہوتا ہے اور یہ اس مالک کائنات کے اکیلے رب ہونے کی عظیم دلیل ہے۔ احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ افضل البشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اعمال بھی صرف اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ پیر اور جمعرات کو اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں تو میں صائم ہوں۔ جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب صوم الاربع و الخمیس
اسی طرح عام مومنوں کے اعمال بھی اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں
ابو حریم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیر اور جمعرات کے روز پیش ہوتے ہیں- صحیح مسلم باب کتا ب البروالصلوٰۃ والادب حدیث ٦۲۲٤
پس احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مومن و کافر شخص کے ہر طرح کے اعمال صرف اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔ لیکن ان واضح دلائل کے باوجود فرقہ پرستوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اعمال پیش ہونے کا مشرکانہ عقیدہ گھڑ لیا اور امت کےعقائد میں شرک کی ملاوٹ جیسا گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا۔بریلویوں کے نزدیک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے اعمال سے ہر وقت واقف ہیں اور اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ہردم اور ہروقت ہی پیش ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ دیوبندیوں کے اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں کہ:
کوئی دن ایسا نہیں جب امت کے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح و شام نہ پیش کئے جاتے ہوں۔ نشر الطیب ص ۱۴۰
اسی طرح سے ایک اور دیوبندی عالم یوسف کاندھلوی ’اختلاف امت اور صراط مستقیم جلد دوم ص ۸۹‘ میں لکھتے ہیں
اگر کوئی شخص قبر نبوی کے پاس صلوٰۃ و سلام پڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اسکو سنتے ہیں اور دور سے پڑھے ہوئے صلوٰۃ و سلام کو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں جسکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب بھی دیتے ہیں۔‘
امام ابن تیمیہ اپنی کتاب الجواب الباہر ص ۱۲۰‘ پر لکھتے ہیں
’آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب سے سلام سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھا جانے والا سلام ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیتے ہیں‘
قرآن لاکھ کہتا رہے کہ اعمال کے پیش ہونے کی جگہ صرف بارگاہ الہٰی ہے، درود سلام ہو یا اچھے برے اعمال صرف اسی اللہ کی بارگا ہ میں پیش ہوتے ہیں لیکن ہمارے فرقہ پرست عالموں کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی اس صفت میں اسکے ساتھ شریک ہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ نے قرٓان میں فرمایا:
وَمَا يُؤۡمِنُ أَڪۡثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشۡرِكُونَ
اوراکثر لوگ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں تو ا س طرح کہ شرک بھی کرتے جاتے ہیں۔ سورة یوسف۱۰٦
اپنے اس باطل عقیدے کے اثبات کیلئے اوپر دی گئی واضح قرآنی آیات اور احادیث کے باوجود فرقہ پرستوں کی طرف سے موضوع و منکر روایات لائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو گمراہ رکھا جا سکے اور اپنی چودھراہٹ قائم رہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ قارئین کے سامنے ان موضوع روایات کی حقیقت واضح کر دی جائے۔
روایت نمبر۱
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو آپ پر اچھی طرح درود بھیجو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاید پیش کیا جا رہا ہو۔ ابن ماجہ جلد ۱، ص ۲۵۸
عِلّت
اس حدیث کے ایک راوی مسعودی پر محدثین کی جرح موجود ہے۔ ان مسعودی کا پورا نام عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبۃ بن عبداللہ بن السدی بن المسعودی الکوفی تھا۔ بعض اآئمہ نے ان سے روایت کرنا مکروہ خیال کیا ہے، یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۰۹)
اسلئے مسعودی کے ضعف کی وجہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں۔
روایت نمبر۲
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے قریب درود پڑھتا ہے میں اسے سنتا ہوں اور جو میری قبر سے دور مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ درود میرے پاس پہنچا دیا جا تا ہے۔
عِلّت
امام عقیلی اس روایت کو اپنی کتاب ّالضعفا الکبیرٗ میں لائے ہیں جو کہ خود اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ امام عقیلی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا اصل لہ (اسکی کوئی اصل نہیں)۔ اسکے ایک راوی محمد بن مروان کو جریر اور ابن نمیر نے کذاب، ابن حبان اور صالح بن محمد نے حدیثیں گھڑنے والا اور نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے۔ (تہذیب الکمال جلد ۲٦، ص ۳۹۳، ضعفاالکبیر للعقیلی جلد ٤ ص ۱۳٦، کتا ب الضعفا المتروکین النسائی ص ۲۱۹، الکامل فی ضعفا الرجال جلد ۷ ص ۵۱۲)۔ اس مضمون کی دوسری حدیث ابن وہب سے مروی ہے جو سارے اہل علم کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا مشہور ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳، ص ۲۷۸
روایت نمبر ۳
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ میری قبر کے قریب سلام پڑھتا ہے تو اللہ وہاں ایک فرشتہ متعین فرما دیتا ہے وہ مجھ تک سلام پہنچاتا ہے اور اس بندے کی آخرت اور دنیا کے معاملات میں کفایت کی جاتی ہے اور قیامت کے روز میں اس بندے کا شفیع ہونگا۔ ابو داؤد
عِلّت
اس روایت میں ایک راوی محمد بن موسیٰ کذاب اور وضاع ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ محمد بن موسیٰ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ محمد بن موسیٰ اپنی طرف سے روایات گھڑتا اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۱٤۱
اس طرح کی ایک اور روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦
روایت نمبر ٤
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا کہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔ نسائی جلد ۱ ص ۱۳۹، مسند احمد جلد ٤ ص۸، ابو داود جلد ۱ ص۱۵۰
عِلّت
اس روایت کے راوی حماد بن اسامہ نے غلطی سے اس روایت کو ثقہ راوی عبد الرحٰمن بن یزید بن جابر کیطرف منسوب کر دیا جبکہ اصل میں یہ روایت منکرالحدیث راوی عبدالرحٰمن بن یزید بن تمیم سے مروی ہے (التاریخ الکبیر جلد ۳ ص۳۶۵، التاریخ الصغیر ص۱۷۵، للمولف امام بخاری)
جبکہ امام رازی اپنی کتاب ’علل الحدیث جلد ۱ ص۱۹۷‘ میں اس روایت کو منکر قرار دیتے ہیں اور اس روایت سے کسی بھی قسم کے اعتراض کو باطل گردانتے ہیں۔یہی بات امام رازی اپنی کتاب ’کتاب الجرح والتعدیل جلد۵ ص۳۰۰۔۳۰۱ میں لائے ہیں اور اس روایت کو منکر اور موضوع قرار دیا ہے۔
روایت نمبر ۵
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کاسلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔
عِلّت
اسکے ایک راوی ذاذان پر شیعت کا الزام ہے اور شیعہ فرقہ اپنے آئمہ پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اسلئے ذاذان کی یہ روایت اسکے تشیع اور بدعتی عقیدے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ (تقریب التہذیب ص ۱۰۵)
یہ تھی وہ روایات جو کہ اس باطل عقیدے کو ثابت کرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بھی روایت اس قابل نہیں کہ اس پر عقیدے کی بنیاد رکھی جائے، اور حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق کوئی حدیث حدیث کی تین مستند ترین کتابوں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور موطا امام مالک میں نہیں پائی جاتیں۔ ملتی ہیں تو اس طرح کی روایات صرف دوسرے اور تیسرے درجہ کی کتابوں میں۔
اور پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صلوٰۃوسلام شروع تو ہوتا ہے ’اللھم۔۔۔۔‘ یعنی اے اللہ۔۔۔ سے اور فرشتے اسکو لے جائیں نبیؐ کے پاس۔ صلوٰۃوسلام دراصل اللہ سے نبیؐ کیلئے رحمت کی دعا ہے اور دعا جس کیلئے بھی کی جائے وہ اللہ کے حضور ہی جاتی، جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اسکے پاس کبھی دعا نہیں جاتی۔ اور پھر دعا سب سے افضل عبادت ہے اور تمام عبادات صرف اللہ کیلئے اور اللہ کے حضور ہی پیش ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبیؐ نے مسلمانوں کو التحیات میں سکھایا:
التحیات للہ والصلوٰت و الطیبٰت: تمام زبانی عبادتیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں
معلوم ہوا کہ انسانی اعمال صرف اللہ کی بارگاہ میں ہی پیش ہوتے ہیں، نبیؐ کے پاس نہیں اور جو یہ اصرار کریں کہ اعمال آپ ﷺ پر بھی پیش ہوتے ہیں تو انہوں نے نبیؐ کو اللہ کی صفات اور اختیارات میں شریک کر کے الہٰ بنالیا ہے۔لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ صلوٰۃوسلام اللہ کے بجائے یا پھر اللہ کے ساتھ ساتھ نبیؐ کے حضور بھی جاتا ہے صریح شرک ہے ۔ اللہ ہم کو اس طرح کے شرک سے محفوظ رکھے۔ قرآن و حدیث کے خلاف اس عقیدے کو ایمان کا حصہ بنانا کتاب اللہ کا انکار ہے جسکا انجام صرف جہنم کی آگ ہے۔
اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے، اسکو ہر پیش آمدہ بات کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔ اس نے اس دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تاکہ شرک کا قلع قمع ہو سکے اور اس دنیا میں اللہ کا نظام اسکے بنائے ہوئے قانون کے تحت چلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر لوگوں کو ایک اللہ کی بندگی کی طرف بلایا اور تمام جھوٹے معبودوں کا انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان خالص کی طرف دعوت دی اور شرک کی غلاظت سے لوگوں کو پاک کیا۔
أَلَا لِلَّهِ ٱلدِّينُ ٱلۡخَالِصُ
دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا ہے)۔ سورة الزمر ۲
قُلۡ إِنَّمَآ أُمِرۡتُ أَنۡ أَعۡبُدَ ٱللَّهَ وَلَآ أُشۡرِكَ بِهِ
کہہ دو کہ مجھ کو یہی حکم ہوا ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں۔ سورة الرعد ۳٦
قُلۡ إِنَّمَآ أَنَا۟ بَشَرٌ۬ مِّثۡلُكُمۡ يُوحَىٰٓ إِلَىَّ أَنَّمَآ إِلَـٰهُكُمۡ إِلَـٰهٌ۬ وَٲحِدٌ۬ۖ فَمَن كَانَ يَرۡجُواْ لِقَآءَ رَبِّهِۦ فَلۡيَعۡمَلۡ عَمَلاً۬ صَـٰلِحً۬ا وَلَا يُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهِۦۤ أَحَدَۢا
کہہ دو کہ میں تمہاری کا ایک بشر ہوں۔ (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے۔ تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے ۔ سورة الکھف ۱۱۰
قرآن کی ان واضح تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ عرب کی سر زمین سے شرک کا خاتمہ ہوگیا اور وہ قوم جس نے کعبہ میں ۳٦۰ بت رکھے ہوئے تھے ایک الہٰ کی بندگی پر مجتمع ہو گئی۔ اسطرح خیر القرون کے دور تک اسلامی تعلیمات ہر طرح کے شرک سے پاک رہیں اور عقائد میں کسی بھی قسم کی خرابی کو در آنے کا موقع نہ مل سکا لیکن جب صحابہ رضی اللہ عنہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور انکے تربیت یافتہ تا بعین اور تبع تابعین بھی اس دنیا میں نہ رہے تو شیطان کو وار کرنے کا موقع مل گیا اور اس نے بڑے عالموں کو اپنے جال میں پھنسانا شروع کر دیا اور یوں ان عالموں کے توسط سے غلط عقائد کو اسلامی تعلیمات میں در آنے کا موقع مل گیا اور آہستہ آہستہ امت مسلمہ کے عقائد میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ اور جہاں سماع و موتیٰ اور عود روح جیسے عقائد اسلامی تعلیمات کا حصہ بنے وہی عرض اعمال کا عقیدہ بھی ایجاد کر لیا گیا اور یوں اللہ کے اختیار اور صفات میں غیر اللہ کو شامل کر کے شرک کا دروازہ کھول دیا گیا۔
اللہ ہی اس تمام کائنات کا مالک ہے، ہر چیز ہر عمل اسی کی طرح لوٹایا جانا ہے۔ قرآن اس معاملے میں پوری طرح بین اور واضح ہے اور اس مسئلے پر کسی قسم کی کوئی لچک یا پہلو تشنہ نہیں چھوڑتا۔ اللہ تعالیٰ قرآن میںارشاد فرماتا ہے:
أَفَمَنۡ هُوَ قَآٮِٕمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفۡسِۭ بِمَا كَسَبَتۡۗ وَجَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ۔
تو کیا جو (اللہ) ہر متنفس کے اعمال کا نگراں (ونگہباں) ہے (وہ تمہارے معبودوں کی طرح بےعلم وبےخبر ہوسکتا ہے) اور ان لوگوں نے اللہ کے شریک مقرر کر رکھے ہیں۔ سورة الرعد ۳۳
يَعۡلَمُ مَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍ۬ۗ۔
ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ سورة الرعد٤۲
وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِۦ خَبِيرَۢا بَصِيرً۬ا
اور تمہارا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور دیکھنے کیلئے کافی ہے۔ سورة بنی اسرائیل۱۷
وَإِلَى ٱللَّهِ تُرۡجَعُ ٱلۡأُمُورُ
اور سب کاموں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔ سورة البقرہ۲۱۰
وَإِلَيۡهِ يُرۡجَعُ ٱلۡأَمۡرُ كُلُّهُ ۥ
اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے۔ سورة ھود ۱۲۳
وَلِلَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔ سورة الحج ٤۱
وَإِلَى ٱللَّهِ عَـٰقِبَةُ ٱلۡأُمُورِ
اور (سب)کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے ۔ سورة لقمان۲۲
أَلَآ إِلَى ٱللَّهِ تَصِيرُ ٱلۡأُمُورُ
دیکھو سب کام اللہ کی طرف رجوع ہوں گے ۔ سورة الشوریٰ۵۳
مندرجہ بالا آیات سے یہ بات اظہرمن الشمس ہو جاتی ہے کہ بندوں کے اعمال پیش ہونے کی جگہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے بارگاہ الہیٰ، اور اللہ اپنی اس صفت میں یکتا و ممتاز ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کے اعمال کے پیش ہونے کا عقیدہ رکھنا اللہ کی صفات میں شرک ہے پھر چاہے وہ عام کئے جانے والے اعمال ہوں یا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے پڑھا جانے والا درود و سلام۔ ایک انسان کا کیا جانے والا ہر عمل صرف اللہ کی جناب میں پیش ہوتا ہے اور یہ اس مالک کائنات کے اکیلے رب ہونے کی عظیم دلیل ہے۔ احادیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ افضل البشر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے اعمال بھی صرف اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ پیر اور جمعرات کو اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں تو میں صائم ہوں۔ جامع ترمذی، ابواب الصوم، باب صوم الاربع و الخمیس
اسی طرح عام مومنوں کے اعمال بھی اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں
ابو حریم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کے اعمال اللہ کے حضور پیر اور جمعرات کے روز پیش ہوتے ہیں- صحیح مسلم باب کتا ب البروالصلوٰۃ والادب حدیث ٦۲۲٤
پس احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مومن و کافر شخص کے ہر طرح کے اعمال صرف اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔ لیکن ان واضح دلائل کے باوجود فرقہ پرستوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اعمال پیش ہونے کا مشرکانہ عقیدہ گھڑ لیا اور امت کےعقائد میں شرک کی ملاوٹ جیسا گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا۔بریلویوں کے نزدیک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے اعمال سے ہر وقت واقف ہیں اور اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور ہردم اور ہروقت ہی پیش ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ دیوبندیوں کے اشرف علی تھانوی صاحب کہتے ہیں کہ:
کوئی دن ایسا نہیں جب امت کے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صبح و شام نہ پیش کئے جاتے ہوں۔ نشر الطیب ص ۱۴۰
اسی طرح سے ایک اور دیوبندی عالم یوسف کاندھلوی ’اختلاف امت اور صراط مستقیم جلد دوم ص ۸۹‘ میں لکھتے ہیں
اگر کوئی شخص قبر نبوی کے پاس صلوٰۃ و سلام پڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اسکو سنتے ہیں اور دور سے پڑھے ہوئے صلوٰۃ و سلام کو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں جسکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب بھی دیتے ہیں۔‘
امام ابن تیمیہ اپنی کتاب الجواب الباہر ص ۱۲۰‘ پر لکھتے ہیں
’آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے قریب سے سلام سن لیتے ہیں اور دور سے پڑھا جانے والا سلام ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیتے ہیں‘
قرآن لاکھ کہتا رہے کہ اعمال کے پیش ہونے کی جگہ صرف بارگاہ الہٰی ہے، درود سلام ہو یا اچھے برے اعمال صرف اسی اللہ کی بارگا ہ میں پیش ہوتے ہیں لیکن ہمارے فرقہ پرست عالموں کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی اس صفت میں اسکے ساتھ شریک ہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ نے قرٓان میں فرمایا:
وَمَا يُؤۡمِنُ أَڪۡثَرُهُم بِٱللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشۡرِكُونَ
اوراکثر لوگ جو اللہ کو مانتے بھی ہیں تو ا س طرح کہ شرک بھی کرتے جاتے ہیں۔ سورة یوسف۱۰٦
اپنے اس باطل عقیدے کے اثبات کیلئے اوپر دی گئی واضح قرآنی آیات اور احادیث کے باوجود فرقہ پرستوں کی طرف سے موضوع و منکر روایات لائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو گمراہ رکھا جا سکے اور اپنی چودھراہٹ قائم رہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ قارئین کے سامنے ان موضوع روایات کی حقیقت واضح کر دی جائے۔
روایت نمبر۱
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو آپ پر اچھی طرح درود بھیجو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ یہ درود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شاید پیش کیا جا رہا ہو۔ ابن ماجہ جلد ۱، ص ۲۵۸
عِلّت
اس حدیث کے ایک راوی مسعودی پر محدثین کی جرح موجود ہے۔ ان مسعودی کا پورا نام عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عتبۃ بن عبداللہ بن السدی بن المسعودی الکوفی تھا۔ بعض اآئمہ نے ان سے روایت کرنا مکروہ خیال کیا ہے، یہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۲۰۹)
اسلئے مسعودی کے ضعف کی وجہ سے یہ روایت قابل قبول نہیں۔
روایت نمبر۲
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری قبر کے قریب درود پڑھتا ہے میں اسے سنتا ہوں اور جو میری قبر سے دور مجھ پر درود پڑھتا ہے تو وہ درود میرے پاس پہنچا دیا جا تا ہے۔
عِلّت
امام عقیلی اس روایت کو اپنی کتاب ّالضعفا الکبیرٗ میں لائے ہیں جو کہ خود اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ امام عقیلی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں لا اصل لہ (اسکی کوئی اصل نہیں)۔ اسکے ایک راوی محمد بن مروان کو جریر اور ابن نمیر نے کذاب، ابن حبان اور صالح بن محمد نے حدیثیں گھڑنے والا اور نسائی نے متروک الحدیث کہا ہے۔ (تہذیب الکمال جلد ۲٦، ص ۳۹۳، ضعفاالکبیر للعقیلی جلد ٤ ص ۱۳٦، کتا ب الضعفا المتروکین النسائی ص ۲۱۹، الکامل فی ضعفا الرجال جلد ۷ ص ۵۱۲)۔ اس مضمون کی دوسری حدیث ابن وہب سے مروی ہے جو سارے اہل علم کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا مشہور ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳، ص ۲۷۸
روایت نمبر ۳
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی بندہ میری قبر کے قریب سلام پڑھتا ہے تو اللہ وہاں ایک فرشتہ متعین فرما دیتا ہے وہ مجھ تک سلام پہنچاتا ہے اور اس بندے کی آخرت اور دنیا کے معاملات میں کفایت کی جاتی ہے اور قیامت کے روز میں اس بندے کا شفیع ہونگا۔ ابو داؤد
عِلّت
اس روایت میں ایک راوی محمد بن موسیٰ کذاب اور وضاع ہے۔ ابن عدی کا بیان ہے کہ محمد بن موسیٰ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ محمد بن موسیٰ اپنی طرف سے روایات گھڑتا اور اس نے ایک ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۱٤۱
اس طرح کی ایک اور روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦
روایت نمبر ٤
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا کہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔ نسائی جلد ۱ ص ۱۳۹، مسند احمد جلد ٤ ص۸، ابو داود جلد ۱ ص۱۵۰
عِلّت
اس روایت کے راوی حماد بن اسامہ نے غلطی سے اس روایت کو ثقہ راوی عبد الرحٰمن بن یزید بن جابر کیطرف منسوب کر دیا جبکہ اصل میں یہ روایت منکرالحدیث راوی عبدالرحٰمن بن یزید بن تمیم سے مروی ہے (التاریخ الکبیر جلد ۳ ص۳۶۵، التاریخ الصغیر ص۱۷۵، للمولف امام بخاری)
جبکہ امام رازی اپنی کتاب ’علل الحدیث جلد ۱ ص۱۹۷‘ میں اس روایت کو منکر قرار دیتے ہیں اور اس روایت سے کسی بھی قسم کے اعتراض کو باطل گردانتے ہیں۔یہی بات امام رازی اپنی کتاب ’کتاب الجرح والتعدیل جلد۵ ص۳۰۰۔۳۰۱ میں لائے ہیں اور اس روایت کو منکر اور موضوع قرار دیا ہے۔
روایت نمبر ۵
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے فرشتے زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کاسلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔
عِلّت
اسکے ایک راوی ذاذان پر شیعت کا الزام ہے اور شیعہ فرقہ اپنے آئمہ پر اعمال پیش ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اسلئے ذاذان کی یہ روایت اسکے تشیع اور بدعتی عقیدے کی وجہ سے قابل قبول نہیں۔ (تقریب التہذیب ص ۱۰۵)
یہ تھی وہ روایات جو کہ اس باطل عقیدے کو ثابت کرنے کیلئے پیش کی جاتی ہیں، ان میں سے ایک بھی روایت اس قابل نہیں کہ اس پر عقیدے کی بنیاد رکھی جائے، اور حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق کوئی حدیث حدیث کی تین مستند ترین کتابوں صحیح بخاری، صحیح مسلم اور موطا امام مالک میں نہیں پائی جاتیں۔ ملتی ہیں تو اس طرح کی روایات صرف دوسرے اور تیسرے درجہ کی کتابوں میں۔
اور پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ صلوٰۃوسلام شروع تو ہوتا ہے ’اللھم۔۔۔۔‘ یعنی اے اللہ۔۔۔ سے اور فرشتے اسکو لے جائیں نبیؐ کے پاس۔ صلوٰۃوسلام دراصل اللہ سے نبیؐ کیلئے رحمت کی دعا ہے اور دعا جس کیلئے بھی کی جائے وہ اللہ کے حضور ہی جاتی، جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اسکے پاس کبھی دعا نہیں جاتی۔ اور پھر دعا سب سے افضل عبادت ہے اور تمام عبادات صرف اللہ کیلئے اور اللہ کے حضور ہی پیش ہوتی ہیں۔ جیسا کہ نبیؐ نے مسلمانوں کو التحیات میں سکھایا:
التحیات للہ والصلوٰت و الطیبٰت: تمام زبانی عبادتیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں
معلوم ہوا کہ انسانی اعمال صرف اللہ کی بارگاہ میں ہی پیش ہوتے ہیں، نبیؐ کے پاس نہیں اور جو یہ اصرار کریں کہ اعمال آپ ﷺ پر بھی پیش ہوتے ہیں تو انہوں نے نبیؐ کو اللہ کی صفات اور اختیارات میں شریک کر کے الہٰ بنالیا ہے۔لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ صلوٰۃوسلام اللہ کے بجائے یا پھر اللہ کے ساتھ ساتھ نبیؐ کے حضور بھی جاتا ہے صریح شرک ہے ۔ اللہ ہم کو اس طرح کے شرک سے محفوظ رکھے۔ قرآن و حدیث کے خلاف اس عقیدے کو ایمان کا حصہ بنانا کتاب اللہ کا انکار ہے جسکا انجام صرف جہنم کی آگ ہے۔