رانا اویس سلفی
مشہور رکن
- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 387
- ری ایکشن اسکور
- 1,609
- پوائنٹ
- 109
کریم ﷺ کا خود کشی کا ارادہ اور مصنف کی چالبازی۔
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 13پر صحیح بخاری کی ایک حدیث ذکر کرتا ہے کہ:
’’مراراً کئی یتردی من رؤوس شواھق الجبال فکلما أوفی بذروۃ جبل لکی یلقی منہ نفسہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح بخاری کتاب التعبیر رقم الحدیث ۔6982)
’’ وحی نہ آنے کی وجہ سے رنج کے مارے کئی بار آپ ﷺ خودکشی کرنے پر تیار ہوگئے اگر جبریل علیہ السلام آکر دلاسہ نہ دیتے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو آپ ﷺ خودکشی کرنے پر کئی بار تیار ہوگئے تھے ۔۔۔۔‘‘
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مصنف آگے لکھتا ہے کہ’’یہ ہے امام بخاری اور ان کے معتمد علیہ استاذ امام زہری کا مذہب جو بڑی خوشی کے ساتھ امام بخاری نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے باربار آپ ﷺ سے کفر کی تیاری کرواتے (معاذاللہ)نہ بخاری کو قرآن کا علم نہ انکے امام زہری کوعلم نہ امام بخاری کو آپ(ﷺ) کی حیثیت نبوی کا پاس نہ زہری ایسے بکواسی آدمی کو ! دونوں نے ملکر آپ ﷺسے کئی بار کفر پر مرنے کی تیاری کروائی۔ (قرآن مقدس ۔۔۔۔ص14-13)
جواب:۔
قارئین کرام آپ نے دیکھا کس قدربکواس اور لفاظی کے ساتھ مصنف نے نبی کریم ﷺ کی حدیث اور محدثین کی جماعت کو نشانہ بنایاتف ہے ایسی لفاظی پر ۔مصنف نے اس حدیث کو پیش کرنے سے پہلے ایک قاعدہ ذکرکیا کہ خودکشی کو قرآن نے حرام قراردیا ہے اور دلیل کے طور پر سورۃ یوسف کی آیت87ذکر کی ۔ مصنف نے بڑے دھڑلے سے امام بخاری رحمہ اللہ کو اور امام زہری رحمہ اللہ کو بکواسی اور لاعلم ثابت کرنے کی کوشش کی ۔یہ دونوں تو اتنے عظیم عالم تھے پوری امت ان پر آج تک رشک کرتی ہے۔ اور رہا سوال مصنف علامہ احمد سعید کا تو انکی قابلیت تو یہیں سے آشکارا ہوجاتی ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث جس پر وہ اپنا زہر گھول رہا ہے وہ تو ابتدائی وحی تھی اور سورہ یوسف تو کافی سالوں بعد نازل ہوئی جس سے وہ خودکشی کی حرمت ثابت کررہے ہیں ۔اندازہ کیجئیے !مصنف کس قدر جاہل اور بکواسی ہے ۔
دوسری بات صحیح بخاری کی حدیث میں ’’ارادے ‘‘کا ذکر ہے یعنی اس ارادے کے ساتھ پہاڑ پر نبی کریم ﷺ چڑھ جایا کرتے تھے لیکن جبریل علیہ السلام آکر انھیں دلاسا دیتے تو نبی کریم ﷺ ارادے سے باز آجاتے تھے کیونکہ ابھی نبی کریم ﷺ کو وحی کے ذریعے اس ارادے سے نہیںروکاگیاتھا ۔اس کی مثال میں قرآن سے پیش کرتا ہوں کہ :نبی کریم ﷺنے اپنے لئے شہد حرام قراردیا تھا قرآن کریم سورہ تحریم میں فرماتا ہے کہ :
یٰٓا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (التحریم 1/66)
’’اے نبی ! جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں کرتے ہیں ۔‘‘
بتایئے آپ کیا کہیں گے اس آیت مبارکہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ایک چیز کو اپنے لئے حرام کردیا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیاتھا۔یقینا ہم یہی کہیں گے کہ اس آیت مبارکہ سے پہلے نبی کریم ﷺکو روکا نہیں گیا تھا بالکل اسی طرح اس وقت نبی کریم ﷺ کو اس فعل(ارادے) سے وحی کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا ۔ اس بات کو ایک دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔
مریم علیہا السلام کو جب حمل ٹہرا تو قرآن کریم فرماتا ہے ۔
قَالَتْ یَا لَیْْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیاً مَّنْسِیّاً (مریم 23/19)
’’کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا ۔‘‘
غور طلب بات ہے کہ مریم علیہا السلام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے مرنے کی آرزو کی کیا مصنف اس آیت کو بھی اسلام دشمنی قرار دے گا ۔اگر نہیں تو پھر صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف اتنا بغض کیوں ؟؟مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے اپنی کتاب کے صفحہ 13پر حدیث نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے موت کی تمنا رکھنے والے کو پسند نہ کیا اور موت کی تمنا کرنے سے منع فرمادیا ‘‘۔
قارئین کرام مندرجہ بالاحدیث جس سے مصنف نے حجت پکڑی ہے اسے امام الدنیا ، امیرالمحدثین ، شیخ الاسلام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف صحیح بخاری میں نقل کی ہے ۔مصنف نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ 14پر امام بخاری رحمہ اللہ کو دشمن رسالت باورکرایا ہے مصنف کی اس حالت کو کیا کہیں یہ تو نشہ اور مستی کی حالت ہے یا تو یہ مصنف کی جہالت اور کم علمی کا نشہ ہے یا پھر یہ یہود ونصاری کا آلہ کار ہے ۔ یہ صرف شیطان کی پیروی ہے اس کے سوا کچھ نہیں امام بخاری رحمہ اللہ امام المحدثین ہیں جن کی عظمت کو امت مسلمہ تسلیم کرتی ہے مصنف نے جو ان پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی ہے وہ کوشش ان شاء اللّٰہ تباہ و برباد ہوکر رہے گی ۔اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے :
’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن ‘‘ (الشعراء 3/26)
’’(اے نبی ﷺ)ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے ۔‘‘
اس آیت کے بارے میں مصنف کا کیا جواب ہے؟کیا اس آیت کے بارے میں بھی مصنف وہی روّیہ رکھے گا جو حدیث کے بارے میں ہے نہیں تو پھر حدیث پر اعتراض کیوں ؟اسی لئے کہ مصنف جاہل ہے ۔ مصنف کا اعتراض بے ادبی، لغویات اور بکواس پر مبنی ہے جو ایک ادنی سے ادنی طالب علم پر بھی عیاں ہے ۔
مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 13پر صحیح بخاری کی ایک حدیث ذکر کرتا ہے کہ:
’’مراراً کئی یتردی من رؤوس شواھق الجبال فکلما أوفی بذروۃ جبل لکی یلقی منہ نفسہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (صحیح بخاری کتاب التعبیر رقم الحدیث ۔6982)
’’ وحی نہ آنے کی وجہ سے رنج کے مارے کئی بار آپ ﷺ خودکشی کرنے پر تیار ہوگئے اگر جبریل علیہ السلام آکر دلاسہ نہ دیتے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو آپ ﷺ خودکشی کرنے پر کئی بار تیار ہوگئے تھے ۔۔۔۔‘‘
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مصنف آگے لکھتا ہے کہ’’یہ ہے امام بخاری اور ان کے معتمد علیہ استاذ امام زہری کا مذہب جو بڑی خوشی کے ساتھ امام بخاری نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے باربار آپ ﷺ سے کفر کی تیاری کرواتے (معاذاللہ)نہ بخاری کو قرآن کا علم نہ انکے امام زہری کوعلم نہ امام بخاری کو آپ(ﷺ) کی حیثیت نبوی کا پاس نہ زہری ایسے بکواسی آدمی کو ! دونوں نے ملکر آپ ﷺسے کئی بار کفر پر مرنے کی تیاری کروائی۔ (قرآن مقدس ۔۔۔۔ص14-13)
جواب:۔
قارئین کرام آپ نے دیکھا کس قدربکواس اور لفاظی کے ساتھ مصنف نے نبی کریم ﷺ کی حدیث اور محدثین کی جماعت کو نشانہ بنایاتف ہے ایسی لفاظی پر ۔مصنف نے اس حدیث کو پیش کرنے سے پہلے ایک قاعدہ ذکرکیا کہ خودکشی کو قرآن نے حرام قراردیا ہے اور دلیل کے طور پر سورۃ یوسف کی آیت87ذکر کی ۔ مصنف نے بڑے دھڑلے سے امام بخاری رحمہ اللہ کو اور امام زہری رحمہ اللہ کو بکواسی اور لاعلم ثابت کرنے کی کوشش کی ۔یہ دونوں تو اتنے عظیم عالم تھے پوری امت ان پر آج تک رشک کرتی ہے۔ اور رہا سوال مصنف علامہ احمد سعید کا تو انکی قابلیت تو یہیں سے آشکارا ہوجاتی ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث جس پر وہ اپنا زہر گھول رہا ہے وہ تو ابتدائی وحی تھی اور سورہ یوسف تو کافی سالوں بعد نازل ہوئی جس سے وہ خودکشی کی حرمت ثابت کررہے ہیں ۔اندازہ کیجئیے !مصنف کس قدر جاہل اور بکواسی ہے ۔
دوسری بات صحیح بخاری کی حدیث میں ’’ارادے ‘‘کا ذکر ہے یعنی اس ارادے کے ساتھ پہاڑ پر نبی کریم ﷺ چڑھ جایا کرتے تھے لیکن جبریل علیہ السلام آکر انھیں دلاسا دیتے تو نبی کریم ﷺ ارادے سے باز آجاتے تھے کیونکہ ابھی نبی کریم ﷺ کو وحی کے ذریعے اس ارادے سے نہیںروکاگیاتھا ۔اس کی مثال میں قرآن سے پیش کرتا ہوں کہ :نبی کریم ﷺنے اپنے لئے شہد حرام قراردیا تھا قرآن کریم سورہ تحریم میں فرماتا ہے کہ :
یٰٓا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ (التحریم 1/66)
’’اے نبی ! جسے اللہ نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں کرتے ہیں ۔‘‘
بتایئے آپ کیا کہیں گے اس آیت مبارکہ کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ایک چیز کو اپنے لئے حرام کردیا جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیاتھا۔یقینا ہم یہی کہیں گے کہ اس آیت مبارکہ سے پہلے نبی کریم ﷺکو روکا نہیں گیا تھا بالکل اسی طرح اس وقت نبی کریم ﷺ کو اس فعل(ارادے) سے وحی کے ذریعے روکا نہیں گیا تھا ۔ اس بات کو ایک دوسری مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔
مریم علیہا السلام کو جب حمل ٹہرا تو قرآن کریم فرماتا ہے ۔
قَالَتْ یَا لَیْْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیاً مَّنْسِیّاً (مریم 23/19)
’’کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مرچکی ہوتی اور میرا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا ۔‘‘
غور طلب بات ہے کہ مریم علیہا السلام کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے مرنے کی آرزو کی کیا مصنف اس آیت کو بھی اسلام دشمنی قرار دے گا ۔اگر نہیں تو پھر صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف اتنا بغض کیوں ؟؟مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ مصنف نے اپنے مؤقف کی تائید کے لئے اپنی کتاب کے صفحہ 13پر حدیث نقل کی ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے موت کی تمنا رکھنے والے کو پسند نہ کیا اور موت کی تمنا کرنے سے منع فرمادیا ‘‘۔
قارئین کرام مندرجہ بالاحدیث جس سے مصنف نے حجت پکڑی ہے اسے امام الدنیا ، امیرالمحدثین ، شیخ الاسلام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف صحیح بخاری میں نقل کی ہے ۔مصنف نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ 14پر امام بخاری رحمہ اللہ کو دشمن رسالت باورکرایا ہے مصنف کی اس حالت کو کیا کہیں یہ تو نشہ اور مستی کی حالت ہے یا تو یہ مصنف کی جہالت اور کم علمی کا نشہ ہے یا پھر یہ یہود ونصاری کا آلہ کار ہے ۔ یہ صرف شیطان کی پیروی ہے اس کے سوا کچھ نہیں امام بخاری رحمہ اللہ امام المحدثین ہیں جن کی عظمت کو امت مسلمہ تسلیم کرتی ہے مصنف نے جو ان پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی ہے وہ کوشش ان شاء اللّٰہ تباہ و برباد ہوکر رہے گی ۔اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے :
’لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ أَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن ‘‘ (الشعراء 3/26)
’’(اے نبی ﷺ)ان کے ایمان نہ لانے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے ۔‘‘
اس آیت کے بارے میں مصنف کا کیا جواب ہے؟کیا اس آیت کے بارے میں بھی مصنف وہی روّیہ رکھے گا جو حدیث کے بارے میں ہے نہیں تو پھر حدیث پر اعتراض کیوں ؟اسی لئے کہ مصنف جاہل ہے ۔ مصنف کا اعتراض بے ادبی، لغویات اور بکواس پر مبنی ہے جو ایک ادنی سے ادنی طالب علم پر بھی عیاں ہے ۔