ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
نبی کریم ﷺ کی قراء ات کا مجموعہ
امام ابو عمر حفص الدوری
مترجم: مرزا عمران حیدر
مترجم: مرزا عمران حیدر
اس سلسلہ کا ایک مضمون پچھلے شمارہ علم قراء ات نمبر (حصہ اوّل) میں بھی پیش کیا جاچکا ہے۔ زیرنظر تحریر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ امام دوری رحمہ اللہ کی اس کتاب کو جہاں بعض علماء کے بقول فن قراء ات میں تصنیف اوّل ہونے کا مقام حاصل ہے، وہیں اِمتیازی پہلو سے اس کاموضوع بھی انتہائی مفید ہے کہ اس میں رسول اللہﷺکے اندازِ تلاوت اور’اختیارِ قراء ت‘کی تعیین کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ صاحب کتاب امام ابوعمر حفص بن عمر دوری رحمہ اللہ اَئمہ عشرہ کے ۲۰؍ معروف تلامذہ میں سے ایک ہیں، جن کی روایت عصر حاضر میں بھی سوڈان، صومالیہ اور دیگر کئی ممالک میں معمول و مقروء ہے۔ فاضل مترجم نے کتاب میں موجود ۱۳۶ روایات میں سے کل۴۲اَحادیث کاانتخاب قارئین رشد کے لیے پیش فرمایا ہے، جن کابرصغیر پاک و ہند میں مروّجہ روایت حفص سے پڑھنے کے انداز میں فرق پایاجاتاہے۔یاد رہے کہ یہ کتاب امام دوری رحمہ اللہ کی اپنے اَساتذہ سے ذاتی روایت ہے، چنانچہ بعض ایسی اَحادیث بھی شاملِ کتاب ہیں جن کا مخرج صرف یہی کتاب ہے۔ اس کتاب کی تخریج وتحقیق کے سلسلہ میں ہم نے دو محققین کے کیے گئے کام سے استفادہ کرکے حوالہ جات کی تکمیل کی ہے۔ ان میں سے ایک تحقیقی کاوش توجمہوریہ مصر کے حالیہ شیخ المقاری ڈاکٹر محمد عیسیٰ المَعْصَراوی ﷾ کی ہے، جب کہ دوسری تحقیق شیخ زید اسلامک سینٹر، پشاوریونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر معراج الاسلام ضیاء﷾نے فرمائی ہے۔
ماہنامہ ’رشد‘ میں شائع شدہ ان مضامین کے ضمن میں بطورِ خاص واضح رہے کہ قراء ات ِقرآنیہ چونکہ خبر متواتر اور قطعی الثبوت ذریعہ سے ثابت ہیں اور اُمت کا انہیں بالاتفاق قبول کرنا ہی ان کے قرآن ہونے کی قطعی اور حتمی دلیل ہے، چنانچہ انہیں اَحادیث نبوی سے ثابت کرنا ان کی حجیت کے لیے ایک امر اِضافی کی حیثیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان مضامین میں پیش کردہ اَحادیث میں سے کسی روایت میں اگر کوئی سندی سقم پایا جاتا ہے تو محدثین کرام کے اُصولِ حدیث کے مطابق(قراء کرام کے ہاں موجود )دیگر اسانید اس کے ضعف کو زائل کردیتی ہیں۔کتاب ہذا میں مذکور جمیع روایات کوچونکہ بطورِ قراء اتِ قرآنیہ اہل علم کے تلقِّی بالقبول حاصل ہوچکا ہے، اس لئے محض سند کی کمزوری ان روایات کے قبول کے راستہ میں ادنیٰ سی بھی رکاوٹ نہیں ہے۔ (ادارہ)