اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اعتراض نمبر3:۔
مصنف اپنی کتاب' قرآن مقدس اور بخاری محدث 'کے صفحات 17,16,15اور18میں حدیث سحرپر اعتراض کرتا ہے اور ہشام کو کذاب مدلس کہتاہے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ پر جو جادو ہوا اسے مشتبہ بنانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
جواب:۔
کاش مصنف قرآن کریم کوعقل کی آنکھ جوکہ حالت سکر( نشہ) کی وجہ سے غائب ہے سے پڑھ لیتا تو اسے صحیح بخاری کی یہ حدیث مشتبہ نظر نہ آتی اور نہ ہی وہ لفاظی کرتا۔مصنف نے بڑی چالاکی سے آیت کے ترجمہ اور مفہوم کوکچھ کا کچھ بنادیا۔ کیونکہ مصنف خائن ہے مصنف نے اپنے مؤقف پر چند آیات سے غلط استدلال کیاہے ۔
1)وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْْثُ أ َتٰی( طہ69/20)
''جادوگر کہیں سے بھی آجائے کامیاب نہیں ہوگا ''۔
2)إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ ( حجر15 40/)
''تیرے مخلص بندوں پر میری کسی شرارت کا اثرنہ ہوگا'' ۔
3)وَقَالَ الظَّالِمُوْنَ إِنْ تَتَّبِعُوْنَ إِلَّا رَجُلاً مَّسْحُوْرًا ( فرقان8/25)
''اور ظالموں نے کہا نہیں وہ اتباع کرتے مگر سحرزدہ آدمی کی ''۔
1)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جادو گر کبھی بھی کامیاب نہ ہوگا تو یقینا کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے کہ لبید بن اعصم جس نے نبی کریم ﷺپر جادو کیا تھا وہ کامیاب ہوگیا بلکہ اسے تو منہ کی کھانی پڑی۔
2) آیت مبارکہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ (شیطان کہتا ہے کہ)تیرے مخلص بندوں پر میرا کوئی زور نہ ہوگا اگر ہم صحیح حدیث کا مطالعہ کریںتو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ شیطان نے بہت کچھ چاہا لیکن وہ پوار نہ ہوسکا اور وہ جادو نبی ﷺ کی دینی زندگی پر اثر انداز نہ ہوسکا اور اللہ نے اپنے نبی کو بچالیا۔
(3)جہاں تک سورہ فرقان کی آیت کا تعلق ہے تو وہ مکہ میںنازل ہوئی ہے اور جادو نبی ﷺپر مدینہ میں ہوا تھا لہٰذا اس آیت سے استدلال غلط ہے دوسری بات یہ ہے کہ مسحوراً کے لغوی معنی ہے ۔
'' ذاھب العقل مفسرا ''
''عقل کا جانا اور بگاڑ پیدا ہونا'' (لسان العرب جلد6ص186)
یعنی جس کی عقل ہی ختم ہوگئی ہو ۔(جیساکہ سعید خان ملتانی کی)لیکن جب ہم اس باب میں صحیح احادیث کا بغور مطالعہ کریں تو ایسی کوئی بات کسی حدیث میں نہیں دوسری بات یہ ہے کہ یہ اعتراض نبی ﷺ پر قرآن پیش کرنے کی وجہ سے کفار کرتے تھے نہ کہ جادو کی وجہ سے ۔
اب ہم ان شاء اللہ مفصل جواب دیں گے ۔
جادو کی حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے ۔ملاحظہ فرمائیں !
''کتاب الجھاد باب ھل یعفی عن الذ می اذا سحر،رقم الحدیث3175
''کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ ،رقم الحدیث 3268
''کتاب الطب باب السحر، رقم الحدیث5763 5766,
کتاب الطب باب ھل یستخرج السحر رقم الحدیث5765
''کتاب الادب باب قول اللہ ان اللہ یأمرکم بالعدل، رقم الحدیث 6063
''کتاب الدعوات باب تکریر الدعا ،رقم الحدیث 6391
موصوف نے حدیث کے مرکزی راوی ہشام رحمہ اللہ پرطعن کیا اور انہیں کاذب گرداناہے ۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ جرح کس سے نقل کی ہے ایک تو نبی کریم ﷺ پر الزام لگایادوسرے قرآن کریم کے معنی میں تحریف کی جہاں تک تعلق امام ہشام کا ہے تو ان کو ائمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
'وقد احتج بھشام جمیع الائمۃ ' (مقدمہ فتح الباری ص625)
''یقینا ہشام سے تمام ائمہ نے احتجاج پکڑا ہے ۔(یعنی ہشام کی روایت کو بطور دلیل وحجت پکڑا ہے) ''
محمد بن سعد نے کہا :
''کان ثقۃ ثبتا کثیر الحدیث حجۃ ''
''ثقہ تھے ثبت تھے زیادہ احادیث روایت کرنے والے تھے حجت تھے ''
ابو حاتم نے کہا :
'' ثقۃ امام فی الحدیث ''
''ثقہ اور حدیث کا امام ہے ''
(تہذیب الکمال امام مزی ،الکاشف امام ذھبی ،تقریب التھذ یب ابن حجر العسقلانی ،طبقات ابن سعد )
مصنف نے جو الزام امام ہشام رحمہ اللہ پر لگایا ہے وہ بلادلیل ہے یاتو مصنف اسماء رجال کے علم سے بالکل ناواقف ہے یا پھر مصنف انتہائی درجے کا بدنیت ہے ۔ دوسرااعتراض مصنف کا یہ ہے کہ آپ ﷺ علیل ہو گئے خلاف واقعہ باتیں کرنے لگے آپ ﷺ نڈھال ہوگئے ۔ (قرآن مقدس اور بخاری محدث۔ص17)
قارئین کرام ہم ذیل میں صحیح بخاری کی مکمل حدیث نقل کردیتے ہیں روایت نقل کرنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ یہ شیطانی چال اور مکر وفریب مصنف کاہے جو حدیث دشمنی کاواضح ثبوت ہے ۔
''خود تو بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں ''
۔۔۔عن ھشام عن أبیہ عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت سحر رسول اللہ ﷺ رجل من بنی زریق یقال لہ لبید بن الاعصم حتی کان رسول اللہ ﷺ یخیل الیہ ۔۔۔۔۔(صحیح بخاری کتاب الطب باب السحررقم الحدیث5763)
''عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ بنی زریق کے ایک شخص (یہودی )لبید بن الاعصم نے نبی کریم ﷺ پر جادو کردیا آپ ﷺکا یہ حال ہوگیا کہ آپ ﷺ کو خیال ہوتا جیسے ایک کام کررہے ہیں حالانکہ وہ کام آپ ﷺنے نہیں کیا ہوتاایک دن یا ایک رات ایسا ہوا کہ آپ ﷺ میرے پاس تھے مگر میری طرف متوجہ نہ تھے بس دعا کررہے تھے اس کے بعد آپ ﷺنے فرمایا عائشہ میں اللہ تعالیٰ سے جو بات دریافت کررہا تھا وہ اس نے (اپنے فضل سے ) مجھ کو بتلادی میرے پاس دوفرشتے آئے(جبریل اور میکائیل) ایک تو میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا میرے قدموں کے پاس اب ایک دوسرے سے پوچھنے لگا یہ تو کہو ان صاحب ( محمد ﷺ) کوکیا بیماری ہوگئی اس نے جواب دیا ان پر جادو ہوا ہے پہلے فرشتے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے دوسرے نے کہا لبیدبن الاعصم نے۔۔۔۔۔۔۔۔''۔
خط کشیدہ الفاظ قابل غور ہیں ۔قارئین کرام جادو کا اثر نبی کریم ﷺ پر صرف اتنا ہوا کہ آپ ﷺ کا دنیاوی معاملہ متاثر ہوا یعنی آپ ﷺ کو خیال ہوتا کہ کوئی کام آپ ﷺنے کیا جبکہ وہ کام نہیں کیا ہوتا ۔افسوس مصنف نے انتہائی غلو سے کام لیا اور پیغمبر ﷺکی حدیث کی عبارت میں خیانت کی اور اس کے مفہوم کو تبدیل کردیا۔ حالانکہ اسی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے اللہ سے دعا کی یعنی عبادات اسی طرح جاری تھیں جس طرح بقیہ زندگی میں۔ اگر جادو اتنا ہی اثر انداز ہوجاتا (جیسے مصنف نے باور کرانے کی کوشش کی )تو آپ ﷺ اللہ سے دعا ہی نہیں کرتے ۔ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ مصنف نے بغیر کسی دلیل کے حدیث پر اعتراض کیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ آپ کو لوگوں کی ایذا سے محفوظ رکھے گااسی وجہ سے جادو کے باوجودنبی کریم ﷺ نے نہ کبھی نماز چھوڑی نہ ہی چار کی جگہ دو رکعت پڑھی،اورنہ کبھی ایسا ہوا کہ مغرب کی جگہ عشاء پڑھ لی یہ جادو صرف نبی کریم ﷺ کے دنیاوی معاملات پر اثر انداز ہوا تھا نہ کہ دینی کیونکہ دینی معاملات کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خو دلیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (الحجر 9/15)
'' ذکر کو ہم ہی نے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافط ہیں ''۔
نوٹ:
(ذکر سے مراد یہاں قرآن اور صحیح حدیث دونوں ہیں )ایک اور بات کہ جادو کے اثر سے نبی کریم ﷺ بھول جایا کرتے تھے اگر یہ بھول نبوت کے منافی ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے :
''فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْْنِہِمَا نَسِیَا حُوتَہُمَا'' (الکھف61/18)
''کہ جب موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی دونوں دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو وہ اپنی مچھلی بھول گئے''
بلکہ قرآن کریم تو یہاں تک فرماتا ہے :
سَنُقْرِؤُکَ فَلَا تَنْسٰٓی o إِلَّا مَا شَائَ اللَّہ (الاعلی 6/87)
''ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم نہ بھولوگے مگر وہ جو اللہ چاہے ۔''
جب بھول اور نسیان قرآن سے ثابت ہے تو پھر صحیح بخاری کی حدیث پر اعتراض کیوں ؟مولانا مؤدودی مرحوم اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں راقم ہیں کہ :
''۔۔۔۔کسی روایت میں یہ نہیں ہے کہ اس زمانے میں (یعنی جادو کی کیفیت کے دوران)آپ ﷺقرآن مجید بھول گئے ہوں ،یا کوئی آیت غلط پڑھی ہو۔یا اپنی صحبتوں میں اور اپنے وعظوں اور خطبوں میں آپ کی تعلیمات کے اندر کوئی فرق واقع ہوگیا ہو یا کوئی ایسا کلام وحی کی حیثیت پیش کردیا ہو ۔جو فی الواقع آپ پر نازل نہ ہوا ہو ۔۔۔ ایسی کوئی بات معاذ اللہ پیش آجاتی تو دھوم مچ جاتی اور پورا ملک عرب اس سے واقف ہوجاتا کہ جس نبی کو کوئی طاقت چت نہ کرسکی تھی اسے ایک جادو گر کے جادو نے چت کردیا ۔لیکن آپ کی حیثیت نبوت اس سے بالکل غیر متاثر رہی اور صرف اپنی ذاتی زندگی میں آپ ﷺ اپنی جگہ محسوس کرکے پریشان ہوتے رہے۔ '' (تفہیم القرآن جلد6ص555-554)
الحمد للہ یہ بات عیاں ہوئی کہ وہ نقشہ جو مصنف نے اپنی کتاب میں کھینچا وہ بالکل لغو بکواس اور سراپا الزام ہے نبی کریم ﷺ پر قرآن کریم جادو کے متعلق دو ٹوک فیصلہ دیتا ہے ۔جب موسٰی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا تو موسٰی علیہ السلام نے فرمایا :
قَالَ بَلْ أَلْقُوْا فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعٰیoفَأَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہِ خِیْفَۃً مُّوسَی (طہ66-67/20)
''موسٰی علیہ السلام نے فرمایا تم ہی ڈالوپھر ان کے سحر کے اثر سے موسٰی علیہ السلام کو خیال گزرنے لگاکہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاںیکدم دوڑنے لگ گئیں ،پس موسٰی علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا''۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
فَلَمَّآ أَلْقَوْا سَحَرُوْٓا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ (اعراف116/7)
''پھر جب انہوں نے رسیاں پھینکی تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر سحر کیا اورانہیں خوف زدہ کردیا ۔۔۔۔''
ان دونوں آیات سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب جادو گروں نے اپنی رسیاں ڈالیں تو جادو کے اثر سے لوگ بھی خوف زدہ ہوئے اور موسی علیہ السلام بھی ،یعنی لوگوں پر اور موسی علیہ السلام پر جادو کااثر ہوا ۔جب موسٰی علیہ السلام پر جادو اثر کرسکتا ہے تو نبی کریم ﷺ پر کیونکر نہیں کرسکتا ؟حالانکہ قرآن کریم نے موسٰی علیہ السلام کو نبی ﷺ کا مماثل قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّا أَرْسَلْنَآ إِلَیْْکُمْ رَسُوْلاً شَاہِداً عَلَیْْکُمْ کَمَآ أَرْسَلْنَآ إِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً
''ہم نے تمہاری طرف اسی طرح کا رسول تم پر گواہ بناکر بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ایک رسول بناکر بھیجا ۔''
(المذمل 15/73)
انبیاء علیہم السلام توبے شمارگذرے لیکن جتنی مماثلت موسٰی علیہ السلام اور نبی کریم ﷺ کے درمیان تھی اتنی مماثلت کسی اور نبی کے ساتھ نہ تھی ۔مثلاً دونوں ماں باپ سے پیدا ہوئے دونوں کی شادی اور انکے ہاں اولاد ہوئی موسٰی علیہ السلام نے ہجرت کی تو آپ ﷺ نے بھی ہجرت کی موسٰی علیہ السلام کے دور کا فرعون ہلاک ہوا تو نبی کریم ﷺ کے دور کا فرعون ابو جہل بھی ہلاک ہوا ، موسٰی علیہ السلام نے جہاد کیا نبی کریم ﷺ نے بھی جہاد کیا ،موسٰی علیہ السلام کے جانشین ان کے خاندان نبوت کا فردنہیں بلکہ صحابی یوشع بن نون بنے تو آپ ﷺ کے جانشین بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اسی طرح موسٰی علیہ السلام پر جادو ہوا تو نبی کریم ﷺپر بھی جادو ہوا یہ وہ حقائق ہیں جن کا ذکر قرآن وحدیث میں آتا ہے اب ان حقائق سے انکار صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو ملحد ہوگا یا اس کا تعلق دین محمدی ﷺ سے نہیں ہوگا ۔
لہٰذا مصنف کے تمام اعتراضات صرف اورصرف حدیث دشمنی کی وجہ سے ہے باقی حق آپ کے سامنے ہے ۔