[JUSTIFY]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مشہوربریلوی مناظر وشیخ الحدیث اشرف سیالوی نے سورۃ بقرۃکی آیت (نمبر۱۰۴) کے ترجمہ و ضمن میں لکھا:
مگر افسوس کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے انہیں دشمنان اسلام یہودیوں اور بے ادب گستاخ منافقین و کفار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبی ﷺ کے لئے ’’راعی‘‘ (چرواہا) کا صریح گستاخانہ و توہین آمیز لفظ استعمال کیاہے۔
چنانچہ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
بریلویوں کے غزالی زماں احمد سعید کاظمی نے لکھا:
احمد رضا خان بریلوی نے خود لکھ رکھا ہے کہ
نبی ﷺ کو راعی (چرواہا) قرار دینا!
مشہوربریلوی مناظر وشیخ الحدیث اشرف سیالوی نے سورۃ بقرۃکی آیت (نمبر۱۰۴) کے ترجمہ و ضمن میں لکھا:
بریلوی مناظر مفتی حنیف قریشی نے کہا:’’اے ایمان والو(جب تمھیں میرے حبیب کی کوئی بات سمجھ نہ آئے اور دوبارہ کہلوانا چاہو تو راعنا یا رسول اللہ نہ کہو یعنی اے رسول ہماری رعایت فرماویں بلکہ یوں کہو انظرنا ہم پر نظر عنایت فرماویں ۔۔۔۔اور بے ادب و گستاخ منافقین و کفار یعنی جو اس کلمہ کو ذرا زبان میں لچک دے کر گالی بنا لیتے ہیں اور اہل اسلام کے استعمال کو اپنی گستاخی کے لئے آڑ بنا لیتے ہیں ان کے لئے عذاب علیم ہے۔‘‘ [مناظرہ جھنگ:ص۱۷]
احمد رضاخان بریلوی نے نبی ﷺ کی گستاخی و توہین کے لئے یہودیوں کا نبی ﷺ سے متعلق یہ قول نقل کرتے ہوئے لکھا:’’ صحابہ کرام علیہم الرضوان جس وقت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے اور سرکار ﷺ کوئی بات ارشاد فرماتے تو اگر صحابہ کرام کوکوئی وضاحت مطلوب ہوتی تو عرض کرتے :
’’راعنا یا رسول اللہ‘‘ ۔ اے اللہ کے رسول ﷺہماری رعایت فرمائیے۔
دشمنان ِ اسلام نے اس بات کا غلط فائدہ اٹھایا اور خبث باطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ ’’راعنا‘‘ کے بجائے ’’راعینا‘‘ کہتے جس کا معنی ہے ’’اے ہمارے چرواے‘‘۔(معاذ اللہ)‘‘ [روئیداد مناظرہ راولپنڈی گستاخ کون:ص۵۱۔۵۲]
اس سے پتا چلا کہ بریلوی علماء کو یہ بات تسلیم ہے کہ اگر نبی ﷺ کی کسی بات کی وضاحت مطلوب ہوتی یا دوبارہ اس بات کو کہلوانا مقصود ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نبی ﷺ سے عرض کرتے ’’راعنا‘‘ یعنی ہماری رعایت فرمائیے اور وضاحت فرما دیجئے یا دوبارہ بتا دیجئے۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے ادب گستاخ دشمنان ِ اسلام یہودیوں اورمنافقین و کفارنے ’’راعنا‘‘ لفظ کو کچھ زبان کی لچک سے ’’راعینا‘‘ (اے ہمارے راعی )’’اے ہمارے چرواہے‘‘ (معاذاللہ) کہہ کر نبی ﷺ کو گالی دینے اور توہین کرنے کا بہانہ بنا لیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ’’راعنا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے بھی منع فرما دیا۔’’اور بعض کہتے ہیں زبان دبا کر راعینا کہتے یعنی ہمارا چرواہا۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۳۰ص۳۳۳]
مگر افسوس کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے انہیں دشمنان اسلام یہودیوں اور بے ادب گستاخ منافقین و کفار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبی ﷺ کے لئے ’’راعی‘‘ (چرواہا) کا صریح گستاخانہ و توہین آمیز لفظ استعمال کیاہے۔
چنانچہ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
نبی ﷺ کے بارے میں بریلوی اعلیٰ حضرت نے ایک اور جگہ لکھا:’’سچے راعی محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم ہیں۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۱۵ص۴۳۰]
بریلوی اعلیٰ حضرت کی اس صریح گستاخی و توہین اور بریلویوں کی تسلیم شدہ یہودی و منافقین کی گالی کوخود بھی نبی ﷺ کے حق میں استعمال کرنے پر ہم اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔’’اللہ کا محبوب ، امت کا راعی کس پیار کی نظر سے اپنی پالی ہوئی بکریوں کو دیکھتا۔۔۔۔‘‘ [جزاء اللہ عدوہ بابائِہ ختم ُالنبوۃ:ص۷۱، فتاویٰ رضویہ:ج۱۵ص۷۰۲]
بریلویوں کے غزالی زماں احمد سعید کاظمی نے لکھا:
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ بریلوی غزالی زماں کے فتویٰ کے مطابق تو ’’راعنا‘‘ کہنے کی ممانعت کے بعد اگر کوئی صحابی رسول ﷺ یہ لفظ بھی کہتا جس کے معنی ’’رعایت فرمائیے‘‘ کے ہیں تو وہ بھی ’’کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ کی وعید کا مستحق ٹھہرتا تو جو شخص ’’راعینا‘‘ (ہمارے راعی) ’’ہمارے چرواہے‘‘ کے وہی صریح توہین آمیزو گستاخانہ الفاظ نبی ﷺ کے لئے استعمال کرے کہ جن کی بنا پر ’’راعنا‘‘ کی ممانعت اتری تھی اس پر ’’کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ کی قرآنی وعید کا اطلاق کس قدر صحیح اور متعلقہ ہے۔’’صریح توہین میں نیت کا اعتبار نہیں’’راعنا‘‘ کہنے کی ممانعت کے بعد اگر کوئی صحابی نیت توہین کے بغیر حضور ﷺکو ’’راعنا‘‘ کہتا تو وہ واسمعوا و للکافرین عذاب الیم کی قرآنی وعید کا مستحق قرار پاتا۔۔۔۔‘‘ [گستاخِ رسول کی سزا۔۔۔ص۴۱]
احمد رضا خان بریلوی نے خود لکھ رکھا ہے کہ
ایک اور جگہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے لکھا:’’دیکھو اللہ گواہی دیتا ہے کہ نبی کی شان میں بے ادبی کا لفظ کلمہ کفر ہے اور اس کاکہنے والا اگرچہ لاکھ مسلمانی کا مدعی کروڑ بار کا کلمہ گوہو کافر ہو جاتا ہے۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۳۰ص۳۲۹]
[/JUSTIFY]’’اور تمام علمائے امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنیوالا کافر ہے اور کافر بھی ایسا کہ جواس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافرہے۔‘‘ [گستاخِ رسول کی سزا۔۔۔ص۱۷]