• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ کو راعی (چرواہا) قرار دینا!

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
[JUSTIFY]بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نبی ﷺ کو راعی (چرواہا) قرار دینا!

مشہوربریلوی مناظر وشیخ الحدیث اشرف سیالوی نے سورۃ بقرۃکی آیت (نمبر۱۰۴) کے ترجمہ و ضمن میں لکھا:
’’اے ایمان والو(جب تمھیں میرے حبیب کی کوئی بات سمجھ نہ آئے اور دوبارہ کہلوانا چاہو تو راعنا یا رسول اللہ نہ کہو یعنی اے رسول ہماری رعایت فرماویں بلکہ یوں کہو انظرنا ہم پر نظر عنایت فرماویں ۔۔۔۔اور بے ادب و گستاخ منافقین و کفار یعنی جو اس کلمہ کو ذرا زبان میں لچک دے کر گالی بنا لیتے ہیں اور اہل اسلام کے استعمال کو اپنی گستاخی کے لئے آڑ بنا لیتے ہیں ان کے لئے عذاب علیم ہے۔‘‘ [مناظرہ جھنگ:ص۱۷]
بریلوی مناظر مفتی حنیف قریشی نے کہا:
’’ صحابہ کرام علیہم الرضوان جس وقت بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے اور سرکار ﷺ کوئی بات ارشاد فرماتے تو اگر صحابہ کرام کوکوئی وضاحت مطلوب ہوتی تو عرض کرتے :
’’راعنا یا رسول اللہ‘‘ ۔ اے اللہ کے رسول ﷺہماری رعایت فرمائیے۔
دشمنان ِ اسلام نے اس بات کا غلط فائدہ اٹھایا اور خبث باطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ ’’راعنا‘‘ کے بجائے ’’راعینا‘‘ کہتے جس کا معنی ہے ’’اے ہمارے چرواے‘‘۔(معاذ اللہ)‘‘
[روئیداد مناظرہ راولپنڈی گستاخ کون:ص۵۱۔۵۲]
احمد رضاخان بریلوی نے نبی ﷺ کی گستاخی و توہین کے لئے یہودیوں کا نبی ﷺ سے متعلق یہ قول نقل کرتے ہوئے لکھا:
’’اور بعض کہتے ہیں زبان دبا کر راعینا کہتے یعنی ہمارا چرواہا۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۳۰ص۳۳۳]
اس سے پتا چلا کہ بریلوی علماء کو یہ بات تسلیم ہے کہ اگر نبی ﷺ کی کسی بات کی وضاحت مطلوب ہوتی یا دوبارہ اس بات کو کہلوانا مقصود ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نبی ﷺ سے عرض کرتے ’’راعنا‘‘ یعنی ہماری رعایت فرمائیے اور وضاحت فرما دیجئے یا دوبارہ بتا دیجئے۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے ادب گستاخ دشمنان ِ اسلام یہودیوں اورمنافقین و کفارنے ’’راعنا‘‘ لفظ کو کچھ زبان کی لچک سے ’’راعینا‘‘ (اے ہمارے راعی )’’اے ہمارے چرواہے‘‘ (معاذاللہ) کہہ کر نبی ﷺ کو گالی دینے اور توہین کرنے کا بہانہ بنا لیا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ’’راعنا‘‘ کا لفظ استعمال کرنے سے بھی منع فرما دیا۔
مگر افسوس کہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی نے انہیں دشمنان اسلام یہودیوں اور بے ادب گستاخ منافقین و کفار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبی ﷺ کے لئے ’’راعی‘‘ (چرواہا) کا صریح گستاخانہ و توہین آمیز لفظ استعمال کیاہے۔
چنانچہ احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:
’’سچے راعی محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالےٰ علیہ وسلم ہیں۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۱۵ص۴۳۰]
نبی ﷺ کے بارے میں بریلوی اعلیٰ حضرت نے ایک اور جگہ لکھا:
’’اللہ کا محبوب ، امت کا راعی کس پیار کی نظر سے اپنی پالی ہوئی بکریوں کو دیکھتا۔۔۔۔‘‘ [جزاء اللہ عدوہ بابائِہ ختم ُالنبوۃ:ص۷۱، فتاویٰ رضویہ:ج۱۵ص۷۰۲]
بریلوی اعلیٰ حضرت کی اس صریح گستاخی و توہین اور بریلویوں کی تسلیم شدہ یہودی و منافقین کی گالی کوخود بھی نبی ﷺ کے حق میں استعمال کرنے پر ہم اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔
بریلویوں کے غزالی زماں احمد سعید کاظمی نے لکھا:
’’صریح توہین میں نیت کا اعتبار نہیں’’راعنا‘‘ کہنے کی ممانعت کے بعد اگر کوئی صحابی نیت توہین کے بغیر حضور ﷺکو ’’راعنا‘‘ کہتا تو وہ واسمعوا و للکافرین عذاب الیم کی قرآنی وعید کا مستحق قرار پاتا۔۔۔۔‘‘ [گستاخِ رسول کی سزا۔۔۔ص۴۱]
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ بریلوی غزالی زماں کے فتویٰ کے مطابق تو ’’راعنا‘‘ کہنے کی ممانعت کے بعد اگر کوئی صحابی رسول ﷺ یہ لفظ بھی کہتا جس کے معنی ’’رعایت فرمائیے‘‘ کے ہیں تو وہ بھی ’’کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ کی وعید کا مستحق ٹھہرتا تو جو شخص ’’راعینا‘‘ (ہمارے راعی) ’’ہمارے چرواہے‘‘ کے وہی صریح توہین آمیزو گستاخانہ الفاظ نبی ﷺ کے لئے استعمال کرے کہ جن کی بنا پر ’’راعنا‘‘ کی ممانعت اتری تھی اس پر ’’کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ کی قرآنی وعید کا اطلاق کس قدر صحیح اور متعلقہ ہے۔
احمد رضا خان بریلوی نے خود لکھ رکھا ہے کہ
’’دیکھو اللہ گواہی دیتا ہے کہ نبی کی شان میں بے ادبی کا لفظ کلمہ کفر ہے اور اس کاکہنے والا اگرچہ لاکھ مسلمانی کا مدعی کروڑ بار کا کلمہ گوہو کافر ہو جاتا ہے۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۳۰ص۳۲۹]
ایک اور جگہ بریلوی اعلیٰ حضرت نے لکھا:
’’اور تمام علمائے امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنیوالا کافر ہے اور کافر بھی ایسا کہ جواس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافرہے۔‘‘ [گستاخِ رسول کی سزا۔۔۔ص۱۷]
[/JUSTIFY]







 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
نبی کریمﷺ کو توہین آمیز ارادے سے راعينا یعنی ’ہمارا چرواہا‘ کہنا تو واقعی گستاخی اور دردناک عذاب کا باعث جرم ہے، لیکن آپﷺ کیلئے اچھے ارادے سے ’راعی‘ کا لفظ استعمال (مثلاً امت کے راعی ونگہبان وغیرہ) الگ شے ہے۔ کیونکہ صحیح حدیث مبارکہ کے مطابق تمام انبیاء کرام﷩ بشمول نبی کریمﷺ نے بکریاں چرائی ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
انس نضر بھائی آپ کی وضاحت کا شکریہ۔ مگر آپ نے شاید غور نہیں کیا کہ یہ مضمون فرقہ بریلویہ کے رد میں ہے اور ان کے اصول کے حوالے سے ہی اس کو پیش کیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کے ایک عالم احمد سعید کاظمی کے حوالے سے ساتھ ہی وضاحت پیش کر دی گئی ہے کہ ان کے نزدیک ایک تو توہین آمیز کلمات میں نیت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ نیز عرض ہے کہ جب اللہ نے ایک صحیح معنی والے لفظ ’’راعنا‘‘ کو بھی استعمال کرنا حرام قرار دے دیا جو نہ تو توہین آمیز تھا نہ مسلمان اسے توہین کی نیت سے کہتے تھے تو پھر وہی لفظ جو یہود کہتے تھے کس طرح جائز قرار پائے گا۔
جس طرح باوجود اپنے صحیح معنی اور صحیح نیت کے بھی مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’راعنا‘‘ کے الفاظ استعمال کرنا حرام قرار دیدیا گیا تو وہی لفظ جو یہود بطور طعن استعمال کرتے تھے صرف صحیح نیت کے ساتھ استعمال کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اللہ سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس کو صرف اسی طرح بیان کرنا جائز ہو گا۔ نیز صرف انبیاء کی طرف بکریاں چرانے کی نسبت بطور واقعہ جائز ہو گی نہ کہ ان کو ’’راعی‘‘ کہنا۔ جس کی ممانعت پر قرآن موجود ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس کو صرف اسی طرح بیان کرنا جائز ہو گا۔ نیز صرف انبیاء کی طرف بکریاں چرانے کی نسبت بطور واقعہ جائز ہو گی نہ کہ ان کو ’’راعی‘‘ کہنا۔ جس کی ممانعت پر قرآن موجود ہے۔
محترم بھائی! ’راعی‘ کا لفظ بذات خود برا نہیں ہے، بلکہ یہ ذمّہ دار، نگہبان اور دھیان رکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، قرآن کریم میں نیک لوگوں کی صفات میں آیا ہے: ﴿ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ... سورة المؤمنون کہ ’’وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہد کا پاس رکھتے ہیں۔‘‘ حدیث مبارکہ میں ہے: « كلكم راع ومسؤول عن رعيته ، فالإمام راع ومسؤول عن رعيته ... » کہ ’’تم میں سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اس کی اس کی ذمّہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا، امام (حکمران) راعی ہے اور اس سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔‘‘
اگر اس سے مراد ’بکریوں کا نگران‘ بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ کوئی برا لفظ نہیں، کیونکہ بکریاں چرانا باعثِ مذمت نہیں بلکہ قابلِ تحسین فعل ہے، اسی لئے تمام انبیاء کرام﷩ بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ نے - جیسا کہ پیچھے گزرا - بکریاں چرائی ہیں۔
اب مجھے نہیں علم کہ آپ کس دلیل کی بناء پر یہ فرما رہے ہیں کہ
راعی کی نسبت انبیاء کرام ﷩ کی طرف صرف بطور واقعہ جائز ہے ورنہ ناجائز؟؟؟
اور آپ کی اس بات کا مفہوم کیا ہے؟؟؟
البتہ مجھے آپ سے اس حد تک اتفاق ہے کہ اگر کوئی اسے غلط معنیٰ مثلاً ہمارا چرواہا بمعنیٰ ’ہمارا ملازم‘ استعمال کرے تو یہ واقعی نبی کریمﷺ کی توہین ہے، جس کی دُنیا وآخرت میں کڑی سزا ہے۔


  • رہا آپ کا یہ فرمانا کہ
جس کی ممانعت پر قرآن موجود ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ قرآن کریم میں کہاں انبیاء کریم﷩ کی طرف بکریاں چرانے کی نسبت کی ممانعت کی گئی ہے، بہتر ہوتا کہ آپ خود ہی وضاحت فرما دیتے۔

شائد کہ آپ کی مراد آیت کریمہ ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ﴾ ہو۔ تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں لفظ ﴿ راعنا ﴾ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے، جس کی تفسیر مفسرین کرام ﷭ نے درج ذیل کی ہے:

  1. ﴿ راعنا ﴾ کہنے سے اس لئے روکا گیا کیونکہ یہ بابِ مفاعلہ سے ہے جس میں تقابل (مقابلہ) پایا جاتا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’آپ ہماری رعایت رکھیں ہم بھی آپ کا دھیان رکھیں گے۔‘‘ چونکہ یہ انداز نبی کریمﷺ کے متعلق غیر مناسب ہے، لہٰذا اس سے روک دیا گیا۔
  2. نبی کریم کیلئے ﴿ راعنا ﴾کہنے سے اس لئے روکا گیا کیونکہ اس کا مطلب ہے فَرِّغْ سَمْعَكَ لِكَلَامِنَا کہ ’’اپنے کان کو ہماری بات سننے کیلئے خالی کر۔‘‘ اس معنیٰ کے مطابق اس میں واقعی کافی سختی پائی جاتی ہے۔ نبی کریمﷺ کیلئے اچھے اور نرم ترین الفاظ استعمال کیے جانے چاہئیں۔
  3. سیدنا ابن عباس﷜ کے مطابق مسلمان تو اسے اس طلب اور رغبت کے معنیٰ میں استعمال کرتے تھے کہ ازراہ کرم ہمارا دھیان کیجئے کہ دوبادہ بات دُہرا دیجئے۔ لیکن یہودیوں کی زبان میں یہ بطور گالی استعمال ہوتا تھا یعنی اسْمَعْ، لَا سَمِعْتَ کہ ’’سنو! تمہیں سنائی نہ دے۔‘‘ گویا بہرا ہونے کی بد دُعا ہے، (اس کی تائید سورۃ النساء کی ایک آیتِ کریمہ سے بھی ہوتی ہے۔) یہودیوں نے جب صحابہ کرام﷢ کو یہ لفظ استعمال کرتے سنا تو موقع غنیمت جانتے ہوئے کہا کہ پہلے تو ہم محمد (ﷺ) کو خفیہ گالی دیتے تھے اب اس لفظ کے ذریعے علانیہ برا بھلا کہا کریں گے، جب سیدنا سعد بن معاذ﷜ نے یہودیوں کی یہ بات سنی تو کہا کہ تم آئندہ یہ لفظ استعمال نہ کرنا، تم میں سے جو شخص یہ لفظ استعمال کرے گا میں اسے قتل کر دوں گا، تو انہوں نے جواباً کہا کہ تم بھی تو یہ لفظ استعمال کرتے ہو تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
  4. یہودی اسے زبان مروڑ کر ادا کرتے اور اس سے رعونة بمعنیٰ ’حماقت‘ کا مفہوم لیتے تھے یعنی ’ہمارا احمق‘۔
  5. یہودی اسے زبان مروڑ کر اور کھینچ کر ادا کرتے یعنی راعينا جس کا مفہوم ہے ’ہمارا چرواہا‘۔
تفصیل کیلئے یہ لنک دیکھئے!
واضح رہے کہ یہ آخری مفہوم کم مفسرین نے بیان کیا ہے، زیادہ تر مفسرین (طبری، قرطبی، ابن کثیر﷭ وغیرہم) نے دیگر مفاہیم بیان کیے ہیں۔
اگر آخری مفہوم بھی مراد لیا جائے تب بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا چرواہا بمعنیٰ ’ہمارا ملازم‘ کہنا قابلِ مذمت ہے، نہ کہ صرف راعی یا راعی الغنم کہنا!
واللہ تعالیٰ اعلم!
اللهم انفعنا بما علمتنا وعلمنا ما ينفعنا وزدنا علما
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
جزاک اللہ انس نضر بھائی، آپ کی مفصل وضاحت یقینا فائدہ مند ثابت ہو گی۔ بہر حال بریلوی اصول و کلام کے لحاظ سے احمد رضا بریلوی ہرگز نہیں بچتے۔ جس پر احمد سعید کاظمی کا پیش کیا گیا حوالہ کافی ہے۔ نیز دوسرے بریلوی حوالے بھی بریلوی اصول پر اس بات کو سخت گستاخی کے معانی مین ہی لینے پر شاہد ہیں۔ اس بارے میں بھی اپنی رائے سے نوازیں کہ کیا یہ مضمون الزامی لحاظ سے بھی درست ہے یا نہیں؟ دیگر اہل علم سے بھی رہنمائی کی درخواست ہے۔ والسلام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس بارے میں بھی اپنی رائے سے نوازیں کہ کیا یہ مضمون الزامی لحاظ سے بھی درست ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حياكم الله وبارك فيكم بھائی!
میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر کوئی شخص نیک نیتی سے بھی نبی کریمﷺ کیلئے راعنا کا لفظ استعمال کرے تو جائز نہیں، (اس طور پر الزامی جواب درست ہے، ورنہ نہیں) کیونکہ جب یہودی اس لفظ کو غلط معنیٰ میں استعمال کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے ’سدّ ذریعہ‘ کے طور پر مسلمانوں کو بھی - جن کی نیت یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے اگرچہ ادب واحترم کی ہوتی تھی - روک دیا۔ اس آیت کریمہ اور سورۃ الانعام کی آیت کریمہ ﴿ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ سے علماء کرام﷭ نے ایک عظیم قاعدہ (سدِ ذریعہ) مستنبط فرمایا ہے، یعنی اگر ایک شے بذات خود بری نہ بھی ہو، لیکن اگر بعض لوگوں کی طرف سے اس کے برے استعمال کا احتمال ہو تو وہ جائز شے بھی سد ذریعہ کے طور پر ممنوع ہو جاتی ہے۔ مثلاً طاغوت کو برا بھلا کہنا بذاتِ خود تو جائز ہے، لیکن اگر کسی ایسے شخص کے سامنے جو اس کی عبادت کرتا ہو، اسے برا بھلا کہا جائے گا تو وہ صرف دشمنی اور مخالفت میں ہمارے معبودِ برحق اللہ رب العٰلمین کو بھی برا بھلا کہے گا، لہٰذا سد ذریعہ کے طور پر کسی مشرک کے سامنے اس کے معبود (طاغوت) کو بھی بُرا بھلا نہیں کہا جا سکتا۔ واللہ تعالیٰ اعلم
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حياكم الله وبارك فيكم بھائی!
میں سمجھتا ہوں کہ آج اگر کوئی شخص نیک نیتی سے بھی نبی کریمﷺ کیلئے راعنا کا لفظ استعمال کرے تو جائز نہیں، (اس طور پر الزامی جواب درست ہے، ورنہ نہیں)
جی بالکل اور اسی طور پر احمد سعید کاظمی کا دیا گیا حوالہ بریلویوں کے خلاف حجت ہے کہ ان کے نزدیک تو راعنا کی ممانعت آ جانے کے بعد اگر کوئی صحابی بھی یہ لفظ استعمال کرتا چاہے توہین کی نیت نہ ہوتی تب بھی عذاب الیم کی قرآنی وعید کا مستحق قرار پاتا تو احمد رضا خان صاحب بریلویوں کے ہاں کیا صحابہ سے بھی بڑھ گئے کہ راعنا چھوڑ وہی لفظ استعمال کریں جو بریلویوں کے نزدیک یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے لئے استعمال کرتے تو ان کے لئے یہ قرآنی وعید لاگو نہ ہو۔ والسلام۔
 
Top