کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
17۔ مولانا عبدالرؤف علوی
مولانا عبدالرؤف صاحب علوی دیو بند مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے جامع ترمذی مترجم میں ’خلاصۃ الابواب‘ کے عنوان سے مختصر حواشی لکھے ہیں۔ وہ رفع یدین سے متعلقہ احادیث کے تحت رقم طراز ہیں: یہاں ہم ایک دلچسپ بات کی جانب ناظرین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ شارح نے تو اختلاف کو افضلیت اور غیر افضلیت کی نوعیت سے متعلق قرار دیا ہے، جب کہ ’فتح باب‘ کے زیر عنوان مقدمہ میں جناب عبدالرشید صاحب ارشد نے رفع یدین کو منسوخ بتلایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:’’تکبیر تحریمہ سب کے نزدیک رفع یدین متفق علیہ ہے کہ وہ شروع ہے اسی طرح اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ رسول ﷺ نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع میں جاتے وقت رکوع سے اُٹھتے وقت اور سجدے سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کیا ہے اسی طرح اس میں بھی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ آپ ﷺ نماز اسی طرح بھی پڑھتے تھے کہ صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے اس کے بعد پوری نماز میں کسی موقع پر بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود اور حضرات براء بن عازب وغیرہ نے روایت کیا ہے اسی طرح صحابہ کرام اور تابعین میں بھی دونوں طرح عمل کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے اسی لیے مجتھدین کے درمیان اس بارے میں بھی اختلاف صرف ترجیح اور افضلیت کا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی شریف مترجم:186-187/1، مکتبہ العلم، اردو بازار، لاہور)
ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ارباب علم جب ایک ہی کتاب میں ایک ہی مسئلے سے متعلق دو متضاد نقطہ ہائے نگاہ پیش فرمائیں تو اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ؎’’حنفیہ نے نماز کے متعلق مرکزی چیز تلاش کی کہ کیا ہے، تو معلوم ہوا ہے کہ سکون، خشوع، اور خضوع ہے لہٰذا انھوں نے ترک رفع یدین اور آمین بالسریا اخفاء کو اختیار کرکے اس کو ترجیح دے دی اور ویسے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اول دور میں یہی تھا۔ آخر میں اس کو ترک کر دیا گیا گویا حنفیہ کے نزدیک ترک رفع یدین اور آمین بالسر کی احادیث ناسخ ہیں۔‘‘ (جامع ترمذی شریف مترجم:41/1، مکتبہ العلم، اردو بازار، لاہور)
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ
ہمارے مقلد دوست عموماً تقلید کے حق میں یہ دلیل پیش کیا کرتے ہیں کہ اس سے فکری انتشار کا خاتمہ ہوتا اور ایک ہی مسلک کے ماننے والوں میں یک جہتی ِفکر و نظر پیدا ہوتی اور یکسانی ِاجتہاد و استباط وجود میں آتی ہے۔ اہل حدیث علما کے اجتہادی اختلافات کو عدم تقلید کا شاخسانہ قرار دے کر عاملین بالحدیث کو موردِ طعن ٹھہرانے والے احباب بتائیں کہ ایک غیر معصوم شخصیت کی تقلید کی پابندی کے باوصف ان میں اس قدر اختلاف کیوں ہے کہ اسی رفع یدین سے متعلق پانچ چھ رائیں ان کی کتب فقہ میں پائی جاتی ہیں!!!