- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
نصیحتیں میرے اسلاف کی قسط ٣
ابو قطن کہتے ہیں۔''امام شعبہ نے مجھ سے فرمایا مجھے آگ میں داخل کرنے والی جس چیز کا زیادہ خطرہ ہے وہ حدیث ہی ہے انہوں نے یہ بھی کہا میں چاہتا ہوں کہ میں حمام کے نیچے آگ جلانے والا مزدور ہوتا اور علمِ حدیث نہ حاصل کرتا ۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٢٧-١٢٨)
مجالد کہتے ہیں ۔''امام شعبی نے کہا عوام الناس بھی کتنے اچھے ہوتے ہیں سیلاب آئے تو اس کے آگے بند باندھتے ہیں ، آگ لگے تو اسے بجھا تے ہیں اور برے حکام کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔امام موصوف فرمایا کرتے تھے کاش! میں اپنے علم سے برا بر برابر نجات پاجاؤں نہ اس کا مجھے فائدہ ہو اور نہ اس کی ذمہ داری کے متعلق مجھ سے باز پرس ہو۔'' ۔ (تذکرہ الحفاظ = ١ / ٨٨)
اَزَدی فرماتے ہیں :'' کاش! میرا علم میرے لئے وجہ کفاف ہوجائے نہ مجھے اس کا فائدہ ہو اورنہ نقصان۔'' (تذکرہ الحفاظ= ١ / ١٤٤)
فرماتے ہیں :'' علم میں داخل ہونا آسان ہے لیکن اس سے کماحقہ کامیاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا مشکل ہے۔'' ( تذکرہ الحفاظ = ١/ ٣١٢)
حماد بن زید ؒ کہتے ہیں ۔''میں نے ثابت کو روتے دیکھاہے کہ آپ کی پسلیاں اِدھر سے اُدھر ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔
جعفر بن سلیمان ؒ کا بیان ہے ۔''ثابت بنانی ؒ اس قدر روتے کہ آنکھیں ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ، کسی نے سمجھایا تو بولے اگر آنکھیں نہ روئیں تو انکا کیا فائدہ؟'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ١١٢)
سفیان تو انھیں اس طرح فرماتے ہیں کہ:''میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے علم سے برابر برابر نجات پاجاؤں ۔اس کا مجھے نفع نہ ہو اور نہ نقصان ہو پھر تمام اعمال سے مجھے علمِ حدیث کا خطرہ ہے۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٧٣)
١
ایک رات تہجد پڑھتے وقت آپ بے حد روئے آپ کے بھائیوں نے سبب پوچھا تو فرمایا یہ آیت پڑھ کر مجھ پر خوف طاری ہوگیا تھا۔
'' وبدا لھم من اللہ مالم یکونو ا یحتسبون '' اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے وہ گناہ ظاہر کئے جائیں گے جو ان کے وہم میں بھی نہیں ہوں گے نزع کے وقت بھی اُن پر بہت گبھراہٹ طاری ہوئی تھی کہتے تھے میں اس آیت سے ڈرتا ہوں ، مجھے اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ میری کوئی ایسی لغزش نہ ظاہر کردے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١/ ١١٨)
٢
اما م مالک ؒفرماتے ہےں ہم ایوب کی مجلس میں حاضر ہوتے اور ان کے سامنے نبی ؐ کی حدیث کا تذکرہ کرتے تو وہ اس قدر روتے کہ ہم ان پر ترس کھانے لگتے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٢٠)
٣
زائدہ کہتے ہےں ٤٠ سال تک منصور کا معمول تھا کہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قےام کرتے ساری رات روتے اور گریہ و زاری میں بسر ہوتی۔صبح کے وقت آنکھوں میں سرمہ لگاتے اور اور سر میں تیل لگاتے اور تیل لگا کر بالوں اور ہونٹوں کو چمکا لےتے جیسے رات عبادت میں بسر ہی نہیں کی۔ ان کی یہ حد سے بڑتی ہوئی عبادت اور آہ وبکا کو دیکھ کر ان کی والدہ پوچھتیں تم نے کہیں قتل کا ا رتکاب تونہیں کیا؟ فرماتے میرے نفس نے جو کچھ کےا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں ۔''۔۔۔۔۔۔۔کثرت ِ گریہ و زاری کی وجہ سے آپ کی آنکھیں خراب ہو گئی تھیں ۔ ہمسایوں کی ایک لڑکی نے ایک دفعہ پوچھا ۔ اباجان ! منصور کے گھر میں ایک ستون نظر آتا تھا وہ کیا ہوا اب نظر نہیں آتا ؟اس کے باپ نے جواب دیا ، بیٹی ! وہ تو منصور تھے رات کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے اب انتقال کر گئے ۔
ثوری کہتے ہےں :''اگر تم منصور کو نماز پڑھتے دیھتے تو کہتے یہ ابھی مر جائیں گے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٤٩)
٤
امام سلیمان بن یسار گھر میں اکیلے تھے اس وقت ایک حسین و جمیل عورت نے آکر برائی کی دعوت دی تو انھوں نے رونا شروع وہ عورت یہ صورت حال دےکھ کر انگشت بدنداں ہو کر کھڑی ہوگئی جب رونے میں ذرا نرمی آئی تو اس نے پھر دعوت دی آپ نے اور زیا دہ اونچی آواز سے رونا شروع کردیا، وہ عورت گھبرا کر وہاں سے چلی گئی۔''
( فقھائے مد ینہ : ١٤١)
تمیم بن حماد ؒ کہتے ہیں جب امام عبد اللہ بن مبارک کتا ب الذہد پڑھتے تو اس قدر روتے کہ آپ کے گلے سے ذبح کی ہوئی گائے کی آواز نکلتی اور کوشش کے باوجود بات نہیں کر سکتے تھے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ٢٢٠)
امام ھارون بن عبد اللہ فرماتے ہےں :'' ایک دفعہ امام احمد شام کے وقت آئے اور رات میرے ہاں بسر کی اور فرمانے لگے، میں آج دن بھر مشغول رہا ہوں اور تم سائے میں بیٹھ کر حدیث پڑھا رہے ہواور طلباء ہاتھوں میں قلمیں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے، آئندہ ایسا نہ کرنا جب بیٹھو تو دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھو۔''
( تذکرہ الحفاظ = ٢/ ٣٠٢)
یاد رہے اگر مجبوری ہے تو پھر استاد کا سائے میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مثلاً زیادہ گرمی کی وجہ سے بعض حضرات کو الرجی ہو جاتی ہے دھوپ میں بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔''
امام سختیانی ؒفرمایا کرتے تھے :''انسان کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ، اگر وہ زُہد اختیار کرے تو اسے اپنے آپ کو زُہد کے لوگوں کے لئے عذاب نہیں بنانا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب اپنے زُہد کو مخفی رکھتے تھے۔ سلام کہتے ہیں ایوب ساری رات قیام الیل میں مصروف رہتے تھے مگر اس کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ صبح ہوتی تو بلند آواز سے بولتے جیسے وہ ابھی بیدار ہوئے ہیں ۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٤٠)
امام سفیان توری فرماتے ہےں :''عالم دین کا طبیب ہے اور مال (درہم و دینار)دین کا مرض ہےجب طبیب ہی مرض کو اپنی جیب میں ڈالے تو دوسرے کا علاج کس طرح کرے گا۔''
( تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٧٣)
علماء کو فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہئے اگر کسی مسئلے پر مکمل تحقیق نہیں ہے تو اس پر فتویٰ کبھی نہیں دینا چاہئے جب تحقیق ہوجائے تو تب دینا چاہئے۔ فتویٰ دیتے وقت اپنے معاصر علماء سے درپیش مسئلہ پر بحث کرنے کو لازم پکڑنا چاہئے، ورنہ غلط فتوے صادر ہوں گے جن کا نقصان ہے۔کیانکہ عامی کے ہاں فتویٰ کی بڑی وقعت ہوتی ہے۔۔۔۔
امام مالک فرماتے ہیں :''جب ستر شیوخ نے فتویٰ نویسی میں میری اہلیت کی شہادت نہیں دی میں نے فتویٰ نہیں دیا ۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٧٦)
بقول سید بن عبدالعزیزتنو لی :الا ادری ؒ:''آدھا علم کو کبھی نہ بھولیں ۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٨٣)
اما م مالک فرماتے ہیں :''اگر دین اور مروت ضائع کرنے سے آدمی کو دنیا بافراط مل بھی جائے تو اس میں کوئی خوبی نہیں ۔''
(تذکرہ الحفاظ= ١/ ١٧٨)
امام سعید بن عبد العزیز ثنوخی ؒفرماتے ہیں کہ:''دنیا میں خوبی صرف خاموش طبع یاد رکھنے والے اور صاحب ِ علم بولنے والے میں ہے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٨٣)
خصوصاً علماء کی موجودگی میں خا موشی اختیار کرنا سلامتی ہی سلامتی ہے۔
امام عروہ بن زبیر ؒ فرماتے ہیں :''میں کسی سے اس کی فہم و عقل سے بالا کوئی علمی بات نہیں کرتا کہ کہیں یہ بات اس کے لئے کسی گڑھی کا باعث نہ بن جائے۔''
( فقھائے مدےنہ : ١٨)
اگر کوئی کم عقل آدمی آپ کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آپ صبر سے کام لیں اور اس کو محض مجبوری سمجھ کر کنارہ کش ہوجائیں ۔ ایک مصلح آدمی نصیحت کا وہ انداز اپنائے گا جو خیر خواہی پر مبنی ہو اور تنہائی میں وہ نصیحت کی جائے تو اس مصلح سے بے انتہا محبت ہو جاتی ہے لیکن اگر انداز بھی بے تکہ اور ہو بھی سب کے سامنے تو پھر اللہ تعالیٰ مصلح کی نیت کو خوب جانتا ہے۔
امام عروہ بن زبیر ؒ فرماتے ہیں :''بسا اوقات ایسے بھی ہوا کہ میں نے کسی ذلت کی بات کو برداشت کیا اور اس سے مجھے عزت ملی۔''
( فقھائے مدےنہ:١٨)
علماء کو علم کی فکر کیسی ہونی چاہئے؟
ابو قطن کہتے ہیں۔''امام شعبہ نے مجھ سے فرمایا مجھے آگ میں داخل کرنے والی جس چیز کا زیادہ خطرہ ہے وہ حدیث ہی ہے انہوں نے یہ بھی کہا میں چاہتا ہوں کہ میں حمام کے نیچے آگ جلانے والا مزدور ہوتا اور علمِ حدیث نہ حاصل کرتا ۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٢٧-١٢٨)
مجالد کہتے ہیں ۔''امام شعبی نے کہا عوام الناس بھی کتنے اچھے ہوتے ہیں سیلاب آئے تو اس کے آگے بند باندھتے ہیں ، آگ لگے تو اسے بجھا تے ہیں اور برے حکام کے خلاف آواز بلند کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔امام موصوف فرمایا کرتے تھے کاش! میں اپنے علم سے برا بر برابر نجات پاجاؤں نہ اس کا مجھے فائدہ ہو اور نہ اس کی ذمہ داری کے متعلق مجھ سے باز پرس ہو۔'' ۔ (تذکرہ الحفاظ = ١ / ٨٨)
اَزَدی فرماتے ہیں :'' کاش! میرا علم میرے لئے وجہ کفاف ہوجائے نہ مجھے اس کا فائدہ ہو اورنہ نقصان۔'' (تذکرہ الحفاظ= ١ / ١٤٤)
اگر آنکھیں نہ روئیں تو ان کا کےا فائدہ؟
فرماتے ہیں :'' علم میں داخل ہونا آسان ہے لیکن اس سے کماحقہ کامیاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا مشکل ہے۔'' ( تذکرہ الحفاظ = ١/ ٣١٢)
حماد بن زید ؒ کہتے ہیں ۔''میں نے ثابت کو روتے دیکھاہے کہ آپ کی پسلیاں اِدھر سے اُدھر ہوتی دکھائی دیتی تھیں ۔
جعفر بن سلیمان ؒ کا بیان ہے ۔''ثابت بنانی ؒ اس قدر روتے کہ آنکھیں ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ، کسی نے سمجھایا تو بولے اگر آنکھیں نہ روئیں تو انکا کیا فائدہ؟'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ١١٢)
سفیان تو انھیں اس طرح فرماتے ہیں کہ:''میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے علم سے برابر برابر نجات پاجاؤں ۔اس کا مجھے نفع نہ ہو اور نہ نقصان ہو پھر تمام اعمال سے مجھے علمِ حدیث کا خطرہ ہے۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٧٣)
١
۔ محمد بن منکدر قریشیؒ:
ایک رات تہجد پڑھتے وقت آپ بے حد روئے آپ کے بھائیوں نے سبب پوچھا تو فرمایا یہ آیت پڑھ کر مجھ پر خوف طاری ہوگیا تھا۔
'' وبدا لھم من اللہ مالم یکونو ا یحتسبون '' اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے وہ گناہ ظاہر کئے جائیں گے جو ان کے وہم میں بھی نہیں ہوں گے نزع کے وقت بھی اُن پر بہت گبھراہٹ طاری ہوئی تھی کہتے تھے میں اس آیت سے ڈرتا ہوں ، مجھے اندیشہ ہے اللہ تعالیٰ میری کوئی ایسی لغزش نہ ظاہر کردے جو میرے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١/ ١١٨)
٢
۔ امام ایوب سختیانیؒ:
اما م مالک ؒفرماتے ہےں ہم ایوب کی مجلس میں حاضر ہوتے اور ان کے سامنے نبی ؐ کی حدیث کا تذکرہ کرتے تو وہ اس قدر روتے کہ ہم ان پر ترس کھانے لگتے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٢٠)
٣
۔ امام جعفر بن معتمر السلمی :
زائدہ کہتے ہےں ٤٠ سال تک منصور کا معمول تھا کہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قےام کرتے ساری رات روتے اور گریہ و زاری میں بسر ہوتی۔صبح کے وقت آنکھوں میں سرمہ لگاتے اور اور سر میں تیل لگاتے اور تیل لگا کر بالوں اور ہونٹوں کو چمکا لےتے جیسے رات عبادت میں بسر ہی نہیں کی۔ ان کی یہ حد سے بڑتی ہوئی عبادت اور آہ وبکا کو دیکھ کر ان کی والدہ پوچھتیں تم نے کہیں قتل کا ا رتکاب تونہیں کیا؟ فرماتے میرے نفس نے جو کچھ کےا ہے وہ میں ہی جانتا ہوں ۔''۔۔۔۔۔۔۔کثرت ِ گریہ و زاری کی وجہ سے آپ کی آنکھیں خراب ہو گئی تھیں ۔ ہمسایوں کی ایک لڑکی نے ایک دفعہ پوچھا ۔ اباجان ! منصور کے گھر میں ایک ستون نظر آتا تھا وہ کیا ہوا اب نظر نہیں آتا ؟اس کے باپ نے جواب دیا ، بیٹی ! وہ تو منصور تھے رات کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے اب انتقال کر گئے ۔
ثوری کہتے ہےں :''اگر تم منصور کو نماز پڑھتے دیھتے تو کہتے یہ ابھی مر جائیں گے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٤٩)
٤
۔ اما م سلیمان بن یسار ؒ:
امام سلیمان بن یسار گھر میں اکیلے تھے اس وقت ایک حسین و جمیل عورت نے آکر برائی کی دعوت دی تو انھوں نے رونا شروع وہ عورت یہ صورت حال دےکھ کر انگشت بدنداں ہو کر کھڑی ہوگئی جب رونے میں ذرا نرمی آئی تو اس نے پھر دعوت دی آپ نے اور زیا دہ اونچی آواز سے رونا شروع کردیا، وہ عورت گھبرا کر وہاں سے چلی گئی۔''
( فقھائے مد ینہ : ١٤١)
تمیم بن حماد ؒ کہتے ہیں جب امام عبد اللہ بن مبارک کتا ب الذہد پڑھتے تو اس قدر روتے کہ آپ کے گلے سے ذبح کی ہوئی گائے کی آواز نکلتی اور کوشش کے باوجود بات نہیں کر سکتے تھے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ٢٢٠)
استاد اپنے شاگردوں کا دل کیسے جیتے؟:
امام ھارون بن عبد اللہ فرماتے ہےں :'' ایک دفعہ امام احمد شام کے وقت آئے اور رات میرے ہاں بسر کی اور فرمانے لگے، میں آج دن بھر مشغول رہا ہوں اور تم سائے میں بیٹھ کر حدیث پڑھا رہے ہواور طلباء ہاتھوں میں قلمیں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے، آئندہ ایسا نہ کرنا جب بیٹھو تو دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھو۔''
( تذکرہ الحفاظ = ٢/ ٣٠٢)
یاد رہے اگر مجبوری ہے تو پھر استاد کا سائے میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے مثلاً زیادہ گرمی کی وجہ سے بعض حضرات کو الرجی ہو جاتی ہے دھوپ میں بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے۔''
اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے:
امام ایوب سختیانیؒ:
امام سختیانی ؒفرمایا کرتے تھے :''انسان کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ، اگر وہ زُہد اختیار کرے تو اسے اپنے آپ کو زُہد کے لوگوں کے لئے عذاب نہیں بنانا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب اپنے زُہد کو مخفی رکھتے تھے۔ سلام کہتے ہیں ایوب ساری رات قیام الیل میں مصروف رہتے تھے مگر اس کو کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ صبح ہوتی تو بلند آواز سے بولتے جیسے وہ ابھی بیدار ہوئے ہیں ۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٤٠)
علماء کو علمِ دین دنیا کی غرض کے لئے نہیں پڑھنا چاہئے:
امام سفیان توری فرماتے ہےں :''عالم دین کا طبیب ہے اور مال (درہم و دینار)دین کا مرض ہےجب طبیب ہی مرض کو اپنی جیب میں ڈالے تو دوسرے کا علاج کس طرح کرے گا۔''
( تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٧٣)
فتویٰ دینے میں احتیاط :
علماء کو فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہئے اگر کسی مسئلے پر مکمل تحقیق نہیں ہے تو اس پر فتویٰ کبھی نہیں دینا چاہئے جب تحقیق ہوجائے تو تب دینا چاہئے۔ فتویٰ دیتے وقت اپنے معاصر علماء سے درپیش مسئلہ پر بحث کرنے کو لازم پکڑنا چاہئے، ورنہ غلط فتوے صادر ہوں گے جن کا نقصان ہے۔کیانکہ عامی کے ہاں فتویٰ کی بڑی وقعت ہوتی ہے۔۔۔۔
امام مالک فرماتے ہیں :''جب ستر شیوخ نے فتویٰ نویسی میں میری اہلیت کی شہادت نہیں دی میں نے فتویٰ نہیں دیا ۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٧٦)
بقول سید بن عبدالعزیزتنو لی :الا ادری ؒ:''آدھا علم کو کبھی نہ بھولیں ۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٨٣)
عالمِ دین اپنے دین اور مروت کو ضائع نہ کرے:
اما م مالک فرماتے ہیں :''اگر دین اور مروت ضائع کرنے سے آدمی کو دنیا بافراط مل بھی جائے تو اس میں کوئی خوبی نہیں ۔''
(تذکرہ الحفاظ= ١/ ١٧٨)
خاموشی اختیار کرنا :
امام سعید بن عبد العزیز ثنوخی ؒفرماتے ہیں کہ:''دنیا میں خوبی صرف خاموش طبع یاد رکھنے والے اور صاحب ِ علم بولنے والے میں ہے۔''
(تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٨٣)
خصوصاً علماء کی موجودگی میں خا موشی اختیار کرنا سلامتی ہی سلامتی ہے۔
سامع کی استطاعت کے مطابق علمی بات کرنی چاہئے :
امام عروہ بن زبیر ؒ فرماتے ہیں :''میں کسی سے اس کی فہم و عقل سے بالا کوئی علمی بات نہیں کرتا کہ کہیں یہ بات اس کے لئے کسی گڑھی کا باعث نہ بن جائے۔''
( فقھائے مدےنہ : ١٨)
ذلت کی بات کو برداشت کرنا کبھی فائدہ دے جاتی ہے:
اگر کوئی کم عقل آدمی آپ کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو آپ صبر سے کام لیں اور اس کو محض مجبوری سمجھ کر کنارہ کش ہوجائیں ۔ ایک مصلح آدمی نصیحت کا وہ انداز اپنائے گا جو خیر خواہی پر مبنی ہو اور تنہائی میں وہ نصیحت کی جائے تو اس مصلح سے بے انتہا محبت ہو جاتی ہے لیکن اگر انداز بھی بے تکہ اور ہو بھی سب کے سامنے تو پھر اللہ تعالیٰ مصلح کی نیت کو خوب جانتا ہے۔
امام عروہ بن زبیر ؒ فرماتے ہیں :''بسا اوقات ایسے بھی ہوا کہ میں نے کسی ذلت کی بات کو برداشت کیا اور اس سے مجھے عزت ملی۔''
( فقھائے مدےنہ:١٨)