• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نصیحت کے طور پر قصے بیان کرنے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
نصیحت کے لئے قرآن و حدیث میں بے شمار قصے بیان کئے گئے ہیں، اس لئے کسی کو نصیحت کرنے کی غرض سے یہ قصے کافی وافی ہیں۔ مگر وہ قصے اور کہانیاں جو قرآن و حدیث میں نہ ہواور ان کی سچائی کا علم ہوتوانہیں بھی بیان کیاجاسکتا ہے۔

تاہم وہ واقعات جو من گھڑنت ، دین سے ٹکرانے والے، ایمان خراب کرنے والے اور جھوٹے ہوں توانہیں بیان نہیں کیا جائے گاکیونکہ جھوٹ تو جھوٹ ہے اس سے عبرت لینا کیسا؟

ایک صورت ہے کہ اگر یہ جھوٹے اور من گھرنت واقعات عوام میں شہرت پارہے ہوں، اور لوگوں کو ان سے غلط فہمیاں ہورہی ہوں یا لوگ ان واقعات کو سچ سمجھتے ہوں توایسے حالات میں ان واقعات کا بطلان واضح کیا جائے گاتاکہ لوگوں کو سچائی کا علم ہوسکے ۔


واللہ اعلم بالصواب
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا۔۔یعنی سچے واقعات ہی بیان کیئے جائیں۔
علاوہ ازیں وہ واقعات جو سنے سنائے ہوں ان کا حکم کیا ہو گا؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
ذکر چھڑا جب قصے کہانیوں کا ۔ ۔ ۔

قصہ گوئی حضرت انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ باصلاحیت لوگ قصہ اور داستانیں بیان کرتے ہیں اور دیگر لوگ انہیں بغور سنتے ہیں۔ قصہ اور داستان کی کہانی اتنی ہی پرانی ہے، جتنی کہ حضرت انسان کی کہانی۔ قصہ کہانیاں سچی بھی ہوتی ہیں اور فرضی یا جھوٹی بھی۔ کبھی قصہ کہانی کا واحد مقصد عام فہم اور دلچسپ انداز میں ”نصیحت“ کرنا تھا۔ مگر اب اس میں دیگر مقاصد بھی شامل ہوگئے ہیں۔ جیسے قصے کہانیوں کی تخلیق اور اس کی پیشکش (افسانہ، ناول، ڈرامہ فلم وغیرہ) کے ذریعہ پیسے کمانا۔ آج قصے کہانیوں کو دیکھنے سننے اور پڑھنے والوں کا اولین مقصد تفریح حاصل کرنا، اس کے بعد فارغ وقت گزارنا اور آخر میں نصیحت حاصل کرنا شامل ہے۔

سچی کہانیوں کے ساتھ ساتھ ازل سے ہی فرضی یا چھوٹی کہانیاں بھی گھڑی (یا تخلیق کی) جارہی ہیں۔ جیسے جانوروں کی کہانیاں، جن بھوتوں کی کہانیاں، حتیٰ کہ نباتات و جمادات کی کہانیاں۔ ان سب کہانیوں میں دلچسپی اور نصیحت دونوں عناصر کی موجودگی نے ہی اسے خواص و عوام میں مقبول بنائے رکھا۔

کہانیوں کی ایک قسم دینی یا مذہبی کہانیاں بھی ہیں۔ آغاز میں لکھی اور کہی جانے والی دینی کہانیاں حقیقت پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔ لیکن بعد ازاں قصہ گو اور لکھاریوں نے اس میں رنگینیاں پیدا کرنے کی غرض سے اپنی طرف سے واقعات گھڑ لئے۔ اور بعد میں سرے سے جھوٹے دینی قصص لکھے جانے لگے حتیٰ کہ احادیث کے نام سے بھی ضعیف اور موضوع ”کہانیاں“ گھڑ لی گئیں۔

فرضی اور جھوٹی کہانیوں کی تخلیق کو یکسر تو ”مسترد“ نہیں کیا جاسکتا، الا یہ کہ ان کا تعلق دین و مذہب سے ہو۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ، رسولوں، انبیاء، صحابی کرام، فرشتوں، آخرت وغیرہ سے متعلق فرضی یا غیر مستند قصوں اور بیانات کی تو نفی لازمی ہے کہ یہ ہمارے دین و ایمان کا حصہ ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن دیگر اصلاحی اور تفریحی کہانیوں پر یہ فارمولہ لاگو نہیں کیا جاسکتا کہ ”جھوٹے قصے“ نہ بیان کئے جائیں، الا یہ کہ ان قصوں میں فحش گوئی ہو، ملک و ملت کے مفادات کے خلاف باتیں ہوں یا ان سے براہ راست یا بین السطور دین کے کسی ضابطہ کی خلاف ورزی ہو رہی ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن ہی سب سے بہتر کتاب ہے -الله تبارک و تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے کہ :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ سوره یوںس ٥٧
اے ایمان والوں ! بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے عظیم نصیحت (قرآن) اور اس کے لیے سراسر شفا جو سینوں میں ہے اور ایمان والوں کے لیے سرا سر ہدایت اور رحمت آئی ہے۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ سوره طہ ١٢٣
ھر اگرتمہیں میری طرف سے ہدایت پہنچے پھر جو میری ہدایت پر چلے گا تو گمراہ نہیں ہو گا اور نہ تکلیف اٹھائے گا-

هَٰذَا هُدًى ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَهُمْ عَذَابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ سوره الجاثیہ ١١
یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے-

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ -لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَ يَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ -سورہ یٰسین ٦٩-٧٠
اور ہم نے اپنے نبی کو شعرگوئی نہیں سکھائی اور نہ ہی یہ اس کے شایان شان تھا- یہ تو صرف ایک نصیحت اور واضح قرآن ہے- تاکہ جو زندہ ہے اسے ڈرایا جائے اور کافروں پر حجت اتمام ہوجائے-

البتہ وہ واقعیات جو قرآن کے علاوه دوسری کتب میں بیان ہوے ہیں اور قرآن و حدیث کے احکامات سے براہ راست متعارض بھی نہیں ہیں- وہ بھی نصیحت کے طور بیان کے جا سکتے ہیں - نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا فرمان مبارک ہے -

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ لوگوں کو میری طرف سے (دین کی باتیں) پہنچاؤ، اگرچہ ایک آیت ہی سہی اور بنی اسرائیل سے جو سنو وہ بھی بیان کرو۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور جو شخص قصداً میرے اوپر جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔” (بخاری حدیث نمبر : 1446)

(واللہ اعلم)-
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
ہم مسلمان کواپنی ہربات اسلامی نقطہ نظر سے ہی پیش کرنا ہے افسانہ گو یا ناول گو کی حیثیت سے نہیں۔ ادب کے نام پہ افسانہ نگاری یا ناول نگاری محض جھوٹ ، عشقیہ بیان اور فرضی کہانیوں پہ مشتمل ہیں ، اسلام سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام میں گفتگو کرنے یا بیان و نصیحت کرنے میں جھوٹ کا عنصر ہی ختم کردیا ہے ، ایسی کوئی بات جس میں جھوٹ شامل ہو مردود ہے ۔

اسی لئے اللہ تعالی اور اس کے سچے پیغمبرمحمد ﷺنے سچ بولنے کا حکم دیا، جھوٹ بولنے سے منع کیا اور سچ بولنے والوں کی معیت اختیار کرنے کا حکم دیا۔

یہاں تک نبی ﷺ نےسنی سنائی بات بیان کرنے سے بھی منع فرمایا:

كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع (صحيح مسلم)
ترجمه : کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘

جس میں شک و تردد ہو اسے بھی بیان کرنے کی ممانعت ہے۔

“دع ما یریبک إلی ما لا یریبک فإن الصدق طمانیۃ، والکذب ریبۃ” (رواہ الترمذی)
ترجمہ: وہ چیز چھوڑدے جو تجھے شک میں ڈالے، اور اسے اختیار کر جس کی بابت تجھے شک وشبہ نہ ہو۔ اس لیے کہ سچ اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ شک اور بے چينی ہے۔(اس کو ترمذی نے روایت کیا، اور کہا کہ حدیث صحیح ہے، حدیث: 2518)

اس کا پرتواسلاف کرام میں زندگی میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ جھوٹ سے کس قدر دور رہتے تھے؟۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین کی نظر میں جھوٹے راوی کی روایت ناقابل قبول ہے ۔ اور عام زندگی میں بھی جھوٹے لوگ کا اعتبار نہیں ہوتا ، ان کی کسی بات پہ لوگوں کو یقین نہیں ہوتا۔

لہذا نصیحت کے طور پر یا عام بول چال میں بھی سچی گفتگو اپنائی جائے جس کا ہمیں اسلام نے مکلف کیا ہے اور جھوٹ سے یکسر پرہیز کیا جائے ۔ اسلام حق ہے اور حق ہی کو پسند کرتا ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ہم مسلمان کواپنی ہربات اسلامی نقطہ نظر سے ہی پیش کرنا ہے افسانہ گو یا ناول گو کی حیثیت سے نہیں۔ ادب کے نام پہ افسانہ نگاری یا ناول نگاری محض جھوٹ ، عشقیہ بیان اور فرضی کہانیوں پہ مشتمل ہیں ، اسلام سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام میں گفتگو کرنے یا بیان و نصیحت کرنے میں جھوٹ کا عنصر ہی ختم کردیا ہے ، ایسی کوئی بات جس میں جھوٹ شامل ہو مردود ہے ۔

اسی لئے اللہ تعالی اور اس کے سچے پیغمبرمحمد ﷺنے سچ بولنے کا حکم دیا، جھوٹ بولنے سے منع کیا اور سچ بولنے والوں کی معیت اختیار کرنے کا حکم دیا۔

یہاں تک نبی ﷺ نےسنی سنائی بات بیان کرنے سے بھی منع فرمایا:

كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع (صحيح مسلم)
ترجمه : کہ کسی انسان کے جھوٹا اور ایک روایت کے مطابق گناہگار ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔‘‘

جس میں شک و تردد ہو اسے بھی بیان کرنے کی ممانعت ہے۔

“دع ما یریبک إلی ما لا یریبک فإن الصدق طمانیۃ، والکذب ریبۃ” (رواہ الترمذی)
ترجمہ: وہ چیز چھوڑدے جو تجھے شک میں ڈالے، اور اسے اختیار کر جس کی بابت تجھے شک وشبہ نہ ہو۔ اس لیے کہ سچ اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ شک اور بے چينی ہے۔(اس کو ترمذی نے روایت کیا، اور کہا کہ حدیث صحیح ہے، حدیث: 2518)

اس کا پرتواسلاف کرام میں زندگی میں صاف صاف نظر آتا ہے کہ جھوٹ سے کس قدر دور رہتے تھے؟۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین کی نظر میں جھوٹے راوی کی روایت ناقابل قبول ہے ۔ اور عام زندگی میں بھی جھوٹے لوگ کا اعتبار نہیں ہوتا ، ان کی کسی بات پہ لوگوں کو یقین نہیں ہوتا۔

لہذا نصیحت کے طور پر یا عام بول چال میں بھی سچی گفتگو اپنائی جائے جس کا ہمیں اسلام نے مکلف کیا ہے اور جھوٹ سے یکسر پرہیز کیا جائے ۔ اسلام حق ہے اور حق ہی کو پسند کرتا ہے ۔
جزاک الله -
 
Top