• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نضرۃ النعیم - ابتھال

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ابتھال
(گڑگڑانا/التجا کرنا)

لغوی بحث:
ابتھال لفظ ”بَهَلٌ“سے ماخوذ جو سیاق و سباق کے لحاظ سے۳ (تین) معنوں کے لئے مستعمل ہے: (۱) خلوت پسندہونا، (۲) دعاء کی ایک قسم کے لئے استعمال ہوتا ہے جس میں انسان گڑگڑاکر اپنے رب سے دعا مانگتا ہے، (۳) پانی کی قلت واقع ہونا۔
ابتھال لفظِ ”بُهْلٌ“سے بھی لیا جاتا ہےجو دوسرے معنی پردلالت کرتا ہے۔ابن فارس کہتے ہیں: ابتہال ”بُهْلٌ“ سے دوسرے معنی کےلئے مستعمل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کےلئے تضرع اور عاجزی اختیار کرنا اور مباھلہ بھی اسی سے ماخوذ ہےکیونکہ آپس میں دو مباھلہ کرنے والےا یک دوسرے کےلئے بددعاء کرتے ہیں۔
اور”البَهْلُ“بددعاء کےمعنی میں ہے۔ ابن صبغاء والی حدیث میں ہے: ”الَّذِیْ بَهَلَهُ بُرَيْقٌ، أَیْ الَّذِیْ لَعَنَهُ وَدَعَا عَلَیْهِ رَجُلٌ اِسْمُهُ بُرَیْقٌ“. ترجمہ: جس شخص کوآپ نے بددعا دی تھی اس کا نام بُریق تھا۔
دعا میں بُهْلٌ اور”اِبْتِهَالٌ“ عاجزی اور انکساری کو کہا جاتا ہے۔( المفرادات فی غريب القرآن (ص: 63))
”بَهَلَهُ اللهُ بَهْلاً“ کا معنی ہے: اللہ اس پر لعنت کرے (اسے اپنی رحمت سے دور کرے) اور”عَلَيْهِ بَهْلَةُ اللهِ“ اور ”بُهْلَةُ اللهِ“ کا معنی ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
ابو بکر کی روایت میں ہے:”مَنْ وَلِیَ مِنْ اُمُوْرِ النَّاسِ شَیْئًا فَلَمْ یُعْطِهِمْ کِتَابَ اللہِ فَعَلَیْهِ بَهْلَةُ اللہِ أَیْ لَعْنَةُ اللہِ“ ترجمہ: جو لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ٹھہرا اور ان کے فیصلے اللہ کی کتاب پر نہ کئے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
”بُهْلَةٌ“: باء کے پیش اور زبر دونوں طرح پڑھا جاتا ہےاور”بَاهَلَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا وَتَبَاهَلُوْا وَابْتَھَلُوْا“ سب کا معنی ہے کہ لوگوں نے آپس میں ایک دوسرےپر لعنت بھیجی اور بددعا کی۔
”مُبَاهَلَةٌ“ ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے کے معنی میں ہے۔
”بَاهَلْتُ فُلاَناً“ کا معنی ہے میں نے فلاں شخص کو بددعا دی(ایک دوسرے پر لعنت بھیجی)۔
اسی طرح فقہاءِ اسلام نےفقہی کتب میں ایک باب قائم کیا ہے جس کو بَابُ الْمُلَاعَنَة کا نام دیا ہے، جس کی وجہ تسمیہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان سے ماخوذہے: وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَہُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَّہُمْ شُہَدَاۗءُ اِلَّآ اَنْفُسُہُمْ فَشَہَادَۃُ اَحَدِہِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍؚبِاللہِ۝۰ۙ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۝۶ وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كَانَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝۷ النور: ٦ - ٧
ترجمہ: وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتےہیں اور ان کے اپنے علاوہ گواہ نہ ہوں تو ان میں سے ہر ایک اللہ کی چار قسمیں کھا کر کہے گا میں سچا ہوں اور پانچویں دفعہ کہے گا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔
اور”مُبَاهَلَةٌ“ کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کا جب کسی مسئلے میں اختلاف ہو تو وہ سب جمع ہو کر یہ کہیں کہ جو ہم میں سے ظالم ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
عبداللہ بن عباس نے ایک مسئلے میں کہا کہ جو میرےساتھ مباھلہ کرنا چاہتا ہے میں اس کے ساتھ مباھلہ کرتاہوں کہ حق میرے پاس ہے۔
”اِبْتَهَلَ فِیْ الدُّعَاءِ“ کا معنی ہے دعا میں گڑگڑایا۔ اور”مُبْتَهِلٌ“ کا معنی ہے دعاء میں عاجزی کرنے والا۔
”اِبْتِهَالٌ“ کا مطلب عاجزی اختیار کرنا، دعا میں گڑگڑانا اور اللہ تعالیٰ کےلئےا خلاص قائم کرناسہے ۔
قرآن کریم میں ہے: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاءَنَا وَاَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَاَنْفُسَـنَا وَاَنْفُسَكُمْ۰ۣ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ۶۱ (آل عمران:61)
ترجمہ: اس لئے جو شخص آپ كے پاس اس علم كے آجانے كے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ كہہ دیں كہ آؤہم اورتم اپنے اپنے بیٹوں كو اور اپنی اپنی عورتوں كو اور خاص اپنی اپنی جانوں كو بلالیں ،پھر ہم عاجزی كے ساتھ التجا كریں اور جھوٹوں پر اللہ كی لعنت كریں۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ”مُبْتَهِلٌ“عربی زبان میں اللہ کی پاکی بیان کرنےو الے اور اللہ کو زیادہ یاد کرنے والےکو کہا جاتا ہے ۔
انہوں نےنابغہ شیبانی کے اس شعر سے دلیل لی ہے جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
”أَقْطَعُ اللَّیْلَ آهَةً وَ انْتِحَاباً وَ ابْتِهَالاً لِلہِ أَیَّ ابْتِهَالٍ“
ترجمہ: میں افسوس کرتا ہوں زور زور سے روتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرتا ہوا رات گذارتا ہوں۔
بعض علماء کہتےہیں: ”مُبْتَهِلٌ“دعاءکرنے والے کو کہا جاتا ہے،جیسا کہ آیت کریمہ کے اس لفظ میں وارد ہے :ﭽ ﯲ ﯳﭼ کا معنی ”ثُمَّ نَلْتَعِنْ“(پھر ہم ایک دوسرے پر لعنت بھیج دیں گے)ہے۔کہا جاتا ہے: ”مَا لَهُ بَهَلَهُ اللہُ“ یعنی اس کو کیا ہوا؟ اللہ اس پر لعنت کرے اور”مَا لَهُ عَلَيْهِ بُهْلَةُ اللہِ“ کا معنی ہے اس کو کیا ہوا؟ اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
دعا والی حدیث میں ہے: ”وَ الإِبْتِهَالُ أَنْ تَمُدَّ یَدَيْكَ جَمِيْعًا“ ترجمہ: ابتھال یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاؤ۔
ابتھال دراصل عاجزی اور سوال کرنےمیں مبالغہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔( لسان العرب )۱۱/۷۲( مختارالصحاح (ص: ۶۷) مقاييس اللغة (۱/۳۱۰) تفيسر طبری (۳/ ۲۱۱)لبیدشاعرنے ایک قوم کی ہلاکت کا تذکرہ کیا پھر کہا : ”نَظَرَ الدَّهْرُ إلَيْهِمْ فَابْتَهِل“ ترجمہ: زمانے میں ان کو دیکھ کر ان کےلئے ہلاکت کی دعا کی۔)
اصطلاحی وضاحت:
ابتھال اصطلاح میں عاجزی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کےلئے ہاتھاٹھا کر دعاء کرنے کو کہتےہیں۔( دیکھئےالنهاية فی غريب الحديث والأثر (۱/ ۱۶۷))
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وہ آیات جو ابتھال کے متعلق وارد ہوئی ہیں
اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْہِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَـنَا وَاَنْفُسَكُمْ۝۰ۣ ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ (آل عمران 60-61)
تیرے رب كی طرف سے یہی حق ہے خبردار شك كرنے والوں میں سے نہ ہونا (60) اس لئے جو شخص آپ كے پاس اس علم كے آجانے كے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ كہہ دیں كہ آؤ ہم اورتم اپنے اپنے بیٹوں كو اور اپنی اپنی عورتوں كو اور خاص اپنی اپنی جانوں كو بلا لیں، پھر ہم عاجزی كے ساتھ التجا كریں اور جھوٹوں پر اللہ كی لعنت كریں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وہ احادیث جو ابتھال پر دلالت کرتی ہیں
1- عَنْ أَبِي الْقَمُوصِ زَيْد بْن عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنِي أَحَدُ الْوَفْدِ الَّذِينَ وَفَدُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ قَالَ وَأَهْدَيْنَا لَهُ فِيمَا يُهْدَى نَوْطًا أَوْ قِرْبَةً مِنْ تَعْضُوضٍ أَوْ بَرْنِيٍّ فَقَالَ مَا هَذَا فَقُلْنَا هَذِهِ هَدِيَّةٌ قَالَ: وَأَحْسِبُهُ نَظَرَ إِلَى تَمْرَةٍ مِنْهَا فَأَعَادَهَا مَكَانَهَا وَقَالَ: أَبْلِغُوهَا آلَ مُحَمَّدٍ قَالَ: فَسَأَلَهُ الْقَوْمُ عَنْ أَشْيَاءَ حَتَّى سَأَلُوهُ عَنْ الشَّرَابِ فَقَالَ: لَا تَشْرَبُوا فِي دُبَّاءٍ وَلَا حَنْتَمٍ وَلَا نَقِيرٍ وَلَا مُزَفَّتٍ، اشْرَبُوا فِي الْحَلَالِ الْمُوكَى عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ قَائِلُنَا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا يُدْرِيكَ مَا الدُّبَّاءُ وَالْحَنْتَمُ وَالنَّقِيرُ وَالْمُزَفَّتُ قَالَ: أَنَا لَا أَدْرِي مَا هِيَهْ؟ أَيُّ هَجَرٍ أَعَزُّ قُلْنَا الْمُشَقَّرُ قَالَ: فَوَاللهِ لَقَدْ دَخَلْتُهَا وَأَخَذْتُ إِقْلِيدَهَا قَالَ: وَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا فَأَذْكَرَنِيهِ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي جَرْوَةَ قَالَ: وَقَفْتُ عَلَى عَيْنِ الزَّارَةِ ثُمَّ قَالَ: اللهم اغْفِرْ لِعَبْدِ الْقَيْسِ إِذْ أَسْلَمُوا طَائِعِينَ غَيْرَ كَارِهِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَوْتُورِينَ إِذْ بَعْضُ قَوْمِنَا لَا يُسْلِمُونَ حَتَّى يُخْزَوْا وَيُوتَرُوا وَقَالَ: وَابْتَهَلَ وَجْهُهُ هَاهُنَا مِنْ الْقِبْلَةِ يَعْنِي: عَنْ يَمِينِ الْقِبْلَةِ حَتَّى اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ يَدْعُو لِعَبْدِ الْقَيْسِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَيْرَ أَهْلِ الْمَشْرِقِ عَبْدُ الْقَيْسِ.( ( صحيح ) السلسلة الصحيحة رقم (2425) مسند أحمد (4/206))
(۱)ابی القموص زید بن عدی فرماتے ہیں مجھے ایک شخص نے یہ خبر دی جو آپ ﷺ کے پاس وفدِ عبدالقیس میں شریک تھے کہا کہ ہم نے آپ ﷺکو ایک کھجور کی ٹوکری ہدیہ کے طور پر پیش کی، آپ ﷺنے کہا یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا یہ ہدیہ ہے ، تو آپ ﷺ نے ان کھجور وں میں سے ایک کھجور کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ آل محمد ﷺ کو دے دو، پھر ہماری قوم والوں نے آپ ﷺ سے بہت ساری چیزوں کے متعلق پوچھا ۔ یہاں تک کہ پینے کی چیزوں کے متعلق پوچھا کہ کن برتنوں میں پیئں ،آپ ﷺ نے فرمایا نہ پیو کدو نما برتن میں، نہ طلاء شدہ مٹکوں میں، اور نہ کھوکھلی لکڑی میں اور نہ تارکول کے برتن میں۔حلال برتن میں پیو جو ڈھکا ہوا ہو۔ پھر کہا ہم میں سے کسی نے اے اللہ کے رسول! آپ کو کس نے خبر دی کہ الدُّبَّاءُ،الْحَنْتَمُ، النَّقِيرُاورالْمُزَفَّتُ کیا ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:میں نہیں جانتا وہ کیا ہے،پھر آپ نے پوچھا کونسی زمین بہتر ہے ؟ ہم نے کہا کہ مشقر نامی زمین (یہ بحرین میں قدیم قلعہ تھا) پھر کہا اللہ کی قسم میں اس میں ایک مرتبہ داخل ہوا تھا اور میں نے اس کی چابی بھی لی، پھرابو القموس کہتے ہیں کہ میں کچھ باتیں بھول چکا ہوں جو مجھے عبیداللہ بن ابی جروہ نے یاد دلائی ہیں، وہ یہ باتیں ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک زارا نامی چشمے پر کھڑا ہوا تھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! عبدالقیس کے وفد کو معاف فرما دے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے دل کی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے۔ بغیر کسی کراہت وحقارت کے۔کیونکہ کچھ لوگ ذلت اور رسوائی کے بعدمسلمان ہوتے ہیں۔ پھر کہا کہ آپ ﷺ کا چہرہ قبلہ کی طرف عاجزی سےجھک گیا یہاں تک قبلہ رخ ہوکر عبدالقیس کے لئے دعائیں فرمائیں پھر آپ نے فرمایا مشرق والوں میں سب سے بہترین لوگ عبدالقیس والے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
وہ احادیث جو ابتھال پر دلالت کرتی ہیں
1- عَنْ أَبِي الْقَمُوصِ زَيْد بْن عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنِي أَحَدُ الْوَفْدِ الَّذِينَ وَفَدُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ مِنْ عَبْدِ الْقَيْسِ قَالَ وَأَهْدَيْنَا لَهُ فِيمَا يُهْدَى نَوْطًا أَوْ قِرْبَةً مِنْ تَعْضُوضٍ أَوْ بَرْنِيٍّ فَقَالَ مَا هَذَا فَقُلْنَا هَذِهِ هَدِيَّةٌ قَالَ: وَأَحْسِبُهُ نَظَرَ إِلَى تَمْرَةٍ مِنْهَا فَأَعَادَهَا مَكَانَهَا وَقَالَ: أَبْلِغُوهَا آلَ مُحَمَّدٍ قَالَ: فَسَأَلَهُ الْقَوْمُ عَنْ أَشْيَاءَ حَتَّى سَأَلُوهُ عَنْ الشَّرَابِ فَقَالَ: لَا تَشْرَبُوا فِي دُبَّاءٍ وَلَا حَنْتَمٍ وَلَا نَقِيرٍ وَلَا مُزَفَّتٍ، اشْرَبُوا فِي الْحَلَالِ الْمُوكَى عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ قَائِلُنَا: يَا رَسُولَ اللهِ وَمَا يُدْرِيكَ مَا الدُّبَّاءُ وَالْحَنْتَمُ وَالنَّقِيرُ وَالْمُزَفَّتُ قَالَ: أَنَا لَا أَدْرِي مَا هِيَهْ؟ أَيُّ هَجَرٍ أَعَزُّ قُلْنَا الْمُشَقَّرُ قَالَ: فَوَاللهِ لَقَدْ دَخَلْتُهَا وَأَخَذْتُ إِقْلِيدَهَا قَالَ: وَكُنْتُ قَدْ نَسِيتُ مِنْ حَدِيثِهِ شَيْئًا فَأَذْكَرَنِيهِ عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي جَرْوَةَ قَالَ: وَقَفْتُ عَلَى عَيْنِ الزَّارَةِ ثُمَّ قَالَ: اللهم اغْفِرْ لِعَبْدِ الْقَيْسِ إِذْ أَسْلَمُوا طَائِعِينَ غَيْرَ كَارِهِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَوْتُورِينَ إِذْ بَعْضُ قَوْمِنَا لَا يُسْلِمُونَ حَتَّى يُخْزَوْا وَيُوتَرُوا وَقَالَ: وَابْتَهَلَ وَجْهُهُ هَاهُنَا مِنْ الْقِبْلَةِ يَعْنِي: عَنْ يَمِينِ الْقِبْلَةِ حَتَّى اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ يَدْعُو لِعَبْدِ الْقَيْسِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ خَيْرَ أَهْلِ الْمَشْرِقِ عَبْدُ الْقَيْسِ.( ( صحيح ) السلسلة الصحيحة رقم (2425) مسند أحمد (4/206))
(۱)ابی القموص زید بن عدی فرماتے ہیں مجھے ایک شخص نے یہ خبر دی جو آپ ﷺ کے پاس وفدِ عبدالقیس میں شریک تھے کہا کہ ہم نے آپ ﷺکو ایک کھجور کی ٹوکری ہدیہ کے طور پر پیش کی، آپ ﷺنے کہا یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا یہ ہدیہ ہے ، تو آپ ﷺ نے ان کھجور وں میں سے ایک کھجور کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ آل محمد ﷺ کو دے دو، پھر ہماری قوم والوں نے آپ ﷺ سے بہت ساری چیزوں کے متعلق پوچھا ۔ یہاں تک کہ پینے کی چیزوں کے متعلق پوچھا کہ کن برتنوں میں پیئں ،آپ ﷺ نے فرمایا نہ پیو کدو نما برتن میں، نہ طلاء شدہ مٹکوں میں، اور نہ کھوکھلی لکڑی میں اور نہ تارکول کے برتن میں۔حلال برتن میں پیو جو ڈھکا ہوا ہو۔ پھر کہا ہم میں سے کسی نے اے اللہ کے رسول! آپ کو کس نے خبر دی کہ الدُّبَّاءُ،الْحَنْتَمُ، النَّقِيرُاورالْمُزَفَّتُ کیا ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:میں نہیں جانتا وہ کیا ہے،پھر آپ نے پوچھا کونسی زمین بہتر ہے ؟ ہم نے کہا کہ مشقر نامی زمین (یہ بحرین میں قدیم قلعہ تھا) پھر کہا اللہ کی قسم میں اس میں ایک مرتبہ داخل ہوا تھا اور میں نے اس کی چابی بھی لی، پھرابو القموس کہتے ہیں کہ میں کچھ باتیں بھول چکا ہوں جو مجھے عبیداللہ بن ابی جروہ نے یاد دلائی ہیں، وہ یہ باتیں ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک زارا نامی چشمے پر کھڑا ہوا تھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے اللہ ! عبدالقیس کے وفد کو معاف فرما دے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے دل کی خوشی سے اسلام قبول کیا ہے۔ بغیر کسی کراہت وحقارت کے۔کیونکہ کچھ لوگ ذلت اور رسوائی کے بعدمسلمان ہوتے ہیں۔ پھر کہا کہ آپ ﷺ کا چہرہ قبلہ کی طرف عاجزی سےجھک گیا یہاں تک قبلہ رخ ہوکر عبدالقیس کے لئے دعائیں فرمائیں پھر آپ نے فرمایا مشرق والوں میں سب سے بہترین لوگ عبدالقیس والے ہیں۔
 
Top