• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظریۂ وحدتُ الوجود اور ڈاکٹر اسراراحمد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پانچواں فرق
شیخ ابن عربی کے نزدیک اعیانِ ثابتہ حقیقت ِمحمدیہ کا عین' اور حقیقت ِمحمدیہ ذات باری تعالیٰ کا عین ہے' کیونکہ شیخ کے ہاں صفاتِ ذاتِ حق' عین ذاتِ حق ہے' بلکہ شیخ کے ہاں صفت علم' صفت قدرت کا عین اور صفت قدرت' صفت علم کا عین ہے۔ چونکہ شیخ ابن عربی کے نزدیک صفت علم بھی عین ذات ہے لہٰذا صفت علم میں تنزل سے مراد عین ذات میں تنزل ہے۔ اس کے برعکس ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ہاں اللہ کی ذات میں تو تنزل نہیں ہوا لیکن کلمہ 'کن' یعنی اللہ کی صفت کلام جو نہ عین ذات ہے اور نہ غیر ذات یا من وجہ عین ذات ہے اور من وجہ غیر ذات ہے' اس میں تنزل ہوا ہے' لیکن جب اس کلمہ 'کن 'نے تنزلات کی صورت میں مخلوق کی صورت اختیار کی تو اب مخلوق اللہ کا غیر اور حادث ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں:
''لہٰذا ذاتِ باری تعالیٰ کا وہ کلمہ ٔ 'کن' بھی جو موجودہ کون و مکان کے کل سلسلہ تکوین و تخلیق کا نقطہ آغاز بنا' ابتداء میں لازماً 'مطلق' و 'لامحدود' اور 'کیف' و 'کم' کے جملہ تصورات سے ماوراء تھا۔ البتہ اسی کلمۂ کن نے 'تنزلات' کی منزلیں طے کرنی شروع کیں جن کے ذریعے 'وجوب' سے 'امکان'اور 'قدم' سے 'حدوث' کی جانب سفر شروع ہوا۔گویا تنزلات کی نسبت ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب نہیں اس کلمۂ 'کن' کی جانب ہے''۔ (ایجاد و ابداع عالم سے عالمی نظام خلافت تک : ص ١٠)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چھٹا فرق
شیخ ابن عربی کے نزدیک نظریہ وحدت الوجود ہی حق ہے اور جو علماء ' فقہاء حتیٰ کہ صوفیاء تک اللہ کے وجود کے علاوہ دوسرا وجود مانتے ہیں تو ابن عربی کے ہاں ان کی معرفت ِرب ناقص معرفت اور ان کا یہ عمل شرک ہے۔ شیخ ابن عربی کا کہنا ہے کہ جو صوفیاء راہِ سلوک میں اپنے وجود کے فنا ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں' ان کا یہ نظریہ بھی شرک ہے' کیونکہ کسی وجود کے فنا کا نظریہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ پہلے اس کے وجود کے قائل ہوں اور یہی شرک ہے۔ ابن عربی کے بقول:
'' ومن جوز أن یکون مع اللّٰہ شیء یقوم بنفسہ أو یقوم بہ وھو فان عن وجودہ أو من فنائہ ' فھو بعد بعید' ما شم رائحة معرفة النفس' لأن من جوز أن یکون موجود سواہ قائما بہ وفیہ' یصیر فانیا' وفنائہ یصیر فانیا فی فنائہ ' فیتسلسل الفناء بالفنائ' وھذا شرک بعد شرک' ولیس معرفة للنفس' لأنہ شرک لا عارف باللہ' ولابنفسہ.'' (کتاب الھُوَ : ص٥)
''اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی شے کے وجود کو جائز قرار دیا کہ وہ شے بذاتہ قائم ہو یا اللہ کے ساتھ قائم ہو اور وہ شے اپنے وجود کے اعتبار سے فنا ہونے والی ہو یا اس کے فنا سے فنا ہونے والی ہوتو ایسا ہونا بہت دور کی بات ہے اور ایسے شخص نے اپنے نفس کی معرفت کی بو بھی نہیں چکھی' کیونکہ جس نے اللہ کے سوا کسی بھی وجود کو جائز قرار دیا ' چاہے وہ وجود اللہ کے ساتھ قائم ہو یا اس میں قائم ہو اور فنا ہو جانے والا ہو اور اس کی فنا بھی اس کی فنا میں فنا ہونے والی ہو تو اس طرح فنا کاتسلسل لازم آئے گا اور یہ شرک پر شرک ہے اور نفس کی معرفت اسے نہیں کہتے کیونکہ یہ شرک ہے اور ( وجود کے فنا ہونے کا ایسانظریہ رکھنے والے صوفی کو ) نہ تو اللہ کی معرفت حاصل ہوئی ہے اور نہ ہی اپنے نفس کی۔''
جبکہ ڈاکٹر صاحب' وحدت الوجود کے عقیدہ کو ایک زائد عقیدہ سمجھتے ہیں کہ جس کے نہ ماننے سے ان کے نزدیک نہ تو معرفت ِ الٰہی میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی دین اسلام اور تصورِ توحید ناقص قرار پاتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''خود اس فلسفہ ٔ وجود کے بارے میں بھی میں عرض کر چکا ہوں کہ اس کا تعلق نہ شریعت سے ہے نہ طریقت سے ۔ اس فلسفہ کو جس کا جی چاہے قبول کرے اور جو اسے رد کرنا چاہے رد کر دے۔ اس کے نہ ماننے سے کسی اعتبار سے بھی دین میں کوئی کمی یا نقص واقع نہیں ہوتا۔ البتہ تنقید اور اختلاف کے معاملے میں دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ جس شخص کے نظریات پر آپ تنقید کر رہے ہیں پہلے اس کے اصل مسلک کو ضرور سمجھ لیں۔'' (اُمّ المسبحات : ص ٩١)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ڈاکٹر صاحب کے موقف کے بارے میں کچھ وضاحتیں

ڈاکٹر صاحب کے نکتہ نظر پر نقد سے پہلے چند ایک وضاحتوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے:
پہلا نکتہ
ڈاکٹر صاحب' شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رحمہما اللہ وغیرہ کے تو شخصی دفاع کے قائل ہیں اور ان حضرات پر مشرک' کافر یا ضال کا فتوی لگانے کے خلاف ہیں' لیکن شیخ ابن عربی پر کوئی فتویٰ لگائے جانے کے بارے وہ حساس نہیں ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ کسی کو ابن عربی سے سوء ظن ہو' کوئی انہیں مرتد سمجھے یا سمجھے کہ وہ مشرک تھے یا مرتد تھے یا ضال اور مضل تھے تو جو چاہے کہے اس سے کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا۔ لیکن شاہ ولی اللہ کو اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مشرک تھے یا مرتد تھے یا ضال اور مضل تھے تو یہ بات بڑی تشویش کی ہے ''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٤٨)
ڈاکٹر صاحب ' شیخ ابن عربی پر کوئی فتویٰ لگانے کے بارے میں حساس کیوں نہیں ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو ان کے نزدیک ابن عربی کا صرف صوفی ہونا ہے جبکہ شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی کا مقام ابن عربی سے اس لحاظ سے بہت بلند ہے کہ یہ حضرات بیک وقت صوفی ہونے کے ساتھ فقیہہ 'محدث اور مفسر بھی ہیں اور ان کی دینی خدمات بھی ناقابل بیان ہیں ۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''ابن عربی کو تو خیر چھوڑ دیجیے کہ ان کی حیثیت کسی مفسر' محدث یا فقیہہ کی نہیں ہے''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٤٨)
دوسرا نکتہ
ڈاکٹر صاحب کو شیخ ابن عربی سے صرف ایک ہی بات میں اتفاق ہے۔ اس کے علاوہ وہ شیخ ابن عربی کی طرف منسوب جملہ خرافات' شرکیہ کلمات اور بدعات سے اعلان براءت کرتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''شیخ ابن عربی کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیت ِوجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے' تو میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے۔ البتہ اور بہت سی باتیں' خواہ انہوں نے لکھیں یا ان کی طرف غلط منسوب کر دی گئیں' ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا میں نہ تو ان کے بارے میں جواب دہ ہوں' نہ ان کی وضاحت میرے ذمہ ہے اور نہ ہی مجھے ان کے وکیل کی حیثیت حاصل ہے۔'' (اُمّ المسبحات : ص ٩١)
تیسرا نکتہ
ڈاکٹر صاحب نے شیخ ابن عربی کی جس ایک بات سے اتفاق کیا ہے ہم اس ایک بات کے بارے میں بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ اس بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب مغالطے کا شکار تھے' اس لیے کہ یہ شیخ ابن عربی کی بات نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر صاحب نے چونکہ کچھ ثانوی ذرائع سے شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کو سمجھا لہٰذا انہوں ابن عربی کی طرف ایک ایسی بات منسوب کر دی جو اُن کی نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ابن عربی کی کتب کا براہ راست مطالعہ نہیں کیا تھا ۔ ایک جگہ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
''باقی میں نے نہ فصوص الحکم کا مطالعہ کیا ہے ' نہ فتوحات مکیہ کا''۔ (اُمّ المسبحات :ص ٨٨)
یہ تو شیخ ابن عربی کی بنیادی دو کتابیں شمار ہوتی ہیں' ویسے شیخ کی طرف تقریباً ٢٠٠ سے ٨٠٠ کتب اور رسائل منسوب ہیں جن میں ٧٠ سے زائد شائع ہو چکی ہیں اور ان سب کا موضوع تقریباً تصوف اور وحدتُ الوجود ہی ہے۔ ٤٠ کے قریب شیخ کی مطبوعہ کتب و رسائل تو راقم نے بھی اب تک جمع کر لیے ہیں۔

چوتھا نکتہ
ڈاکٹر صاحب عقیدۂ وحدتُ الوجود کو کوئی بنیادی عقیدہ نہیں سمجھتے اور اس کے ساتھ اختلاف کو شرعی تقاضوں کے مطابق صحیح سمجھتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس فرق کو ملحوظ رکھیے' اس کے بعد جی میں آئے تو آپ اس نظریے کو اٹھا کر پھینک دیں' آپ کو وہ ناقابل قبول نظر آئے تو بالکل ٹھکرا دیں۔ ہمیں بڑے سے بڑے شخص سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ اختلاف نہیں کر سکتے تو محمدر سول اللہ ۖ سے نہیں کر سکتے' باقی ہر شخص سے اختلاف ہو سکتا ہے۔'' (اُمّ المسبحات : ص ٥٥)
پانچواں نکتہ
ڈاکٹر صاحب' وحدت الوجود کے نظریہ کے داعی نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے بعض دروس میں جو اسے بیان کیا ہے تو اس کا مقصدکسی تصورِ توحید یااسلامی عقائد کی تکمیل نہیں' بلکہ کچھ نمایاں علماء' فقہاء اور محدثین مثلا ً شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی وغیرہ سے سوئے ظن کو ختم کرنا تھا۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس سلسلہ میں آخری بات یہ عرض کر رہا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے حضرات کا شاید یہ ذوق نہ ہو' اس کے باوجود میں یہ مسئلہ اس لیے بیان کر دیا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں اور اسلاف کے بارے میں سوئے ظن نہ رہے جو وحدت الوجود کے قائل ہیں''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٩٤)
چھٹا نکتہ
وحدت الوجود کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب جو کچھ بیان کرتے رہے ہیں ' وہ ڈاکٹر صاحب کا ذاتی رجحان و میلان تھا۔ اس کا تنظیم اسلامی کے بنیاد عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذابعض سلفی بھائی' ڈاکٹر صاحب کے اس نکتہ نظر کی وجہ سے تنظیم اسلامی کو جو ہدفِ تنقید بناتے ہیں ' درست نہیں ہے۔ تنظیم اسلامی کے حالیہ امیر جناب حافظ عاکف سعید صاحب سے اہل حدیث علماء کی ایک جماعت نے اس مسئلہ میں ملاقات کی تو انہوں نے اس وفد کے سامنے اس بات کی وضاحت کی کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا ذاتی نقطہ نظر تھا۔ نہ تو میں خود ذاتی طور اس کا قائل ہوں اور نہ ہی ہماری تنظیم کا یہ کوئی سرکاری موقف ہے۔

ساتواں نکتہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب'
اللہ کی ذات میں تنزل کے قائل نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب'
اللہ کے اَسماء میں بھی تنزل کے قائل نہیں ہیں جیسا کہ ابن عربی کا معاملہ ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب' اللہ کی جمیع صفات میں سے
صرف صفت کلام میں تنزل کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ
صفت کلام میں بھی کل صفت کلام نہیں بلکہ اُس کے ایک 'کلمہ کن' میں تنزل کے قائل نظر آتے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب
جس 'کلمہ کن' میں تنزل کے قائل ہیں وہ ان کے نزدیک اصل کے اعتبار سے تو اللہ کی صفت ہے لیکن تنزلات کے مراحل طے کرنے کے بعد وہ اللہ کی صفت نہیں رہا بلکہ حادث بن گیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہی ہے کہ شیخ ابن عربی کا وحدت الوجود کا جو نکتہ نظر ہے ' یہ وہ نظریہ نہیں ہے جو ڈاکٹر اسرار صاحب رحمہ اللہ کا ہے' بلکہ دونوں نظریات میں کئی اعتبارات سے بنیادی فرق موجو دہے۔ لہٰذا شیخ ابن عربی پر کبار سلفی علماء کی تنقید کو ڈاکٹر صاحب پر چسپاں کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے۔ اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب اسے دین و مذہب یا عقیدے کا معاملہ نہیں سمجھتے بلکہ فلسفہ و سائنس کا مسئلہ گردانتے ہیں۔ نیز یہ وحدت الوجود یاربط الحادث بالقدیم کی ایک نئی تعبیر ہے۔ اگرچہ 'کلمہ کن' کے مخلوق بن جانے کا تصور نیانہیں ہے بلکہ یہ عیسائی فلاسفرز میں زمانہ قدیم سے موجود ہے' جیسا کہ مولانا مودودی نے قرآنی الفاظ : 'اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی بْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہ' کی تفسیرکرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا ہے۔

بہر حال اس تعبیر میں بھی خطا کا امکان تورد نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اس خطا کے پہلو کو ثابت کرنے کے لیے پہلے اس تعبیر کو اچھی طرح سمجھنا ضرور چاہیے۔علاوہ ازیں یہ بھی واضح رہے کہ اس مختصر سی تحریر کا مقصد نہ تو شیخ ابن عربی کے موقف کی حمایت ہے اور نہ ہی ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے نکتہ نظر کا دفاع۔ اس تحریر کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ جس نے بھی کتاب وسنت کی روشنی میں ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے موقف پر نقد کرنی ہو وہ پہلے ان کے موقف کو اچھی طرح سمجھے اور پھر نقد کرے۔ اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے نکتۂ نظر کو عقیدے کے کسی مسئلہ کے طور پر پیش نہیں کیا کہ جس کے ردّ و قبول سے ایمان و کفر کا معاملہ لازم آتا ہو' بلکہ اسے ربط الحادث بالقدیم کی ایک سائنسی توجیہہ کے طور پر پیش کیا ہے' جسے جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے رد کرے' بغیر اس کے کہ رد کرنے سے اس کے ایمان پر کوئی زد پڑتی ہو۔

رہے وہ لوگ جو ڈاکٹر صاحب کی اس توجیہہ و تاویل کی بنا پر ان کے ایمان کی نفی کرتے ہیں تو ان کے ضمن میں خیال رہے کہ اوّلاانہوں نے ڈاکٹر صاحب کے پیش کردہ نظریئے کو درست طور پر سمجھا ہی نہیں' جبھی تو وہ انہیں شیخ ابن عربی کا ہم خیال گردانتے ہوئے تکفیر سے نیچے کی بات ہی نہیں کرتے' اور ثانیاً یہ کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ توجیہہ کو ان کے عقیدے کا لازمی عنصر گردانتے ہیں' حالانکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا' ڈاکٹر صاحب اپنی پیش کردہ تاویل کو واضح طور پر قابل ردّو قبول بھی بیان کرتے ہیں' اور اس سے اختلاف کرنے کا حق بھی اہلِ علم کو دیتے ہیں۔

راقم کا ذاتی موقف
جہاں تک اس مسئلے میں راقم کے ذاتی نکتہ نظر کا معاملہ ہے تو وہ اس باب میں اس مسلک کا حامل ہے' جس کی بنیاد ائمہ اربعہ اور صاحبین رحمہم اللہ اجمعین نے رکھی اوروہ صحابہ و تابعین سلف صالحین کی طرف منسوب ہے اور انہی کی نسبت سے اب 'سلفیہ' کے مکتب فکر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سلف صالحین کا یہ نکتہ نظر 'توحید اسماء وصفات' کے عنوان سے بلاشبہ سینکڑوں نہیں ہزاروں کتب وتحقیقی مقالہ جات اور رسائل میں موجود ہے جن میں سے کئی ایک بنیادی کتب کے مصنفین متقدمین فقہائے حنفیہ اور کبار محدثین کرام کی جماعت ہے۔ ائمہ اربعہ اور محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں ہے اور عرش پر مستوی ہے اور یہی حق ہے اور اس کی دلیل میں قرآن و سنت کی ٦٠٠ نصوص ہیں جن کی تاویل ممکن نہیں ہے۔ جب اس بنیادی عقیدے کو مان لیا جائے تو پھر وحدت الوجود ہو یا وحدت الشہود ان بحثوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top