ڈاکٹر صاحب کے موقف کے بارے میں کچھ وضاحتیں
ڈاکٹر صاحب کے نکتہ نظر پر نقد سے پہلے چند ایک وضاحتوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے:
پہلا نکتہ
ڈاکٹر صاحب' شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رحمہما اللہ وغیرہ کے تو شخصی دفاع کے قائل ہیں اور ان حضرات پر مشرک' کافر یا ضال کا فتوی لگانے کے خلاف ہیں' لیکن شیخ ابن عربی پر کوئی فتویٰ لگائے جانے کے بارے وہ حساس نہیں ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ کسی کو ابن عربی سے سوء ظن ہو' کوئی انہیں مرتد سمجھے یا سمجھے کہ وہ مشرک تھے یا مرتد تھے یا ضال اور مضل تھے تو جو چاہے کہے اس سے کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا۔ لیکن شاہ ولی اللہ کو اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مشرک تھے یا مرتد تھے یا ضال اور مضل تھے تو یہ بات بڑی تشویش کی ہے ''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٤٨)
ڈاکٹر صاحب ' شیخ ابن عربی پر کوئی فتویٰ لگانے کے بارے میں حساس کیوں نہیں ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو ان کے نزدیک ابن عربی کا صرف صوفی ہونا ہے جبکہ شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی کا مقام ابن عربی سے اس لحاظ سے بہت بلند ہے کہ یہ حضرات بیک وقت صوفی ہونے کے ساتھ فقیہہ 'محدث اور مفسر بھی ہیں اور ان کی دینی خدمات بھی ناقابل بیان ہیں ۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''ابن عربی کو تو خیر چھوڑ دیجیے کہ ان کی حیثیت کسی مفسر' محدث یا فقیہہ کی نہیں ہے''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٤٨)
دوسرا نکتہ
ڈاکٹر صاحب کو شیخ ابن عربی سے صرف ایک ہی بات میں اتفاق ہے۔ اس کے علاوہ وہ شیخ ابن عربی کی طرف منسوب جملہ خرافات' شرکیہ کلمات اور بدعات سے اعلان براءت کرتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''شیخ ابن عربی کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ جہاں تک حقیقت و ماہیت ِوجود کے بارے میں ان کی رائے کا تعلق ہے' تو میں اس سے متفق ہوں اور میرا مسلک بھی وہی ہے۔ البتہ اور بہت سی باتیں' خواہ انہوں نے لکھیں یا ان کی طرف غلط منسوب کر دی گئیں' ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا میں نہ تو ان کے بارے میں جواب دہ ہوں' نہ ان کی وضاحت میرے ذمہ ہے اور نہ ہی مجھے ان کے وکیل کی حیثیت حاصل ہے۔'' (اُمّ المسبحات : ص ٩١)
تیسرا نکتہ
ڈاکٹر صاحب نے شیخ ابن عربی کی جس ایک بات سے اتفاق کیا ہے ہم اس ایک بات کے بارے میں بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ اس بارے میں بھی ڈاکٹر صاحب مغالطے کا شکار تھے' اس لیے کہ یہ شیخ ابن عربی کی بات نہیں ہے بلکہ ڈاکٹر صاحب نے چونکہ کچھ ثانوی ذرائع سے شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کو سمجھا لہٰذا انہوں ابن عربی کی طرف ایک ایسی بات منسوب کر دی جو اُن کی نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ابن عربی کی کتب کا براہ راست مطالعہ نہیں کیا تھا ۔ ایک جگہ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
''باقی میں نے نہ فصوص الحکم کا مطالعہ کیا ہے ' نہ فتوحات مکیہ کا''۔ (اُمّ المسبحات :ص ٨٨)
یہ تو شیخ ابن عربی کی بنیادی دو کتابیں شمار ہوتی ہیں' ویسے شیخ کی طرف تقریباً ٢٠٠ سے ٨٠٠ کتب اور رسائل منسوب ہیں جن میں ٧٠ سے زائد شائع ہو چکی ہیں اور ان سب کا موضوع تقریباً تصوف اور وحدتُ الوجود ہی ہے۔ ٤٠ کے قریب شیخ کی مطبوعہ کتب و رسائل تو راقم نے بھی اب تک جمع کر لیے ہیں۔
چوتھا نکتہ
ڈاکٹر صاحب عقیدۂ وحدتُ الوجود کو کوئی بنیادی عقیدہ نہیں سمجھتے اور اس کے ساتھ اختلاف کو شرعی تقاضوں کے مطابق صحیح سمجھتے ہیں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس فرق کو ملحوظ رکھیے' اس کے بعد جی میں آئے تو آپ اس نظریے کو اٹھا کر پھینک دیں' آپ کو وہ ناقابل قبول نظر آئے تو بالکل ٹھکرا دیں۔ ہمیں بڑے سے بڑے شخص سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ اختلاف نہیں کر سکتے تو محمدر سول اللہ ۖ سے نہیں کر سکتے' باقی ہر شخص سے اختلاف ہو سکتا ہے۔'' (اُمّ المسبحات : ص ٥٥)
پانچواں نکتہ
ڈاکٹر صاحب' وحدت الوجود کے نظریہ کے داعی نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے بعض دروس میں جو اسے بیان کیا ہے تو اس کا مقصدکسی تصورِ توحید یااسلامی عقائد کی تکمیل نہیں' بلکہ کچھ نمایاں علماء' فقہاء اور محدثین مثلا ً شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی وغیرہ سے سوئے ظن کو ختم کرنا تھا۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس سلسلہ میں آخری بات یہ عرض کر رہا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے حضرات کا شاید یہ ذوق نہ ہو' اس کے باوجود میں یہ مسئلہ اس لیے بیان کر دیا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں اور اسلاف کے بارے میں سوئے ظن نہ رہے جو وحدت الوجود کے قائل ہیں''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٩٤)
چھٹا نکتہ
وحدت الوجود کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب جو کچھ بیان کرتے رہے ہیں ' وہ ڈاکٹر صاحب کا ذاتی رجحان و میلان تھا۔ اس کا تنظیم اسلامی کے بنیاد عقائد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذابعض سلفی بھائی' ڈاکٹر صاحب کے اس نکتہ نظر کی وجہ سے تنظیم اسلامی کو جو ہدفِ تنقید بناتے ہیں ' درست نہیں ہے۔ تنظیم اسلامی کے حالیہ امیر جناب حافظ عاکف سعید صاحب سے اہل حدیث علماء کی ایک جماعت نے اس مسئلہ میں ملاقات کی تو انہوں نے اس وفد کے سامنے اس بات کی وضاحت کی کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا ذاتی نقطہ نظر تھا۔ نہ تو میں خود ذاتی طور اس کا قائل ہوں اور نہ ہی ہماری تنظیم کا یہ کوئی سرکاری موقف ہے۔
ساتواں نکتہ
پہلی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب'
اللہ کی ذات میں تنزل کے قائل نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب'
اللہ کے اَسماء میں بھی تنزل کے قائل نہیں ہیں جیسا کہ ابن عربی کا معاملہ ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب' اللہ کی جمیع صفات میں سے
صرف صفت کلام میں تنزل کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ
صفت کلام میں بھی کل صفت کلام نہیں بلکہ اُس کے ایک 'کلمہ کن' میں تنزل کے قائل نظر آتے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب
جس 'کلمہ کن' میں تنزل کے قائل ہیں وہ ان کے نزدیک اصل کے اعتبار سے تو اللہ کی صفت ہے لیکن تنزلات کے مراحل طے کرنے کے بعد وہ اللہ کی صفت نہیں رہا بلکہ حادث بن گیا۔