• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظریۂ وحدتُ الوجود اور ڈاکٹر اسراراحمد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ابتدائیہ

نظریہ وحدت الوجود کے بارے ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے موقف کے حوالہ سے راقم کا یہ مقالہ تقریبا ایک سال پہلے سہ ماہی حکمت قرآن میں شائع ہوا ہے۔ افادہ عام کے لیے اسے فورم پر شیئر کیا جا رہا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
نظریۂ وحدتُ الوجود اور ڈاکٹر اسراراحمد رحمہ اللہ

حال ہی میں بعض سلفی حضرات کی طرف سے نظریہ ٔ وحدت الوجود کے حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمد پر نقد سامنے آئی ہے' لیکن ہمارے خیال میں ناقدین میں سے کوئی ایک صاحب بھی ایسے نہیں ہیں جو ڈاکٹر صاحب کے موقف کو پوری طرح سمجھے ہوں۔ ڈاکٹر اسرار احمد سے بھی خطا کا امکان ہے اور اس کی نفی ممکن نہیں ہے' لیکن کسی بھی شخص پر تنقید کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ :

(١) پہلے آپ اس شخص کے موقف کو اچھے طرح سمجھتے ہوں ۔ عام طور پر مذہبی حلقوں کی طرف سے جو تنقیدیں ہوتی ہیں اس میں مد مقابل کے موقف کو سمجھے بغیرنقد کی جاتی ہے جو کہ کسی طور بھی مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ بعض اوقات جس پر آپ نقد کر رہے ہوتے ہیں' اس کے اَفکار بہت واضح ہوتے ہیں اور ان افکار کو اُس شخص یا اس سے متعلقہ افراد سے سمجھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جب کسی موضوع پر کلام کرتا ہے تو وہ موضوع انتہائی دقیق' عمیق اور کچھ بنیادی اصطلاحات کا حامل ہوتا ہے اور عام افراد کے لیے اس کو سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے میں ناقد کو اُس شخص سے براہِ راست یا اس کے متعلقین سے یہ وضاحت طلب کر لینی چاہیے کہ جیسے میں ان کا موقف سمجھا ہوں' کیا وہ یہی کہنا چاہتے ہیں؟یا ان کی مراد کچھ اور ہے۔

(٢) تنقید کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ تنقید میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ کسی بھی داعی' مذہبی وسیاسی رہنما' عالم یا فقیہہ پر نقد کرتے ہوئے اس کی خوبیوں کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ نقد کا بنیادی مقصد اصلاح و موعظت ہے' جبکہ فی زمانہ تنقید کا مقصد کسی کی شخصیت کو مسخ کرنا بن چکا ہے۔ وحدت الوجود کے مسئلہ میں سوائے ادارہ '' ایقاظ'' کے' ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بھی اکثر ناقدین کا معاملہ یہی ہے کہ ان کی اصل کوشش شخصیت کو مسخ کرنے کی زیادہ معلوم ہوتی ہے' بجائے اس کے کہ ان کے سامنے کوئی اصلاح یا موعظت کا پہلو غالب ہو۔
بعض سلفی حضرات نے ڈاکٹر اسرار کے نظریہ وحدت الوجود اور شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کو ایک قرار دیا ہے اور اس بنیاد پر ڈاکٹر اسرار احمد پر شدید نقد کی ہے' حالانکہ دونوں کے نظریہ وحدت الوجود میں بنیادی اور جوہری فرق موجود ہے' جسے ہم ذیل میں نقل کر رہے ہیں:
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
شیخ ابن عربی کا موقف
محققین اہل علم کے مطابق وحدتُ الوجود کا نقطہ نظر سب سے پہلے شیخ ابن عربی (متوفی ٥٣٨ھ) نے ایک جامع فکر کی صورت میں پیش کیا' اگرچہ اس نظریہ کے منتشر تصورات ابن عربی سے پہلے بھی یونانی فلاسفرز 'باطنیہ' صوفیاء اور بعض فلاسفہ اسلامیین کے ہاں پائے جاتے رہے ہیں۔ ذیل میں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ممکن حد تک آسان الفاظ میں اس نظریہ کا ایک خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔

فلسفہ اور فلاسفہ کا شروع ہی سے ایک بنیادی ذہنی خلجان یہ رہا ہے کہ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلہ کوکیسے حل کیا جائے؟ اس مسئلے کا ایک حل تو قدیم فلاسفہ اور مناطقہ نے 'عقولِ عشر ہ' اور 'اَفلاکِ تسعہ' کے تصورات کے ساتھ بیان کیا' جبکہ شیخ ابن عربی نے اس ربط کو اپنے نظریہ ٔ وحدت الوجود کے ذریعے حل کیا ہے جس کی بنیادیں انہوں نے فرقہ باطنیہ سے حاصل کیں' جبکہ فرقہ باطنیہ نے یہ افکار یونانی فلسفے سے حاصل کیے تھے۔

شیخ ابن عربی نے قدیم سے حادث تک کے سفر کو 'تنزلاتِ ستہ' کے ذریعے بیان کیا ہے۔ صوفیاء کے ہاں چونکہ اصطلاحات کی بھرمار ہے لہٰذا انہوں نے اس تصور کو 'تنزلاتِ ستہ' کے علاوہ 'مراتب سبعہ' اور 'حضراتِ خمسہ' کے عناوین سے بھی پیش کیا اور ان عناوین کے تحت وہ وحدت الوجود کے علاوہ کچھ مزید تصورات کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔ شیخ ابن عربی کے تنزلات کو جاننے سے پہلے یہ مقدمہ جاننا ضروری ہے کہ شیخ کے نزدیک ذات اور صفات کوئی الگ شۓ نہیں ہیں بلکہ اَسماء و صفاتِ باری تعالیٰ بھی عین ذات ہی ہیں۔

شیخ ابن عربی کے نزدیک ذاتِ الٰہی سے پہلا تنزل 'حقیقت ِمحمدیہ' میں ہوا ہے اور یہ تنزل اللہ تعالیٰ کی صفت علم میں ہوا ہے۔ دوسرا تنزل ان کے نزدیک 'حقیقت ِمحمدیہ' سے 'اَعیانِ ثابتہ' میں ہوا ہے۔ اور تیسرا تنزل 'اَعیانِ ثابتہ' سے 'روح' میں ہوا ہے۔ چوتھا تنزل 'روح' سے 'مثال' میں اور پانچواں 'مثال' سے 'جسم' میں اور چھٹا 'جسم' سے 'انسان ' میں ہوا ہے۔ ذیل میں ہم ان تنزلات کو ایک نقشے کی صورت میں واضح کرتے ہیں اور اس کے بعد بحث کو آگے بڑھاتے ہیں:
مراتب الٰہیہ
مراتب کونیہ
مرتبہ جامعہ

پہلا مرتبہ
دوسرا مرتبہ
تیسرا مرتبہ
چوتھا مرتبہ
پانچواں مرتبہ
چھٹا مرتبہ
ساتواں مرتبہ

ذاتِ الٰہی
پہلا تنزل
دوسرا تنزل
تیسرا تنزل
چوتھا تنزل
پانچواں تنزل
چھٹا تنزل

احدیت
وحدت
وحدیت
روح
مثال
جسم
انسان
غیب مطلق
حقیقت محمدیہ
اعیانِ ثابتہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ابن عربی کے اس فلسفہ کو اب ایک سادہ سی مثال سے سمجھنے کی کوشش کریں' مثلاً جب کوئی بڑھئی کسی میز کو بنانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے میز کا ایک اجمالی تصور آتا ہے اور اس کے بعد اب اس میز کا تفصیلی تصور آتا ہے ۔ یعنی پہلے اس کے ذہن' خیال یا تصور میں یہ بات آئے گی کہ اس نے میز بنانی ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلہ میں اس کے ذہن' تصور یا خیال میں یہ بات آئے گی کہ اس نے کیسی میز بنانی ہے۔ یعنی اس میز کے دراز ہوں گے یا نہیں؟ اس میز میں نیچے پاؤں رکھنے کی جگہ ہو گی یا نہیں ؟ اس میز کی لمبائی' چوڑائی کتنی ہوگی؟ وغیرہ ذلک۔

شیخ ابن عربی یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو بنانے کا ارادہ کیا تو اس کا ایک اجمالی تصور کیا اور یہ اجمالی تصوران کے ہاں 'حقیقتِ محمدیہ' کہلایا۔ اس مرتبے کی تائید میں وہ ''اَوَّلُ ما خلقَ اللّٰہُ نُوْرِی'' جیسی باتفاق المحدثین موضوع روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ 'حقیقتِ محمدیہ' کو صوفیاء کے ہاں 'مرتبہ ٔ وحدت' اور 'موجود اجمالی' اور 'حقیقة الحقائق' اور 'عقل اوّل' اور 'عالم صفات' اور 'ظہورِ اوّل' اور 'عالم رموز' اور 'اُمّ الفیض' وغیرہ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم نے ان اصطلاحات کا تذکرہ اس لیے کر دیا ہے کہ جو شخص ابن عربی کے اس مرتبہ اور تنزل کو گہرائی میں سمجھنا چاہتا ہو تو وہ ان اصطلاحات میں سرسری غور وفکر کے ذریعے بھی اس مرتبہ کے متفرق و متنوع پہلوؤں اور جہات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔

ابن عربی کے نزدیک اس اجمالی تصور اور خیال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدا کرنے والی مخلوق کا تفصیلی تصور اور خیال کیا اور اس مقام کا نام شیخ ابن عربی کے ہاں 'اَعیانِ ثابتہ' ہے۔ اس مرتبے کو صوفیاء کے ہاں'مرتبہ ٔ واحدیت' اور 'قابلیت ظہور'اور 'وجودِ فائض' اور'ظل ممدود' وغیرہ جیسی اصطلاحات سے تعبیر کیا جاتا ہے' جو اس مرتبے کی مختلف جہات کو واضح کر رہی ہیں۔ 'اَعیانِ ثابتہ' سے شیخ ابن عربی کی کیا مراد ہے؟ اسے ہم آسان الفاظ میں ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ خارج میں موجود مخلوقات کے جو ہیولے اللہ کے خیال اور تصور]یعنی صفت علم[میںموجود ہیں' وہ اَعیانِ ثابتہ ہیں۔ یعنی ہر ہر پیدا شدہ مخلوق کا ایک عین ِثابت اللہ کے علم میں موجود ہے اور اس عین ِثابت کے مطابق اس مخلوق کا ظہور ہوتا ہے' جیسا کہ ایک بڑھئی جب میز' کرسی اور پلنگ وغیرہ بناتا ہے تو ان کو بنانے سے پہلے اس کے ذہن میں ان کے ہیولے موجود ہوتے ہیں اور جیسا ہیولہ اس کے ذہن میں ہو گا ویسی ہی کرسی' میز یا پلنگ وہ خارج میں بنائے گا۔ ان تین مراتب یعنی ذاتِ الٰہی'حقیقت ِمحمدیہ (پیدا ہونے والی مخلوق کا اللہ کے علم میں اجمالی تصور) اور اَعیانِ ثابتہ(پیدا ہونے والی مخلوق کا اللہ کے علم میں تفصیلی تصور) کو شیخ ابن عربی کے نظریہ ٔ وحدتُ الوجود میں 'مراتب ِالٰہیہ' کہتے ہیں' کیونکہ تنزلِ اوّل و ثانی کی صورت میں اللہ کا اِجمالی علم ہو یا تفصیلی علم' وہ اللہ کی صفت ہے اور اللہ کی صفات عین ِذات ہیں' پس یہ تینوں اللہ کی ذات ہی کے مراتب ہیں۔ شیخ ابن عربی کا فلسفہ ٔ وحدت الوجود کا مرکزی خیال یہاں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اَعیانِ ثابتہ کے بارے میں شیخ ابن عربی کا یہ نقطہ نظر نہایت اہم ہے کہ ''الأعیان ما شمت رائحة الوجود الخارجی'' یعنی اعیان ثابتہ نے خارج میں وجود کی بو بھی نہیں چکھی یعنی اللہ کے علم میں' اعیان ثابتہ کے مطابق' خارج میں کوئی مخلوق وجود میں نہیں آئی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اعیانِ ثابتہ (یعنی اللہ کے علم میں پیدا ہونے والی اشیاء کے ہیولوں) کے مطابق خارج میں کوئی شے وجود میں نہیں آئی تو بقیہ چار تنزلات کا کیا معنی و مفہوم ہے؟ تیسرے' چوتھے' پانچویں اور چھٹے تنزل کے بارے میں شیخ ابن عربی کا کہنا یہ ہے کہ یہ درحقیقت اَعیانِ ثابتہ کا عکس اور سایہ ہیں۔ یعنی چوتھے سے چھٹے تنزل تک تنزل اعیانِ ثابتہ کے عکوس و ظلال میں ہوا ہے' لیکن یہ عکوس و ظلال شیخ کے نزدیک اعیانِ ثابتہ کا عین بھی ہیں۔

اس کو سادہ سی مثال سے یوں سمجھیں کہ جب ہم آئینہ سورج کے سامنے رکھیں تو ہمیں آئینے میں سورج کا عکس نظر آتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ آئینے میں موجود سورج کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ وہ محض آسمان والے سورج کا عکس ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آئینے میں جو ہمیں سورج نظر آرہا ہے وہ وہی سورج ہے جو آسمان میں ہے' کیونکہ اسی آسمان والے سورج کی شعاع نے آئینے سے ٹکرا کر اس کا عکس پیدا کیا ہے' لہٰذا آئینے والے سورج کوآسمان والے سورج سے تعبیر کرنا صحیح ہے اور اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آئینے میں جو سورج نظر آرہا ہے' یہ وہی آسمان والا سورج ہے تو اس کا یہ کہنا درست ہوگا۔ پس اگر آئینے کے سامنے کوئی انسان کھڑا ہے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ آئینے میں عکس کسی جانور کا نظر آئے' پس کسی شے کا عکس اس کے حقیقی وجود کے عین مطابق ہوتا ہے۔ لیکن شیخ ابن عربی اس عکس کو عین مطابق نہیں بلکہ عین کہتے ہیں' جیسا کہ انہوں نے صفات کو ذات کا عین قرار دیا ہے۔

ایک اور بات یہ بھی واضح رہے کہ وحدت الوجود کے قائلین صوفیاء کے ہاں صورتِ شۓ' عین ِ شۓ ہوتی ہے۔ پس شیخ ابن ِعربی کے نزدیک خارجی وجود' اعیانِ ثابتہ کے عکوس و ظلال ہیں اور درحقیقت اعیانِ ثابتہ یعنی اللہ کے علم یا تصور یا خیال سے باہر کسی شۓ کا خارجی وجود نہیں ہے۔ اگر خارجی وجود ہے تو وہ اعیانِ ثابتہ کے عکوس و ظلال کا ہے اور انہی عکوس و ظلال میں وہ تنزلات کے چار مراحل بیان کرتے ہیں۔

شیخ ابن عربی کے اس نظریہ ٔ وحدت الوجود کومولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب 'الدین القیم' میں نہایت ہی سادہ سی مثال سے بیان کر دیا ہے' جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر آپ مینارِ پاکستان کا تصور کریں تو یہ مینارِ پاکستان آپ کے تصور اور خیال میں قائم ہے' جیسے ہی آپ اپنا تصور اور خیال ہٹائیں گے تو یہ مینارِ پاکستان بھی ختم ہو جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی اس کائنات کا تصور اور خیال کیا ہے اور یہ کائنات اللہ کے تصور اور خیال میں قائم ہے اور خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ پس جس طرح میں مینارِ پاکستان کا تصور کرتا ہوں اور میرا تصور یا خیال یا فکر میرے وجود سے باہر نہیں ہوتا' اسی طرح اللہ نے جو اس کائنات کا اعیانِ ثابتہ کی صورت میں تصور کیا ہے تو وہ اللہ کے وجود سے باہر نہیں ہے ۔ پس اس طرح وحدت الوجود ثابت ہو گیا اور ہمیں جو خارج میں نظر آرہا ہے وہ اللہ کے تصور اور خیال کا عکس ہے اور عکس کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتایا عکس اپنے وجود کا عین ہوتا ہے۔

شیخ ابن عربی کے بیان کردہ تیسرے'چوتھے اور پانچویں تنزل کو 'مراتب ِکونیہ' کا نام دیا جاتا ہے اور انہیں 'مراتب ِامکانیہ' بھی کہتے ہیں' یعنی ان مراتب کی اشیاء کے وجود کا اگرچہ خارج میں امکان ہے لیکن خارج میں ان اشیاء کا وجود نہیں ہے۔ پس ابن عربی کے نقطہ نظر کے مطابق یہ کائنات اور اس میں موجود ہر شے درحقیقت اللہ کا خیال اور تصور ہے اور اس کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔ پس خارج میں سوائے ذاتِ باری تعالیٰ کے کوئی اور وجود نہیں ہے اور اسی کوصوفیاء وحدتُ الوجود کہتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کا موقف
ڈاکٹر اسراراحمد کے نزدیک وحدت الوجود سے مراد ہمہ اوست یا حلول ہر گز نہیں ہے۔ ہمہ اوست یا حلول کے نظریات کو وہ کفر و شرک گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی اور قائم بالذات وجود صرف وجودِ باری تعالیٰ ہے' باقی تمام وجود حادث اور ممکن ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
''یہ تو سب جانتے ہیں کہ صرف ذاتِ باری تعالیٰ 'واجب الوجود' اور 'قدیم ' ہے ـــ جبکہ کل کون و مکاں اور انسان سمیت جملہ مخلوقات و موجودات 'ممکن' اور 'حادث' ہیں۔'' (ایجاد و ابداع عالم سے عالمی نظام خلافت تک : ص ٥)
نیز وہ لکھتے ہیں:
''ہمہ اوست کی ایک تعبیر pantheism ہے۔ یعنی جب وجود ایک ہی ہے تو یہ کائنات گویا خدا کا حصہ ہے یا ہمہ تن خدا ہے' خود خالق ہی نے مخلوق کی شکل اختیار کرلی' جیسے برف پگھل کر پانی بن گئی اور پانی کو آپ نے اُبالا تو وہ بھاپ بن گیا ـــ اب پانی ہی برف بھی ہے اور بھاپ بھی ہے ـــ اس نظریے میں کائنات کو حقیقی مانا گیا ہے کہ یہ درحقیقت واقعی ہے اور یہ خالق کا حصہ ہے یا خالق ہی ہے ـــ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ عظیم ترین کفر و شرک ہے اور اس کا اسلام کے ساتھ یا حقیقت کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٨٦' ٨٧)
تاہم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ہاں جب قدیم اور حادث کے باہمی ربط کا سوال پیدا ہوا تو انہوں نے اس مسئلے کا جو حل پیش فرمایا تو اس کی اصل بنیاد عقیدہ کی بجائے فلسفہ وعلم سائنس ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ربط الحادث بالقدیم کے ذیل میں وحدت الوجود کا جو نکتہ نظر ڈاکٹر صاحب پیش کرتے ہیں وہ ان سے پہلے اس صورت میں کسی نے پیش نہیں کیا۔ اس نظریے کی متفرق کڑیاں یا منتشر تصورات تو انہوں نے مختلف علوم اوراشخاص سے حاصل کیے ہیں لیکن ان کڑیوں کو ایک ترتیب اور منظم فکر میں پرونا ان کا ذاتی اور تخلیقی کام ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اس عمیق مسئلے کو کیوں چھیڑا ہے' اس بارے میں وہ لکھتے ہیں :
''اس سلسلہ میں آخری بات یہ عرض کررہا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے حضرات کا شاید یہ ذوق نہ ہو' اس کے باوجود میں یہ مسئلہ اس لیے بیان کردیا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں اور اسلاف کے بارے میں سوئے ظن نہ رہے جو وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ اس سے ہمیں اپنے آپ کو بچا لینا چاہیے' کیونکہ یہ بہت بڑی محرومی ہے۔ کسی بھی شخص سے اختلاف کا حق ہرشخص کو حاصل ہے....'' (اُمّ المسبحات:ص ٩٤)
بنا بریں وہ شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رحمہما اللہ وغیرہ کے تو شخصی دفاع کے قائل ہیں اور ان حضرات پر مشرک' کافر یا ضال کا فتوی لگانے کے خلاف ہیں' لیکن شیخ ابن عربی پر کوئی فتویٰ لگائے جانے کے بارے میں وہ ایسے حساس نظر نہیں آتے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ کسی کو ابن عربی سے سوء ظن ہو' کوئی انہیں مرتد سمجھے یا جو چاہے کہے اس سے کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا۔ لیکن شاہ ولی اللہ کو اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مشرک تھے یا مرتد تھے یا ضال اور مضل تھے تو یہ بات بڑی تشویش کی ہے ''
(اُمّ المسبحات : ص ٤٨)

نیز یہ بھی واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کو شیخ ابن عربی سے صرف ایک ہی بات میں اتفاق ہے۔ اس کے علاوہ وہ شیخ ابن عربی کی طرف منسوب جملہ خرافات' شرکیہ کلمات اور بدعات سے اعلان براء ت کرتے ہیں۔

اب ہم آتے اصل مسئلے کی طرف۔ شیخ ابن عربی کے ہاں تنزلات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی صفت علم میں ہوا ہے اور چونکہ صفت علم ذات سے علیحدہ کوئی شے نہیں ہے لہٰذا تنزل درحقیقت ذات میں ہی تمایز ِعلمی کی صورت میں ہوا ہے' جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ہاں تنزلات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام میں ہوا ہے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو کلمہ 'کن' کہا' جیسا کہ قرآن میں کئی ایک مقامات پر یہ بات مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو 'کُن فَیکون' کے ذریعے پیدا کیا ہے۔

اب اہل سنت کا عام تصور تو یہ ہے کہ کلمہ 'کن' مخلوقات کے وجود کا سبب بنا ہے یعنی اللہ نے کلمہ 'کن' کہا اور جس مخلوق کو اللہ نے پیدا کرنا چاہا وہ اس کلمہ 'کن' کے سبب سے پیدا ہو گئی۔ جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب یہاں قدیم اور حادث کے ربط کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ
(١) جب اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ مخلوق پیدا کرنی چاہی تو کلمہ' کن' سے مخلوق پیدا نہیں ہوئی بلکہ کلمہ 'کن' نے ہی اس مخلوق کی صورت اختیار کر لی جس کو اللہ نے پیدا کرنا چاہا تھا۔ گویا اللہ کی ایک صفت یعنی صفت کلام نے اوّلین مخلوق کی صورت اختیار کر لی اور یہ اوّلین مخلوق ایک نورِ بسیط تھا جس نورِ بسیط سے بعد ازاں ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہ تنزل کا پہلا مرحلہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
''تخلیق کائنات کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے اوّلین کلمہ ٔ 'کن' نے اپنے تنزلِ اوّل کے مرحلہ اوّل میں ایک نورِ بسیط کی صورت اختیار کی ـــ اور اس سے اللہ تعالیٰ نے خلعت ِوجود عطا فرمایا ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ کو' جن کی اصل 'نور' ہے''۔ (ایجاد و ابداع عالم سے عالمی نظام خلافت تک : ص ١٧)
ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ کی پیدائش جس عالم میں ہوئی ہے' اسے ڈاکٹر صاحب 'عالم امر' یا 'عالم نور' کا نام دیتے ہیں اور اسے زمان و مکان سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس عالم میں پیدائش کی نسبت ہی سے یہ دونوں مخلوقات زمان و مکان کی محدودیت سے ماوراء ہیں۔

تنزل کے دوسرے مرحلہ میں ڈاکٹرصاحب یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور کلمہ 'کن' کہا جس سے اس نورِ بسیط کا ایک حصہ نار یعنی آگ میں تبدیل ہو گیا جسے ہم آگ کا ایک بہت بڑا گولہ کہہ سکتے ہیں۔ اور اس بڑے آتشی گولے کی پیدائش کوڈاکٹر صاحب زمان و مکان کی پیدائش کا نقطہ آغازقرار دیتے ہیں۔ ان کے موقف کے مطابق اس آتشیں گولے سے جنا ت پیدا کیے گئے۔ فزکس کے ماہرین اسے Big Bang کا نام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب دوسرے تنزل میں پیدا شدہ مخلوق کے عالم کو 'عالم خلق' کا نام دیتے ہیں اور اس عالم کی اشیاء میں ان کے ہاں زمان و مکان کی محدودیت کا تصور موجو دہے۔ ڈاکٹر اسرار رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''سلسلہ تنزلات کا مرحلہ ثانی عالم امر سے عالم خلق کی جانب تنزل کی پہلی منزل ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے جس تک ایک مبہم اور مجمل رسائی جدید علم طبیعیات کو بھی حاصل ہو چکی ہے...... یہ دھماکہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ کے ایک دوسرے امر' کن 'کے نتیجے میں نورِ بسیط کے ایک حصے میں ہوا جس کے نتیجے میں اس 'نور' نے عہد حاضر کے عظیم ماہر طبیعیات سٹیون وائن برگ کے قول کے مطابق ایک ایسی 'نار' کی شکل اختیار کرلی جو ایسے نہایت چھوٹے ذرّات (electrons, positrons & neutrinos) پر مشتمل تھی جن کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک بلند تھااور جو ناقابل تصور سرعت رفتار کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے تھے...... الغرض! یہ تھا عالم مادّی کا نقطہ آغاز اور مراتب نزول کا مرحلہ ثانی ...... بہرحال اس ناری مرحلے پر جو صاحب ِتشخص اور صاحب ِشعور و ارادہ مخلوق پیدا کی گئی وہ 'جنات' تھے جن کا مادۂ تخلیق قرآن کی جا بجا صراحت کی بنا پر آگ ہے''۔ (ایضاً : ص ٢٠۔٢٢)
تنزلات کے تیسرے مرحلہ میں ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ہاں اس آتشیں گولے سے علیحدہ ہونے والے آتشیں کرے ٹھنڈے پڑ گئے اور ان کروں میں سے ایک ہماری زمین بھی ہے۔ جب اس زمین کے کرے کی گرمی اوپر کو نکلی تو اس گرمی نے بخارات کی صورت اختیار کرتے ہوئے بادلوں کی صورت اختیار کر لی اور موسلادھار بارشیں شروع ہو گئیں۔ ان بارشوں کے پانی اور زمین کی مٹی کے امتزاج سے حکم الہٰی کے سبب ' زمین پرحیات کا آغاز ہوا۔ جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے حیوانِ آدم اور حیوانِ آدم میں روح کے پھونکے جانے سے پہلا انسان پیدا ہوا۔ (ایضاً : ص ٢٢۔٣٣)

ایک جگہ ڈاکٹرصاحب اس ارتقاء کے مراحل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''......اور پھر ساحلی علاقوں میں حیاتِ ارضی کے 'مادۂ تخلیق' یعنی مٹی یا تراب'اور اس کے 'منبع حیات' یعنی پانی کے تعامل سے 'ارتقاء' کا وہ مرحلہ وار عمل شروع ہوا' جس کی انتہاحضرت آدم: نہیں بلکہ صرف حیوانِ آدم (Homo Sapiens)کا ظہور تھا۔''
(ایضاً : ص٢٤)

یہ واضح رہے کہ 'بگ بینگ' سے انسان کی تخلیق تک کے تنزلات اور ارتقاء کے جمیع مراحل ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے نزدیک امرالٰہی اور کلمہ'کن' کا نتیجہ ہیں جبکہ اہل سائنس کے ہاں یہ تنزلات اور ارتقاء ایک میکانکی اور طبعی عمل ہے جس کے پیچھے کوئی محرک یاخالق موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈارون کے نظریہ ارتقا میں یہ بنیادی فرق ہے کہ ڈارون اسے میکانکی عمل قرار دیتا ہے جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد اسے الہی امر قرار دیتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دونوں موقف میں جوہری فرق
شیخ ابن عربی اور ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے موقف میں درج ذیل جوہری فرق پائے جاتے ہیں:
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
پہلا فرق
شیخ ابن عربی کے نزدیک تنزلِ اوّل اور ثانی اللہ کی صفت علم میں ہوا ہے اور صفت علم میں بھی ان دو تنزلات کا معنی صفت علم میں فقط اجمالی اور تفصیلی تمایز کاپیدا ہونا ہے' اور شیخ کے ہاں صفات کے عین ذات ہونے کی وجہ سے یہ ذات ہی کاتنزل ہے' جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ہاں تنزل صفت کلام میں ہوا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دوسرا فرق
شیخ ابن عربی کے نزدیک اعیانِ ثابتہ نے چونکہ وجود کی بو بھی محسوس نہیں کی ہے لہٰذا اس کائنات کا وجود اصلاً معدوم ہے' یعنی خارج میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ ایک جگہ شیخ ابن عربی لکھتے ہیں:
''لا یراہ لا ھو' ولایدرکہ لا ھو' ولا یعلمہ لا ھو' یری نفسہ بنفسہ' ویعرف نفسہ بنفسہ' لا یراہ أحد غیرہ' ولایدرکہ أحد غیرہ' حجابہ وحدانیتہ لا یحجبہ شیء غیرہ' لا نبی مرسل ولا ولی کامل ولا ملک مقرب یعرفہ' نبیہ ھو ورسولہ ھو' ورسالتہ ھو وکلامہ ھو' أرسل نفسہ بنفسہ لی نفسہ ولا واسطة ولا سبب غیرہ' ولا تفاوت بین المرسِل والمرسَل' والمرسَل بہ والمرسَل لیہ' ووجود حرف اللّٰہ وجودہ' لا غیرہ ولا فناہ' ولا اسمہ ولا مسماہ' ولا وجودہ بغیرہ فلھذا قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّم: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ وقال علیہ الصلاة والسلام: عرفت ربی بربی۔ أشار علیہ السلام بذٰلک أنت لست أنت أنت' بل أنت ھو بلا أنت' لا ھو داخل فیک' ولا أنت داخل فیہ' ولا ھو خارج عنک' ولاأنت خارج عنہ' ما أعنی بذلک : أنک موجود وصفتک ھکذا بلا غیر لہ' بل أعنی بہ : أنک ما کنت قط ولا تکون' لا بنفسک ولا بہ' ولا فیہ ولا معہ ولا عنہ ولا منہ ولا لہ' ولا أنت فان ولا موجود' أنت ھو وھو أنت.'' (کتاب الھُوَ : ص ٣۔٤)
''اسے(یعنی اللہ) کو کوئی نہیں دیکھتا مگر وہ خود ' اور اس کا ادراک کوئی نہیں کرتا مگر وہ خود' اللہ تعالیٰ اپنے نفس کو اپنے نفس کے ساتھ دیکھتا ہے' اور اپنے نفس کی معرفت اپنے نفس کے ساتھ حاصل کرتا ہے۔ اللہ کے علاوہ کوئی بھی اسے دیکھ نہیں سکتا ہے اور نہ ہی اس کا ادراک کر سکتا ہے' اس کا حجاب اس کی وحدانیت ہے اور اللہ کے علاوہ اس کا حجاب بھی وہی ہے۔ کوئی بھی نبی مرسل' ولی کامل اور مقرب فرشتہ اس کی معرفت نہیں رکھتا ہے۔ اس کا نبی بھی وہی ہے اور اس کا رسول بھی وہی ہے' اس کی رسالت بھی وہی ہے اوراس کا کلام بھی وہی ہے۔ اللہ نے اپنے نفس کو اپنے نفس کے ساتھ اپنے ہی نفس کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور اس کے علاوہ کوئی واسطہ یا سبب موجود نہیں ہے۔ بھیجنے والے اور جس کی طرف بھیجا گیا ہے' ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور جس کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور جس کی طرف بھیجا گیا ہے' ان میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ لفظ اللہ کے حروف کا وجود بھی اسی کا وجود ہے۔ اس کے علاوہ کا نہ تو وجود ہے اور نہ ہی اس کے لیے فنا ہے (کیونکہ کسی کا وجود ہو گا تو وہ فنا ہو گی) اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اسم کا وجود ہے اور نہ ہی مسمیٰ کا' اس کے غیر کا وجود نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا' اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ (واضح رہے کہ یہ روایت باتفاق المحدثین موضوع ہے)۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ میں نے اپنے رب کو اپنے رب کے ذریعے پہچانا۔ (یہ روایت بھی موضوع ہے)۔ اس قول کے ذریعے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بے شک تو' تو نہیں ہے بلکہ تو' وہ (یعنی اللہ) ہے بغیر اس کے کہ تو ہے۔نہ وہ تجھ میں داخل ہے اور نہ تو اس میں داخل ہے اور نہ وہ تجھ سے خارج ہے اور نہ تو اس سے خارج ہے۔ میری اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ تو موجود ہے اور تیری یہ صفت اس طرح ہے کہ کہ تیرا کوئی غیر نہیں ہے بلکہ میری اس سے مراد یہ ہے کہ تو کبھی بھی نہ تھا اور نہ ہی تو ہوگا' نہ تو اپنے نفس کے ساتھ موجود ہے اور نہ ہی اس (یعنی اللہ) کے ساتھ' اور نہ تو اس میں ہے اور نہ اس کے ساتھ اور نہ اس سے اور نہ اس کی وجہ سے اور نہ اس کے لیے ہے۔تو نہ تو فانی ہے اور نہ ہی موجود ہے۔ تو وہ (یعنی اللہ) ہے اور وہ(یعنی اللہ) تو ہے۔ ''
یہ واضح رہے کہ شیخ ابن عربی کا مسلک حلول کا نہیں ہے' کیونکہ حلول کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اور شۓ ہو کہ جس میں اللہ کی ذات حلول کر سکے۔ یعنی محل کا ہونا ضروی ہے اور اگر محل مان لیا جائے تو ایک سے زائد وجود ثابت ہو جائیں گے۔ جبکہ شیخ ابن عربی کا مذہب اللہ کے علاوہ ہر شے کے وجود کا انکار ہے۔ البتہ شیخ ابن عربی کا مذہب اتحاد کا کہا جا سکتاہے' کیونکہ ان کے نزدیک انسان' حیوانات' ملائکہ' جنات' انبیاء ورسل اور جمیع کائنات و مخلوق در حقیقت اعیانِ ثابتہ ہیں' یعنی اللہ کے علم میں ہیولوں کی شکل میں موجود ہیں اور انہوں نے وجود کی بو تک نہیں چکھی ہے' لہٰذا یہ سب کائنات اللہ کا خیال اور تصور ہے اور اللہ کا خیال اور تصور اس کی ذات سے باہر نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی شیخ ابن عربی کے مذہب کو حلول کی بجائے اتحاد کا مذہب قرار دیا ہے اور اس بارے تفصیلی بحث کی ہے۔

اس کے برعکس ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ اس کائنات کے وجود کا انکار نہیں کرتے اور اسے ایک حقیقت قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
''......یعنی کائنات میں جو کچھ موجود ہے وہ محض وہم یا خیال ہے' یہ یا تو محض آئینوں میں نظر آنے والے عکس ہیں یا سائے ہیں۔ حقیقت میں تو صرف ذات باری تعالیٰ کا وجود ہے اور کوئی شے حقیقتاً موجود نہیں ہے۔ ہر چند کہیں کہ ہے' نہیں ہے! لیکن یہ بات کہ کائنات کا وجود ہے ہی نہیں' قابل قبول نظر نہیں آتی۔ یہ ایک شاعرانہ خیال یا فلسفیانہ توجیہہ تو ہو سکتی ہے' لیکن کائنات تو بڑی ٹھوس حقیقت ہے۔ آپ نے شرک فی الوجود کی نفی کرنے کے لیے کائنات ہی کی نفی کر دی؟'' (اُمّ المسبحات : ص ٨٧)
پس ڈاکٹرصاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے ماسوا کا بھی وجود ہے' لیکن ان کے نزدیک اللہ کے ماسوا یا کائنات کے وجود کا اصل منبع بھی اللہ کی ذات ہی ہے' یعنی اللہ کے کلمہ 'کن' نے ہی تنزلات کی صورت میں چونکہ اس کائنات کی صورت اختیار کر لی ہے لہٰذا اس کائنات کی اصل کو دیکھیں تو وحدت الوجود ہے۔ یعنی یہ کائنات بھی اپنے آغاز اور مبدأ میں اللہ کا ایک کلمہ کن یا صفت کلام ہے اور اللہ کی صفات اللہ کا غیر نہیں ہیں۔ البتہ اگر اس کائنات کا حال دیکھیں تو یہ اللہ کی ذات سے ایک علیحدہ وجود ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
'' اب سمجھئے کلمہ 'کن' کیا ہے؟ کلام ہے' کلمہ ہے۔ اور کلام متکلم کی صفت ہوتا ہے۔ گویا کہ حرف 'کن' اللہ کی صفت ہے اور صفت کے بارے میں متکلمین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ 'لا عین ولا غیر'۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ کائنات نہ اللہ کا عین ہے اور نہ غیر ہے... (یعنی) 'من وجہ عین ومن وجہ آخر غیر' ایک اعتبار سے یہ عین ہیں اور ایک اعتبار سے غیر ہیں۔ ماہیت وجود میں اتحاد ہے اور جہاں بھی تعین ہو گا اور مختلف چیزوں کا وجود مان لیا جائے گا تو وہ اللہ کا غیر ہے۔'' (اُمّ المسبحات : ص٩٤)
پس ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کی بنیادخالق و مخلوق کا 'اتحاد' ہے' مخلوق کومحض اعیان ثابتہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے خالق و مخلوق کو متحد کر دیا جبکہ ڈاکٹرصاحب کے نکتہ نظر میں ثنویت لازم آتی ہے اور خالق و مخلوق کا اتحاد ثابت نہیں ہوتا' کیونکہ وہ کائنات کو ذا تِ باری تعالیٰ سے جدا ایک ٹھوس حقیقت قرار دیتے ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
تیسرا فرق
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے نزدیک حقیقت و ماہیت ِوجود کے ذیل میں اصل بحث ربط الحادث بالقدیم کی ہے' یعنی وہ اس ربط کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل مسئلہ حادث کا ہے جس کی حقیقت جاننے کے وہ خواہاں ہیں جبکہ قدیم یعنی ذات باری تعالیٰ کی حقیقت یا کنہ کو جاننا ان کے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اللہ کی معرفت کے ضمن میں اب ایک بات اور نوٹ کیجیے۔ معرفت رب کو دو حصوں میں تقسیم کیجیے' ایک معرفت ذات اور ایک معرفت صفات۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی تصور کسی انسان کے لیے قطعاً ممکن نہیں۔ یہ ہمارے لیے out of bounds ہے ۔ اس پر سے پردہ آخرت میں اٹھے گا۔ چنانچہ آخری نعمت جو اہل جنت کو نصیب ہو گی وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا...... حضرت ابو بکر کی طرف یہ قول منسوب ہے : 'العجز عن درک الذات دراک' یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے ادراک سے عاجز ہوجانے کا جب انسان کو احساس ہو جائے تو یہی ادراک ہے۔ یعنی معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد! یہی درحقیقت علم ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ کی ذات کا کوئی تصور' کوئی تخیل اور کوئی فہم ہمارے لیے ممکن نہیں۔ حضرت ابوبکر کے مذکورہ بالا قول پر حضرت علی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: 'والبحث عن کنہ الذات شراک' یعنی اللہ کی ذات میں اگر کھوج کریدکر وگے تو کہیں نہ کہیں شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے۔''
(اُمّ المسبحات : ص ٣٢۔٣٣)

یعنی ڈاکٹر اسرار احمد کے نزدیک ان کے نظریہ وحدت الوجود کا بنیادی سبب حادث کی معرفت حاصل کرنا ہے' جبکہ اس کے برعکس ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود میں اصل بحث حادث کے ذریعے قدیم کی معرفت حاصل کرناہے' کیونکہ حادث کا وجود تو اس نقطہ نظر میں ہے ہی نہیں۔ مثلاً شیخ ابن عربی کی کتاب 'الھُوَ' کا بنیادی موضوع 'معرفت قدیم بذریعہ حادث' ہی ہے' کیونکہ مطلق 'ھُو' سے مراد کسی صورت بھی صوفیاء کے ہاں حادث نہیں ہوتا۔ البتہ قدیم کی معرفت میں بعض سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دینے کے لیے شیخ نے ربط الحادث بالقدیم کو تنزلاتِ ستہ کی صورت میں واضح کیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چوتھا فرق
ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ وحدت الوجود کے ثبوت میں ابن عربی کے تنزلاتِ ستہ کے نکتہ نظر کو ماننے سے انکاری ہیں' کیونکہ ان کے خیال میں ان تنزلات کی کوئی شرعی و عقلی دلیل موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''اسی طرح بعض متصوف المزاج بزرگوں نے مرتبہ احدیت و واحدیت وغیرہ کے حوالے سے تنزلاتِ ستہ تجویز کیے' لیکن ان کے لیے بھی کوئی صریح اساس نہ عقل میں ہے نہ نقل میں!'' (ایجاد وابداع عالم سے عالمی نظام خلافت تک : ص ٥)
یہ بھی واضح رہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ جن تنزلاتِ ستہ کا یہاں رد کر رہے ہیں وہی در حقیقت شیخ ابن عربی کا موقف ہے' لیکن ڈاکٹرصاحب کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ تنزلاتِ ستہ کا موقف اصلاً ابن عربی کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے 'اُمّ المسبحات'میں جس موقف کی نسبت شیخ ابن عربی کی طرف کی ہے وہ غالباً بعض حکماء کا ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے غلطی سے ابن عربی کا سمجھ لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے شیخ ابن عربی کے موقف کا مطالعہ براہ راست ان کی کتب سے نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے شیخ کا موقف ثانوی ذرائع سے معلوم کیا تھا جس وجہ سے انہیں شیخ کا موقف سمجھنے اوربیان کرنے میں غلطی لگی۔

گویا کہ صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ا پنی کتاب 'ا یجاد وابداع عالم' میں وحدت الوجود کی جس تعبیرکو خلافِ عقل ونقل قرار دے رہے ہیں وہی درحقیقت شیخ ابن عربی کی تعبیر ہے اور 'اُمّ المسبحات' میں شیخ ابن عربی کی طرف جو موقف منسوب کر رہے ہیں وہ شیخ ابن عربی کا نہیں ہے بلکہ بعض دوسرے ایسے حکماء کا ہے جو یونانی فلسفہ کے زیرِ اثر ہیں۔ 'اُمّ المسبحات' میں ڈاکٹر صاحب ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
''ابن عربی کا نظریہ یہ ہے کہ خالق اور کائنات کا وجود تو ایک ہی ہے' ماہیت کے اعتبار سے کائنات عین وجود باری ہے' لیکن جہاں تعین ہو جاتا ہے وہاں وہ غیر ہو جاتا ہے''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٥٤)
جس نکتہ نظر کی یہاں ڈاکٹر صاحب ابن عربی کی طرف نسبت کر رہے ہیں' وہ درحقیقت بعض حکماء کا ہے' جیسا کہ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اپنی کتاب 'عبقات' میں تنزلات اور مطلق و مقید وجود کے اتحاد و اختلاف کے نکتہ ہائے نظر کو دو نظریات شمار کیا ہے۔مطلق ومقید وجود کے اتحاد و اختلاف کا نظریہ یہ ہے کہ مطلق وجود ایک ہے لیکن مقید وجود ایک سے زائد ہیں' مثلاً کرسی' عینک اور کتاب تینوں کا مادہ ایک ہی ہے۔ سائنس کے مطابق یہ تینوں اشیاء چھوٹے چھوٹے اٰیٹموں سے مل کر بنی ہیں' یعنی ان تینوں اشیاء کی حقیقت ایک ہے اور وہ حقیقت ایٹم ہے جبکہ اپنی ہیئت اور ترکیب کے اعتبار سے یہ اشیاء جدا جدا ہیں۔ پس اصل کو دیکھیں تو کرسی' عینک اور کتاب ایک ہی شے ہیں اور موجودہ ہیئت اور ترکیب کا مشاہدہ کریں تو یہ جدا جدا ہیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے 'بوادر النوادر' میں یہی لکھا ہے کہ ابن عربی کے نقطہ نظر کے مطابق اس کائنات کو عین حق کہنا بھی صحیح ہے اور معدوم کہنا بھی صحیح ہے اور دونوں قسم کی عبارتیں اس موقف کے حاملین کے ہاں ملتی ہیں۔ بعض لوگوں نے ابن عربی کی کتابوں 'فصوص الحکم' اور 'فتوحات مکیہ' کو جو باہم متضاد سمجھ لیا اور 'فتوحاتِ مکیہ' کو ابن عربی کا آخری نظریہ قرار دیا' راقم کے خیال میں وہ غلطی پر ہیں۔شیخ کی دونوں کتابوں میں کوئی تضاد نہیں ہے' درحقیقت یہ دونوں کتابیں ایک ہی نظریہ کی متنوع جہات ہیں' اور دوسری بات یہ ہے کہ 'فصوص الحکم' کی عبارات' فتوحات مکیہ' میں بھی موجود ہیں' اگر کسی نے 'فتوحات مکیہ' کا تفصیلی مطالعہ کیا ہو تو وہ یہ بات جان لے گا۔

مولانا اشرف تھانوی فرماتے ہیں کہ شیخ ابن عربی اور ان کے موقف کے حاملین جو بعض اوقات کائنات کو عین حق کہتے ہیں اور بعض اوقات معدوم کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس کی مثال سورج اور آئینے کی ہے۔ ایک آئینے کو اگرسورج کے سامنے رکھا جائے تو آئینے میں جو سورج نظر آتا ہے تو وہ اس سورج سے کوئی علیحدہ سورج نہیں ہے جو آسمان میں ہے۔ پس یہ کائنات اس اعتبار سے اللہ کا عین ہے کہ یہ اس سے علیحدہ کوئی اور وجود نہیں ہے۔ اور اگر ہم آئینے میں نظر آنے والے سورج پر غورکریں تو ایک اعتبار سے وہ معدوم بھی ہے کیونکہ اس کا اپنا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے' اگر آپ آئینہ سورج کے سامنے سے اٹھا لیں تو آئینے میں سورج کا وجود بھی ختم ہو جائے گا۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top