ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کا موقف
ڈاکٹر اسراراحمد کے نزدیک وحدت الوجود سے مراد ہمہ اوست یا حلول ہر گز نہیں ہے۔ ہمہ اوست یا حلول کے نظریات کو وہ کفر و شرک گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک حقیقی اور قائم بالذات وجود صرف وجودِ باری تعالیٰ ہے' باقی تمام وجود حادث اور ممکن ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
''یہ تو سب جانتے ہیں کہ صرف ذاتِ باری تعالیٰ 'واجب الوجود' اور 'قدیم ' ہے ـــ جبکہ کل کون و مکاں اور انسان سمیت جملہ مخلوقات و موجودات 'ممکن' اور 'حادث' ہیں۔'' (ایجاد و ابداع عالم سے عالمی نظام خلافت تک : ص ٥)
نیز وہ لکھتے ہیں:
''ہمہ اوست کی ایک تعبیر pantheism ہے۔ یعنی جب وجود ایک ہی ہے تو یہ کائنات گویا خدا کا حصہ ہے یا ہمہ تن خدا ہے' خود خالق ہی نے مخلوق کی شکل اختیار کرلی' جیسے برف پگھل کر پانی بن گئی اور پانی کو آپ نے اُبالا تو وہ بھاپ بن گیا ـــ اب پانی ہی برف بھی ہے اور بھاپ بھی ہے ـــ اس نظریے میں کائنات کو حقیقی مانا گیا ہے کہ یہ درحقیقت واقعی ہے اور یہ خالق کا حصہ ہے یا خالق ہی ہے ـــ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ عظیم ترین کفر و شرک ہے اور اس کا اسلام کے ساتھ یا حقیقت کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں ہے''۔ (اُمّ المسبحات : ص ٨٦' ٨٧)
تاہم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ہاں جب قدیم اور حادث کے باہمی ربط کا سوال پیدا ہوا تو انہوں نے اس مسئلے کا جو حل پیش فرمایا تو اس کی اصل بنیاد عقیدہ کی بجائے فلسفہ وعلم سائنس ہے۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ربط الحادث بالقدیم کے ذیل میں وحدت الوجود کا جو نکتہ نظر ڈاکٹر صاحب پیش کرتے ہیں وہ ان سے پہلے اس صورت میں کسی نے پیش نہیں کیا۔ اس نظریے کی متفرق کڑیاں یا منتشر تصورات تو انہوں نے مختلف علوم اوراشخاص سے حاصل کیے ہیں لیکن ان کڑیوں کو ایک ترتیب اور منظم فکر میں پرونا ان کا ذاتی اور تخلیقی کام ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس عمیق مسئلے کو کیوں چھیڑا ہے' اس بارے میں وہ لکھتے ہیں :
''اس سلسلہ میں آخری بات یہ عرض کررہا ہوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت سے حضرات کا شاید یہ ذوق نہ ہو' اس کے باوجود میں یہ مسئلہ اس لیے بیان کردیا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں اور اسلاف کے بارے میں سوئے ظن نہ رہے جو وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ اس سے ہمیں اپنے آپ کو بچا لینا چاہیے' کیونکہ یہ بہت بڑی محرومی ہے۔ کسی بھی شخص سے اختلاف کا حق ہرشخص کو حاصل ہے....'' (اُمّ المسبحات:ص ٩٤)
بنا بریں وہ شاہ ولی اللہ دہلوی اور شیخ احمد سرہندی رحمہما اللہ وغیرہ کے تو شخصی دفاع کے قائل ہیں اور ان حضرات پر مشرک' کافر یا ضال کا فتوی لگانے کے خلاف ہیں'
لیکن شیخ ابن عربی پر کوئی فتویٰ لگائے جانے کے بارے میں وہ ایسے حساس نظر نہیں آتے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
''اس کے باوجود میں کہتا ہوں کہ کسی کو ابن عربی سے سوء ظن ہو' کوئی انہیں مرتد سمجھے یا جو چاہے کہے اس سے کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا۔ لیکن شاہ ولی اللہ کو اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مشرک تھے یا مرتد تھے یا ضال اور مضل تھے تو یہ بات بڑی تشویش کی ہے ''
(اُمّ المسبحات : ص ٤٨)
نیز یہ بھی واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کو شیخ ابن عربی سے صرف ایک ہی بات میں اتفاق ہے۔ اس کے علاوہ وہ شیخ ابن عربی کی طرف منسوب جملہ خرافات' شرکیہ کلمات اور بدعات سے اعلان براء ت کرتے ہیں۔
اب ہم آتے اصل مسئلے کی طرف۔
شیخ ابن عربی کے ہاں تنزلات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی صفت علم میں ہوا ہے اور چونکہ صفت علم ذات سے علیحدہ کوئی شے نہیں ہے لہٰذا تنزل درحقیقت ذات میں ہی تمایز ِعلمی کی صورت میں ہوا ہے' جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے ہاں تنزلات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام میں ہوا ہے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو کلمہ
'کن' کہا' جیسا کہ قرآن میں کئی ایک مقامات پر یہ بات مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو
'کُن فَیکون' کے ذریعے پیدا کیا ہے۔
اب اہل سنت کا عام تصور تو یہ ہے کہ کلمہ
'کن' مخلوقات کے وجود کا سبب بنا ہے یعنی اللہ نے کلمہ 'کن' کہا اور جس مخلوق کو اللہ نے پیدا کرنا چاہا وہ اس کلمہ 'کن' کے سبب سے پیدا ہو گئی۔ جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب یہاں قدیم اور حادث کے ربط کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ
(١)
جب اللہ تعالیٰ نے پہلی مرتبہ مخلوق پیدا کرنی چاہی تو کلمہ' کن' سے مخلوق پیدا نہیں ہوئی بلکہ کلمہ 'کن' نے ہی اس مخلوق کی صورت اختیار کر لی جس کو اللہ نے پیدا کرنا چاہا تھا۔ گویا اللہ کی ایک صفت یعنی صفت کلام نے اوّلین مخلوق کی صورت اختیار کر لی اور یہ اوّلین مخلوق ایک نورِ بسیط تھا جس نورِ بسیط سے بعد ازاں ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ پیدا ہوئے ہیں۔ یہ تنزل کا پہلا مرحلہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
''تخلیق کائنات کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کے اوّلین کلمہ ٔ 'کن' نے اپنے تنزلِ اوّل کے مرحلہ اوّل میں ایک نورِ بسیط کی صورت اختیار کی ـــ اور اس سے اللہ تعالیٰ نے خلعت ِوجود عطا فرمایا ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ کو' جن کی اصل 'نور' ہے''۔ (ایجاد و ابداع عالم سے عالمی نظام خلافت تک : ص ١٧)
ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ کی پیدائش جس عالم میں ہوئی ہے' اسے ڈاکٹر صاحب 'عالم امر' یا 'عالم نور' کا نام دیتے ہیں اور اسے زمان و مکان سے ماوراء قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس عالم میں پیدائش کی نسبت ہی سے یہ دونوں مخلوقات زمان و مکان کی محدودیت سے ماوراء ہیں۔
تنزل کے دوسرے مرحلہ میں ڈاکٹرصاحب یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور کلمہ 'کن' کہا جس سے اس نورِ بسیط کا ایک حصہ نار یعنی آگ میں تبدیل ہو گیا جسے ہم آگ کا ایک بہت بڑا گولہ کہہ سکتے ہیں۔ اور اس بڑے آتشی گولے کی پیدائش کوڈاکٹر صاحب زمان و مکان کی پیدائش کا نقطہ آغازقرار دیتے ہیں۔ ان کے موقف کے مطابق اس آتشیں گولے سے جنا ت پیدا کیے گئے۔ فزکس کے ماہرین اسے Big Bang کا نام دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب دوسرے تنزل میں پیدا شدہ مخلوق کے عالم کو 'عالم خلق' کا نام دیتے ہیں اور اس عالم کی اشیاء میں ان کے ہاں زمان و مکان کی محدودیت کا تصور موجو دہے۔ ڈاکٹر اسرار رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
''سلسلہ تنزلات کا مرحلہ ثانی عالم امر سے عالم خلق کی جانب تنزل کی پہلی منزل ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے جس تک ایک مبہم اور مجمل رسائی جدید علم طبیعیات کو بھی حاصل ہو چکی ہے...... یہ دھماکہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ کے ایک دوسرے امر' کن 'کے نتیجے میں نورِ بسیط کے ایک حصے میں ہوا جس کے نتیجے میں اس 'نور' نے عہد حاضر کے عظیم ماہر طبیعیات سٹیون وائن برگ کے قول کے مطابق ایک ایسی 'نار' کی شکل اختیار کرلی جو ایسے نہایت چھوٹے ذرّات (electrons, positrons & neutrinos) پر مشتمل تھی جن کا درجہ حرارت ناقابل تصور حد تک بلند تھااور جو ناقابل تصور سرعت رفتار کے ساتھ ایک دوسرے سے دور بھاگ رہے تھے...... الغرض! یہ تھا عالم مادّی کا نقطہ آغاز اور مراتب نزول کا مرحلہ ثانی ...... بہرحال اس ناری مرحلے پر جو صاحب ِتشخص اور صاحب ِشعور و ارادہ مخلوق پیدا کی گئی وہ 'جنات' تھے جن کا مادۂ تخلیق قرآن کی جا بجا صراحت کی بنا پر آگ ہے''۔ (ایضاً : ص ٢٠۔٢٢)
تنزلات کے تیسرے مرحلہ میں ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے ہاں اس آتشیں گولے سے علیحدہ ہونے والے آتشیں کرے ٹھنڈے پڑ گئے اور ان کروں میں سے ایک ہماری زمین بھی ہے۔ جب اس زمین کے کرے کی گرمی اوپر کو نکلی تو اس گرمی نے بخارات کی صورت اختیار کرتے ہوئے بادلوں کی صورت اختیار کر لی اور موسلادھار بارشیں شروع ہو گئیں۔ ان بارشوں کے پانی اور زمین کی مٹی کے امتزاج سے حکم الہٰی کے سبب ' زمین پرحیات کا آغاز ہوا۔ جمادات سے نباتات اور نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے حیوانِ آدم اور حیوانِ آدم میں روح کے پھونکے جانے سے پہلا انسان پیدا ہوا۔ (ایضاً : ص ٢٢۔٣٣)
ایک جگہ ڈاکٹرصاحب اس ارتقاء کے مراحل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''......اور پھر ساحلی علاقوں میں حیاتِ ارضی کے 'مادۂ تخلیق' یعنی مٹی یا تراب'اور اس کے 'منبع حیات' یعنی پانی کے تعامل سے 'ارتقاء' کا وہ مرحلہ وار عمل شروع ہوا' جس کی انتہاحضرت آدم: نہیں بلکہ صرف حیوانِ آدم (Homo Sapiens)کا ظہور تھا۔''
(ایضاً : ص٢٤)
یہ واضح رہے کہ 'بگ بینگ' سے انسان کی تخلیق تک کے تنزلات اور ارتقاء کے جمیع مراحل ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کے نزدیک امرالٰہی اور کلمہ'کن' کا نتیجہ ہیں جبکہ اہل سائنس کے ہاں یہ تنزلات اور ارتقاء ایک میکانکی اور طبعی عمل ہے جس کے پیچھے کوئی محرک یاخالق موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور ڈارون کے نظریہ ارتقا میں یہ بنیادی فرق ہے کہ ڈارون اسے میکانکی عمل قرار دیتا ہے جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد اسے الہی امر قرار دیتے ہیں۔