• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نعرہ تکبیر لگانا اور سب کا اونچی آواز سے اللہ اکبر کہنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں:

کشمیر خان

مبتدی
شمولیت
اگست 22، 2015
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
25
جناب!
ہم سے ہر بات پر دلیل کی مانگ! تو اب آپ پہلے اسے دلیل سے ثابت کریں تاکہ آپ کے مذہب کی قلعی تو کھلے۔
پہلے میرے سوال کا جواب۔۔۔
پھر تعارف بھی یہی سُنی کروائے گا اور شریعت سے ثبوت دینا بھی اسی کو نصیب ہوگا۔
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
نعرہ تکبیر لگانا اور سب کا اونچی آواز سے اللہ اکبر کہنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں :

شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ تعالی.

علما کا انداز خطابت کیسا ہو...؟؟؟

بہت اچھے طریقے سے سمجھایا شیخ عبدالله ناصر رحمانی حفظہ اللہ تعالی نے.


اس طرح کے نعرے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں جیسے غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اللہ اکبر خربت خیبر ‘‘صحیح بخاری ج۲؍۶۰۳،۶۰۴اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر ابوسفیان اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامکالمہ صحیح بخاری ج۲؍۵۷۹میں تفصیل سے مذکور ہے۔
@اسحاق سلفی بھائی اس بارے میں کچھ بتائیں
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اس طرح کے نعرے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں جیسے غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اللہ اکبر خربت خیبر ‘‘صحیح بخاری ج۲؍۶۰۳،۶۰۴اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر ابوسفیان اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامکالمہ صحیح بخاری ج۲؍۵۷۹میں تفصیل سے مذکور ہے۔
@اسحاق سلفی بھائی اس بارے میں کچھ بتائیں
دین میں ہو تو ؟ حضرت عمر ؓ کا اتنا سننا تھا کہ اپنے بہنوئی پر چڑھ بیٹھے اور انہیں بری طرح کچل دیا۔ ان کی بہن نے لپک کر انہیں اپنے شوہر سے الگ کیا تو بہن کو ایسا چانٹا مارا کہ چہرہ خون آلودہوگیا۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ ان کے سر میں چوٹ آئی۔ بہن نے جوش غضب میں کہا : عمر ! اگر تیرے دین کے بجائے دوسرا ہی دین برحق ہو تو ؟ أشھد أن لا الٰہ الا اللّٰہ وأشھد أنَّ محمدًا رسول اللّٰہ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں اور میں شہادت دیتی ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمر ؓ پر مایوسی کے بادل چھا گئے اور انہیں اپنی بہن کے چہرے پر خون دیکھ کر شرم و ندامت بھی محسوس ہوئی۔ کہنے لگے: اچھا یہ کتاب جو تمہارے پاس ہے ذرا مجھے بھی پڑھنے کو دو۔ بہن نے کہا: تم ناپاک ہو۔ اس کتا ب کو صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں۔ اٹھو غسل کرو۔ حضرت عمر ؓ نے اٹھ کر غسل کیا۔ پھر کتاب لی اور ''z'' پڑھی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑے پاکیزہ نام ہیں۔ اس کے بعد
سے (۲۰: ۱۴) تک قراء ت کی۔ کہنے لگے: یہ تو بڑا عمدہ اور بڑا محترم کلام ہے۔ مجھے محمدﷺ کا پتہ بتاؤ !حضرت خباب ؓ حضرت عمر ؓ کے یہ فقرے سن کر اندر سے باہر آگئے۔ کہنے لگے : عمر خوش ہو جاؤ! مجھے امید ہے کہ رسول اللہﷺ نے جمعرات کی رات تمہارے متعلق جو دعا کی تھی ( کہ اے اللہ ! عمر بن خطاب یا ابو جہل بن ہشام کے ذریعے اسلام کو قوت پہنچا) یہ وہی ہے اور اس وقت رسول اللہﷺ کوہ صفا کے پاس والے مکان میں تشریف فرماہیں۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ نے اپنی تلوار حمائل کی اور اس گھر کے پاس آکر دروازے پر دستک دی۔ ایک آدمی نے اٹھ کر دروازے کی دراز سے جھانکا تو دیکھا کہ عمر تلوار حمائل کیے موجود ہیں۔ لپک کر رسول اللہﷺ کو اطلاع دی اور سارے لوگ سمٹ کر یکجا ہوگئے۔ حضرت حمزہؓ نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا : عمر ہیں۔ حضرت حمزہ ؓ نے کہا : بس ! عمر ہے۔ دروازہ کھول دو، اگر وہ خیر کی نیت سے آیا ہے تو اسے ہم عطا کریں گے اور اگر کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو ہم اسی کی تلوار سے اس کا کام تمام کردیں گے۔ ادھر رسول اللہﷺ اندر تشریف فرما تھے۔ آپ پر وحی نازل ہورہی تھی۔ وحی نازل ہوچکی تو حضرت عمر ؓ کے پاس تشریف لائے۔ بیٹھک میں ان سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے ان کے کپڑے اور تلوار کا پر تلا سمیٹ کر پکڑا اور سختی سے جھٹکتے ہوئے فرمایا : عمر ! کیا تم اس وقت تک باز نہیں آؤ گے جب تک اللہ تعالیٰ تم پر بھی ویسی ہی ذلت ورسوائی اور عبرتناک سزا نازل نہ فرمادے جیسی ولید بن مغیرہ پر نازل ہو چکی ہے ؟ یا اللہ ! یہ عمر بن خطاب ہے۔ یا اللہ ! اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے قوت وعزت عطا فرما۔ آپ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر ؓ نے حلقہ بگوش اسلام ہوتے ہوئے فرمایا: أشھد أن لا الہ الا اللّٰہ وأنک رسول اللّٰہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا اللہ کے سوا کوئی لائق ِ عبادت نہیں اور یقینا آپ اللہ کے رسول
ہیں )یہ سن کر گھر کے اندر موجود صحابہ ؓ نے اس زور سےتکبیر کہی کہ مسجد الحرام والوں کو سنائی پڑی۔ 1 معلوم ہے کہ حضرت عمر ؓ کی زور آوری کا حال یہ تھا کہ کوئی ان سے مقابلے کی جرأت نہ کرتا تھا۔ اس لیے ان کے مسلمانوں ہوجانے سے مشرکین میں کہرام مچ گیا اور انہیں بڑی ذلت ورسوائی محسوس ہوئی۔
دوسری طرف ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بڑی عزت وقوت ، شرف واعزاز اور مسرت وشادمانی حاصل ہوئی۔ چنانچہ ابن ِ اسحاق نے اپنی سند سے حضرت عمرؓ کا بیان روایت کیا ہے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے سوچا کہ مکے کا کون شخص رسول اللہﷺ کا سب سے بڑا اور سخت ترین دشمن ہے ؟ پھر میں نے جی ہی جی میں کہا یہ ابو جہل ہے۔ اس کے بعد میں نے اس کے گھر جاکر اس کا دروازہ کھٹکھٹا یا۔ وہ باہر آیا۔ دیکھ کر بولا :أھلًا وسھلًا (خوش آمدید ، خوش آمدید ) کیسے آنا ہوا ؟ میں نے کہا : تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول محمدﷺ پر ایمان لاچکا ہوں اور جو کچھ وہ لے کر آئے ہیں اس کی تصدیق کرچکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ کا بیان ہے کہ (یہ سنتے ہی ) اس نے میرے رخ پر دروازہ بند کر لیا اور بولا : اللہ تیرا برا کرے اور جو کچھ تو لے کر آیا ہے اس کا بھی برا کر ے۔ 2
امام ابن جوزی نے حضرت عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوجاتا تو لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے، اسے زدوکوب کرتے اور وہ بھی انہیں مارتا۔ اس لیے جب میں مسلمان ہوا تو اپنے ماموں عاصی بن ہاشم کے پاس گیا اور اسے خبر دی۔ وہ گھر کے اندر گھس گیا، پھر قریش کے ایک بڑے آدمی کے پاس گیا -شاید ابوجہل کی طرف اشارہ ہے... اور اسے خبر دی وہ بھی گھر کے اندر گھس گیا۔ 3
ابن ہشام اور ابن ِ جوزی کا بیان ہے کہ جب حضرت عمر ؓ مسلمان ہوئے تو جمیل بن معمر جمحی کے پاس گئے۔ یہ شخص کسی بات کا ڈھول پیٹنے میں پورے قریش کے اندر سب سے زیادہ ممتاز تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس نے سنتے ہی نہایت بلند آواز سے چیخ کر کہا کہ خطاب کا بیٹا بے دین ہو گیا ہے۔ حضرت عمر ؓ اس کے پیچھے ہی تھے۔ بولے :یہ جھوٹ کہتا ہے۔ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔ بہر حال لوگ حضرت عمر ؓ پر ٹوٹ پڑے اور مار پیٹ شروع ہوگئی۔ لوگ حضرت عمر ؓ کو مار رہے تھے اور حضرت عمر ؓ لوگوں کو مار رہے تھے۔ یہاں تک کہ سورج سر پر آگیا اور حضرت عمر ؓ تھک کر بیٹھ گئے۔ لوگ سر پر سوار تھے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: جو بن پڑے کر لو۔ اللہ کی قسم !اگر ہم لو گ تین سو کی تعداد میں ہوتے تو پھر مکے میں یا تو تم ہی رہتے یا ہم ہی رہتے۔ 4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تاریخ عمر بن الخطاب ص ۷، ۱۰، ۱۱ ، سیرت ابن ہشام ۱/۳۴۳ تا۳۴۶
2 ابن ہشام ۱/۳۴۹ ، ۳۵۰ 3 تاریخ عمر بن الخطاب ص ۸
4 ایضاً ص ۸ابن ہشام ۱/۳۴۸، ۳۴۹، ابن حبان (مرتب ) ۹/۱۶، المعجم الاوسط للطبرانی ۲/۱۷۲ (حدیث نمبر ۱۳۱۵)
@اسحاق سلفی
http://forum.mohaddis.com/threads/دوسرا-مرحلہ-کھلی-تبلیغ.15078/

page-4
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس طرح کے نعرے حدیث کی کتابوں میں مذکور ہیں جیسے غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ اللہ اکبر خربت خیبر ‘‘صحیح بخاری ج۲؍۶۰۳،۶۰۴اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر ابوسفیان اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامکالمہ صحیح بخاری ج۲؍۵۷۹میں تفصیل سے مذکور ہے۔
@اسحاق سلفی بھائی اس بارے میں کچھ بتائیں
عزیز بھائی ۔ابن قدامہ۔ نے جن نعروں کی نشاندہی کی ۔ان کا موقع غزوات ۔۔اور کسی کے مسلمان ہونے کا ہیں ؛
کسی خطبہ ،تقریر ،درس کو ان مذکورہ مواقع پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
شیخ عبد اللہ ناصر حفظہ اللہ نے جو فرمایا وہی ٹھیک ہے ؛
ہاں البتہ کسی ایک فرد کا بے ساختہ بلند تکبیر ۔یا۔ سبحان اللہ کہہ دینا ایک علیحدہ مسئلہ ہے،جسے کوئی بھی غلط نہیں کہتا؛
واللہ اعلم
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
[HL نے کہا ہے:
ہاں البتہ کسی ایک فرد کا بے ساختہ بلند تکبیر ۔یا۔ سبحان اللہ کہہ دینا ایک علیحدہ مسئلہ ہے،جسے کوئی بھی غلط نہیں کہتا؛[/HL]
واللہ اعلم
اسحاق سلفی بھائی اس میں صرف ایک ٍ فرد کا زکر نہیں ہے۔
صحابہ ؓ نے اس زور سےتکبیر کہی کہ مسجد الحرام والوں کو سنائی پڑی۔ اس حدٰث میں صحابی نہیں بلکہ صحابہ کہا گیا ہے جو جمع ہے1
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عزیز بھائی ۔ابن قدامہ۔ آپ نے جن نعروں کی نشاندہی کی ۔ان کا موقع غزوات ۔۔اور کسی کے مسلمان ہونے کا ہے ؛
کسی خطبہ ،تقریر ،درس کو ان مذکورہ مواقع پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
 
Top