محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَاِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَّيُبَطِّئَنَّ۰ۚ فَاِنْ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَۃٌ قَالَ قَدْ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيَّ اِذْ لَمْ اَكُنْ مَّعَھُمْ شَہِيْدًا۷۲ وَلَىِٕنْ اَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ اللہِ لَيَقُوْلَنَّ كَاَنْ لَّمْ تَكُنْۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَہٗ مَوَدَّۃٌ يّٰلَيْتَنِيْ كُنْتُ مَعَھُمْ فَاَفُوْزَ فَوْزًا عَظِيْمًا۷۳ فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَۃِ۰ۭ وَمَنْ يُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ فَيُقْتَلْ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيْہِ اَجْرًا عَظِيْمًا۷۴ وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۷۵ۭ
۲؎ ہجرت کے بعد بعض لوگ مکہ میں ایسے رہ گئے جو نہ ہجرت پر قادر تھے نہ جہاد پر ۔ مکہ والے انھیں مجبور کرتے کہ وہ اسلام کو چھوڑ دیں۔ ان کا ایمان انھیں ہر ابتلاء وآزمائش کو برداشت کرلینے کی تلقین کرتا۔ ان آیات میں مسلمانوں کو اعلان عام کے ذریعہ سے جہاد پر آمادہ کیا ہے کہ ان کمزور و ناتوان مسلمانوں کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ اس لیے کہ مسلمان ''مظلوم وضعیف '' ہوکر دنیا میں نہیں رہ سکتا۔ وہ ضعف وظلم کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔اس کا ذرہ ذرہ بغاوت وانقلاب میں سمویا ہوا ہے ۔ اس کی رگوں میں خون کی جگہ آزادی وخلافت کی بجلیاں دوڑ رہی ہیں۔ ناممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو کمزور ومضمحل دیکھے اور اس کے دل میں غیرت وغصہ کا طوفان نہ بپا ہوجائے ۔ اس کی فطرت حق وصدق کی تائید کے لیے ہے ۔ وہ منصہ شہودپر آیا ہی اسی لیے ہے کہ اللہ کی نیابت کا حق ادا کرے اورظلم وعدوان کے خلاف پرزور آواز بلند کرے بلکہ طغیان وسرکشی کے خلاف خود رعد وصاعقہ بن جائے اور زمین استبداد کے لیے تہلکہ کی شکل اختیار کرلے۔یہی وہ توقعات ہیں جو مسلمانوں سے وابستہ ہیں اوراسی لیے خدائے غیور کا خطاب ہے ۔ وَماَلَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی اے جہاد سے پیچھے رہنے والے انسانو! تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم باوجود مسلمان ہونے کے اس فریضہ سے غافل ہوگئے ہو۔
گویا ظالموں سے جہاد کرنا مرد مومن کی شریعت میں داخل ہے ۔ جس سے ایک لمحہ بھی تغافل جائز نہیں۔ اس آیت میں تعجب وتوبیخ کو باہم ملادیا ہے ۔ وَمَالَکُمْ کہہ کر اظہار تعجب بھی کیا ہے اورڈانٹا بھی ہے کہ کیوں جہاد پر آمادہ نہیں ہوتے۔
{لَیُبَطِّئَنَّ} کسل اورسستی۔{فَوْزٌ} کامیابی وکامرانی {یَشْرُوْنَ} شراء بمعنی بیع بھی آتا ہے۔
۱؎ منافق میں دون ہمتی اور خود غرضی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے جب کہ جہاد کے مواقع آتے ہیں، یہ عملاًکسل وتاخیر سے کام لیتا ہے اورپھر اگر مسلمانوں کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو خوش ہوتا ہے کہ میں اس میں شریک نہیں تھا اور اگر انھیں حریت وآزادی کی نعمتوں سے کچھ حصہ ملے تو یہ بھی الجھتا ہے کہ اے کاش میں بھی اس کے شریک حال ہوتا۔اس آیت میں انھیں منافقین کا حال بیان کیا ہے کہ دیکھیے اپنی اس ذلیل ذہنیت پر کس درجہ قانع ہیں ۔اورتم میں کوئی ایسا ہے کہ نکلنے میں دیر کرتا ہے ۔پھر اگرکوئی مصیبت تم پر آگئی توکہتا ہے مجھ پر خدانے فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ حاضر نہ تھا۔۱؎(۷۲) اورجوخدا سے تمھیں کچھ فضل ملا۔توایسی ایسی باتیں کرتا ہے کہ گویا تم میں اور اس میں کچھ دوستی نہ تھی۔(یعنی کہتا ہے )کہ اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا اوربڑی مراد پاتا۔(۷۳)جولوگ حیات دنیا کو آخرت کے عوض بیچتے ہیں ان کو چاہیے کہ خدا کی راہ میں جہاد کریں اورجوکوئی اللہ کی راہ میں لڑے اور پھر مارا جائے یا غالب ہو، ہم اسے بڑا ثواب دیں گے۔(۷۴)اور تمھیں کیا ہوگیا کہ تم خدا کی راہ میں اور ان ناتوان مردوں۲؎ اورعورتوں اوربچوں کے لیے نہیں لڑتے جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! اس شہر(مکہ) سے نکال جس کے لوگ ظلم کرنے والے ہیں اور اپنی طرف سے ہمارے لیے کوئی حمایتی پیدا کر اور مددگار بھیج۔(۷۵)
نفیر عام
۲؎ ہجرت کے بعد بعض لوگ مکہ میں ایسے رہ گئے جو نہ ہجرت پر قادر تھے نہ جہاد پر ۔ مکہ والے انھیں مجبور کرتے کہ وہ اسلام کو چھوڑ دیں۔ ان کا ایمان انھیں ہر ابتلاء وآزمائش کو برداشت کرلینے کی تلقین کرتا۔ ان آیات میں مسلمانوں کو اعلان عام کے ذریعہ سے جہاد پر آمادہ کیا ہے کہ ان کمزور و ناتوان مسلمانوں کی حفاظت کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ اس لیے کہ مسلمان ''مظلوم وضعیف '' ہوکر دنیا میں نہیں رہ سکتا۔ وہ ضعف وظلم کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔اس کا ذرہ ذرہ بغاوت وانقلاب میں سمویا ہوا ہے ۔ اس کی رگوں میں خون کی جگہ آزادی وخلافت کی بجلیاں دوڑ رہی ہیں۔ ناممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو کمزور ومضمحل دیکھے اور اس کے دل میں غیرت وغصہ کا طوفان نہ بپا ہوجائے ۔ اس کی فطرت حق وصدق کی تائید کے لیے ہے ۔ وہ منصہ شہودپر آیا ہی اسی لیے ہے کہ اللہ کی نیابت کا حق ادا کرے اورظلم وعدوان کے خلاف پرزور آواز بلند کرے بلکہ طغیان وسرکشی کے خلاف خود رعد وصاعقہ بن جائے اور زمین استبداد کے لیے تہلکہ کی شکل اختیار کرلے۔یہی وہ توقعات ہیں جو مسلمانوں سے وابستہ ہیں اوراسی لیے خدائے غیور کا خطاب ہے ۔ وَماَلَکُمْ لاَ تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی اے جہاد سے پیچھے رہنے والے انسانو! تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم باوجود مسلمان ہونے کے اس فریضہ سے غافل ہوگئے ہو۔
گویا ظالموں سے جہاد کرنا مرد مومن کی شریعت میں داخل ہے ۔ جس سے ایک لمحہ بھی تغافل جائز نہیں۔ اس آیت میں تعجب وتوبیخ کو باہم ملادیا ہے ۔ وَمَالَکُمْ کہہ کر اظہار تعجب بھی کیا ہے اورڈانٹا بھی ہے کہ کیوں جہاد پر آمادہ نہیں ہوتے۔
حل لغات
{لَیُبَطِّئَنَّ} کسل اورسستی۔{فَوْزٌ} کامیابی وکامرانی {یَشْرُوْنَ} شراء بمعنی بیع بھی آتا ہے۔