محدث فتوی
فتویٰ نمبر : 12179
دعائے قنوت رکوع سے پہلے یا بعد میں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :
قنوت کے متعلق وضاحت کریں کہ رکوع سےپہلے ہے یا بعد میں ،نیز اس میں ہاتھ اٹھائے جائیں یا اٹھائے بغیر بھی قنوت پڑھی جاسکتی ہے جبکہ بخاری شریف میں ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے بھی ہے اور بعد میں بھی کی جاسکتی ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبادات میں قنوت کی دواقسام ہیں :
(۱)قنوت نازلہ۔ (۲)قنوت وتر۔ان دونوں کے لوازمات اور خصوصیات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔
(۱)قنوت نازلہ سے مراد جو جنگ ،مصیبت ،وبائی امراض اور غلبہ دشمن کے وقت دوران نماز پڑھی جاتی ہے،ان ہنگامی حالات کے پیش نظر قنوت نازلہ کےمندرجہ ذیل لوازمات ہیں:
٭اسے رکوع کےبعد پڑھا جاتا ہے،جیسا کہ رسول اللہﷺ نماز فجر میں رکوع کےبعد کفار پر لعنت کرتے تھے یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا۔ (صحیح بخاری،التفسیر:۴۵۵۹)
٭دوران جماعت امام سے بآواز بلند پڑھتا ہے،جیساکہ رسول اللہﷺ کےمتعلق احادیث میں آیا ہے کہ آپ قنوت نازلہ بآواز بلند پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری،التفسیر:۴۵۶۰)
٭قنوت نازلہ ہاتھ اٹھا کر پڑھی جاتی ہے ،جیسا کہ رسول اللہﷺ ہاتھ اٹھا کر قنوت نازلہ کیا کرتے تھے۔ (مسند امام احمد،ص:۱۳۷،ج۳)
٭مقتدی حضرات قنوت نازلہ کےلئے آمین کہیں۔ (ابوداؤد،الوتر:۱۴۴۳)
٭قنوت نازلہ تمام نمازوں میں کی جاسکتی ہے۔ (مسند امام احمد،ص:۳۰۱ج۱)
٭ہنگامی حالات ختم ہونے پر موقوف کردیا جائے۔ (صحیح مسلم ،المساجد:۱۵۴۲)
(۲)قنوت وتر سے مراد وہ دعا ہے جو وتروں کی آخری رکعت میں پڑھی جاتی ہے،اس کی خصوصیات حسب ذیل ہیں:
٭یہ دعا صرف وتروں میں پڑھی جاتی ہے اگر صرف وتروں سےمتعلقہ دعا پڑھنا ہوتو اسے رکوع سے پہلے پڑھا جائے ،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ تین وتر ادا کرتے اوردعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ (نسائی ،قیام اللیل :۱۷۰۰)
٭اگر وتر کی دعا کو ہنگامی حالات کےپیش نظر قنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے تو اسے رکوع کےبعد پڑھنا چاہیے،جیسا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ وتروں میں مخالفین اسلام کے خلاف بددعا رکوع کے بعد کرتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمہ،ص:۵۶ج۱)
٭رسول اللہﷺ سے صراحت کے ساتھ قنوت وترمیں ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں ،البتہ بعض صحابہ کرام ؓ کے آثار ملتے ہیں کہ وہ وتروں میں دعا کرتے وقت ہاتھ اتھایا کرتے تھے۔ (مختصر قیام اللیل ،ص:۲۳۰طبع ہند)
٭امام کا بآواز بلند قنوت وتر پڑھنا اور مقتدی حضرات کا آمین کہنا بھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے،البتہ قنوت نازلہ پر قیاس کیا جائے تو گنجائش نکل سکتی ہے ،ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں توسیع ہے۔قنوت وتر ہاتھ اٹھا کریا ہاتھ اٹھائے بغیر دونوں طرح کی جاسکتی ہے،کسی ایک طریقے پر تشدد اور دوام درست نہیں ہے،البتہ وتروں میں تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھانا ،پھر انہیں باندھ لینا کسی صحیح حدیث سےثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
سوال کے آخر میں صحیح بخاری کے حوالہ سے بیان کیا گیا ہے کہ قنوت رکوع سےپہلے بھی ہے اور رکوع کےبعد بھی کی جاسکتی ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ امام بخاریؒ کے عنوانات انتہائی خامو ش او ر بہت ٹھوس ہواکرتے ہیں۔
چنانچہ امام بخاریؒ نے ابواب وتر میں ایک عنوان بایں الفاظ بیان کیا ہے‘‘رکوع سےپہلے اور اس سے بعد قنوت کرنا۔’’پھر محمد بن سیرینؒ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت انس ؓ سےسوال ہوا کہ آیا رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز میں قنوت کی تھی؟ فرمایا:ہاں !پھر سوال ہوا کہ قنوت رکوع سےپہلے تھی ،جواب دیا رکوع کےبعد تھوڑا عرصہ کی تھی۔ (صحیح بخاری،الوتر:۱۰۰۱)
پھر اس کی مزید وضاحت کےلئے عاصم الاحوال کی روایت پیش فرمائی ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس ؓ سے نماز میں قنوت کےمتعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سےپہلے ہے،پھر میں نے عرض کیا کہ فلاں شخص آپ سے بیان کرتا ہے کہ قنوت رکوع کے بعد ہے آپ نے جواب کےطورپر فرمایا غلط کہتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے رکوع کےبعد صرف ایک ماہ قنوت فرمائی۔یہ اس وقت ہوا جب مشرکین نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ستر قراءکو شہید کردیا تو آپ نے رکوع کے بعد صرف ایک ماہ ان پر بددعا فرمائی۔ (صحیح بخاری،الوتر:۱۰۰۲)
اس روایت سےیہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہنگامی حالات کے پیش نظر جو دعا کی جائے وہ رکوع کےبعد ہے اور حضرت انس ؓ نے جس قنوت کو رکوع سےپہلے بیان کیا ہے وہ ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں بلکہ وہ قنوت وتر ہے کیونکہ جو قنوت ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں بلکہ عام حالات میں کی جاتی ہے وہ صرف قنوت وتر ہے،تفصیلی روایت سے امام بخاریؒ کےموقف کی وضاحت ہوتی ہے کہ وہ قنوت وتر رکوع سےپہلے کرنے کے قائل ہیں۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج2ص179
محدث فتویٰ