• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز تراویح سے متعلق حفاظ کرام کا سوال

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
464
پوائنٹ
209
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہمارے یہاں بعض جہلاء ان حفاظ کرام پر اعتراض وتنقید کرتے ہیں جو حفاظ کسی وجہ سے تراویح میں قرآن نہیں سناپاتے۔( سب کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہے۔)حالانکہ وہ حفاظ شب وروز فرائض وسنن میں قرآن کی تلاوت مع تجوید کا معمول بنائے ہوتے ہیں۔ تاکہ قرآن یاد رہے۔جہاں تک ہمارا علم ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف 3 دن باجماعت نماز تراویح پڑھائی۔ اس کے علاوہ ہزاروں صحابہ کرام تابعین عظام ومحدثین کرام حافظ قرآن ہوتے ہوئے نماز تراویح نہیں پڑھائی اور نہ ہی ان لوگوں نے نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے کو پیشہ کے طور پر اختیار کیاجیسا کہ آج کل حفاظ کرام رمضان سے قبل ذمہ داران مساجد سے ریٹ طے کرتے ہیں۔ جہاں پر ریٹ زیادہ ہوتا ہے اس مسجد کو ترجیح دیتے ہیں۔اس صورت میں سوال یہ ہیکہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھانا گناہ کا کام ہے ؟اور تراویح پڑھانے کیلئے ریٹ طےکرنا کہاں تک جائز ودرست ہے؟براہ کرم قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کرام سے رہنمائی فرمائیں۔نوازش ہوں گی۔

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

حامدا ومصلیا اما بعد !
مذکورہ بالا سوال میں چند باتیں مرقوم ہیں ۔
(1) رمضان میں قرآن مجید ختم کرنا
(2) تراویح میں قرآن سنانے کو بطور پیشہ اختیار کرنا
(3) طے کرکے اجرت لینا
(4) حفاظ کا تراویح میں قرآن نہ سنانا

بنیادی بات یہ سمجھیں کہ رمضان میں قرآن پڑھنے کی اور قیام کرنے کی بڑی فضیلت ثابت ہے اس وجہ سے عہدنبوی سے لیکر آج تک مومن بندے رمضان میں قرآن کی تلاوت اور تراویح کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے لئے باقاعدے امام متعین کئے ۔ بذات خود نبی ﷺ نے تین دن باجماعت تراویح پڑھائی جس کی طرف سوال میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ عہد نبوی میں صرف تین دن تراویح ہوئی بلکہ آپ نے ﷺ نے کہیں امت پر فرض نہ کردی جائے اس خوف سے جماعت کے ساتھ تین دن سے زیادہ تراویح نہیں پڑھائی ۔ صحابہ کرام منفردا رمضان بھرتراویح پڑھتے رہے یہاں تک کہ عہد عمر میں جماعت کی شکل دی گئی ۔
أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في رمضان ؟ . فقالتْ : ما كان يزيدُ في رمضانَ ولا في غيرهِ على إحدى عشرةَ ركعةً،يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عَن حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عنْ حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يصلي ثلاثًا . فقُلْت : يا رسولَ اللهِ، أتنامُ قبلَ أن توتِرَ ؟ . قال : ( يا عائشةُ، إنْ عَيْنَيَّ تنامانِ ولا ينامُ قُلْبي ) .(صحيح البخاري:2013)
ترجمہ: راوی حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
اس حدیث میں جہاں اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی ﷺ رمضان بھر تراویح (قیام اللیل) کیا کرتے تھے وہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ آپ کا قیام بہت لمبا ہوا کرتا تھا۔ رمضان میں قیام کی فضیلت کا بیحد ثواب ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے نبی ﷺ نے یا صحابہ کرام نے رمضان میں قیام چھوڑدیا ہو؟
زیاد بن علاقہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا:
إنْ كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ليقومُ لِيُصلِّي حتى تَرِمُ قدماهُ ، أو ساقاهُ . فيُقالُ لهُ ، فيقولُ : أفلا أكونُ عبدًا شكورًا .(صحيح البخاري:1130)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا ( یہ کہا کہ ) پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے "کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں"۔
اس کیفیت سے رمضان بھر قیام کیا جائے تو بالیقین قرآن ختم ہوجائے گا۔ مزید برآں نبی ﷺ سے رمضان میں مکمل قرآن ختم کرنا بھی ثابت ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
كان يَعرِضُ على النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم القرآنَ كلَّ عامٍ مرَّةً، فعرَضَ عليهِ مرَّتينِ في العامِ الذي قُبِضَ فيه، وكان يَعْتَكِفُ كلَّ عامٍ عَشرًا، فاعْتَكَفَ عِشرينَ في العامِ الذي قُبِضَ فيهِ.(صحيح البخاري:4998)
ترجمہ: جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔
بہرکیف ! تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری نہیں ہے مستحسن ہے ۔ ختم کرنے کے چکرمیں بہت سارے حفاظ بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں ۔ کتنے تو صفحات کے صفحات چھوڑدیتے ہیں ۔ جو بہترین حافظ قرآن ہو اور تراویح میں شامل لوگ لمبے قیام کی طاقت رکھنے والے ہوں تو اچھا ہے کہ ختم کرلیا جائے ۔ قرآن ختم کرنے کے لئے تراویح کی نماز ہی شرط نہیں ہے انفرادی طور پر نماز سے باہرجتنا ممکن ہو ایک دو ختم الگ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
تراویح میں قرآن سنانے پہ اجرت لینا جائز ومباح ہے جیساکہ بخاری شریف کی روایت ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ أحقَّ ما أخَذْتُمْ عليهِ أجرًا كتابُ اللهِ(صحيح البخاري:5737)
ترجمہ: بے شک بہت ہی لائق چیز جس پر تم مذدوری حاصل کرو،اللہ کی کتاب ہے۔
ائمہ ومحدثین نے بھی قرآن کی تعلیم، اذان، خطابت وغیرہ پہ اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے البتہ یہاں ایک امر قابل مذمت ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے کو اس طور پیشہ بنانا کہ جہاں سب سے زیادہ اجرت ملے وہیں تراویح پڑھائیں ۔ اجرت طے کرنے تک تو معاملہ ٹھیک ہے مگر اس طرح حرص مال کی پیشہ وری قیام اللیل جیسی عظیم نفلی عبادت میں خشوع وخضوع پر منفی اثر ڈالنے والی ہے ۔ ساتھ ہی عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی بھی ہے ۔اس سےغریب ومسکین بستی والے حفاظ کا رونا روئیں گے ۔ اس لئے خدارا اجرت کے معاملہ میں تقوی اختیار کریں ۔
رہا مسئلہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھا نا۔گوکہ تراویح نہ پڑھانے سے گنہگار نہیں ہوگالیکن سارے حفاظ ایسا ہی سوچ لے تو پھر تراویح کون پڑھائے گا؟
آپ نے قرآن حفظ کیا ہے یہ بڑے درجے کا کام ہے ۔ اس قرآن سے دوسروں کو مستفیدکریں ،دیکھیں نبی ﷺ قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خيرُكم مَن تعلَّم القرآنَ وعلَّمه(صحيح البخاري:5027)
ترجمہ : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے ۔
بہت ساری غریب بستیاں ایسی ہیں جنہیں حافظ قرآن میسر نہیں ہوتا تو مجبورا سورہ تروایح(تراویح میں چھوٹی چھوٹی سورت پڑھنا اسے لوگ سورہ تراویح کہتے ہیں) پڑھتے ہیں ایسی جگہوں کو تلاش کرکے تطوعا تراویح پڑھانا نہایت اجر والا کام ہے ۔ اور میرے خیال سے اگر اجرت نہ بھی طے کی جائے پھر بھی رمضان المبارک میں لوگ فیاض ہوتے ہیں حافظ قرآن کو ضرور نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔
حفاظ کرام سے ایک دو باتیں یہ عرض کرنی ہے کہ قرآن کے حفط کو صرف تراویح تک محدود نہ رکھیں بلکہ اگر امام مسجد ہیں تو نماز وں میں پورے قرآن سے تلاوت کرتے رہا کریں ، اگر امام نہیں ہیں تو اپنی سنت ،نفل، قیام اور دیگر تلاوت میں پورے قرآن سے پڑھا کریں اس طرح سے آپ کا حفظ ہمیشہ تازہ رہے گا اور قرآن بھولنے سے بچیں گے ۔ ساتھ ہی قرآن کا معنی ومفہوم بھی جاننے کی کوشش کریں تاکہ آپ مسجد میں تراویح کے ساتھ لوگوں کو قرآن کا درس بھی دے سکیں اور اگر آپ کو کوئی امام سمجھ کر قرآن سے کچھ سوال کرے تو اس کا جواب بھی دے سکیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل وعمل کی توفیق دے اورقرآن کی تعلیم عام کرنے میں اخلاص پیدا کردے ۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی ومبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
 
شمولیت
مارچ 20، 2018
پیغامات
172
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
64
‎مسئلہ تراویح
‎یہ مسئلہ سمجھنے کے لئے تہجد اور تراویح میں فرق سمجھنا اور رکھنا ضروری ہے۔ قیام اللیل کا مطلب ہے رات کا قیام اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک کانام تہجد ہے اور دوسری کا تراویح
‎تہجد انفرادی ہے گھر میں ہے۔ اور سوکر اٹھنے کے بعد ہے۔ رات کے تیسرے پہر ہے اور رمضان سے خاص نہیں۔ سارا سال ہے اور اس کی تعداد وتر سمیت پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ ہے۔ یہ سب تعداد مختلف احادیث سے ثابت ہیں۔ اس میں ختم قرآن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اسے دو دو بھی پڑھ سکتے ہیں اور چار چار بھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے چار چار ثابت ہے اور گیارہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے دو دو اور تیرہ اور دیگر روایات سے اور تعداد بھی منقول ہے۔ اور اس کا درجہ نفل کا ہے۔

‎تراویح تعامل امت کے تحت فورا بعد از عشا ہے، باجماعت ہے مسجد میں ہے۔ صرف رمضان میں ہے دو دو ہے ختم قرآن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اور پہلے اس میں اختلاف ۴۰ یا ۲۰ کا تھا آجکل ۲۰ یا ۸ کا ہے۔ اور اس کا درجہ سنت موکدہ (اصطلاحی) کا ہے جو نفل سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ قیام اللیل ہے لیکن تہجد نہیں۔
اس بنا پر تراویح اور تہجد کو مکس اپ نہیں کرنا چاہئے اسُ میں امت میں خلجان اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور ہر سال امت کے بعض افراد اس بیکار مباحشے میں مبتلا ہو جاتے ہے۔ جو تہجد پڑھنا چاہتے ہیں وہ رمضان غیر رمضان پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعت سونے سے اٹھ کر انفرادی طور پر گھر میں پڑھتے رہیں۔ لیکن اس کو اس نماز سے مکس اپ نا کریں۔ علمائے امت نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا ہے۔

تراویح کا ارتقا کیسے ہوا؟
نبی پاک ﷺ سے رمضان کی اس نماز کے اضافی ہونے کا ثبوت ملتا ہے جس میں آپ نے اس کی ۳ دن جماعت کرائی۔ اور یہ تہجد کے علاوہ تھی اس کے شواہد ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ (۲۰۱۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔ بخاری
۲۔ (۲۰۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔۔۔۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بخاری
۳۔ (۷۲۹۰) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے ۔۔ بخاری
۴۔ (۸۰۶) ۔۔رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا۔۔ (ترمذی)
۵ (۲۲۰۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان میں) آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ نسائی

ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول کی تہجد کی نماز نہیں تھی بلکہ ایک اضافی نماز تھی جو مسجدُمیںُ باجمارت ادا کی گئی اور صرف تین دن تک پڑھی گئی۔
اسکے برعکس تہجد تیسرے پہر مستقل انفرادی عمل تھا۔ رمضان اور غیر رمضان جاری رہتا تھا۔

ان روایات سے تراویح کے ارتقا کے پہلے مرحلے میں چند باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔
۱۔ یہ تہجد کے علاوہ ہے
۲۔ مسجد میں ہے۔
۳۔ باجماعت ہے۔
۴۔ عشا کے بعد ہے۔
۵۔ شروع میں صرف تین دن پڑھی گئی۔

دور عمر رضی اللہ عنہ میں تراویح کا ارتقا

(۲۰۱۰) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری

اس سے یہ بات پتہ چلی کہ دور نبوی کی سنت صرف تین دن تھی اس کے بعد لوگوں نے پورا رمضان مختلف ٹولویں کی شکل میں اسے پڑھنا شروع کر دیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام کے تحت جمع کردیا اور وہاں سے باقاعدہ تراویح پورا رمضان باجماعت بعد عشا کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھر تعامل امت کے تحت اس میں متم قرآن کا بھی اہتمام شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ تعامل امت بھی سبیل المومنین بن جانے کی وجہ سے حجت ہو جاتا ہے۔ النساء ۱۱۵

اب آخر میں رہ گیا اس کی تعداد رکعات کا مختلف فیہ مسئلہ۔ سب سے پہلے تو جیسے اوپر واضح ہو چکا ہے کہ تہجد سے مختلف نماز ہونے کی بنا پر تہجد کی روایات سے اس کا استدلال لینا درست نہیں۔ اس حوالے سے امام ترمذی کی شرح حدیث ۸۰۶ نہائت اہم ہے جس میں وہ اس نماز کی تعداد رکعت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

(شرح۸۰۶)۔۔ رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں۔ ترمذی

امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کی اس شرح سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اسلاف میں اختلاف ۲۰ یا ۴۰ کا تھا اور تعامل امت نے ۲۰ کو اختیار گیا۔ ۸ کا قول اسلاف امت میں سے کسی کا بھی نہیں رہا اور آئمہ اسلاف میں سے کسی نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا والی تہجد کی حدیث سے اس معاملے میں استدلال نہیں لیا۔ اس لئے سلفیوں کو بھی اسی پر اتفاق کر لینا چاہئے۔ کہ وہ بھی آئمہ اسلاف کے فہم کے مطابق دین کو سمجھنے کے قائل ہیں۔
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
‎مسئلہ تراویح
‎یہ مسئلہ سمجھنے کے لئے تہجد اور تراویح میں فرق سمجھنا اور رکھنا ضروری ہے۔ قیام اللیل کا مطلب ہے رات کا قیام اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک کانام تہجد ہے اور دوسری کا تراویح
‎تہجد انفرادی ہے گھر میں ہے۔ اور سوکر اٹھنے کے بعد ہے۔ رات کے تیسرے پہر ہے اور رمضان سے خاص نہیں۔ سارا سال ہے اور اس کی تعداد وتر سمیت پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ ہے۔ یہ سب تعداد مختلف احادیث سے ثابت ہیں۔ اس میں ختم قرآن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ اسے دو دو بھی پڑھ سکتے ہیں اور چار چار بھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے چار چار ثابت ہے اور گیارہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے دو دو اور تیرہ اور دیگر روایات سے اور تعداد بھی منقول ہے۔ اور اس کا درجہ نفل کا ہے۔

‎تراویح تعامل امت کے تحت فورا بعد از عشا ہے، باجماعت ہے مسجد میں ہے۔ صرف رمضان میں ہے دو دو ہے ختم قرآن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اور پہلے اس میں اختلاف ۴۰ یا ۲۰ کا تھا آجکل ۲۰ یا ۸ کا ہے۔ اور اس کا درجہ سنت موکدہ (اصطلاحی) کا ہے جو نفل سے بڑھا ہوا ہے۔ یہ قیام اللیل ہے لیکن تہجد نہیں۔
اس بنا پر تراویح اور تہجد کو مکس اپ نہیں کرنا چاہئے اسُ میں امت میں خلجان اور انتشار پیدا ہوتا ہے اور ہر سال امت کے بعض افراد اس بیکار مباحشے میں مبتلا ہو جاتے ہے۔ جو تہجد پڑھنا چاہتے ہیں وہ رمضان غیر رمضان پانچ، سات، نو، گیارہ یا تیرہ رکعت سونے سے اٹھ کر انفرادی طور پر گھر میں پڑھتے رہیں۔ لیکن اس کو اس نماز سے مکس اپ نا کریں۔ علمائے امت نے اسے تہجد سے ممتاز کرنے کے لئے ہی تراویح کا نام دیا ہے۔

تراویح کا ارتقا کیسے ہوا؟
نبی پاک ﷺ سے رمضان کی اس نماز کے اضافی ہونے کا ثبوت ملتا ہے جس میں آپ نے اس کی ۳ دن جماعت کرائی۔ اور یہ تہجد کے علاوہ تھی اس کے شواہد ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔ (۲۰۱۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔ بخاری
۲۔ (۲۰۱۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے۔۔۔۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھی۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بخاری
۳۔ (۷۲۹۰) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں چٹائی سے گھیر کر ایک حجرہ بنا لیا اور رمضان کی راتوں میں اس کے اندر نماز پڑھنے لگے ۔۔ بخاری
۴۔ (۸۰۶) ۔۔رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا۔۔ (ترمذی)
۵ (۲۲۰۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان میں) آدھی رات کو نکلے، اور آپ نے مسجد میں نماز پڑھائی۔ نسائی

ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ معمول کی تہجد کی نماز نہیں تھی بلکہ ایک اضافی نماز تھی جو مسجدُمیںُ باجمارت ادا کی گئی اور صرف تین دن تک پڑھی گئی۔
اسکے برعکس تہجد تیسرے پہر مستقل انفرادی عمل تھا۔ رمضان اور غیر رمضان جاری رہتا تھا۔

ان روایات سے تراویح کے ارتقا کے پہلے مرحلے میں چند باتوں کا اثبات ہوتا ہے۔
۱۔ یہ تہجد کے علاوہ ہے
۲۔ مسجد میں ہے۔
۳۔ باجماعت ہے۔
۴۔ عشا کے بعد ہے۔
۵۔ شروع میں صرف تین دن پڑھی گئی۔

دور عمر رضی اللہ عنہ میں تراویح کا ارتقا

(۲۰۱۰) میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہو گا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنا دیا۔بخاری

اس سے یہ بات پتہ چلی کہ دور نبوی کی سنت صرف تین دن تھی اس کے بعد لوگوں نے پورا رمضان مختلف ٹولویں کی شکل میں اسے پڑھنا شروع کر دیا اور عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام کے تحت جمع کردیا اور وہاں سے باقاعدہ تراویح پورا رمضان باجماعت بعد عشا کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور پھر تعامل امت کے تحت اس میں متم قرآن کا بھی اہتمام شروع ہوگیا۔ یاد رہے کہ تعامل امت بھی سبیل المومنین بن جانے کی وجہ سے حجت ہو جاتا ہے۔ النساء ۱۱۵

اب آخر میں رہ گیا اس کی تعداد رکعات کا مختلف فیہ مسئلہ۔ سب سے پہلے تو جیسے اوپر واضح ہو چکا ہے کہ تہجد سے مختلف نماز ہونے کی بنا پر تہجد کی روایات سے اس کا استدلال لینا درست نہیں۔ اس حوالے سے امام ترمذی کی شرح حدیث ۸۰۶ نہائت اہم ہے جس میں وہ اس نماز کی تعداد رکعت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔

(شرح۸۰۶)۔۔ رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا، اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے، احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں۔ ترمذی

امام ترمذی رحمة اللہ علیہ کی اس شرح سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اسلاف میں اختلاف ۲۰ یا ۴۰ کا تھا اور تعامل امت نے ۲۰ کو اختیار گیا۔ ۸ کا قول اسلاف امت میں سے کسی کا بھی نہیں رہا اور آئمہ اسلاف میں سے کسی نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا والی تہجد کی حدیث سے اس معاملے میں استدلال نہیں لیا۔ اس لئے سلفیوں کو بھی اسی پر اتفاق کر لینا چاہئے۔ کہ وہ بھی آئمہ اسلاف کے فہم کے مطابق دین کو سمجھنے کے قائل ہیں۔
واللہ اعلم
- ابوحنظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک ہی مضمون مختلف مراسلوں میں پوسٹ کرنے سے گریز کریں!
 
شمولیت
مارچ 31، 2022
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

تراویح، تہجد، قیام اللیل ، وتر کے بارے میں یکساں احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں، جس سے واضح ہے کہ یہ سب ایک ہی نماز کے مختلف نام ہیں۔ تہجد اور وتر کے نام سے سال بھر تین سے تیرہ رکعت نماز مسنون ہونے پر تو سب متفق ہیں۔ تہجد اور وتر کا وقت عشاء بعد سے صبح صادق ہونے پر بھی اکثر متفق ہیں۔

رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے پچھلے گناہ بخشے جانے کی بشارت قیام اور احتساب کرنے والوں کو دی ہے۔ اور یہ وہی قیام ہے جو سورہ بنی اسراءیل اور سورہ مزمل میں مذکور ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ قیام تین دن رمضان میں مسجد نبوی میں باجماعت ادا کرنا ثابت ہے۔ مگر مسجد میں باجماعت ادا کی جانے والی اس نماز میں امام کا مقام نماز پہلی صف کے آگے فرض نماز کا مصلی نہیں تھا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے پیچھے اور اصحاب صفہ کے چبوترے کے آگے وہ چبوترہ تھا جہاں نبی صلی اللہ معتکف ہوتے تھے۔ مروجہ تراویح میں امام کے مقام قیام اللیل میں اس سنت کو ترک کردیا گیا ہے۔

تین دن باجماعت قیام اللیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پہر، آدھی رات اور تقریباً پوری رات نماز پڑھائی ہے۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چند باتیں معلوم ہیں۔

١. عشاء اور فجر کی فرض نماز باجماعت امام کے ساتھ ادا کرنا، ساری رات نماز پڑھنے کے برابر ہے۔
٢. جب دوسرے روز آدھی رات تک نماز پڑھا کر نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل ختم کیا تو کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری رات نماز پڑھانے کی فرمائش کی تو اس کے جواب میں نبی صلی اللہ نے کہا تھا کہ مقتدی کا امام کے ساتھ قیام پوری رات قیام کے برابر ہے اور تیسری رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباََ پوری رات باجماعت قیام کیا تھا۔
٣. چوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت قیام اللیل نہیں کرایا اور صحابہ رات بھر منتظر رہے۔‌اس صبح نبی صلی اللہ نے قیام اللیل جیسی نفل نماز کے تعلق سے حکم دیا ہے کہ آدمی کی فرض کے علاوہ سب سے بہتر نماز وہ ہے جو گھر میں ادا کی جائے۔ پس تراویح ، قیام اللیل ، تہجد، وتر نفل نماز ہیں۔ ان کا گھر میں ادا کرنا تمام مساجد حتی کہ مسجد نبوی میں ادا کرنے سے بہتر ہے۔ گھر ادا کرنے کی افضلیت صحیح بخاری میں ہے اور فرض ہونے کا خطرہ مسند احمد میں منقول ہے۔
٤. نبی صلی اللہ علیہ نے چوتھی رات باجماعت قیام اللیل کی نماز ترک کی اور اسے گھر میں ادا کرنا افضل قرار دیا تو کیا یہ ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو بہتر قرار دیں اور صحابہ اسے مسجد میں ادا کرنے کا معمول بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استحبابی حکم کی مخالفت کریں؟ نہیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں چند سالوں تک مسجد نبوی میں قیام اللیل یا تراویح یا تہجد یا وتر کے باجماعت ادا کرنے کا سلسلہ سرکاری طور سے موقوف تھا تو پھر وہ کون لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس نماز کو گھر میں ادا کرنا بہتر قرار دینے کے باوجود اس نماز کو باجماعت یا تنہا مختلف ٹکڑیوں میں مسجد نبوی میں ادا کرتے تھے؟ وہ صحابہ اور تابعین ہی تھے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس نماز کے لئے بہتر مقام گھر کی بجائے مسجد میں ادا کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استحبابی حکم کی مخالفت کررہی تھے؟ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اس نماز کو گھر میں ادا کرتے تھے ۔‌تو عمر رضی اللہ عنہ نےکن لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استحبابی حکم کی مخالفت کرکے گھر بہتر ہونے کے باوجود مسجد نبوی میں ادا کرتے ہوئے پایا؟ ظاہر ہے صحابہ اور تابعین سے بلا عذر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استحبابی حکم کی جان بوجھ کر مخالفت ممکن نہیں۔ پھر بھی استحبابی حکم کی مخالفت کا ظہور ہوا کیون؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں جو لوگ ٹکڑیوں کی شکل میں تنہا یا باجماعت قیام اللیل کی نماز ادا کررھے تھے یہ مدینہ یا مسجد نبوی میں مقیم مسافر تھے یا وہ بے گھر لوگ تھے جو مسجد نبوی اور صفہ کے چبوترے پر رھتے تھے، ان کے لئے مسجد نبوی ہی گھر تھی اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استحبابی حکم کی مخالفت نہیں بلکہ ویسے ہی موافقت کررہے تھے جیسے دوران اعتکاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی رات باجماعت قیام اللیل کی نماز ادا کرکے موافقت کی تھی اور جب لوگ اپنا گھر چھوڑ کر مسجد میں قیام اللیل کے لئے بھیڑ کرنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی رات اس باجماعت نماز کا سلسلہ ترک کیا اور اسے گھر میں ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔

مختلف ٹکڑیوں اور بیکوقت متعدد جماعتوں اور انفرادی طور سے قیام اللیل کی نماز کا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسجد نبوی میں پایا جانے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مختلف ٹکڑیوں مختلف علاقوں سے مدینہ آنے والے قافلے کے مسافر تھے جو اپنے امیر یا اپنے امام کی اقتدا میں قیام رمضان سے فیضیاب ہورہے تھے۔‌ اور ایسے بے گھر اور مسافر لوگوں کی متعدد جماعتوں اور انفرادی نمازوں کی قرأت سے ایک دوسرے کو ۔بی صلی اللہ علیہ کے دور میں بھی دوران اعتکاف خلل ہوا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز پست کرنے کا حکم دیا تھا اور اسی خلل سے بچانے کے لئے مسجد نبوی میں ٹہرنے اور آنے والے مسافروں اور بے گھر لوگوں کے لئے عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں جاری متعدد باجماعت اور انفرادی قیام اللیل کی نماز کو ابی ابن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہم کی امامت میں یک جماعت کردیا تھا۔

عمر رضی اللہ عنہ نے امام مسجد ہونے کے باوجود مسجد نبوی میں اپنی جاری کردہ یک جماعتی باجماعت قیام اللیل کی نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ رات کے آخری پہر گھر میں ادا کی جانے والی نماز قیام اللیل کو ہی افضل اور بہتر کہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے استحبابی حکم کی اطاعت میں یہی عمر رضی اللہ عنہ سمیت اکثر صحابہ و تابعین کی سنت رہی ہے۔
اور پہلے پہر میں زیادہ سے زیادہ وتر سمیت تیرہ رکعت پڑھنے والوں کو دیکھ کر ، دوسرے پہر میں زیادہ سے زیادہ وتر سمیت تیرہ رکعت پڑھنے والوں کو دیکھ کر، تیسرے پہر میں زیادہ سے زیادہ وتر سمیت تیرہ رکعت پڑھنے والوں کو دیکھ کر اور وتر کے بعد کی دو رکعتوں کو جوڑ کر مختلف علاقوں سے آنے والے مسافروں اور بعد کے لوگوں میں دو پہر یا ایک پہر یا تینوں پہر یا ایک رکعت وتر یا تین رکعت وتر کے عقلی حسابات اور لمبے اور مشقت آمیز مسنون قیام اللیل کو آسان راحت آمیز تراویح بنانے کی روش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت تین سے گیارہ یا تیرہ رکعت قیام اللیل کی نماز کی رکعتوں کی تعداد کو 21, 23, 25, 33, 39, 41 تک پہنچادیا ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ قیام اللیل ایسی نماز ہے جس میں زیادہ سے زیادہ قران پڑھا جاتا ہو، ایک رکعت میں سورہ بقرہ ، آل عمران اور سورہ نساء پڑھنے کی سنت مسجد کی باجماعت تراویح میں ترک ہوجاتی ہے۔ موطا امام‌ مالک کی روایت کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ مسجد نبوی کی باجماعت تراویح میں ایک رکعت میں سو آیت بڑھی جاتی تھی اور لوگ لاٹھی کا سہارا لیتے تھے۔اور سحری کے وقت نماز ختم ہوتی تھی سحری چھوٹ جانے کا خدشہ ہوتا تھا، زیادہ تر مساجد کی تراویح میں عمر رضی اللہ عنہ کے دور کی اس سنت کو ترک کردیا گیا ہے۔ پانچ چھ گھنٹے کے قیام اللیل کو مسجد میں ادا کرکے اسے آدھے ایک گھنٹے کا معمول بنا لیا گیا ہے جو مناسب نہیں ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح رمضان ہو یا غیر رمضان اس نماز کو گھر میں ادا کرنے کی ترغیب دیں۔ جنہیں ختم قران کا شوق ہو وہ عایشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں عایشہ رضی اللہ عنہا کے قیام اللیل کے امام ذکوان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی بھی آسان شکل میں قرانی مصحف میں دیکھ قیام اللیل کریں۔

مدارس کے علماء ، اپنے فارغین کو ذریعہ معاش فراہم کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ کی سنت کو توڑ مروڑ کر نہ پیش کریں۔ تراویح کا گھر میں ادا کرنا مسجد میں ادا کرنے سے بہتر ہے، اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کتمان سے پرہیز کریں۔

امام، موذن، ترا ویح میں قران سنانے والے حافظ، خطیب وغیرہ کی اجرت نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ کسی صحابی سے۔ مقبول احمد سلفی اور دیگر اجرت کے حامی لوگ جن احادیث کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں اس میں سے زیادہ تر قران کے ذریعہ علاج کرکے اجرت لینے کا ثبوت ہیں نہ کہ امامت، موذنیت، خطابت اور حافظ قران کی اجرت کا ثبوت۔ ملوکیت کے دور کی مثالیں اگر حجت ہیں تو جن تاریخی روایات کے حوالے سے اجرت ثابت کی جاتی ہیں تو ان کتابوں کی تمام روایات کو قبول کرتے ہوئے ان کے حوالے سے جاری شب برات کے حلوے، محرم ودیگر مواقع کی بدعات کو بھی قبول کرنا ہوگا جو غلط ہے۔ دین کا ماخذ قران اور صحیح احادیث تک محدود رھنے دیں۔ اجماع یا قیاس بھی وہی مقبول ہوگا جو قران اور صحیح احادیث سے ثابت ہو‌۔

8149506088 یہ میرا وہاٹس ایپ نمبر ہے، مذکورہ بالا تمام باتوں کے ثبوت میں کسی کو درکار ہوتو صحیح احادیث پیش کرنے کا پابند ہوں۔

مؤذن کی اجرت سے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، علماء اور محدثین کے کہنے سے نبی کی منع کردہ اجرت مباح نہیں ہوگی۔ امام، موذن، حافظ، قاری، خطیب، داعی وغیرہ کو بھی انبیاء وصحابہ کی طرح دنیاوی وسائل سے کمانے اور دین کو ذریعہ معاش بنانے سے پرہیز کی تلقین کریں۔ مدارس طلبہ و طالبات کو انبیاء و صحابہ کی طرح دنیاوی وسائل سے کمانے کے ہنر سیکھنے کا بھی موقع دیں۔

وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُول الله اجْعَلنِي إِمَام قومِي فَقَالَ: «أَنْتَ إِمَامُهُمْ وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ وَاتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لَا يَأْخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ

حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم ان کے امام ہو ، ان کے کمزور لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے امامت کرنا ، اور کسی ایسے شخص کو مؤذن بنانا جو اذان دینے پر اجرت وصول نہ کرے ۔‘‘ ،
رواہ ترمذی209, ابن ماجہ 714, مسند احمد1281, 6144 و ابوداؤد531, و النسائی 673, حاکم 715,
مشکوۃ المصابیح # 668
 
شمولیت
مارچ 31، 2022
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
تراویح ، قیام اللیل ، تہجد وتر کا گھر یا اعتکاف کے حجرے میں ادا کرنا بہتر ہے۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً ، قَالَ : حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ : مِنْ حَصِيرٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ ، فَلَمَّا عَلِمَ بِهِمْ جَعَلَ يَقْعُدُ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : قَدْ عَرَفْتُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ

*فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ ، فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاةِ صَلَاةُ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ*

، قَالَ عَفَّانُ : حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مُوسَى ، سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرٍ ، عَنْ زَيْدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .


رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ ( پردہ ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بوریے کا تھا ۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی ۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتداء کی ۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا ( نماز موقوف رکھی ) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے ، لیکن

**لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیونکہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو ۔ مگر فرض نماز ( مسجد میں پڑھنا ضروری ہے )*

اور عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا کہ میں نے ابوالنضر بن ابی امیہ سے سنا ، وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے تھے ، وہ زید بن ثابت سے ، وہ نبی کریم ﷺ سے ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر 731
کتاب اذان کے مسائل کے بیان میں

وَقَالَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَيْرَةً مُخَصَّفَةً أَوْ حَصِيرًا ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيهَا فَتَتَبَّعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ وَجَاءُوا يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ ، ثُمَّ جَاءُوا لَيْلَةً فَحَضَرُوا وَأَبْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمْ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا الْباب فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مُغْضَبًا ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُكْتَبُ عَلَيْكُمْ ، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ .


رسول اللہ ﷺ نے کھجور کی شاخوں یا بوریئے سے ایک مکان چھوٹے سے حجرے کی طرح بنا لیا تھا ۔ وہاں آ کر آپ تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے ، چند لوگ بھی وہاں آ گئے اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر سب لوگ دوسری رات بھی آ گئے اور ٹھہرے رہے لیکن آپ گھر ہی میں رہے اور باہر ان کے پاس تشریف نہیں لائے ۔ لوگ آواز بلند کرنے لگے اور دروازے پر کنکریاں ماریں تو آنحضرت ﷺ غصہ کی حالت میں باہر تشریف لائے اور فرمایا تم چاہتے ہو کہ ہمیشہ یہ نماز پڑھتے رہو تاکہ تم پر فرض ہو جائے دیکھو تم *نفل نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھا کرو ۔ کیونکہ فرض نمازوں کے سوا آدمی کی بہترین نفل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے ۔*
صحیح بخاری
Sahih Bukhari#6113
کتاب اخلاق کے بیان میں

و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجَيْرَةً بِخَصَفَةٍ أَوْ حَصِيرٍ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيهَا قَالَ فَتَتَبَّعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ وَجَاءُوا يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ قَالَ ثُمَّ جَاءُوا لَيْلَةً فَحَضَرُوا وَأَبْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُمْ قَالَ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا الْبَابَ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُكْتَبُ عَلَيْكُمْ فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ

عبداللہ بن سعید نے کہا : عمر بن عبیداللہ کے آزاد کردہ غلام سالم ابونضر نے ہمیں بسر بن سعید سے حدیث بیان کی اور انھوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ نے چٹائی کا ایک چھوٹا سا حجرہ بنوایا اور رسول اللہ ﷺ ( گھر سے ) باہر آ کر اس میں نماز پڑھنے لگے ، لوگ اس ( حجرے ) تک آپ کے پیچھے پیچھے آئے اور آ کر آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے ، پھر ایک اور رات لوگ آئے اور ( حجرے کے ) پاس آ گئے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے پاس آنے میں تاخیر کر دی ۔ کہا : آپ ان کے پاس تشریف نہ لائے ، صحابہ کرام نے اپنی آوازیں بلند کیں ( تاکہ آپ آوازیں سن کر تشریف لے آئیں ) اور دروازے پر چھوٹی چھوٹی کنکریاں ماریں تو رسول اللہ ﷺ غصے کی حالت میں ان کی طرف تشریف لائے اور ان سے فرمایا :’’ تم مسلسل یہ عمل کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے خیال ہوا کہ یہ نماز تم پر لازم قرار دے دی جائے گی ، اس لیے تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی فرض نماز کے سوا وہی بہتر ہے جو گھر میں پڑھے ۔‘‘
صحیح مسلم
Sahih Muslim#1825
کتاب: مسافرو ں کی نماز اور قصر کے احکام

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي النَّضْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ حُجْرَةً، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ مِنَ اللَّيْلِ فَيُصَلِّي فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَلَّوْا مَعَهُ لِصَلَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي رِجَالًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانُوا يَأْتُونَهُ كُلَّ لَيْلَةٍ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةٌ مِنَ اللَّيَالِي لَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَتَنَحْنَحُوا وَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا بَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنْ سَتُكْتَبَ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلَاةِ فِي بُيُوتِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ خَيْرَ صَلَاةِ الْمَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ .

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں حجرہ بنا لیا ، آپ رات کو گھر سے تشریف لاتے اور اس حجرے میں نماز پڑھتے ۔ کہا کہ لوگوں نے بھی آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھی اور وہ ہر رات آپ کے پاس آتے ، حتیٰ کہ ایک رات آپ تشریف نہ لائے تو وہ کھانسنے لگے ۔ ( تاکہ آپ ﷺ کو تنبہ ہو ۔ ) کچھ نے اپنی آوازیں بلند کیں اور ( کچھ نے ) آپ کے دروازے پر کنکریاں بھی ماریں ۔ بالآخر آپ تشریف لائے تو غصے میں تھے اور فرمایا :’’ لوگو ! تمہارا برابر یہی حال رہا ، حتیٰ کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم پر فرض نہ کر دی جائے ۔ سو اپنے گھروں میں نماز پڑھو ۔ بلاشبہ فرض کے علاوہ مرد کی بہترین نماز وہی ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے ۔‘‘

سنن ابوداؤد
Sunan Abu Dawood#1447
وتر کے فروعی احکام و مسائل
 
Top