مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 464
- پوائنٹ
- 209
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہمارے یہاں بعض جہلاء ان حفاظ کرام پر اعتراض وتنقید کرتے ہیں جو حفاظ کسی وجہ سے تراویح میں قرآن نہیں سناپاتے۔( سب کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہے۔)حالانکہ وہ حفاظ شب وروز فرائض وسنن میں قرآن کی تلاوت مع تجوید کا معمول بنائے ہوتے ہیں۔ تاکہ قرآن یاد رہے۔جہاں تک ہمارا علم ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف 3 دن باجماعت نماز تراویح پڑھائی۔ اس کے علاوہ ہزاروں صحابہ کرام تابعین عظام ومحدثین کرام حافظ قرآن ہوتے ہوئے نماز تراویح نہیں پڑھائی اور نہ ہی ان لوگوں نے نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے کو پیشہ کے طور پر اختیار کیاجیسا کہ آج کل حفاظ کرام رمضان سے قبل ذمہ داران مساجد سے ریٹ طے کرتے ہیں۔ جہاں پر ریٹ زیادہ ہوتا ہے اس مسجد کو ترجیح دیتے ہیں۔اس صورت میں سوال یہ ہیکہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھانا گناہ کا کام ہے ؟اور تراویح پڑھانے کیلئے ریٹ طےکرنا کہاں تک جائز ودرست ہے؟براہ کرم قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کرام سے رہنمائی فرمائیں۔نوازش ہوں گی۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حامدا ومصلیا اما بعد !
مذکورہ بالا سوال میں چند باتیں مرقوم ہیں ۔
(1) رمضان میں قرآن مجید ختم کرنا
(2) تراویح میں قرآن سنانے کو بطور پیشہ اختیار کرنا
(3) طے کرکے اجرت لینا
(4) حفاظ کا تراویح میں قرآن نہ سنانا
بنیادی بات یہ سمجھیں کہ رمضان میں قرآن پڑھنے کی اور قیام کرنے کی بڑی فضیلت ثابت ہے اس وجہ سے عہدنبوی سے لیکر آج تک مومن بندے رمضان میں قرآن کی تلاوت اور تراویح کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے لئے باقاعدے امام متعین کئے ۔ بذات خود نبی ﷺ نے تین دن باجماعت تراویح پڑھائی جس کی طرف سوال میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ عہد نبوی میں صرف تین دن تراویح ہوئی بلکہ آپ نے ﷺ نے کہیں امت پر فرض نہ کردی جائے اس خوف سے جماعت کے ساتھ تین دن سے زیادہ تراویح نہیں پڑھائی ۔ صحابہ کرام منفردا رمضان بھرتراویح پڑھتے رہے یہاں تک کہ عہد عمر میں جماعت کی شکل دی گئی ۔
أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في رمضان ؟ . فقالتْ : ما كان يزيدُ في رمضانَ ولا في غيرهِ على إحدى عشرةَ ركعةً،يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عَن حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عنْ حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يصلي ثلاثًا . فقُلْت : يا رسولَ اللهِ، أتنامُ قبلَ أن توتِرَ ؟ . قال : ( يا عائشةُ، إنْ عَيْنَيَّ تنامانِ ولا ينامُ قُلْبي ) .(صحيح البخاري:2013)
ترجمہ: راوی حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
اس حدیث میں جہاں اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی ﷺ رمضان بھر تراویح (قیام اللیل) کیا کرتے تھے وہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ آپ کا قیام بہت لمبا ہوا کرتا تھا۔ رمضان میں قیام کی فضیلت کا بیحد ثواب ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے نبی ﷺ نے یا صحابہ کرام نے رمضان میں قیام چھوڑدیا ہو؟
زیاد بن علاقہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا:
إنْ كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ليقومُ لِيُصلِّي حتى تَرِمُ قدماهُ ، أو ساقاهُ . فيُقالُ لهُ ، فيقولُ : أفلا أكونُ عبدًا شكورًا .(صحيح البخاري:1130)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا ( یہ کہا کہ ) پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے "کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں"۔
اس کیفیت سے رمضان بھر قیام کیا جائے تو بالیقین قرآن ختم ہوجائے گا۔ مزید برآں نبی ﷺ سے رمضان میں مکمل قرآن ختم کرنا بھی ثابت ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
كان يَعرِضُ على النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم القرآنَ كلَّ عامٍ مرَّةً، فعرَضَ عليهِ مرَّتينِ في العامِ الذي قُبِضَ فيه، وكان يَعْتَكِفُ كلَّ عامٍ عَشرًا، فاعْتَكَفَ عِشرينَ في العامِ الذي قُبِضَ فيهِ.(صحيح البخاري:4998)
ترجمہ: جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔
بہرکیف ! تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری نہیں ہے مستحسن ہے ۔ ختم کرنے کے چکرمیں بہت سارے حفاظ بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں ۔ کتنے تو صفحات کے صفحات چھوڑدیتے ہیں ۔ جو بہترین حافظ قرآن ہو اور تراویح میں شامل لوگ لمبے قیام کی طاقت رکھنے والے ہوں تو اچھا ہے کہ ختم کرلیا جائے ۔ قرآن ختم کرنے کے لئے تراویح کی نماز ہی شرط نہیں ہے انفرادی طور پر نماز سے باہرجتنا ممکن ہو ایک دو ختم الگ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
تراویح میں قرآن سنانے پہ اجرت لینا جائز ومباح ہے جیساکہ بخاری شریف کی روایت ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ أحقَّ ما أخَذْتُمْ عليهِ أجرًا كتابُ اللهِ(صحيح البخاري:5737)
ترجمہ: بے شک بہت ہی لائق چیز جس پر تم مذدوری حاصل کرو،اللہ کی کتاب ہے۔
ائمہ ومحدثین نے بھی قرآن کی تعلیم، اذان، خطابت وغیرہ پہ اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے البتہ یہاں ایک امر قابل مذمت ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے کو اس طور پیشہ بنانا کہ جہاں سب سے زیادہ اجرت ملے وہیں تراویح پڑھائیں ۔ اجرت طے کرنے تک تو معاملہ ٹھیک ہے مگر اس طرح حرص مال کی پیشہ وری قیام اللیل جیسی عظیم نفلی عبادت میں خشوع وخضوع پر منفی اثر ڈالنے والی ہے ۔ ساتھ ہی عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی بھی ہے ۔اس سےغریب ومسکین بستی والے حفاظ کا رونا روئیں گے ۔ اس لئے خدارا اجرت کے معاملہ میں تقوی اختیار کریں ۔
رہا مسئلہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھا نا۔گوکہ تراویح نہ پڑھانے سے گنہگار نہیں ہوگالیکن سارے حفاظ ایسا ہی سوچ لے تو پھر تراویح کون پڑھائے گا؟
آپ نے قرآن حفظ کیا ہے یہ بڑے درجے کا کام ہے ۔ اس قرآن سے دوسروں کو مستفیدکریں ،دیکھیں نبی ﷺ قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خيرُكم مَن تعلَّم القرآنَ وعلَّمه(صحيح البخاري:5027)
ترجمہ : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے ۔
بہت ساری غریب بستیاں ایسی ہیں جنہیں حافظ قرآن میسر نہیں ہوتا تو مجبورا سورہ تروایح(تراویح میں چھوٹی چھوٹی سورت پڑھنا اسے لوگ سورہ تراویح کہتے ہیں) پڑھتے ہیں ایسی جگہوں کو تلاش کرکے تطوعا تراویح پڑھانا نہایت اجر والا کام ہے ۔ اور میرے خیال سے اگر اجرت نہ بھی طے کی جائے پھر بھی رمضان المبارک میں لوگ فیاض ہوتے ہیں حافظ قرآن کو ضرور نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔
حفاظ کرام سے ایک دو باتیں یہ عرض کرنی ہے کہ قرآن کے حفط کو صرف تراویح تک محدود نہ رکھیں بلکہ اگر امام مسجد ہیں تو نماز وں میں پورے قرآن سے تلاوت کرتے رہا کریں ، اگر امام نہیں ہیں تو اپنی سنت ،نفل، قیام اور دیگر تلاوت میں پورے قرآن سے پڑھا کریں اس طرح سے آپ کا حفظ ہمیشہ تازہ رہے گا اور قرآن بھولنے سے بچیں گے ۔ ساتھ ہی قرآن کا معنی ومفہوم بھی جاننے کی کوشش کریں تاکہ آپ مسجد میں تراویح کے ساتھ لوگوں کو قرآن کا درس بھی دے سکیں اور اگر آپ کو کوئی امام سمجھ کر قرآن سے کچھ سوال کرے تو اس کا جواب بھی دے سکیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل وعمل کی توفیق دے اورقرآن کی تعلیم عام کرنے میں اخلاص پیدا کردے ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی ومبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف
ہمارے یہاں بعض جہلاء ان حفاظ کرام پر اعتراض وتنقید کرتے ہیں جو حفاظ کسی وجہ سے تراویح میں قرآن نہیں سناپاتے۔( سب کی الگ الگ وجوہات ہوتی ہے۔)حالانکہ وہ حفاظ شب وروز فرائض وسنن میں قرآن کی تلاوت مع تجوید کا معمول بنائے ہوتے ہیں۔ تاکہ قرآن یاد رہے۔جہاں تک ہمارا علم ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف 3 دن باجماعت نماز تراویح پڑھائی۔ اس کے علاوہ ہزاروں صحابہ کرام تابعین عظام ومحدثین کرام حافظ قرآن ہوتے ہوئے نماز تراویح نہیں پڑھائی اور نہ ہی ان لوگوں نے نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے کو پیشہ کے طور پر اختیار کیاجیسا کہ آج کل حفاظ کرام رمضان سے قبل ذمہ داران مساجد سے ریٹ طے کرتے ہیں۔ جہاں پر ریٹ زیادہ ہوتا ہے اس مسجد کو ترجیح دیتے ہیں۔اس صورت میں سوال یہ ہیکہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھانا گناہ کا کام ہے ؟اور تراویح پڑھانے کیلئے ریٹ طےکرنا کہاں تک جائز ودرست ہے؟براہ کرم قرآن وحدیث اور آثار صحابہ کرام سے رہنمائی فرمائیں۔نوازش ہوں گی۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حامدا ومصلیا اما بعد !
مذکورہ بالا سوال میں چند باتیں مرقوم ہیں ۔
(1) رمضان میں قرآن مجید ختم کرنا
(2) تراویح میں قرآن سنانے کو بطور پیشہ اختیار کرنا
(3) طے کرکے اجرت لینا
(4) حفاظ کا تراویح میں قرآن نہ سنانا
بنیادی بات یہ سمجھیں کہ رمضان میں قرآن پڑھنے کی اور قیام کرنے کی بڑی فضیلت ثابت ہے اس وجہ سے عہدنبوی سے لیکر آج تک مومن بندے رمضان میں قرآن کی تلاوت اور تراویح کا اہتمام کرتے چلے آرہے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تراویح کے لئے باقاعدے امام متعین کئے ۔ بذات خود نبی ﷺ نے تین دن باجماعت تراویح پڑھائی جس کی طرف سوال میں بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ عہد نبوی میں صرف تین دن تراویح ہوئی بلکہ آپ نے ﷺ نے کہیں امت پر فرض نہ کردی جائے اس خوف سے جماعت کے ساتھ تین دن سے زیادہ تراویح نہیں پڑھائی ۔ صحابہ کرام منفردا رمضان بھرتراویح پڑھتے رہے یہاں تک کہ عہد عمر میں جماعت کی شکل دی گئی ۔
أنه سأل عائشة رضي الله عنها : كيف كانت صلاة رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في رمضان ؟ . فقالتْ : ما كان يزيدُ في رمضانَ ولا في غيرهِ على إحدى عشرةَ ركعةً،يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عَن حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يُصلِّي أربعًا، فلا تَسَلْ عنْ حُسْنِهِنَّ وطولهِنَّ، ثم يصلي ثلاثًا . فقُلْت : يا رسولَ اللهِ، أتنامُ قبلَ أن توتِرَ ؟ . قال : ( يا عائشةُ، إنْ عَيْنَيَّ تنامانِ ولا ينامُ قُلْبي ) .(صحيح البخاري:2013)
ترجمہ: راوی حدیث ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
اس حدیث میں جہاں اس بات کا ثبوت ہے کہ نبی ﷺ رمضان بھر تراویح (قیام اللیل) کیا کرتے تھے وہیں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ آپ کا قیام بہت لمبا ہوا کرتا تھا۔ رمضان میں قیام کی فضیلت کا بیحد ثواب ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے نبی ﷺ نے یا صحابہ کرام نے رمضان میں قیام چھوڑدیا ہو؟
زیاد بن علاقہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا:
إنْ كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ليقومُ لِيُصلِّي حتى تَرِمُ قدماهُ ، أو ساقاهُ . فيُقالُ لهُ ، فيقولُ : أفلا أكونُ عبدًا شكورًا .(صحيح البخاري:1130)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا ( یہ کہا کہ ) پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے "کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں"۔
اس کیفیت سے رمضان بھر قیام کیا جائے تو بالیقین قرآن ختم ہوجائے گا۔ مزید برآں نبی ﷺ سے رمضان میں مکمل قرآن ختم کرنا بھی ثابت ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :
كان يَعرِضُ على النبي صلَّى اللهُ عليه وسلَّم القرآنَ كلَّ عامٍ مرَّةً، فعرَضَ عليهِ مرَّتينِ في العامِ الذي قُبِضَ فيه، وكان يَعْتَكِفُ كلَّ عامٍ عَشرًا، فاعْتَكَفَ عِشرينَ في العامِ الذي قُبِضَ فيهِ.(صحيح البخاري:4998)
ترجمہ: جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہر سال ایک مرتبہ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے لیکن جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ دورہ کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے لیکن جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔
بہرکیف ! تراویح میں قرآن ختم کرنا ضروری نہیں ہے مستحسن ہے ۔ ختم کرنے کے چکرمیں بہت سارے حفاظ بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں ۔ کتنے تو صفحات کے صفحات چھوڑدیتے ہیں ۔ جو بہترین حافظ قرآن ہو اور تراویح میں شامل لوگ لمبے قیام کی طاقت رکھنے والے ہوں تو اچھا ہے کہ ختم کرلیا جائے ۔ قرآن ختم کرنے کے لئے تراویح کی نماز ہی شرط نہیں ہے انفرادی طور پر نماز سے باہرجتنا ممکن ہو ایک دو ختم الگ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
تراویح میں قرآن سنانے پہ اجرت لینا جائز ومباح ہے جیساکہ بخاری شریف کی روایت ہے ۔
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ أحقَّ ما أخَذْتُمْ عليهِ أجرًا كتابُ اللهِ(صحيح البخاري:5737)
ترجمہ: بے شک بہت ہی لائق چیز جس پر تم مذدوری حاصل کرو،اللہ کی کتاب ہے۔
ائمہ ومحدثین نے بھی قرآن کی تعلیم، اذان، خطابت وغیرہ پہ اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے البتہ یہاں ایک امر قابل مذمت ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے کو اس طور پیشہ بنانا کہ جہاں سب سے زیادہ اجرت ملے وہیں تراویح پڑھائیں ۔ اجرت طے کرنے تک تو معاملہ ٹھیک ہے مگر اس طرح حرص مال کی پیشہ وری قیام اللیل جیسی عظیم نفلی عبادت میں خشوع وخضوع پر منفی اثر ڈالنے والی ہے ۔ ساتھ ہی عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی بھی ہے ۔اس سےغریب ومسکین بستی والے حفاظ کا رونا روئیں گے ۔ اس لئے خدارا اجرت کے معاملہ میں تقوی اختیار کریں ۔
رہا مسئلہ حفاظ کرام کا تراویح نہ پڑھا نا۔گوکہ تراویح نہ پڑھانے سے گنہگار نہیں ہوگالیکن سارے حفاظ ایسا ہی سوچ لے تو پھر تراویح کون پڑھائے گا؟
آپ نے قرآن حفظ کیا ہے یہ بڑے درجے کا کام ہے ۔ اس قرآن سے دوسروں کو مستفیدکریں ،دیکھیں نبی ﷺ قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خيرُكم مَن تعلَّم القرآنَ وعلَّمه(صحيح البخاري:5027)
ترجمہ : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور پڑھائے ۔
بہت ساری غریب بستیاں ایسی ہیں جنہیں حافظ قرآن میسر نہیں ہوتا تو مجبورا سورہ تروایح(تراویح میں چھوٹی چھوٹی سورت پڑھنا اسے لوگ سورہ تراویح کہتے ہیں) پڑھتے ہیں ایسی جگہوں کو تلاش کرکے تطوعا تراویح پڑھانا نہایت اجر والا کام ہے ۔ اور میرے خیال سے اگر اجرت نہ بھی طے کی جائے پھر بھی رمضان المبارک میں لوگ فیاض ہوتے ہیں حافظ قرآن کو ضرور نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔
حفاظ کرام سے ایک دو باتیں یہ عرض کرنی ہے کہ قرآن کے حفط کو صرف تراویح تک محدود نہ رکھیں بلکہ اگر امام مسجد ہیں تو نماز وں میں پورے قرآن سے تلاوت کرتے رہا کریں ، اگر امام نہیں ہیں تو اپنی سنت ،نفل، قیام اور دیگر تلاوت میں پورے قرآن سے پڑھا کریں اس طرح سے آپ کا حفظ ہمیشہ تازہ رہے گا اور قرآن بھولنے سے بچیں گے ۔ ساتھ ہی قرآن کا معنی ومفہوم بھی جاننے کی کوشش کریں تاکہ آپ مسجد میں تراویح کے ساتھ لوگوں کو قرآن کا درس بھی دے سکیں اور اگر آپ کو کوئی امام سمجھ کر قرآن سے کچھ سوال کرے تو اس کا جواب بھی دے سکیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل وعمل کی توفیق دے اورقرآن کی تعلیم عام کرنے میں اخلاص پیدا کردے ۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
داعی ومبلغ اسلامک دعوہ سنٹر طائف