• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز تسبیح کی شرعی حیثیت

شمولیت
مئی 24، 2015
پیغامات
18
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
9
*** صلوٰۃ التسبیح پر ایک تحقیقی مضمون ***

کچھ علماء نے صلوٰۃ التسبیح کی مشروعیت میں کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ صلوٰۃ التسبیح کے متعلق یہ حدیث ضعیف ہے۔ شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ صاحب رحمہ اللہ نے ''مرعاۃ المفاتیح طباعت اولیٰ،ج۲ ص:۲۵۳'' کے اندر بیان کیا ہے کہ ''واعلم انہ اختلف کلام العلماء فی حدیث صلوٰۃ التسبیح و ضعفہ جماعۃ منھم العقیلی و ابن العربی والنووی فی شرح المہذب و ابن تیمےۃ و ابن عبد الھادی و المزنی والحافظ فی التلخیص '' یعنی علماء کی ایک جماعت نے صلوٰۃ التسبیح کی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، انہیں ضعیف قرار دینے والوں میں سے العقیلی،ابن العربی،ابن تیمیہ،ابن عبد الھادی اور مزنی ہیں اسی طرح امام نوویؒ نے بھی اس حدیث کو شرح المہذب کے اندر ضعیف قرار دیا ہے،اور حافظ ابن حجر ؒ نے بھی ''التلخیص'' میں اس کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس سلسلہ میں امام نوویؒ اور حافظ ابن حجر رحمھما اللہ دونوں کے قول کے اندر کھلا ہوا تضاد پایا جا تا ہے ۔امام نوویؒ نے شر ح المہذب کے اندر بیان کیا ہے کہ''حدیثھا ضعیف و فی استحبابھا عندی نظر لان فیھا تغییر الھأۃ للصلوٰۃ المعروفۃ فینبغی أن لا تفعل و لیس حدیثھا ثابت'' یعنی صلوٰۃ التسبیح کی حدیث ضعیف ہے اور میرے نزدیک صلوٰۃ التسبیح کے استحباب میں کلام ہے، اس لیے کہ صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ عام نمازوں کی حالت سے بدلاہوا ہے اور مناسب ہے کہ صلوٰۃ التسبیح نہ پڑھی جائے ،کیوں کہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے لیکن یہی امام نووی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب تہذیب الاسماء واللغات کے اندر فرماتے ہیں:''قد جاء فی صلوٰۃ التسبیح حدیث حسن فی کتاب الترمذی و غیرہ وذکرہ المحاملی و غیرہ من اصحابنا وھی سنۃ حسنۃ''۔ ( تحفۃ الاحوذی:ج۳ ص:۱۸۸ باب صلوٰۃ التسبیح )یعنی صلوٰۃ التسبیح سے متعلق ترمذی و دیگر کتابوں میں حسن حدیث پائی جاتی ہے اور محاملی اور ان کے علاوہ ہمارے دیگر شوافع بھائی بھی کہتے ہیں کہ صلوٰۃ التسبیح یہ بہترین سنت ہے، اسی طرح صلوٰۃ التسبیح کے سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام میں بھی تضاد موجود ہے۔۔


حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص کے اندر بیان کر تے ہیں :''والحق ان طرقہ کلہا ضعیفہ و ان کان حدیث ابن عباس یقرب من شرط الحسن الا انہ شاذۃ شدۃ الفردےۃ فیہ و عدم المتابع والشاھد من وجہ معتبر و مخالفۃ ھےئتھا لھےءۃ باقی الصلوٰت و موسیٰ بن عبد العزیز و ان کان صادقا صالحاً ولا یحمل فیہ ھذا التفرد ''۔ یعنی صلوٰۃ التسبیح کے متعلق جتنی حدیثیں ہیں سب ضعیف ہیں سوائے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے آنے والی حدیث تو یہ حسن کے شرط کے قریب ہے لیکن اس کے باوجود یہ حدیث شاذ ہے کیوں کہ اس حدیث کی سند میں تفرد پایا جا تا ہے اور کسی صحیح اور معتبر روایت سے اس کی متابعت نہیں ملتی ہے، مزید صلاۃ التسبیح کا طریقہ دیگر نمازوں سے مختلف بھی ہے اور اس حدیث کی سند میں ایک راوی موسی بن عبد العزیز ہیں، جو اگرچہ فی نفسہ صدوق اور صالح ہیں، لیکن اس طرح کا تفرد ان سے قبول نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن حافظ بن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب ''الخصال المکفرۃ للذنوب المقدمۃ والمؤخرۃ'' کے اندر بیان کر تے ہیں ''رجال اسنادہ لا باس بھم، عکرمۃ احتج بہ البخاری والحکم صدوق و موسی بن عبد العزیز قال فیہ ابن معین لا اری بہ باسا و قال النسائی کذلک قال ابن المدینی فھٰذا الاسناد من شرط الحسن فان لہ شواھد تقویہ''۔ (تحفۃ الاحوذی ج۲ ص:۳۸۸)

یعنی اس حدیث کی سند میں جتنے راوی ہیں ان کے بارے میں کوئی حرج نہیں وہ لائق استدلال ہیں ۔اس حدیث کی سند میں ایک راوی عکرمہ ہیں ،امام بخاری نے ان سے حجت پکڑی ہے اسی طرح ایک راوی حکم النیساپوری ہیں جو صدوق ہیں اور ایک راوی موسی بن عبد العزیز ہیں ، ابن معین ان کے بارے میں کہتے ہیں :کہ میں ان کے بارے میں کوئی حرج نہیں سمجھتاہوں اور اسی طرح کا جملہ امام نسائی ؒ نے بھی استعمال کیا ہے اور علی ابن مدینی کہتے ہیں کہ یہ سند حسن کی شرط پر ہے، مزید اس حدیث کے بہت سے شواھد ہیں جس سے حدیث کو تقویت مل جاتی ہے ۔اسی طرح ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث پر سخت کلام کیا ہے اور اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے ،وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایک راوی موسی بن عبد العزیز مجہول ہے لیکن ابن الجوزی رحمہ اللہ کی یہ بات بھی درست اور صحیح نہیں ہے اس لیے کہ یحیی بن معین اور امام نسائی رحمہما اللہ نے موسی بن عبد العزیز کی توثیق کی ہے اور جن کی توثیق یحیی بن معین اور امام نسائی رحمہما اللہ کر دیں ا س کی حالت بعد میں آنے والے لوگوں پر مجہول بھی رہ جائے، تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہونچتا ہے۔

یہ تھے وہ حضرات جو صلوٰۃ التسبیح کے متعلق آنے والی اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں لیکن ان کے علاوہ علماء کی ایک جماعت اس حدیث کو صحیح یا حسن ضرور قرار دیتی ہے ،انہیں میں سے جن لوگوں نے اس حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے درج ذیل ہیں:
(۱) ابوبکر الاجری،
(۲) ابو محمد عبد الرحیم المصری،
(۳) حافظ ابوالحسن المقدسی،
(۴) ابو داؤد صاحب السنن،
(۵) امام مسلم رحمہ اللہ صاحب الجامع الصحیح،
(۶) حافظ صلاح الدین العلائی،
(۷) خطیب بغدادی،
(۸) حافظ ابن صلاح،
(۹) امام سبکی،
(۱۰) سراج الدین البلقینی،
(۱۱)ابن مندۃ،
(۱۲)امام حاکم،
(۱۳)امام منذری،
(۱۴) ابو موسی المدینی،
(۱۵)امام زرکشی،
(۱۶)امام نووی نے تہذیب الاسماء واللغات کے اندر
(۱۷)ابو سعید السمعانی،
(۱۸)حافظ ابن حجر نے الخصال المکفرۃ اور امالی الاذکار میں
(۱۹)ابو منصور الدیلمی،
(۲۰)امام بیہقی،
(۲۱)امام دار قطنی اور دیگر لوگوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
(بحوالہ: مرعاۃ المفاتیح ص:۲۵۳)امام مسلم رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ ''لا بروی فیھا اسناد احسن من ھٰذا بہ'' (عون المعبود ''ص:۱۲۴ ج:۲جز ۴)۔ یعنی صلوٰۃ التسبیح سے متعلق سب سے بہترین سند یہی ہے، ابن شاہین ترغیب کے اندر کہتے ہیں :''سمعت ابا بکر بن ابی داؤد یقول سمعت ابی یقول أصح حدیث فی صلوٰۃ التسبیح ھٰذا'' (عون المعبود ''۔ص:۱۲۴ ج۲ جز ۴)۔
ٍٍ
یعنی ابو بکر کہتے ہیں کہ میں نے پنے والد کو فرماتے ہوئے سنا کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق سب سے صحیح حدیث یہی ہے، اس طرح امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے :''کان عبد اللہ ابن المبارک یصلیھا و تداولھا الصالحون بعضھم عن بعض و فیہ تقوےۃ للحدیث'' ۔(عون المعبود:ج۲ ص:۱۲۴ج۲ جز ۴)

یعنی عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ بھی صلوٰۃ التسبیح کا اہتمام کر تے تھے اور سلف صالحین سے بھی صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ منقول ہے جس کی وجہ سے حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اسی طرح سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی یہ حدیث دوسرے طریق سے بھی آئی ہو ئی ہے جس میں موسیٰ بن عبد العزیز کی متابعت ابراہیم بن حکم نے کی ہے اور عکرمہ کی متابعت عطاء اور مجاھد نے کی ہے۔(بحوالہ عون المعبود :ج۲ص:۱۳۵ جز۴) اور صرف یہی نہیں کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق وارد ہو نے والی حدیث اکیلے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے بلکہ بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی حدیث وارد ہوئی ہے ،مثلاً حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ ،عبد اللہ بن عمرو، عبد اللہ بن عمر،علی بن ابو طالب، جعفررضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بیٹے عبد اللہ بن جعفر اسی طرح ابو رافع، ام سلمۃ اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم سے بھی یہ حدیث منقول ہے ۔(بحوالہ مرعاۃ المفاتیح:ص۲۵۲)

خلاصہ کلام یہ کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق حدیث صحیح ہے اور اس پر عمل کر نا بالکل درست اور جائز ہے ۔شیخ الحدیث عبید اللہ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کہتے ہیں :''والحق عندی ان حدیث ابن عباس لیس بضعیف فضلاً عن ان یکون موضوعاً اوکذبا بل ھو حسن لا شک فی ذالک عندی فسندہ لا ینحط عن درجۃ الحسن بل لایبعدان یقال انہ صحیح لغیرہ بما ورد من شوا ھدہ و بعضھا لا بأس''۔ یعنی میرے نزدیک عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ضعیف نہیں چہ جائے کہ وہ موضوع اور من گھڑت ہو بل کہ اس حدیث کے حسن ہو نے میں کوئی شک نہیں بل کہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ دیگر شواھد کی بنیاد پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے تو کوئی بعید بات نہیں ہے۔(مرعاۃ المفاتیح ج۲ ص: ۲۵۳)۔

مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی تحفۃ الاحوذی ج۲ کے اندر بیان کیا ہے:''والظاھر عندی لا ینحط عن درجۃ الحسن'' یعنی میرے نزدیک بھی یہ حدیث حسن کے درجہ سے کم نہیں ہے۔یہی علامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی نظریہ ہے کہ ''صلوٰۃ التسبیح'' سے متعلق حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث صحیح ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
296
پوائنٹ
82
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

جب پان کھانے والوں کے دانت سلامت رہ سکتے ہیں بولنے کے لیے تو ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔ ابتسامہ
 
شمولیت
فروری 14، 2018
پیغامات
29
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
علامہ ابن باز کا قول
الصواب أنه موضوع، كما صرح بذلك العلامة ابن الجوزي في الموضوعات، وضعفه الترمذي والعقيلي، وقال الحافظ ابن حجر في التلخيص: (الحق أن طرقه كلها ضعيفة)، وضعفه شيخ الإسلام ابن تيمية والمزي، والحق أنه موضوع كما قدمنا، وكما صرح بذلك ابن الجوزي في الموضوعات؛ لضعف أسانيده ونكارة متنه ومخالفته للأحاديث الصحيحة المتواترة في بيان صفة الصلاة الشرعية، والله ولي التوفيق
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
.

ماحكم صلاة التسبيح ؟

علامة الألباني

السؤال :
ماحكم صلاة التسبيح ؟

الجواب :
صلاة التسبيح سنة ثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم، فقد صحح أحاديثها عدد من أهل العلم، وقد نقل عن الإمام أحمد فيها قولان، آخرهما تصحيحه للحديث -كما ذكره الحافظ ابن حجر في «الأجوبة على أحاديث المصابيح».
وبعض أهل العلم المعاصرين ينكرها بِحُجّة أن صِفتها تختلف عن صفة الصلاة المشهورة !
وهذه حجة لا تقوم ؛ فكل صلاة لها صفتها الخاصة بها ؛ كصلاة الكسوف ، وصلاة الجنازة ،وصلاة العيد ،وهكذا صلاة التسبيح .
وينبه فيها على أمرين :
الأول: أنها صلاة فردية، لا تصلح جماعة .
الثاني: أنها لا تخصص بزمان دون زمان، أو مكان دون مكان ،كرمضان ، أو ليلة السابع والعشرين منه ، أو مسجد معين وهكذا، ولكن لا تصلى في أوقات الكراهة.
وقد أفردها جمع بالتصنيف ،كالدارقطني ، وابن ناصر الدين الدمشقي واللكنوي، وهي في «صحيح الترغيب والترغيب» (677-678) لشيخنا الإمام الألباني.

 
Top