حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
باب : نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا ( ضروری ہے )
وقال الحسن يقرأ على الطفل بفاتحة الكتاب ويقول اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورئہ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے :
اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا واجرا
یا الله! اس بچے کو ہمارا امیر سامان کردے اور آگے چلنے والا‘ ثواب دلانے والا۔
حدیث نمبر : 1335
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن طلحة، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ. حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداءمیں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔
تشریح :
جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب ہر نماز کو شامل ہے۔
اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے:
والحق والصواب ان قراة الفاتحة فی صلوٰة الجنازة واجبة کما ذهب الیه الشافعی واحمد واسحاق وغیرهم لانهم اجمعواعلی انها صلوٰة وقد ثبت حدیث لا صلوٰة الا بفاتحة الکتاب فهی داخلة تحت العموم واخراجها منه یحتاج الی دلیل ولا نها صلوٰة یجب فیها القیام فوجبت فیها القراة کسائر الصلوات ولانه وردالامر بقراتها فقدروی ابن ماجة باسناد فیه ضعف یسیر عن ام شریک قالت امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ان نقراءعلی میتنا بفاتحة الکتاب وروی الطبرانی فی الکبیر من حدیث ام عفیف قالب امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ان نقرا علی میتنا بفاتحة الکتاب قال الهیثمی وفیه عبدالمنعم ابوسعید وهو ضعیف انتهی۔
والا مر من ادلة الوجوب وروی الطبرانی فی الکبیر ایضا من حدیث اسماءبنت یزید قالت قال رسول الله صلی الله علیه وسلم اذا صلیتم علی الجنازة فاقر ؤا بفاتحة الکتاب قال الهیثمی وفیه معلیٰ بن حمران ولم اجد من ذکره وبقیة رجاله موثقون وفی بعضهم کلام هذا وقد صنف حسن الشر نبلانی من متاخری الحنفیة فی هذه المسئلة رسالة اسمها النظم المستطاب لحکم القراءة فی صلوٰة الجنازة ام الکتاب وحقق فیها ان القراءة اولیٰ من ترک القراءة ولا دلیل علی الکراهة وهوالذی اختاره الشیخ عبدالحی اللکهنوی فی تصانیفه لعمدة الرعایة والتعلیق الممجد وامام الکلام ثم انه استدل بحدیث ابن عباس علی الجهر بالقراءة فی الصلوٰة علی الجنازة لا نه یدل علی انه جهر بها حتی سمع ذالک من صلی معه واصرح من ذلک ماذکر ناه من روایة النسائی بلفظ صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فقرا بفاتحة الکتاب وسورة وجهر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیده فسالته فقال سنة وحق وفی روایة اخریٰ له ایضا صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فسمعته یقرا بفاتحة الکتاب الخ ویدل علی الجهر بالدعاءحدیث عوف بن مالک الاتی فان الظاهر انه حفظ الدعاءالمذکور لما جهربه النبی صلی الله علیه وسلم فی الصلوٰة علی الجنازة اصرح منه حدیث واثلة فی الفصل الثانی۔
واختلف العلماءفی ذلک فذهب بعضهم الی انه یستحب الجهر بالقراءة والدعاءفیها واستدلوا بالروایات التی ذکرناها انفا و ذهب الجمهور الی انه لا یندب الجهربل یندب الاسرار قال ابن قدامة ویسر القراءةوالدعاءفی صلوٰة الجنازة لا نعلم بین اهل العلم فیه خلا فا انتهی۔
واستدلوا لذلک بما ذکرنا من حدیث ابی امامة قال السنة فی الصلوٰة علی الجنازة ان یقرا فی التکبیرة الاولیٰ بام القرآن مخافتة لحدیث اخرجه النسائی ومن طریقه ابن حزم فی المحلیٰ ( ص:129ج:5 ) قال النووی فی شرح المهذب رواه النسائی باسناد علی شرط الصحیحین وقال ابوامامة هذا صحابی انتهی وبما روی الشافعی فی الام ( ص:239ج:1 والبیهقی ص:39ج:4 ) من طریقه عن مطرف بن مازن عن معمرعن الزهری قال اخبرنی ابوامامة بن سهل انه اخبره رجل من اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم ان السنة فی الصلوة علی الجنازه ان یکبر الامام ثم یقرا بفاتحة الکتاب بعدالتکبیرة الاولیٰ سرا فی نفسه الحدیث وضعفت هذه الروایة بمطرف لکن قواها البیهقی بمارواه فی المعرفة والسنن من طریق عبیدالله بن ابی زیاد الرصا فی عن الزهری بمعنی روایة مطرف وبما روی الحاکم ( (ص:359،ج:1 ، والبیهقی من طریقه ص:42ج:4 ) عن شرحبیل بن سعدقال حضرت عبدالله بن مسعود صلی علی جنازة بالابواءفکبر ثم قرا بام القرآن رافعاً صوته بها ثم صلی علی النبی صلی الله علیه وسلم ثم قال اللهم عبدک وابن عبدک الحدیث وفی آخره ثم انصرف فقال یا ایها الناس انی لم اقرا علنا ( ای جهرا ) الا لتعلموا انها سنة قال الحافظ فی الفتح وشرحبیل مختلف فی توثیقه انتهی۔
واخرج ابن الجارود فی المنتقیٰ من طریق زید بن طلحة التیمی قال سمعت ابن عباس قرا علی جنازة فاتحة الکتاب وسورة وجهر بالقراءة وقال انما جهرت لاعلمکم انها سنة۔
وذهب بعضهم الی انه یخیربین الجهر والاسرار وقال بعض اصحاب الشافعی انه یجهر باللیل کاللیلة ویسربالنهار۔ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول ابن عباس انما جهرت لتعلموا انها سنة یدل علی ان جهره کان للتعلیم ای لالبیان ان الجهر بالقراءة سنة قال واما قول بعض اصحاب الشافعی یجهر باللیل کاللیلة فلم اقف علی روایة تدل علیه هذا انتهی۔ وهذا یدل علی ان الشیخ مال الی قول الجمهور ان الاسرار بالقرا ءة مندوب هذا وروایة ابن عباس عندالنسائی بلفظ فقرا بفاتحة الکتاب وسورة تدل علی مشروعیة قرا ءة سورة مع الفاتحة فی الصلوٰة الجنازة قال الشوکانی لامحیص عن المصیر الی ذلک لانها زیادة خارجة من مخرج صحیح قلت ویدل علیه ایضا ما ذکره ابن حزم فی المحلیّٰ(ص:129ج:5 )معلقا عن محمدبن عمروبن عطاءان المسور بن مخرمة صلی علی الجنازة فقرا فی التکبیر الاولیٰ بفاتحة الکتاب وسورة قصیرة رفع بهاصوته فلما فرغ قال لا اجهل ان تکون هذه الصلوة عجماءولکن اردت ان اعلمکم ان فیها قرا ءة۔ (مرعاة المفاتیح، ج:2ص:478 )
حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماءبنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔
متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءة فی صلوٰة الجنازة بام الکتاب کہا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف عمدة الرعایه اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔
پھر حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔
اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے اخرجہ النسائی۔ علامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔
شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواءشریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔
اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمتہ اللہ علیہ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قرات والی ) نہیں ہے۔ انتہی مختصرا
خلاصتہ المرام یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنہ میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔
علمائے احناف کا فتوی!
فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ (تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 )
فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔
روایات بالا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے یوں فرمائی ہے۔
والمراد بالسنة الطریقة المالوفة عنه لا مایقابل الفریضة فانه اصطلاح عرفی حادث فقال الاشرف الضمیر المونث لقراءة الفاتحة ولیس المراد بالسنة انها لیست بواجبة بل مایقابل البدعة ای انها طریقة مرویة وقال القسطلانی انها ای قراءة الفاتحة فی الجنازة سنة ای طریقة الشارع فلا ینا فی کونها واجبة وقد علم ان قول الصحابی من السنة کذا حدیث مرفوع عند الاکثر قال الشافعی فی الام واصحاب النبی صلی الله علیه وسلم لا یقولون السنة الالسنة رسول الله علیه وسلم ان شاءالله تعالیٰ انتهٰی (مرعاۃ المفاتیح، ص:477 )
یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔
اور مؤطا امام مالک میں روایت ’’لا يقرأ في الصلاة على الجنازة ‘‘ اس بارے میں شیخ صالح العثیمن کا فتوی
وقال الحسن يقرأ على الطفل بفاتحة الكتاب ويقول اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا وأجرا.
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بچے کی نماز جنازہ میں پہلے سورئہ فاتحہ پڑھی جائے پھر یہ دعا پڑھی جائے :
اللهم اجعله لنا فرطا وسلفا واجرا
یا الله! اس بچے کو ہمارا امیر سامان کردے اور آگے چلنے والا‘ ثواب دلانے والا۔
حدیث نمبر : 1335
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، عن طلحة، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ. حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال صليت خلف ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب قال ليعلموا أنها سنة.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداءمیں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔
تشریح :
جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب ہر نماز کو شامل ہے۔
اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے:
والحق والصواب ان قراة الفاتحة فی صلوٰة الجنازة واجبة کما ذهب الیه الشافعی واحمد واسحاق وغیرهم لانهم اجمعواعلی انها صلوٰة وقد ثبت حدیث لا صلوٰة الا بفاتحة الکتاب فهی داخلة تحت العموم واخراجها منه یحتاج الی دلیل ولا نها صلوٰة یجب فیها القیام فوجبت فیها القراة کسائر الصلوات ولانه وردالامر بقراتها فقدروی ابن ماجة باسناد فیه ضعف یسیر عن ام شریک قالت امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ان نقراءعلی میتنا بفاتحة الکتاب وروی الطبرانی فی الکبیر من حدیث ام عفیف قالب امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم ان نقرا علی میتنا بفاتحة الکتاب قال الهیثمی وفیه عبدالمنعم ابوسعید وهو ضعیف انتهی۔
والا مر من ادلة الوجوب وروی الطبرانی فی الکبیر ایضا من حدیث اسماءبنت یزید قالت قال رسول الله صلی الله علیه وسلم اذا صلیتم علی الجنازة فاقر ؤا بفاتحة الکتاب قال الهیثمی وفیه معلیٰ بن حمران ولم اجد من ذکره وبقیة رجاله موثقون وفی بعضهم کلام هذا وقد صنف حسن الشر نبلانی من متاخری الحنفیة فی هذه المسئلة رسالة اسمها النظم المستطاب لحکم القراءة فی صلوٰة الجنازة ام الکتاب وحقق فیها ان القراءة اولیٰ من ترک القراءة ولا دلیل علی الکراهة وهوالذی اختاره الشیخ عبدالحی اللکهنوی فی تصانیفه لعمدة الرعایة والتعلیق الممجد وامام الکلام ثم انه استدل بحدیث ابن عباس علی الجهر بالقراءة فی الصلوٰة علی الجنازة لا نه یدل علی انه جهر بها حتی سمع ذالک من صلی معه واصرح من ذلک ماذکر ناه من روایة النسائی بلفظ صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فقرا بفاتحة الکتاب وسورة وجهر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیده فسالته فقال سنة وحق وفی روایة اخریٰ له ایضا صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فسمعته یقرا بفاتحة الکتاب الخ ویدل علی الجهر بالدعاءحدیث عوف بن مالک الاتی فان الظاهر انه حفظ الدعاءالمذکور لما جهربه النبی صلی الله علیه وسلم فی الصلوٰة علی الجنازة اصرح منه حدیث واثلة فی الفصل الثانی۔
واختلف العلماءفی ذلک فذهب بعضهم الی انه یستحب الجهر بالقراءة والدعاءفیها واستدلوا بالروایات التی ذکرناها انفا و ذهب الجمهور الی انه لا یندب الجهربل یندب الاسرار قال ابن قدامة ویسر القراءةوالدعاءفی صلوٰة الجنازة لا نعلم بین اهل العلم فیه خلا فا انتهی۔
واستدلوا لذلک بما ذکرنا من حدیث ابی امامة قال السنة فی الصلوٰة علی الجنازة ان یقرا فی التکبیرة الاولیٰ بام القرآن مخافتة لحدیث اخرجه النسائی ومن طریقه ابن حزم فی المحلیٰ ( ص:129ج:5 ) قال النووی فی شرح المهذب رواه النسائی باسناد علی شرط الصحیحین وقال ابوامامة هذا صحابی انتهی وبما روی الشافعی فی الام ( ص:239ج:1 والبیهقی ص:39ج:4 ) من طریقه عن مطرف بن مازن عن معمرعن الزهری قال اخبرنی ابوامامة بن سهل انه اخبره رجل من اصحاب النبی صلی الله علیه وسلم ان السنة فی الصلوة علی الجنازه ان یکبر الامام ثم یقرا بفاتحة الکتاب بعدالتکبیرة الاولیٰ سرا فی نفسه الحدیث وضعفت هذه الروایة بمطرف لکن قواها البیهقی بمارواه فی المعرفة والسنن من طریق عبیدالله بن ابی زیاد الرصا فی عن الزهری بمعنی روایة مطرف وبما روی الحاکم ( (ص:359،ج:1 ، والبیهقی من طریقه ص:42ج:4 ) عن شرحبیل بن سعدقال حضرت عبدالله بن مسعود صلی علی جنازة بالابواءفکبر ثم قرا بام القرآن رافعاً صوته بها ثم صلی علی النبی صلی الله علیه وسلم ثم قال اللهم عبدک وابن عبدک الحدیث وفی آخره ثم انصرف فقال یا ایها الناس انی لم اقرا علنا ( ای جهرا ) الا لتعلموا انها سنة قال الحافظ فی الفتح وشرحبیل مختلف فی توثیقه انتهی۔
واخرج ابن الجارود فی المنتقیٰ من طریق زید بن طلحة التیمی قال سمعت ابن عباس قرا علی جنازة فاتحة الکتاب وسورة وجهر بالقراءة وقال انما جهرت لاعلمکم انها سنة۔
وذهب بعضهم الی انه یخیربین الجهر والاسرار وقال بعض اصحاب الشافعی انه یجهر باللیل کاللیلة ویسربالنهار۔ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول ابن عباس انما جهرت لتعلموا انها سنة یدل علی ان جهره کان للتعلیم ای لالبیان ان الجهر بالقراءة سنة قال واما قول بعض اصحاب الشافعی یجهر باللیل کاللیلة فلم اقف علی روایة تدل علیه هذا انتهی۔ وهذا یدل علی ان الشیخ مال الی قول الجمهور ان الاسرار بالقرا ءة مندوب هذا وروایة ابن عباس عندالنسائی بلفظ فقرا بفاتحة الکتاب وسورة تدل علی مشروعیة قرا ءة سورة مع الفاتحة فی الصلوٰة الجنازة قال الشوکانی لامحیص عن المصیر الی ذلک لانها زیادة خارجة من مخرج صحیح قلت ویدل علیه ایضا ما ذکره ابن حزم فی المحلیّٰ(ص:129ج:5 )معلقا عن محمدبن عمروبن عطاءان المسور بن مخرمة صلی علی الجنازة فقرا فی التکبیر الاولیٰ بفاتحة الکتاب وسورة قصیرة رفع بهاصوته فلما فرغ قال لا اجهل ان تکون هذه الصلوة عجماءولکن اردت ان اعلمکم ان فیها قرا ءة۔ (مرعاة المفاتیح، ج:2ص:478 )
حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماءبنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔
متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءة فی صلوٰة الجنازة بام الکتاب کہا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف عمدة الرعایه اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔
پھر حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔
اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے اخرجہ النسائی۔ علامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔
شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواءشریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔
اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔
بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمتہ اللہ علیہ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قرات والی ) نہیں ہے۔ انتہی مختصرا
خلاصتہ المرام یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنہ میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔
علمائے احناف کا فتوی!
فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ (تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 )
فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔
روایات بالا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے یوں فرمائی ہے۔
والمراد بالسنة الطریقة المالوفة عنه لا مایقابل الفریضة فانه اصطلاح عرفی حادث فقال الاشرف الضمیر المونث لقراءة الفاتحة ولیس المراد بالسنة انها لیست بواجبة بل مایقابل البدعة ای انها طریقة مرویة وقال القسطلانی انها ای قراءة الفاتحة فی الجنازة سنة ای طریقة الشارع فلا ینا فی کونها واجبة وقد علم ان قول الصحابی من السنة کذا حدیث مرفوع عند الاکثر قال الشافعی فی الام واصحاب النبی صلی الله علیه وسلم لا یقولون السنة الالسنة رسول الله علیه وسلم ان شاءالله تعالیٰ انتهٰی (مرعاۃ المفاتیح، ص:477 )
یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔
اور مؤطا امام مالک میں روایت ’’لا يقرأ في الصلاة على الجنازة ‘‘ اس بارے میں شیخ صالح العثیمن کا فتوی