• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز ظہر اور عصر اور نماز فجر کے مسنون اوقات کیا ہیں ؟

رانا ابوبکر

تکنیکی ناظم
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز ظہر کا وقت کب ختم ہوتا ہے اور نماز عصر کا وقت کب شروع ہوتا ہے حدیث لکھیں۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
نماز ظہر کا وقت کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے اور نماز عصر کا وقت کب شروع ہوتا ہے حدیث لکھیں۔اسی طرح مغرب اور عشاء کا وقت کب شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے ۔

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
بھائی @رانا ابوبکر
جواب ارجنٹ چاہیے ۔آپ کا جواب اوپن نہیں ہو رہا شاید وہاں کام ہو رہا ہے کوئی اس لیے ۔

@اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔
نماز ظہر کا وقت کب شروع ہوتا ہے اور کب ختم ہوتا ہے ۔
نماز ظہر کا وقت


تحریر :
حافظ زبیر علی زئی
حدیث : عن أنس بن مالك قال : كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالظهائر سجدنا على ثيابنا اتقاء الحر
”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نمازیں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔“ [صحيح البخاري : 77/1 ح 542، واللفظ له و صحيح مسلم : 225/1 ح 220]
فوائد :
➊ اس روایت اور دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اور ظہر کی نماز اول وقت پڑھنی چاہئے۔
➋ اس پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ [الافصاح لابن هبيرة : ج1 ص 76]
➌ جن روایات میں آیا ہے کہ :

جب گرمی زیادہ ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو
ان تمام احادیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے جیسا کہ صحیح البخاری [ج 1 ص 77 ح 539] کی حدیث سے ثابت ہے، حضر (گھر، جائے سکونت) کے ساتھ نہیں۔ جو حضرات سفر والی روایات کو حدیث بالا وغیرہ کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں، ان کا موقف درست نہیں۔ انہیں چاہئے کہ یہ ثابت کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھی ہے۔ ! ؟
➍ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
”جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو۔“ [موطا امام مالك : 8/1 ح 9]
اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر والی نماز زوال سے لے کر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں، یعنی ظہر کا وقت زوال سے لے کر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے۔
◈ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے التعلیق الممجد [ص 41 حاشیہ9] میں اس موقوف اثر کا یہی مفہوم لکھا ہے، یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ اس ”اثر“ کے آخری حصہ ”فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر“ کی دیوبندی اور بریلوی دونوں فریق مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ یہ حصہ ان کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا۔
➎ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے کے لئے تیار ہو گئے، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو یہ بتایا کہ ہم ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پیچھے اول وقت میں نماز ظہر ادا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه : 323/1 ح 3271]
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور نماز عصر کا وقت کب شروع ہوتا ہے حدیث لکھیں۔
نماز عصر کا وقت

تحریر:
: حافظ زبیر علی زئی
حدیث :
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبى صلى الله عليه وسلم قال : أمني جبريل عند البيت مرتين….ثم صلى العصر حين كان كل شئ مثل ظله….. إلخ
”ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جبریل علیہ السلام نے بیت اللہ کے قریب مجھے دو دفعہ نماز پڑھائی …. پھر انہوں نے عصر کی نماز اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا.….“ الخ [جامع الترمذي : 38/1، 39 ح 149 وقال : ”حديث ابن عباس حديث حسن“]
اس روایت کی سند حسن ہے،
◈ اسے ابن خزیمہ [ح 352] ابن حبان [ح 279] ابن الجارود [ح149] الحاکم [ج1 ص 193] نے صحیح کہا ہے۔
◈ ابن عبدالبر، ابوبکر بن العربی اور النووی وغیرہم نے صحیح کہا ہے۔ [نيل المقصود فى التعليق على سنن ابي داؤد ح 393]
◈ امام بغوی اور نیموی حنفی نے حسن کہا ہے۔ [آثار السنن ص 89 ح 194]
فوائد :
➊ اس روایت اور دیگر احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے، ان احادیث کے مقابلے میں کسی ایک بھی صحیح یا حسن روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عصر کا وقت دو مثل سے شروع ہوتا ہے۔
➋ عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے، یہ ائمہ ثلاثہ (مالک، شافعی، احمد) اور قاضی ابویوسف، محمد بن حسن الشیبانی وغیرہ کا مسلک ہے۔ دیکھئے رشید احمد گنگوہی کے افادیت والی کتاب ”الکوکب الدری“ [ج1 ص 90 حاشيه] اور الاوسط لابن المنذر [329/2]
➌ سنن ابی داود کی ایک روایت ہے :

”آپ عصر کی نماز دیر سے پڑھتے تاآنکہ سورج صاف اور سفید ہوتا۔“ [65/1ح 408]
یہ روایت بلحاظ سند سخت ضعیف ہے،
محمد بن یزید الیمامی اور اس کا استاد یزید بن عبدالرحمٰن دونوں مجہول ہیں، دیکھئے تقریب التہذیب [6404، 7747]
لہٰذا ایسی ضعیف روایت کو ایک مثل والی صحیح احادیث کے خلاف پیش کرنا انتہائی غلط و قابل مذمت ہے۔
➍ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول :

”جب دومثل ہو جائے تو عصر پڑھ“ کا مطلب یہ ہے کہ دو مثل تک عصر کی ”افضل“ نماز پڑھ سکتے ہو۔ دیکھئے : [التعلیق الممجد، ص 41 حاشیہ : 9] اور [سابق حدیث : 6] ، [الحديث : 24 ص 65]
➎ ایک حدیث میں آیا ہے کہ :
یہودیوں نے دوپہر نصف النهار تک عمل کیا، عیسائیوں نے دوپہر سے عصر تک عمل کیا اور مسلمانوں نے عصر سے مغرب تک عمل کیا تو مسلمانوں کو دوہرا اجر ملا۔ [ديكهئے صحيح البخاري : 557]

بعض لوگ اس سے استدلال کر کے عصر کی نماز لیٹ پڑھتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کا دوہرا اجر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرنے والے) تمام یہود و نصاریٰ کے مجموعی مقابلے میں ہے۔
یاد رہے کہ حضرو کے دیوبندی ”دائمی نقشہ اوقات نماز“ کے مطابق سال کے دو سب سے بڑے اور سب سے چھوٹے دنوں کی تفصیل (حضرو کے وقت کے مطابق) درج ذیل ہے :
22 جون دوپہر 11۔12 مثل اول 56۔3 (فرق45۔3) غروب آفتاب 24۔7 (فرق 28۔3)
22 دسمبر دوپہر 08۔12 مثل اول 47۔2 (فرق 39۔2) غروب آفتاب 05۔5 (فرق 18۔2)
اس حساب سے بھی عصر کا وقت ظہر کے وقت سے کم ہوتا ہے لہٰذا اس حدیث سے بعض الناس کا استدلال مردود ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
نماز فجر کا مسنون وقت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عن زيد بن ثابت : أنهم تسحروا مع النبى صلى الله عليه وسلم ثم قامو إلى الصلوٰة، قلت : كم بينهما ؟ قال : قدر خمسين أو ستين، يعني آية
”زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کا کھانا کھایا۔ پھر آپ اور آپ کے ساتھی (فجر کی نماز) کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، میں (قتادہ تابعی) نے ان (انس رضی اللہ عنہ ) سے کہا: سحری اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا تھا ؟ تو انہوں نے کہا: پچاس یا ساٹھ آیات ( کی تلاوت) کے برابر۔“ [صحيح البخاري : 1؍81ح575، و اللفظ له، صحيح مسلم : 1؍350 ]
فوائد :
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی نماز جلدی اور اندھیرے میں پڑھنی چاہیئے۔
صحیح البخاری [1؍82 ح 578] و صحیح مسلم [1؍230ح 245] کی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں لکھا ہوا ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتی تھیں، جب نماز ختم ہو جاتی تو اپنے گھروں کو چلی جاتیں اور اندھیرے میں کوئی شخص بھی ہمیں اور نساء المؤمنين (مومنین کی عورتوں) کو پہچان نہیں سکتا تھا۔
➋ ترمذی کی جس روایت میں آیا ہے :
أسفر و ا بالفجر فإنه أعظم للأجر
”فجر کی نماز اسفار (جب روشنی ہونے لگے ) میں پڑھو کیونکہ اس میں بڑا اجر ہے۔ “ [ح 154 ]
وہ اس حدیث کی رو سے منسوخ ہے جس میں آیا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے رہے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے :
ثم كانت صلوٰته بعد ذالك التغليس حتيٰ مات ولم يعد إليٰ أن يسفر
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (فجر) وفات تک اندھیرے میں تھی اور آپ نے (اس دن کے بعد) کبھی روشنی میں نماز نہیں پڑھی۔“ [سنن ابي داود : 1 ؍23ح 394 وسنده صحيح، و الناسخ و المنسوخ للحازمي ص 77 ]
اسے ابن خزیمہ [ج1ص 181ح 352] ، ابن حبان [الاحسان : ج3ص 5ح 1446] ، الحاکم [ 1؍192، 193] اور خطابی نے صحیح قرار دیا ہے، اسامہ بن زید اللیثی کی حدیث حسن درجے کی ہوتی ہے۔ دیکھئے سیر اعلام النبلاء [2؍343] وغیرہ، یعنی اسامہ مذکور حسن الحدیث روای ہے۔
➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
وصل الصبح و النجوم بادية مشتبكة إلخ
”اور صبح کی نماز اس وقت پڑھو جب ستارے صاف ظاہر اور باہم الجھے ہوئے ہوں۔“ [موطأ امام مالك 1؍7ح 6 و سنده صحيح ]
ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
و الصبح بغلس ”اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي 1؍456وسنده حسن، حارث بن عمر و الهذلي لا ينزل حديثه عن درجة الحسن ]
اس فاروقی حکم کے برعکس دیوبندی و بریلوی حضرات سخت روشنی میں صبح کی نماز پڑھتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ”ہم خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔“ سبحان الله !
➍ امام ترمذی فرماتے ہیں :
وهو الذى اختاره غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم منهم أبو بكر و عمر و من بعد هم من التابعين، وبه يقول الشافعي و أحمد و إسحاق يستحبون التغليس بصلوٰة الفجر
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی نے اسے اختیار کیا ہے، ان میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے تابعین ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق (بن راہویہ) کا یہی قول ہے۔ یہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ “ [سنن الترمذي تحت ح 153 ]
تنبیہ : اس سلسلے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا صریح عمل باسند صحیح نہیں ملا۔ نیز دیکھئے شرح معانی الآثار للطحاوی [1؍181، 182] والله اعلم
➎ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ [1؍320ح 3239و سنده صحيح، ح 3240 و سنده صحيح ]
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے حکم جاری کیا کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ [1؍320ح 3237و سنده صحيح ]
➏ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو اور لمبی قرأت کرو۔ [الاوسط لابن المنذر 2؍375 و سنده صحيح، و شرح معاني الآثار 1؍181، مصنف ابن ابي شيبه 1؍320ح 3235 ]
بہتر یہی ہے کہ صبح کی نماز اندھیرے میں شروع کی جائے اور اس میں لمبی قرأت کی جائے۔
ہمارے ہاں دیوبندی حضرات صبح کی نماز رمضان میں سخت اندھیرے میں پڑھتے ہیں، اور باقی مہینوں میں خوب روشنی کر کے پڑھتے ہیں، پتا نہیں فقہ کا وہ کون سا کلیہ یا جزئیہ ہے جس سے وہ اس تفریق پر عامل ہیں، چونکہ سحری کے بعد سونا ہوتا ہے اس لئے وہ فریضہ نماز جلدی ادا کرتے ہیں۔ یہ عمل وہ اتباع سنت کے جذبہ سے نہیں کرتے کیونکہ بدعتی شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں دیتا۔
٭٭٭
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
علامہ عبد الجبار محدث کھنڈیلوی
نمازِ عصر کا وقت ایک مثل پر
نماز عصر کا وقت ایک مثل پر

'اوقات' میں موضوعات آغاز کردہ از شاکر, ‏فروری 17، 2014

''عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال قال رسول اللہ ﷺ امنی جبرائیل عند البیت مرّتین فصلّٰی بی الظہر حین زالت الشمس وکانت قدر الشراک و صلی بی العصر حین صار ظل کل شئی مثلہ ''۔ (رواہ ابوداؤد و الترمذی (مشکوٰۃ ص:۵۹ج۱)
''روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری جبرائیل نے امامت کرائی بیت اللہ کے پاس دو مرتبہ، تو انہوں نے نماز پڑھائی مجھ کو ظہر کی جب کہ سورج ڈھل گیا اور سایہ بقدرتسمہ جوتی کے ہو گیا تھا، اور نماز پڑھائی مجھ کو عصر کی جب سایہ ہر چیز کا اس کے برابر ہو گیا تھا''۔

یہ حدیث صریح دلالت کر تی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل پر ہو جاتا ہے، جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو عصر کی نماز ایک مثل ہو جانے پر پڑھائی۔ قرآن مجید میں جہاں اور نمازوں کی محا فظت کی تاکید فرمائی ہے، وہاں عصر کی نماز کی خصوصیت سے تاکید فرمائی ہے۔

قال اللہ تعالیٰ: ''حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ''(البقرۃ:۲۳۸)۔
''مسلمانو! تمام نمازوں کی محافظت کرو اور خاص کر نماز وسطیٰ( عصر )کی''۔

ظاہر ہے کہ نمازوں کی حفاظت ان کے اوقات کی بھی محافظت ہے۔چنانچہ آنحضرت ﷺ عشاء کی نماز کے علاوہ اور سب نماز پنجگانہ اول وقت پر پڑھتے تھے۔ چنانچہ سید الطائفہ احنافِ دیوبند مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

''ہاں وقت مثل، بندہ کے نزدیک زیادہ قوی ہے۔روایت حدیث سے ثبوت مثل کا ہوتا ہے۔دو مثل کا ثبوت حدیث سے نہیں، بناء علیہ ایک مثل پر عصر ہو جاتی ہے۔گو احتیاط دوسری روایت میں ہے''۔(مکاتیب رشیدیہ ص: ۲۲)

نیز مولانا موصوف اپنے فتاویٰ رشیدیہ ص۹۸ میں ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

''ایک مثل کا مذہب قوی ہے ،لہٰذا اگر ایک مثل پر عصر پڑھے تو ادا ہو جاتی ہے۔اعادہ نہ کرے ''۔و اللہ تعالیٰ اعلم۔

نیز آپ کی سوانح عمری ''تذکرۃ الرشید'' کے ص:۱۴۶؍ج۱ میں لکھا ہے:
''کہ بعد ایک مثل کے وقت عصر ہو جانا مذہب صاحبین اور ائمہ ثلاثہ علیہم الرحمۃ کا ہے''

یہی مولانا موصوف اپنے ''مکاتیب رشیدیہ'' ص:۸۹ میں دربارۂ مذاہب ائمہ ثلاثہ امام شافعی ،امام مالک، و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ لکھتے ہیں:
''مذاہب سب حق ہیں مذہب شافعی پر عند الضرورت عمل کر نا کچھ اندیشہ نہیں، مگر نفسانیت اور لذت نفسانی سے نہ ہو، عذر یا حجت شرعیہ سے ہو کچھ حرج نہیں۔ سب مذاہب کو حق جانے، کسی پر طعن نہ کرے سب کو اپنا امام جانے''۔

بنابریں بقول مولانا جب عصر کا وقت مثل پر ہو نا امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ کا مذہب ہوا، تو اب اس کے حق و صحیح ہو نے میں کیا شک و شبہ ہے ،بلکہ یہی مذہب امام ابو یوسف و امام احمد و امام ابو حنیفہ علیہم الرحمۃ کا ایک روایت سے ثابت ہے، جیسا کہ شامی و غیرہ کتب فقہ میں لکھا ہے۔

مولانا شوق نیموی رحمہ اللہ حنفی محدث احنافِ دیوبند لکھتے ہیں:
''انی لم اجد حدیثاً صحیحاً او ضعیفاً یدل علی ان وقت الظہر الی ان یصیر الظل مثلیہ و عن الامام ابی حنیفۃ قولان''۔ (آثار السنن عربی:ص۴۳؍ج۱)
'' میں نے کوئی حدیث صحیح یا ضعیف ایسی نہیں پائی جس سے یہ ثابت ہو کہ ظہر کا وقت دو مثل تک رہتا ہے ،بلکہ امام ابو حنیفہ سے بھی اس مسئلہ میں دو روایتیں ہیں (ایک روایت دو مثل اور دوسری روایت ایک مثل کی )۔

مولانا قاضی رحمت اللہ صاحب راندیری حنفی دیوبندی فر ماتے ہیں:
''والانصاف فی ھٰذا المقام ان احادیث المثل صریحۃ صحیحۃ و اخبار المثلین انما ذکرفی تو جیہ احادیث استنبط منھا ھٰذا الامروا لامر المستنبط لا یعارض الصریح ''۔(کحل البصر فی ذکر وقت العصر:ص۹)
''انصاف یہی ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل پر ہو نا احادیث صریحہ صحیحہ سے ثابت ہے اور جو روایات مثلین کی ہیں وہ غیر صریح ہیں۔صرف استنباطی طور سے ان روایات سے مثلین کو ثابت کیا جاتا ہے اور یہ (مسلم اصول ہے)کہ امر مستنبط، امر صریح کا معارض نہیں ہو سکتا ''۔

معلوم ہوا کہ ایک مثل پر عصر کا وقت ہو جاتا ہے جیسا کہ اہل حدیث کا عمل ہے۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
فجزاکم اللہ و واحسن الجزا فی الدارین بارک اللہ فی علمک و عملک آمین
 
Top