نماز فجر کا مسنون وقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن زيد بن ثابت : أنهم تسحروا مع النبى صلى الله عليه وسلم ثم قامو إلى الصلوٰة، قلت : كم بينهما ؟ قال : قدر خمسين أو ستين، يعني آية
”زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کا کھانا کھایا۔ پھر آپ اور آپ کے ساتھی (فجر کی نماز) کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، میں (قتادہ تابعی) نے ان (انس رضی اللہ عنہ ) سے کہا: سحری اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا تھا ؟ تو انہوں نے کہا: پچاس یا ساٹھ آیات ( کی تلاوت) کے برابر۔“ [صحيح البخاري : 1؍81ح575، و اللفظ له، صحيح مسلم : 1؍350 ]
فوائد :
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی نماز جلدی اور اندھیرے میں پڑھنی چاہیئے۔
صحیح البخاری [1؍82 ح 578] و صحیح مسلم [1؍230ح 245] کی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں لکھا ہوا ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھتی تھیں، جب نماز ختم ہو جاتی تو اپنے گھروں کو چلی جاتیں اور اندھیرے میں کوئی شخص بھی ہمیں اور نساء المؤمنين (مومنین کی عورتوں) کو پہچان نہیں سکتا تھا۔
➋ ترمذی کی جس روایت میں آیا ہے :
أسفر و ا بالفجر فإنه أعظم للأجر
”فجر کی نماز اسفار (جب روشنی ہونے لگے ) میں پڑھو کیونکہ اس میں بڑا اجر ہے۔ “ [ح 154 ]
وہ اس حدیث کی رو سے منسوخ ہے جس میں آیا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے رہے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے :
ثم كانت صلوٰته بعد ذالك التغليس حتيٰ مات ولم يعد إليٰ أن يسفر
”پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (فجر) وفات تک اندھیرے میں تھی اور آپ نے (اس دن کے بعد) کبھی روشنی میں نماز نہیں پڑھی۔“ [سنن ابي داود : 1 ؍23ح 394 وسنده صحيح، و الناسخ و المنسوخ للحازمي ص 77 ]
اسے ابن خزیمہ [ج1ص 181ح 352] ، ابن حبان [الاحسان : ج3ص 5ح 1446] ، الحاکم [ 1؍192، 193] اور خطابی نے صحیح قرار دیا ہے، اسامہ بن زید اللیثی کی حدیث حسن درجے کی ہوتی ہے۔ دیکھئے سیر اعلام النبلاء [2؍343] وغیرہ، یعنی اسامہ مذکور حسن الحدیث روای ہے۔
➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
وصل الصبح و النجوم بادية مشتبكة إلخ
”اور صبح کی نماز اس وقت پڑھو جب ستارے صاف ظاہر اور باہم الجھے ہوئے ہوں۔“ [موطأ امام مالك 1؍7ح 6 و سنده صحيح ]
ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
و الصبح بغلس ”اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔“ [السنن الكبريٰ للبيهقي 1؍456وسنده حسن، حارث بن عمر و الهذلي لا ينزل حديثه عن درجة الحسن ]
اس فاروقی حکم کے برعکس دیوبندی و بریلوی حضرات سخت روشنی میں صبح کی نماز پڑھتے ہیں اور پھر یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ”ہم خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔“ سبحان الله !
➍ امام ترمذی فرماتے ہیں :
وهو الذى اختاره غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم منهم أبو بكر و عمر و من بعد هم من التابعين، وبه يقول الشافعي و أحمد و إسحاق يستحبون التغليس بصلوٰة الفجر
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کئی نے اسے اختیار کیا ہے، ان میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد کے تابعین ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق (بن راہویہ) کا یہی قول ہے۔ یہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ “ [سنن الترمذي تحت ح 153 ]
تنبیہ : اس سلسلے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا صریح عمل باسند صحیح نہیں ملا۔ نیز دیکھئے شرح معانی الآثار للطحاوی [1؍181، 182] والله اعلم
➎ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری اور سیدنا عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ [1؍320ح 3239و سنده صحيح، ح 3240 و سنده صحيح ]
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے حکم جاری کیا کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ [1؍320ح 3237و سنده صحيح ]
➏ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو اور لمبی قرأت کرو۔ [الاوسط لابن المنذر 2؍375 و سنده صحيح، و شرح معاني الآثار 1؍181، مصنف ابن ابي شيبه 1؍320ح 3235 ]
بہتر یہی ہے کہ صبح کی نماز اندھیرے میں شروع کی جائے اور اس میں لمبی قرأت کی جائے۔
ہمارے ہاں دیوبندی حضرات صبح کی نماز رمضان میں سخت اندھیرے میں پڑھتے ہیں، اور باقی مہینوں میں خوب روشنی کر کے پڑھتے ہیں، پتا نہیں فقہ کا وہ کون سا کلیہ یا جزئیہ ہے جس سے وہ اس تفریق پر عامل ہیں، چونکہ سحری کے بعد سونا ہوتا ہے اس لئے وہ فریضہ نماز جلدی ادا کرتے ہیں۔ یہ عمل وہ اتباع سنت کے جذبہ سے نہیں کرتے کیونکہ بدعتی شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے پیارے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں دیتا۔
٭٭٭