• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز ميں امامت كا زيادہ حقدار كون ہے ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نماز ميں امامت كا زيادہ حقدار كون ہے ؟

ميرى خواہش ہے كہ جواب قرآن و احاديث كے دلائل پر مشتمل ہو .
دوسرا سوال:

كيا اذكار كے دوران " الا اللہ " كہنا جائز ہے ؟ اور اس ذكر كا معنى كيا ہے ؟


الحمد للہ:

اول:

لوگوں ميں امامت سب سے زيادہ امامت كا حقدار وہ شخص ہے جو نماز كے احكام كا عالم اور قرآن مجيد كا حافظ ہو.

ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" لوگوں كى امامت وہ كروائے جو قرآن مجيد كا سب سے زيادہ قارى ہو اور اگر وہ اس ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كو سب سے زيادہ جاننے والا شخص امامت كروائے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1530 ).


" سب سے زيادہ قارى " بہترين قرآت مرادا نہيں، بلكہ اس سے مراد كتاب اللہ كا حافظ ہے، اس كى دليل عمرو بن سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے جس ميں ہے كہ: چنانچہ ميں سب سے زيادہ كلام ـ يعنى قرآن مجيد ـ كا حافظ تھا، گويا كہ وہ ميرے سينہ ميں قرار پائے ہوئے تھا، اور جب فتح مكہ ہوا تو لوگ جوق در جوق اسلام قبول كرنے لگے، اور ميرے والد بھى اپنى قوم كے ساتھ مسلمان ہو گئے، جب وہ واپس آئے تو كہنے لگے:

اللہ كى قسم ميں تمہارے پاس نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ہاں سے حق لايا ہوں، چنانچہ انہوں نے فرمايا ہے كہ اس وقت اتنى نماز اور اس وقت اتنى نماز ادا كرو، اور جب نماز كا وقت ہو جائے تو تم ميں سے كوئى ايك شخص اذان كہے اور تمہارى جماعت وہ كرائے جو شخص سب سے زيادہ حافظ قرآن ہو، چنانچہ انہوں نے ديكھا كہ ميرے علاوہ كوئى اور زيادہ قرآن كا حافظ نہيں، كيونكہ ميں قافلوں كو ملتا اور ان سے قرآن ياد كيا كرتا تھا، چنانچہ انہوں نے مجھے امامت كے ليے آگے كر ديا، جبكہ اس وقت ميرى عمر ابھى چھ يا سات برس تھى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4051 ).


ہم نے يہ اس ليے كہا ہے كہ وہ نماز كے احكام كا علم ركھتا ہو، كيونكہ ہو سكتا ہے اسے نماز ميں كوئى مسئلہ پيش ہو مثلا وضوء ٹوٹ جائے، يا كوئى ركعت رہ جائے اور اسے اس سے نپٹنا بھى نہ آئے، جس كى بنا پر وہ غلطى كر بيٹھے اور دوسروں كى نماز ميں بھى نقص پيدا كرے، يا اسے باطل ہى كر بيٹھے.

سابقہ حديث سے بعض علماء كرام نے استدلال كيا ہے كہ امامت كے ليے اسے آگے كيا جائے تو زيادہ سمجھ ركھتا ہو، اور فقيہ ہو.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

امام مالك اور شافعى اور ان كے اصحاب كا كہنا ہے:

حافظ قرآن پر افقہ جو زيادہ فقيہ ہو مقدم ہے؛ كيونكہ قرآت ميں سے جس كى ضرورت ہے اس پر تو وہ مضبوط ہے، اور فقہ ميں سے اسے جس چيز كى ضرورت ہے اس ميں مضبوط نہيں، اور ہو سكتا ہے نماز ميں اسے كچھ معاملہ پيش آ جائے جس كو صحيح كرنے كى اس ميں قدرت نہ ہو، ليكن جو كامل فقہ والا ہے وہ صحيح كر لے گا.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كو نماز ميں امامت كے ليے باقى صحابہ سے مقدم كيا حالانكہ صحابہ ميں كئى ايك ان سے بھى زيادہ حافظ اور قارى تھے.

اور وہ حديث كا جواب يہ ديتے ہيں كہ صحابہ كرام ميں سے زيادہ حافظ و قارى ہى افقہ يعنى زيادہ فقيہ تھے، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان:

" اگر وہ قرآت ميں سب برابر ہوں تو پھر سنت كا سب سے زيادہ عالم "

اس بات كى دليل ہے كہ مطلقا زيادہ قارى و حافظ ہى مقدم ہو گا.

ديكھيں: الشرح مسلم للنووى ( 5 / 177 ).

چنانچہ نووى رحمہ اللہ تعالى كى اگرچہ ان كے امام شافعى رحمہ اللہ تعالى نے استدلال حديث ميں ان كى مخالفت كى ہے، ليكن ان كى كلام كا اعتبار اس اساس پر ہے كہ صحابہ كرام ميں كوئى بھى ايسا نہيں تھا جو قرآت اور قرآن مجيد كا اچھى طرح حافظ ہو اور اسے شرعى احكام كا علم نہ ہو، جيسا كہ آج كے ہمارے دور ميں اكثر لوگوں كى حالت ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اگر ان دونوں ميں سے ايك شخص نماز كے احكام كا زيادہ علم ركھے، اور دوسرا شخص نماز كے علاوہ باقى دوسرے معاملات ميں زيادہ علم ركھتا ہو تو نماز كے احكام جاننے والے كو مقدم كيا جائيگا.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 19 ).

مستقل فتوى كميٹى كا كہنا ہے:

.... جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جاہل شخص كى امامت صحيح نہيں الا يہ كہ امامت كا اہل شخص نہ ہونے كى صورت ميں وہ اپنى طرح جاہل لوگوں كى امامت كرائے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 264 ).

دوم:

ہميں سوال كى سمجھ نہيں آئى كہ اس سے كيا مراد ليا جا گيا ہے، اور " الا اللہ " كے اكيلے الفاظ كوئى ذكر اور دعاء نہيں، اور نہ ہى شريعت ميں كسى دعاء اور ذكر ميں الا اللہ كے اكيلے الفاظ وارد ہيں، بلكہ يہ الفاظ تو دوسرے الفاظ كے ساتھ مل كر آئے ہيں مثلا:

" لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد ، وهو على كل شيء قدير "

اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، وہ اكيلا ہے، اس كا كوئى شريك نہيں، اسى كى بادشاہى اور تعريف ہے، اور وہ ہر چيز پر قادر ہے.

اس كے علاوہ بھى بہت سى دعاؤں ميں يہ الفاظ آئے ہيں.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب

https://islamqa.info/ur/20219
 
Top