• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں رفع الیدین کرنے کی احادیث

شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
نماز میں رفع الیدین کرنے کی احادیث

دلیل نمبر 1: حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ (تین مقامات والی روایت)
Sahih Bukhari Hadees # 735
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا ، كَذَلِكَ أَيْضًا ، وَقَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
یہ حدیث صحیح ہے اور اس حدیث کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کیوں کہ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔
امام حافظ بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ:
ھذا حدیث متفق علی صحته
[دیکھیے شرح السنہ للبغوی 20/3]
نیز امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور دیگر کہیں محدثین نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
معلوم ہوا کہ یہ حدیث بالاتفاق صحیح ہے اور نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کی زبردست دلیل ہے


✿ دلیل نمبر 2: حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ (چار مقامات والی روایت)
Sahih Bukhari Hadees # 739
حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مُخْتَصَرًا .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تب بھی ( رفع یدین کرتے ) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ (دو رکعتوں) سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ ( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ )
امام بخاری نے اس حدیث کو الصحیح میں ذکر کیا یعنی یہ روایت صحیح ہے اور امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی شرح السنہ (21/3) میں صحیح کہا۔
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت پر یہ اعتراض وارد کیا کہ عبد الاعلی کو اس روایت کو مرفوع بیان کرنے میں خطا لگی ہے۔
لیکن حافظ ابن حجر کی بات صحیح نہیں ہے کیوں کہ نافع نے اس حدیث کو موقوف اور مرفوع دونوں طرح بیان کیا ہے۔ اور عبد الاعلی کا یہاں موقوف کے ساتھ ساتھ اس روایت کو مرفوع بیان کرنا ایک زیادت ہے۔ اور یہاں قرائن کی روشنی میں یہ زیادت مقبول ہے
اس کے کہیں قرائن ہیں۔
پہلا قرینہ:
عبد الاعلی ثقہ متقن (پچتہ کار) راوی ہے۔
چنانچہ امام ابن حبان عبد الاعلی کے متعلق کہتے ہیں کہ
متقناً فی الحدیث
[دیکھیے الثقات 130/7]
معلوم ہوا یہ ثقہ متقن یعنی اوثق راوی ہے۔
اور زیادت ثقہ کی مقبولیت کے قرائن میں سے ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ ثقہ متقن کی طرف سے زیادت مقبول ہوتی ہے۔
دوسرا قرینہ یہ ہے کہ ابن حجر رح کے مقابلہ میں دیگر محدثین نے اس زیادت کو قبول کیا ہے مثلا امام بخاری، امام بغوی وغیرھما۔
تیسرا قرینہ یہ ہے کہ عبد الاعلی کی روایت کے شواہد بھی ہیں جو تائید کرتے ہیں کہ یہاں عبد الاعلی کی زیادت مقبول ہو گی
نافع نے جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے چار مقامات والے رفع الیدین کی مرفوع حدیث نقل کی ہے اس پر نافع کی متابعت سالم نے کر رکھی ہے
چنانچہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
حدثنا الصنعاني، أنا المعتمر قال: سمعت عبيد الله، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يرفع يديه إذا دخل في الصلاة، وإذا أراد أن يركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وإذا قام من الركعتين، يرفع يديه في ذلك كله حذو المنكبين "
[دیکھیے ابن خزیمہ حدیث 693]
اسی طرح محارب بن دثار نے بھی دو رکعات کے بعد والے رفع الیدین کی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے
Sunnan e Abu Dawood Hadees # 743
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْمُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتیں پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے ) کھڑے ہوتے، تو«الله اكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے۔
معلوم ہوا عبد الاعلی منفرد نہیں اپنی روایت میں بلکہ دیگر سندیں بھی ہیں جو واضح دلیل ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے چار رکعات والا رفع الیدین بیان کیا ہے۔
لہذا اگر عبد الاعلی کی اس روایت کو خطا بھی مان لیا جائے تو محارب بن دثار اور سالم دونوں تابعین سے صحیح سند کے ساتھ ابن عمر رض سے چار مقامات والی رفع الیدین کی حدیث مروی ہے


دلیل نمبر 3، 4: حدیث ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حدیث عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
(۲۵۱۹) أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصفار الزاهد إملاء من أصل كتابه قال: قال أبو إسماعيل محمد بن إسماعيل السلمي: " صليت خلف أبي النعمان محمد بن الفضل فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع "، فسألته عن ذلك، فقال: " صليت خلف حماد بن زيد فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع " فسألته عن ذلك، فقال: " صليت خلف أيوب السختياني فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع "، فسألته، فقال: " رأيت عطاء بن أبي رباح يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع "، فسألته، فقال: " صليت خلف عبد الله بن الزبير، فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع "، فسألته، فقال عبد الله بن الزبير ": صليت خلف أبي بكر الصديق رضي الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع " وقال أبو بكر: صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، " فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع " رواته ثقات
(٢٥١٩) ابواسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی فرماتے ہیں کہ میں نے ابو نعمان محمد بن فضل کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت رفع یدین کیا اور رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کیا۔ میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے حماد بن زید کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کیا تو میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ایوب سختیانی کے پیچھے نماز پڑھی ، وہ بھی نماز شروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے عطا بن ابی رباح کو دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو عبداللہ بن زبیر (رض) نے فرمایا : میں نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ بھی نماز کے شروع میں اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے اور ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی رفع یدین کرتے تھے۔ (امام بیھقی فرماتے ہیں کہ) اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ہیں۔
[ سنن کبری للبیہقی جلد دوم صفحہ 107 حدیث 2519]
یہ حدیث مسلسل بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اور سند بھی صحیح ہے
یہ حدیث اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا۔ کیوں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آخری نمازیں بھی پڑھی ہیں۔ تو اس سلسلے میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے سب زیادہ با خبر تھے اور پھر حدیث بھی بیان کی اور پھر رفع الیدین والی حدیث پر سیدنا ابو بکر صدیق کا عمل بھی تھا اور پھر اسی پر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا عمل تھا اور اسی حدیث مسلسل میں تابعی، تب تابع کا بھی عمل ہے۔
اگر رفع الیدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ہوتا تو ابو بکر صدیق چھوڑ دیتے، ابو بکر رض نے چھوڑا ہوتا تو ابن زبیر رض چھوڑ دیتے۔ لیکن پتا کیا چلا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رفع الیدین پر عمل کیا وہ عامل رہے اس رفع الیدین پر، یعنی رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رفع الیدین منسوخ ہو گیا یہ حدیث ان کے دعوی کو باطل ثابت کرتی ہے


دلیل نمبر 5: سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث
Sahih Bukhari Hadees # 737
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الْوَاسِطِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا .
جب مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت بھی رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے نیز یہ حدیث بخاری و مسلم کی ہے اور یہ حدیث نماز شروع کرتے وقت رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کی زبر دست دلیل ہے


دلیل نمبر 6: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث
Sahih Muslim Hadees # 896
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، وَمَوْلًى لَهُمْ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ: أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ، - وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ - ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنَ الثَّوْبِ، ثُمَّ رَفَعَهُمَا، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ، فَلَمَّا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ فَلَمَّا، سَجَدَ سَجَدَ بَيْنَ كَفَّيْهِ
ہمام نے کہا : ہمیں محمد بن جحادہ نے حدیث سنائی ، کہا : مجھے عبد الجبار بن وائل نے حدیث سنائی ، انہوں نے علقمہ بن وائل اور ان کے آزادہ کردہ غلام سے روایت کی کہ ان دونوں نے ان کے والد حضرت وائل بن حجر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے نبیﷺ کو دیکھا ، آپ نے نماز میں جاتے وقت اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ، تکبیر کہی ( ہمام نے بیان کیا : کانوں کے برابر بلند کیے ) پھر اپنا کپڑا اوڑھ لیا ( دونوں ہاتھ کپڑے کے اندر لے گئے ) ، پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا ، پھر جب رکوع کرنا چاہا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے ، پھر انہیں بلند کیا ، پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا ، پھر جب سمع الله لمن حمده کہا تو اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے ، پھر جب سجدہ کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا ۔
اس حدیث کی سند بھی بالکل صحیح ہے امام مسلم اور دیگر محدثین نے اسے صحیح قرار دیا ہے


✿دلیل نمبر 7: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث
امام ابو یعلی فرماتے ہیں کہ
حدثنا أبو بكر، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، عن حميد، عن أنس قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وإذا ركع، وإذا رفع رأسه من الركوع»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے
[دیکھیے مسند ابی یعلی حدیث 3793 واسنادہ صحیح ]


دلیل نمبر 8: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت
Sunnan e Abu Dawood Hadees # 738
"حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْاللَّيْثِ،ثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ جَعَلَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا رَفَعَ لِلسُّجُودِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ".
"ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے تکبیر تحریمہ کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب رکوع سے سجدے میں جانے کے لیے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے، اور جب دو رکعت پڑھ کر (تیسری رکعت کے لیے) کھڑے ہوتے تو بھی اسی طرح کرتے۔
[ سنن ابو داود حدیث 738، صحیح ابن خزیمہ حدیث 694، 695 واسنادہ صحیح]
اس حدیث کی سند بالکل صحیح ہے ابن جریج نے سماع کی تصریح صحیح ابن خزیمہ (حدیث 695) میں کی ہوئی ہے



دلیل نمبر 9: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث
Jam e Tirmazi Hadees # 3423
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ:‏‏‏‏ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَصْنَعُ ذَلِكَ أَيْضًا إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَصْنَعُهَا إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ وَهُوَ قَاعِدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا قَامَ مِنْ سَجْدَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ كَذَلِكَ فَكَبَّرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ حِينَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بَعْدَ التَّكْبِيرِ:‏‏‏‏ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏سُبْحَانَكَ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ‏‏‏‏‏‏ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، ‏‏‏‏‏‏لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مَنْجَا وَلَا مَلْجَأَ إِلَّا إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقْرَأُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَكَعَ كَانَ كَلَامُهُ فِي رُكُوعِهِ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ رَبِّي خَشَعَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعَظْمِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُتْبِعُهَا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَجَدَ قَالَ فِي سُجُودِهِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ رَبِّي سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ عِنْدَ انْصِرَافِهِ مِنَ الصَّلَاةِ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَهِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ الشَّافِعِيِّ وَبَعْضُ أَصْحَابِنَا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ لَا يَرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ يَقُولُ:‏‏‏‏ هَذَا فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ وَلَا يَقُولُهُ فِي الْمَكْتُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْت أَبَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي التِّرْمِذِيَّ، ‏‏‏‏‏‏مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل بْنِ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ الْهَاشِمِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَذَا عِنْدَنَا مِثْلُ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے برابر اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) ، اور ایسا اس وقت بھی کرتے تھے جب اپنی قرأت پوری کر لیتے تھے اور رکوع کا ارادہ کرتے تھے، اور ایسا ہی کرتے تھے جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے ۱؎، بیٹھے ہونے کی حالت میں اپنی نماز کے کسی حصے میں بھی رفع یدین نہ کرتے تھے، پھر جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اسی طرح، پھر تکبیر ( اللہ اکبر ) کہتے اور نماز شروع کرتے وقت تکبیر ( تحریمہ ) کے بعد پڑھتے: «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين اللهم أنت الملك لا إله إلا أنت سبحانك أنت ربي وأنا عبدك ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت لبيك وسعديك أنا بك وإليك ولا منجا ولا ملجأ إلا إليك أستغفرك وأتوب إليك» ( یہ دعا پڑھنے کے بعد ) پھر قرأت کرتے، رکوع میں جاتے، رکوع میں آپ یہ دعا پڑھتے: «اللهم لك ركعت وبك آمنت ولك أسلمت وأنت ربي خشع سمعي وبصري ومخي وعظمي لله رب العالمين» پھر جب آپ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو کہتے: «سمع الله لمن حمده»،‏‏‏‏ «سمع الله لمن حمده» کہنے کے فوراً بعد آپ پڑھتے: «اللهم ربنا ولك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما شئت من شيء» اس کے بعد جب سجدہ کرتے تو سجدوں میں پڑھتے: «اللهم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت وأنت ربي سجد وجهي للذي خلقه وشق سمعه وبصره تبارك الله أحسن الخالقين» ۔ اور جب نماز سے سلام پھیرنے چلتے تو ( سلام پھیرنے سے پہلے ) پڑھتے: «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت أنت إلهي لا إله إلا أنت» ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسی پر عمل ہے امام شافعی اور ہمارے بعض اصحاب کا، ۳- امام احمد بن حنبل ایسا خیال نہیں رکھتے، ۴- اہل کوفہ اور ان کے علاوہ کے بعض علماء کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نفلی نمازوں میں پڑھتے تھے نہ کہ فرض نمازوں میں ۲؎ ۳- میں نے ابواسماعیل ترمذی محمد بن اسماعیل بن یوسف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے سلیمان بن داود ہاشمی کو کہتے ہوئے سنا، انہوں نے ذکر کیا اسی حدیث کا پھر کہا: یہ حدیث میرے نزدیک ایسے ہی مستند اور قوی ہے، جیسے زہری کی وہ حدیث قوی و مستند ہوتی ہے جسے وہ سالم بن عبداللہ سے اور سالم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔

یہ روایت صحیح ہے یا کم از کم حسن ہے۔ اس حدیث کا راوی عبد الرحمن بن ابی زناد جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق اور حسن الحدیث راوی ہیں۔ البتہ جب آپ عراق گئے تو آپ کے حافظے میں تغیر واقع ہو گیا۔ ان پر جرح اسی صورت پر محمول ہے
زیر بحث روایت ابن ابی زناد کی سلیمان بن داود الھاشمی کے حوالہ سے ہے
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
وقد نظرت فيما روى عنه سليمان بن داود الهاشمي فرأيتها مقاربة
[تاریخ بغداد ت بشار عواد 496/4]
معلوم ہوا اگر روایت سلیمان بن داود الھاشمی کے حوالہ سے ہو تو حدیث ٹھیک ہے اس میں کوئی خرابی نہیں
جن محدثین نے اسے مضطرب الحدیث یا سی الحفظ وغیرہ قرار دیا ہے اس جروحات کا تعلق عراق و بغداد والی روایات کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے صراحت کر دی [دیکھیے تاریخ بغداد 496/4]


دلیل نمبر 10: جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث
Sunnan e Ibn e Maja Hadees # 868
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو حُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهكَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا رَكَعَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَفَعَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ يَدَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ .
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کے لیے جاتے، یا رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح کرتے ( یعنی رفع یدین کرتے ) اور کہتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابراہیم بن طہمان ( راوی حدیث ) نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں تک اٹھا کر بتایا
یہ حدیث صحیح ہے اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
امام بیھقی رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ
ھو حدیث صحیح رواته عن آخرھم ثقات
یہ حدیث صحیح ہے اس حدیث کے آخر تک تمام رواۃ ثقہ ہیں
[دیکھیے الخلافیات تحت حدیث 1675]


دلیل نمبر 11: حدیث ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ
امام دار قطنی فرماتے ہیں کہ
1109 - حَدَّثَنَا دَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شِيرَوَيْهِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنِ الأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.
1109 ۔ حضرت ابوموسی اشعری (رض) نے ارشاد فرمایا، کیا میں تم لوگوں کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کے طریقے کے مطابق (نماز ادا کرکے) دکھاؤں ؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ بلند کیے پھر تکبیر کہی اور رکوع میں جانے سے پہلے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ، پڑھا تو دونوں ہاتھ بلند کیے (نماز سے فارغ ہونے کے بعد ) انہوں نے فرمایا، اسی طرح تم لوگ کرو۔(راو ی کہتے ہیں : ) انہوں نے دونوں سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کیا۔
[ سنن دار قطنی جلد دوم حدیث 1109 واسنادہ صحیح]


دلیل نمبر 12: سیدنا ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ کی حدیث
Sunnan e Abu Dawood Hadees # 730
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَو بْنِ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ:‏‏‏‏ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَلِمَ فَوَاللَّهِ ؟ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ فَاعْرِضْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقْرَأُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُ أَكْبَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ صَدَقْتَ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
میں نے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کرام کے درمیان جن میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے کہتے سنا: میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: وہ کیسے؟ اللہ کی قسم آپ ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے، نہ ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے ( لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے ) اس پر لوگوں نے کہا: ( اگر آپ زیادہ جانتے ہیں ) تو پیش کیجئیے۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر تکبیر ( تکبیر تحریمہ ) کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر سیدھی ہو جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآت کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کر لیتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور رکوع میں پیٹھ اور سر سیدھا رکھتے، سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ ہی پیٹھ سے بلند رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور «سمع الله لمن حمده» کہتے، پھر اپنا دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ سیدھا ہو کر انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کرتے پھر «الله أكبر» کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور اپنے بائیں پیر کو موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں پیر کی انگلیوں کو نرم رکھتے اور ( دوسرا ) سجدہ کرتے پھر «الله أكبر» کہتے اور ( دوسرے سجدہ سے ) اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر واپس آ جاتی، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو «الله أكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے جس طرح کہ نماز شروع کرنے کے وقت «الله أكبر» کہا تھا، پھر اپنی بقیہ نماز میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب اس سجدہ سے فارغ ہوتے جس میں سلام پھیرنا ہوتا، تو اپنے بائیں پیر کو اپنے داہنے پیر کے نیچے سے نکال کر اپنی بائیں سرین پر بیٹھتے ( پھر سلام پھیرتے ) ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: آپ نے سچ کہا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔
[ واسنادہ صحیح و صححه الترمذی وابن حبان وابن خزیمہ وغیرھما ]

------------------------------------------------------
وما علینا الا البلاغ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
دلیل نمبر 1: حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ (تین مقامات والی روایت)
Sahih Bukhari Hadees # 735
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا ، كَذَلِكَ أَيْضًا ، وَقَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے «الله اكبر» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے ( رفع یدین کرتے ) اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے «سمع الله لمن حمده،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ربنا ولك الحمد» کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
یہ حدیث صحیح ہے اور اس حدیث کی صحت پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کیوں کہ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔
امام حافظ بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ:
ھذا حدیث متفق علی صحته
[دیکھیے شرح السنہ للبغوی 20/3]
نیز امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان اور دیگر کہیں محدثین نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے
معلوم ہوا کہ یہ حدیث بالاتفاق صحیح ہے اور نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنے کی زبردست دلیل ہے
یہ حدیث شوافع اور حنابلہ کی دلیل ہے نام نہاد اہلحدیثوں کی نہیں۔اس کو تم لوگ صرف دھوکہ دہی اور خانہ پری کے لئے لکھتے ہو۔
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
یہ حدیث شوافع اور حنابلہ کی دلیل ہے نام نہاد اہلحدیثوں کی نہیں۔اس کو تم لوگ صرف دھوکہ دہی اور خانہ پری کے لئے لکھتے ہو۔

الحمدللہ یہ ہمارے اہل حدیثوں کے دلائل ہیں بالکل۔
اگر ان دلائل میں سے کسی پر آپ کو کوئی اعتراض ہے تو بتائیں اس کا جواب بھی دے دیا جائے گا ان شاءاللہ العزیز

اگر نہیں ہے اعتراض تو پھر آپ کب سے رفع الیدین کرنا شروع کر رہے ہیں؟؟
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
✿ دلیل نمبر 2: حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ (چار مقامات والی روایت)
Sahih Bukhari Hadees # 739
حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مُخْتَصَرًا .
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب «سمع الله لمن حمده» کہتے تب بھی ( رفع یدین کرتے ) دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ (دو رکعتوں) سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ ( کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ )
امام بخاری نے اس حدیث کو الصحیح میں ذکر کیا یعنی یہ روایت صحیح ہے اور امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی شرح السنہ (21/3) میں صحیح کہا۔
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت پر یہ اعتراض وارد کیا کہ عبد الاعلی کو اس روایت کو مرفوع بیان کرنے میں خطا لگی ہے۔
لیکن حافظ ابن حجر کی بات صحیح نہیں ہے کیوں کہ نافع نے اس حدیث کو موقوف اور مرفوع دونوں طرح بیان کیا ہے۔ اور عبد الاعلی کا یہاں موقوف کے ساتھ ساتھ اس روایت کو مرفوع بیان کرنا ایک زیادت ہے۔ اور یہاں قرائن کی روشنی میں یہ زیادت مقبول ہے
اس کے کہیں قرائن ہیں۔
پہلی بات یہ کہ یہ مرفوع نہیں اور نام نہاد اہلحدیث کے منہج کے مطابق یہ حجت نہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس میں چند جگہوں کا ثبوت ہے باقی جگہوں کی رفع الیدین کی ممانعت ثابت نہیں۔
کتب احادیث میں دیگر مقامات کی رفع الیدین ثابت ہے پر اس پر بھی عمل کرنا چاہیئے اگر سچے اہلحدیث ہو تو۔
اہم بات یہ کہ خود حدیث کا راوی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوائے تکبیر تحریمہ کے رفع الیدین نا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ» (مصنف ابن أبي شيبة)
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
پہلی بات یہ کہ یہ مرفوع نہیں اور نام نہاد اہلحدیث کے منہج کے مطابق یہ حجت نہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس میں چند جگہوں کا ثبوت ہے باقی جگہوں کی رفع الیدین کی ممانعت ثابت نہیں۔
کتب احادیث میں دیگر مقامات کی رفع الیدین ثابت ہے پر اس پر بھی عمل کرنا چاہیئے اگر سچے اہلحدیث ہو تو۔

مرفوع کیوں نہیں ہے جناب؟؟؟؟؟؟

روایت میں الفاظ ہیں کہ:
وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

تو جب یہ الفاظ ہیں تو کیوں نہیں ہے مرفوع جناب؟؟؟؟؟

اور پھر اس دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہونے والے رفع الیدین سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہیں دوسری سندوں سے مروی ہے۔

چنانچہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
حدثنا الصنعاني، أنا المعتمر قال: سمعت عبيد الله، عن ابن شهاب، عن سالم، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يرفع يديه إذا دخل في الصلاة، وإذا أراد أن يركع، وإذا رفع رأسه من الركوع، وإذا قام من الركعتين، يرفع يديه في ذلك كله حذو المنكبين "

لہذا اس صحیح شاہد سے تمام شبہات کا۔ازالہ ہو گیا
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
دلیل نمبر 3، 4: حدیث ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حدیث عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
(۲۵۱۹) أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، ثنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الصفار الزاهد إملاء من أصل كتابه قال: قال أبو إسماعيل محمد بن إسماعيل السلمي: " صليت خلف أبي النعمان محمد بن الفضل فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع "، فسألته عن ذلك، فقال: " صليت خلف حماد بن زيد فرفع يديه حين افتتح الصلاة وحين ركع وحين رفع رأسه من الركوع " فسألته عن ذلك، فقال: " صليت خلف أيوب السختياني فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع "، فسألته، فقال: " رأيت عطاء بن أبي رباح يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع "، فسألته، فقال: " صليت خلف عبد الله بن الزبير، فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع "، فسألته، فقال عبد الله بن الزبير ": صليت خلف أبي بكر الصديق رضي الله عنه فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع " وقال أبو بكر: صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، " فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع " رواته ثقات
(٢٥١٩) ابواسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی فرماتے ہیں کہ میں نے ابو نعمان محمد بن فضل کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت رفع یدین کیا اور رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع یدین کیا۔ میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے حماد بن زید کی اقتدا میں نماز ادا کی ۔ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کیا تو میں نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ایوب سختیانی کے پیچھے نماز پڑھی ، وہ بھی نماز شروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے عطا بن ابی رباح کو دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : میں نے عبداللہ بن زبیر (رض) کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ بھی جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو عبداللہ بن زبیر (رض) نے فرمایا : میں نے سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے پیچھے نماز پڑھی۔ وہ بھی نماز کے شروع میں اور رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے اور ابوبکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی رفع یدین کرتے تھے۔ (امام بیھقی فرماتے ہیں کہ) اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ہیں۔
[ سنن کبری للبیہقی جلد دوم صفحہ 107 حدیث 2519]
یہ حدیث مسلسل بالکل صحیح ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ اور سند بھی صحیح ہے
یہ حدیث اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا۔ کیوں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آخری نمازیں بھی پڑھی ہیں۔ تو اس سلسلے میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے سب زیادہ با خبر تھے اور پھر حدیث بھی بیان کی اور پھر رفع الیدین والی حدیث پر سیدنا ابو بکر صدیق کا عمل بھی تھا اور پھر اسی پر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا عمل تھا اور اسی حدیث مسلسل میں تابعی، تب تابع کا بھی عمل ہے۔
اگر رفع الیدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ہوتا تو ابو بکر صدیق چھوڑ دیتے، ابو بکر رض نے چھوڑا ہوتا تو ابن زبیر رض چھوڑ دیتے۔ لیکن پتا کیا چلا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رفع الیدین پر عمل کیا وہ عامل رہے اس رفع الیدین پر، یعنی رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رفع الیدین منسوخ ہو گیا یہ حدیث ان کے دعوی کو باطل ثابت کرتی ہے
جلیل القدر صحابی کی بات مانی جائے یا کہ کسی اور کی؟
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں نمازیں پڑھی ہیں وہ سوائے تکبیر تحریمہ کے نماز میں کہیں بھی رفع الیدین نا کرتے تھے۔
السنن الكبرى للبيهقي:
قَالَ الشَّيْخُ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ "
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
جلیل القدر صحابی کی بات مانی جائے یا کہ کسی اور کی؟
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا میں نمازیں پڑھی ہیں وہ سوائے تکبیر تحریمہ کے نماز میں کہیں بھی رفع الیدین نا کرتے تھے۔
السنن الكبرى للبيهقي:
قَالَ الشَّيْخُ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: " صَلَّيْتُ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَلَمْ يَرْفَعُوا أَيْدِيَهُمْ إِلَّا عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ "

یہ روایت ضعیف ہے۔
اس میں محمد بن جابر نامی راوی ضعیف ہے۔
امام دار قطنی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
"تفرد به محمد بن جابر وکان ضعیفاً"
[سنن دار قطنی ۵۲/۲]

امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ اس محمد بن جابر کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
" ساقط الحدیث"
[ الجرح والتعدیل]

امام ہیثمی کہتے ہیں کہ
جمہور نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
[المجمع الزوائد ]

امام حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
"ھذا اسنادہ ضعیف"
اس حدیث کی سند ضعیف ہے
[معرفۃ السنن والآثار]

دوسری علت حماد بن سلیمان اختلاط کا شکار ہیں۔
اب آپ پر لازم ہے کہ محمد بن جابر کو حماد کا قبل از اختلاط شاگرد ثابت کرو۔ اور محمد بن جابر کی توثیق بھی جمہور سے پیش کرو

وگرنہ اس روایت کو صحیح کہنا چہ معنی دارد؟؟؟؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
سو گز لمبا رسہ سرے پر گرہ

اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام اہلسنت (حنبلی، شافعی، مالکی اور حنفی) تیسری رکعت کو کھڑے ہوتے وقت کی رفع الیدین کے قائل نہیں۔
قرآنی ضابطہ کے مطابق ان سے مخالفت سبیل المؤمنین کی مخالفت ہے جس پر وعید شدید وارد ہوئی ہے۔
اللہم حفظنا
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
سو گز لمبا رسہ سرے پر گرہ

اہم بات یہ ہے کہ دنیا کے تمام اہلسنت (حنبلی، شافعی، مالکی اور حنفی) تیسری رکعت کو کھڑے ہوتے وقت کی رفع الیدین کے قائل نہیں۔
قرآنی ضابطہ کے مطابق ان سے مخالفت سبیل المؤمنین کی مخالفت ہے جس پر وعید شدید وارد ہوئی ہے۔
اللہم حفظنا

استغفراللہ یہ کس نے کہا کہ حنابلہ دو رکعتوں کے بعد رفع الیدین کے قائل نہیں۔
اللہ کی قسم یہ آپ نے حنابلہ پر جھوٹ بولا ہے۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
یہ روایت ضعیف ہے۔
اس میں محمد بن جابر نامی راوی ضعیف ہے۔
امام دار قطنی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
"تفرد به محمد بن جابر وکان ضعیفاً"
[سنن دار قطنی ۵۲/۲]

امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ اس محمد بن جابر کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
" ساقط الحدیث"
[ الجرح والتعدیل]

امام ہیثمی کہتے ہیں کہ
جمہور نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
[المجمع الزوائد ]

امام حاکم اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
"ھذا اسنادہ ضعیف"
اس حدیث کی سند ضعیف ہے
[معرفۃ السنن والآثار]

دوسری علت حماد بن سلیمان اختلاط کا شکار ہیں۔
اب آپ پر لازم ہے کہ محمد بن جابر کو حماد کا قبل از اختلاط شاگرد ثابت کرو۔ اور محمد بن جابر کی توثیق بھی جمہور سے پیش کرو

وگرنہ اس روایت کو صحیح کہنا چہ معنی دارد؟؟؟؟
کیا راوی ضعیف ہے یا کہ حدیث کا متن ؟؟؟
 
Top