اس بارہ میں خاص رکوع سے بعد ہاتھ چھوڑنے پر واضح دلالت کرتی ہے , ملاحظہ فرمائیں :
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ كَانَ مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ يُرِينَا كَيْفَ كَانَ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَاكَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلَاةٍ فَقَامَ فَأَمْكَنَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَمْكَنَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَانْصَبَّ هُنَيَّةً
ابو قلابہ فرماتے ہیں کہ سیدنا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ نماز کے اوقات کے علاوہ ہمیں دکھاتے تھے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی تھی , تو وہ کھڑے ہوئے اچھی طرح قیام کیا پھر رکوع کیا تو اچھی طرح رکوع کیا پھر اپنے سر کواٹھایا تو
تھوڑی دیر کے لیے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر کھڑے ہوگئے
۔
صحيح بخاري كتاب الأذان باب الطمانينة حين يرفع رأسه من الركوع حـ 802
اس حدیث میں ایک تو خاص موقعہ ذکر ہوا ہے اور وہ رکوع کے بعد کا , اور دوسرا اس دوران ایک خاص عمل ذکر ہوا ہے اور وہ ہے " انصباب " انصباب عربی زبان میں کسی بھی چیز کے بہاؤ پر بولا جاتا ہے ۔ اللہ نے سورۃ عبس میں آسمان سے نازل ہونے والے پانی یعنی بارش کے لیے لفظ "صب" استعمال کیا ہے اسی طرح غسل والی احادیث میں سر پر پانی بہانے کے لیے بھی لفظ " صب " استعمال کیا گیا ہے جسکا معنى ہے پانی کو بہانا , اسی مصدر ص ب ب کا باب انفعال انصباب ہے جو کہ اسے متعدی سے لازم بنا دیتا ہے تو انصباب کا معنى ہوگا خود بہہ جانا ۔
یعنی اس حدیث میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز بیان کرتے ہوئے مالک بن حویرث رکوع کے بعد انصاب کرکے دکھا رہے ہیں اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہاتھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے باندھا نہ جائے ۔ صرف ہاتھوں کو ہی نہیں بلکہ سارے جسم کو ڈھیلا چھوڑا جائے قیام کی حالت میں تو انصباب بن جائے گا۔
اس حدیث میں رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے پر واضح اشارہ موجود ہے ۔
لہذا یہ حدیث اس مسئلہ میں فیصلہ کن " حکم " کی حیثیت رکھتی ہے کہ جس میں تأویل کی گنجائش نہیں ہے ۔