رانا ابوبکر
تکنیکی ناظم
- شمولیت
- مارچ 24، 2011
- پیغامات
- 2,075
- ری ایکشن اسکور
- 3,040
- پوائنٹ
- 432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: سجدہ میں ( بخاری، الاذان، باب لا یفترش ذراعیہ فی السجود حدیث: ۸۲۲۔ مسلم، الصلاۃ، باب الاعتدال فی السجود ، حدیث:۴۹۳) اعتدال رکھو۔ (پشت ہموار رکھو۔) اور کوئی اپنے ہاتھ زمین پر کتے کی طرح نہ پھیلائے۔
اس حدیث کے تحت حاشیہ میں لکھا ہے۔
سجدہ کی صحیح کیفیت: حدیث کامطلب یہ ہے کہ سجدہ میں اپنے بازوؤں کو زمین پر نہ لگائے، جیسا کہ کتا زمین پر اپنے بازو بچھا لیتا ہے۔ البتہ عورت اس حکم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ابو داؤد نے مراسیل میں زید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو عورتوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: اپنے بازوؤں کو زمین پر لگاؤ اور اس مسئلہ میں عورت مرد کی طرح نہیں ہے۔ حوالے کے لیے دیکھیں: (مشکوٰۃ المصابیح ، جلد اوّل ، ص:۵۸۵، مترجم و محشی ،استاذ الاساتذہ محمد اسماعیل سلفی)
محمد عاصم صاحب نے تو بالکل واضح لکھا ہے:
’’ حنفیہ شافعیہ اور حنبلیہ کے نزدیک عورت کے لیے سجدہ میں اپنے پیٹ کو رانوں سے ملانا مسنون ہے۔‘‘
حوالے کے لیے دیکھیں: [فقہ السنّہ ، حصہ أول ، ص:۱۸۶، حاشیہ نمبر :۲بحوالہ الفقہ علی مذاہب الاربعۃ ، ج:۱ ، ص:۲۶۲] مطبوعہ اُردو پریس لاہور۔ ۱۹۶۰ء
اشکال :اشکال یہ ہے کہ مشکوٰۃ میں جو اوپر تشریح بیان ہوئی ہے کیا احادیث صحیحہ کے حوالہ سے وہ واقعتا درست ہے اور سجدے کی اس کیفیت کو صحیح اور مسنون کیفیت کہا جاسکتا ہے۔ نماز میں عورت اور مرد کے سجدے میں کیفیت کے حوالے سے اہلحدیث علماء کا کیا موقف ہے؟ اس موقف کے حوالے سے اس تشریح کی مناسبت اور موافقت یا مطابقت کیا ہے اور کس طرح سے ہے؟ از راہ کرم اپنی قیمتی معلومات سے راہنمائی فرماکر عنداللہ ماجور ہوں۔