محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
مولانا سرفراز خان صفدرلکھتے ہیں: ہم نے راویوں کی توثیق اور جرح میں جمہور محدیثین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ (احسن الکلام)
اسی طرح مولانا محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی لکھتے ہیں:"جب کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کا اعتبار ہے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جب کسی راوی مین جرح وتعدیل جمع ہو جائیں تو جرھح مبہم کے مقابکہ میں تعدیل کو ترجیح ہو گی۔(سیرت المصطفٰی ج1ص79بحث"واقدی")
محترم شاید آپ نے میری پہلی پوسٹ کو غور سے نہیں دیکھا۔میں نے دبے الفاظ میں اس اعترض کا جواب دی دیا تھا۔
اور شبک کے معنی جوڑنا یا ملانا کے بھی ہیں (القاموس الوحیدص838)
تو اس لحاظ سے "یشد بہما" کے معنی "وہ مضبوطی کے ساتھ" اور "یشبک بہما" کے معنی "وہ جوڑتے یا ملاتے " کے بنتے ہیں۔
یشد بہما ہو،یشبک بہما یا يشد بينهماہو سب کا معنی و مفہوم ایک ہے۔ اس طرح کی مثالیں کتب احادیث کے نسخوں میں عام ہوتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ روایات غیر محفوظ ہیں۔
اور یہ بھی یاد رہے میں نے اس حدیث کی تخریج میں دو کتب کے حوالے دیے تھے۔
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
مولانا محمد عالم اوکاڑوی لکھتے ہیں :"محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ عجمی ماہر حدہث اگر اپنی زبان میں قرآن و حدیث کا ترجمہ کرے تو جائز ہے جب الفاظ حدیث کی تبدیلی غیر زبان کے الفاظ میں جائز ہوتی ہے تو عربی الفاظ میں بطریق اولٰی جائز ہونی چاہیے۔(فطرات العطر شرح تخبتہ الفکر ص230 بحث روایت بلمعنی)[/QUOTE]
محترم عرض ہے کہ آپ نے ثقۃ بر من التدلیس تو دیکھ لیا ہے لیکن اس سے پہلے(۱/۱۵)بھی لکھا ہوا ہے۔ یعنی پہلے طبقے میں پندڑوے راوی،یہ ترقیم شیخ مسفر الدمینی کی ہے نہ کہ طبقات المدلسیں کی اگر آپ اس ہی کتاب کو دیکھیں تو (۱/۱۵) پر امام ابو عبد اللہ بن الحرمی،ابو قلابۃ رحمہ اللہ کا ذکر ہے۔محترم میں نے مراجعت فرمالی ہے آپ بھی فرمالیںمجھے یہ قول مذکورہ صفحے پر نہیں ملا۔ صرف ثقۃ بریء من التدلیس ملا ہے۔ کیا آپ مراجعت فرمائیں گے؟
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
اصول:سليمان ابن موسى الأموي مولاهم الدمشقي الأشدق صدوق فقيه في حديثه بعض لين وخولط قبل موته بقليل
تقریب التہذیب 1۔255 دار الرشید
قال دحيم: هو ثقة.
وقال عثمان الدارمي: قلت ليحيى بن معين: سليمان بن موسى ما حاله في الزهري؟ قال: ثقة.
وقال أبو حاتم: محله الصدق، وفي حديثه بعض الاضطراب،ولا أعلم أحدا من أصحاب مكحول أفقه منه، ولا أثبت منه.
وقال البخاري: عنده مناكير.
وقال النسائي: هو أحد الفقهاء، وليس بالقوي في الحديث.
وقال مرة: في حديثه شيء.
وقال ابن عدي:هو فقيه، راو، حدث عنه الثقات، وهو أحد العلماء.
روى أحاديث ينفرد بها، لا يرويها غيره،وهو عندي ثبت، صدوق.
سیر اعلام النبلاء
و ذكر العقيلى ، عن ابن المدينى : كان من كبار أصحاب مكحول،و كان خولط قبل موته بيسير .
تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب
مولانا سرفراز خان صفدرلکھتے ہیں: ہم نے راویوں کی توثیق اور جرح میں جمہور محدیثین کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ (احسن الکلام)
اسی طرح مولانا محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی لکھتے ہیں:"جب کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کا اعتبار ہے فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جب کسی راوی مین جرح وتعدیل جمع ہو جائیں تو جرھح مبہم کے مقابکہ میں تعدیل کو ترجیح ہو گی۔(سیرت المصطفٰی ج1ص79بحث"واقدی")
محترم شاید آپ نے میری پہلی پوسٹ کو غور سے نہیں دیکھا۔میں نے دبے الفاظ میں اس اعترض کا جواب دی دیا تھا۔
لیکن اس کے باوجود آپ کے پیش کردہ کلام کے مطابق 5 محدیثیں نے سلیمان بن موسٰی کی توثیق و تعریف کی ہے اور امام ذہبی کا قول (جو ہم دونوں نے کوٹ کیا ہے)یہ ملا کہ 6ہوگے۔(امان ابن مدینی کا قول باسند و حوالہ دستیاب نہیں ہو سکا اس لیے اس میں موجود كان من كبار أصحاب مكحول،و كان خولط قبل موته بيسير کی تعریفی کلمات کو گنتی میں نہیں لائے۔ اگر آپ کو یہ قول باسند و حوالہ مہیا ہے تو ہمیں بھی دے دیں نوازش ہو گی۔اور ابن حجر رحمہ اللہ کاوخولط قبل موته بقليل بھی اسی قول کی بنیاد پر ہے۔جبکہ وقول ثابت نہیں تو یہ بات بھی مردود ہوئی)کہ جبکہ آپ کے مطابق 4 مدحدثیں نےجرح کی ہے۔ اوراس میں بھی ابہام ہے مثال کے طور پر امام بو حاتم رحمہ اللہ کی جرح:4۔ سلیمان بن موسٰی بن الموی الدمشقی الاشدق۔
امام ذہبی نے فرمایا: الامام الکبیر مفتی دمشق ۔ (سیراعلام النبلاء 5/433)
حافظ ابن حجر نے فرمایا: صدوق فقیہ فی حدیثہ بعض لین و خولط قبل موتھ بقلیل (تقریب التہذیب رقم 2616)
جمہور محدیث نے اس کی توثیق کی ہے۔
وفي حديثه بعض الاضطراب
- وہ بعض احادیث کون سی ہیں۔؟
- کیا ان مضطرب احادیث میں یہ روایت شامل ہے۔؟
محترم عرض یہ ہے کہ "شد" کے معنی مضبوطی یا کسائی کے ہیں (القاموس الوحیدص849)دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ اس حدیث کے نسخوں میں ثم یشد بہما میں فرق ہے۔ بعض میں یشد بہما ہے اور بعض میں یشبک بہما جس پر کسی کا عمل نہیں ہے۔
کتاب المراسیل ص139 مکتبہ الصمیعی میں محقق زہرانی لکھتے ہیں یہ لفظ واضح نہیں ہے۔
ط رسالہ کے نسخے میں ارنؤوط نے اسے یشد بہما نکالا ہے لیکن سلیمان بن موسی پر اعتراض کیا ہے۔ ارنؤوط نے اس کی تحقیق میں ایک نسخے پر اکتفاء کیا ہے۔
دار القلم کے نسخے میں یشبک بہما کی تخریج ہے اور اس کی تحقیق محقق السیروان نے تین نسخوں سے کی ہے۔
اور شبک کے معنی جوڑنا یا ملانا کے بھی ہیں (القاموس الوحیدص838)
تو اس لحاظ سے "یشد بہما" کے معنی "وہ مضبوطی کے ساتھ" اور "یشبک بہما" کے معنی "وہ جوڑتے یا ملاتے " کے بنتے ہیں۔
یشد بہما ہو،یشبک بہما یا يشد بينهماہو سب کا معنی و مفہوم ایک ہے۔ اس طرح کی مثالیں کتب احادیث کے نسخوں میں عام ہوتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ روایات غیر محفوظ ہیں۔
اور یہ بھی یاد رہے میں نے اس حدیث کی تخریج میں دو کتب کے حوالے دیے تھے۔
یعنی یہ روایت سنن ابی داود میں بھی موجود ہے۔ اس لیے یہ روایت محفوظ ہے۔حدیث کے الفاظ میں فرق مضر نہیں تب جب مفہوم ایک ہو۔ اور یہاں مفہوم ایک ہے۔(سنن ابی داود ح789،مراسیل ابی داود ح32)
محترم اشماریہ بھائی نے فرمایا:
جی ہاں احناف خاص طور پر دیوبندیوں کے نزدیک بھی حجت ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ایسی حدیث بھی احناف کے نزدیک حجت بن جائے گی؟
مولانا محمد عالم اوکاڑوی لکھتے ہیں :"محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ عجمی ماہر حدہث اگر اپنی زبان میں قرآن و حدیث کا ترجمہ کرے تو جائز ہے جب الفاظ حدیث کی تبدیلی غیر زبان کے الفاظ میں جائز ہوتی ہے تو عربی الفاظ میں بطریق اولٰی جائز ہونی چاہیے۔(فطرات العطر شرح تخبتہ الفکر ص230 بحث روایت بلمعنی)[/QUOTE]