• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
بسم الله الرحمن الرحيم
نبی ﷺ کی حدیث کا دفاع
سمعت أبا يعقوب(١) يقول: سمعت الخليل بن أحمد(٢) يقول: سمعت أبا الحسين الطبسي(٣) يقول: سمعت أبا سعيد الإصطخري(٤) يقول: وجاءه رجل وقال له: أيجوز الاستنجاء بالعظم؟ قال: لا، قال: لم؟ قال: لأن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: "هو زاد إخوانكم من الجن" قال: فقال له: الإنس أفضل أم الجن؟ قال: بل الإنس، قال: فلم يجوز الاستنجاء بالماء وهو زاد الإنس؟ قال: فنزا عليه وأخذ بحلقه، وهو يقول: يا زنديق! تعارض رسول الله صلي الله عليه وسلم؟! وجعل يخنقه، فلو لا أني أدركته لقتله، أو كما قال.
ابو سعید الحسن بن احمد بن یزید الاصطخری رحمہ اللہ (متوفی۳۲۸ھ) کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا: کیا ہڈی سے استنجا جائز ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں، اس نے پوچھا: کیوں؟ انھوں نے فرمایا: کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: یہ تمھارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔اس نے پوچھا: انسان افضل ہیں یا جن؟ انھوں نے فرمایا: انسان، اس نے کہا: پانی کے ساتھ استنجا کیوں جائز ہے جبکہ وہ انسانوں کی خوراک ہے، راوی (ابو الحسین الطبسی) کہتے ہیں کہ ابو سعید الاصطخری نے حملہ کرکے اس آدمی کی گردن دبوچ لی اور اس کا گلہ گھونٹتے ہوئے فرمانے لگے: ‘‘زندیق (بے دین، گمراہ)! تو رسول اللہ ﷺ کا رد کرتا ہے’’ اگر میں اس آدمی کو نہ چھڑا تا تو وہ اسے قتل کریتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

{أخرجه: أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي بن محمد بن أحمد بن علي بن جعفر بن منصور بن مت الأنصاري الهروي (م٤٨١ھ) في الكتاب: ذم الكلام وأهله: [الطبقة السابعة وفيهم نجمت الكلابية] ج٤ ص٣٨٤-٣٨٥، ح١٢٥٨، بتحقيق أبو جابر عبد الله بن محمد بن عثمان الأنصاري. ونسخة الثاني: ج٦ ص١٧٩-١٨٠، ح١٢٤٩، بتحقيق عبد الرحمن بن عبد العزيز الشبل}.

{ ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) نے اس روایت کی سند کو"وسندہ حسن" کہا ہے، دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۲ ص۵۶۷-۵۶۸}۔

{(١)أبو يعقوب إسحاق بن أبي إسحاق إبراهيم بن محمد بن عبد الرحمن القراب السرخسي ثم الهروي (م٤٢٩ھ) قال: شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (م٧٤٨ھ) "الإمام الجليل محدث هراة" في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٤٥٨، ت٢٩٧، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف، ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٢٥٦، ت٢٩٥، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.

{(٢)أبو سعيد الخليل بن أحمد بن محمد بن الخليل بن موسى بن عبد الله بن عاصم بن جنك السجزي الحنفي (م٣٧٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة مصنف فقيه جليل القدر" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٤٨٦-٤٩٠، ت٣٥٤}.

{(٣)أبو الحسين أحمد بن محمد بن سهل الطبسي (م٣٥٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة فقيه بارع" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٢٩٥، ت١٦٩}.

{(٤)أبو سعيد الحسن بن أحمد بن يزيد بن عيسى بن الفضل بن بشار بن عبد الحميد بن عبد الله بن هانئ بن قبيصة بن عمرو بن عامر الإصطخري (م٣٢٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة زاهد وفقيه مقدم" في الكتاب: الدليل المغني لشيوخ الإمام أبي الحسن الدارقطني: ص١٧٣-١٧٤، ت١٥٥}.
محترم اس کی سند پر بحث نہیں اس کی سند اگر صحیح بھی ہے تو صرہ سے سینہ مراد لینا کسی قرینہ صارفہ سے ثابت نہیں بلکہ خیر القرون کی پوری امتِ مسلمہ کے عمل کے خلاف ہے۔ پوری امت کا گمراہی پر جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں ممکن نہیں۔
پوری امت کے فقہاء، علماء اور عامی یا تو ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے یا ناف کے اوپر۔ سینہ پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔
لازم آتا ہے کہ ’’علی صدرہ‘‘ کی تفہیم میں غلطی ہو رہی ہے اور یہ لفظ ’’ظہرہ‘‘ کے متضاد معنیٰ میں بھی مستعمل ہے اور اس کا یہی معنیٰ کہ اس سے مراد ’’سامنے کیطرف‘‘ یعنی جہت لینا ہی اولیٰ ہے وگر نہ پوری امت کو گمراہی پر ماننا لازم آئے گا اور یہ محال ہے۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
بسم الله الرحمن الرحيم

کتاب اللہ اور نبیﷺ کی سنت
حدثنا أبو بكر أحمد بن إسحاق الفقيه، أنبأ العباس بن الفضل الأسفاطي، ثنا إسماعيل بن أبي أويس، وأخبرني إسماعيل بن محمد بن الفضل الشعراني، ثنا جدي، ثنا ابن أبي أويس، حدثني أبي، عن ثور بن زيد الديلي، عن عكرمة، عن ابن عباس، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ النَّاسَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقَالَ: «قَدْ يَئِسَ الشَّيْطَانُ بِأَنْ يُعْبَدَ بِأَرْضِكُمْ وَلَكِنَّهُ رَضِيَ أَنْ يُطَاعَ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِمَّا تُحَاقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَاحْذَرُوا يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوا أَبَدًا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ كُلَّ مُسْلِمٍ أَخٌ مُسْلِمٌ، الْمُسْلِمُونَ إِخْوَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ إِلَّا مَا أَعْطَاهُ عَنْ طِيبِ نَفْسٍ، وَلَا تَظْلِمُوا، وَلَا تَرْجِعُوا مِنْ بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ»(١).
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیا تو فرمایا : شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ تمھاری زمین میں اس کی عبادت کی جائے لیکن وہ اس پر راضی ہے کہ اس کے علاوہ اُن اعمال میں اُس کی اطاعت کی جائے جنھیں تم حقیر سمجھتے ہو، پس اے لوگو! ڈرجاؤ میں تمھارے درمیان وہ چھوڑ کر جارہا ہوں جسے اگر تم مضبوطی سے پکڑو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے: کتاب اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی سنت، ہر مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور کسی آدمی کا مال اس کی خوشی اور مرضی کے بغیر حلال نہیں ہے، ظلم نہ کرو اور میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے پھرو۔(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) {أخرجه: الحاكم أبو عبد الله محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نعيم بن الحكم النيسابوري (م٤٠٥ھ) في الكتاب: المستدرك على الصحيحين: كتاب العلم [باب خطبة صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع] ج١ ص٩٣، واللفاظ له، ونسخة الثاني: ج١ ص١٧١، ح٣١٨، بتحقيق مصطفى عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج١ ص١٦٠-١٦١، ح٣١٨، بتحقيق أبو عبد الرحمن مقبل بن هادي الوادعي، ونسخة الرابع: ج١ ص٢٨٤، ح٣٢٣، بتحقيق أبي عبد الله عبد السلام بن محمد بن عمر علوش}.
{قال: أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين بن نوح بن نجاتي بن آدم الأشقودري الألباني (م١٤٢٠
ھ) "حديث ابن عباس بسند حسن أخرجه الحاكم" في الكتاب: مشكاة المصابيح للتبريزي، بتحقيق ج١ ص٦٦ ح١٨٦}.
{ اور ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) نے بھی اس روایت کی سند کو"وسندہ حسن" کہا ہے، دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۳ ص۵۷۰}۔

{وأخرجه: أبو عبد الله محمد بن نصر بن الحجاج المروزي (م٢٩٤
ھ) في الكتاب: السنة: ص٢٥-٢٦ ح٦٨، بتحقيق أبو محمد سالم بن أحمد السلفي، وقال المحقق: "حسن"، ونسخة الثاني: ص٨٦-٨٧، ح٦٩، بتحقيق الدكتور عبد الله بن محمد البصيري، وقال المحقق: "حسن"}


{وأخرجه: أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجري البغدادى (م٣٦٠ھ) في الكتاب: الشريعة: كتاب جامع فضائل أهل البيت رضي الله عنهم [باب ذكر أمر النبي صلى الله عليه وسلم أمته بالتمسك بكتاب الله عز وجل وبسنة رسوله صلى الله عليه وسلم وبمحبة أهل بيته والتمسك على ما هم عليه من الحق والنهي عن التخلف عن طريقتهم الجميلة الحسنة] ج٣ ص٣٥٠-٣٥١، ح١٧٦٤، بتحقيق الوليد بن محمد بن نبيه بن سيف النصر، وقال المحقق: "صحيح - إسناده حسن"، ونسخة الثاني: ج٥ ص٢٢٢٠-٢٢٢١، ح١٧٠٥، بتحقيق الدكتور عبد الله بن عمر بن سليمان الدميجي، وقال المحقق: "إسناده حسن"}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن عبد الله بن موسى الخسروجردي النيسابوري البيهقي (م٤٥٨
ھ) في الكتاب: الإعتقاد على مذهب السلف أهل السنة والجماعة المسمي بالإعتقاد والهداية إلى سبيل الرشاد[باب الاعتصام بالسنة واجتناب البدعة] ص١١١، نسخة الثاني: ص٢٩٦-٢٠٧، بتحقيق أبو عبد الله أحمد بن إبراهيم أبو العينين}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن عبد الله بن موسى الخسروجردي النيسابوري البيهقي (م٤٥٨
ھ) وفي الكتاب: دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة [باب ما جاء في نعي النبي صلى الله عليه وسلم نفسه إلى الناس في حجة الوداع] ج٥ ص٤٤٩، بتحقيق الدكتور عبد المعطي قلعجي}.

{وأخرجه: أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن محمد بن حماد المكي العقيلي (م٣٢٢
ھ) في الكتاب: الضعفاء الكبير: ج٢ ص٣٣٢، ح٧٧٠، بتحقيق مركز البحوث وتقنية المعلومات دار التأصيل، ونسخة الثاني: ج٢ ص٦٤٥-٦٤٦، بتحقيق حمدي بن عبد المجيد بن إسماعيل السلفي، ونسخة الثالث: ج٣ ص٢١٦-٢١٧، ح٢٨٤٢-٢٨٤٣، بتحقيق الدكتور مازن بن محمد السرساوي}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن الحسين بن علي بن عبد الله بن موسى الخسروجردي النيسابوري البيهقي (م٤٥٨
ھ) وفي الكتاب: السنن الكبير المعروف بالسنن الكبرى، كتاب آداب القاضي [باب ما يقضي به القاضي ويفتي به المفتي , فإنه غيرجائز له أن يقلد أحدا من أهل دهره , ولا أن يحكم أو يفتي بالاستحسان] ج١٠ ص١١٤، ونسخة الثاني: ج١٠ ص١٩٤-١٩٥، ح٢٠٣٣٦، بتحقيق محمد عبد القادر عطا، ونسخة الثالث: ج٢٠ ص٣٣٣، ح٢٠٣٦٢، بتحقيق الدكتور عبد الله بن عبد المحسن التركي}.

{وأخرجه: أبو بكر أحمد بن عمرو بن أبي عاصم الضحاك بن مخلد بن مسلم الشيباني (م٢٨٧
ھ) في الكتاب: السنة: [باب في فضائل أهل البيت] ج٢ ص٦٤٤، ح١٥٥٧، بتحقيق أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين بن نوح بن نجاتي بن آدم الأشقودري الألباني (م١٤٢٠ھ)، ونسخة الثاني: ج٢ ص١٠٢٦، ح١٦٠١، بتحقيق الدكتور باسم بن فيصل الجوابرة، وقال المحقق: "إسناده صحيح"}.
محترم تمام فقہاء کا مأخذ کتاب و سنت ہی تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ صحابہ قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتے تھے اور علماء اور فقہاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کو صحابہ کرام سے سیکھتے تھے۔ اور ہم ان علماء اور فقہاء کو جو خیر القرون میں گزرے کی بات کو مانتے ہیں جسے کہ انہوں نے تحریر فرمادیا۔
اب فتن کے زمانہ میں ایک گروہ ایسا اٹھا (بلکہ اٹھایا گیا) جو کہتا ہے قرآن و حدیث کو اپنی عقل سے سمجھو فقہاء سے نہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بہت شکریہ آپ نے قیمتی وقت نکال کر جواب تحریر کیا۔
جناب مظاہر امیر بھائی نے جو حدیث ذراع کی وضاحت کیلئے پیش کی اس میں ذراع کا ترجمہ بازو کیا گیا ہے۔آپ کہہ رہے کہیں کہ کہنی سے اوپر جائز نہ ہوگا ۔ پھر کون سی بات صحیح ہے۔
مظاہر امیر بھائی کی اور میری بات ایک ہی ہے!
اور اس کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے! ذرا سمجھنے کی کوشش کیجئے!
آپ کا یہ کہنا کہ'' کون سی بات صحیح ہے''، آپ کی غلط فہمی کی بنیاد پر ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم تمام فقہاء کا مأخذ کتاب سنت ہی تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ صحابہ قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتے تھے اور علماء اور فقہاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کو صحابہ کرام سے سیکھتے تھے۔
اسی لئے علمائے اہل الحدیث اور فقہائے اہل الحدیث سے علم حاصل کریں!
علمائے اہل الرائے اور اہل لرائے کی اٹکل کی پیروی کرنے والوں کو پرے کرو!
پوری امت کے فقہاء، علماء اور عامی یا تو ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے یا ناف کے اوپر۔ سینہ پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔
چلیں جناب! بقول حنفی ؛ مقلدین حنفیہ کی عورتیں تو امت مسلمہ سے خارج اور کافر قرار پائیں!
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم
اگر میں غلط سمجھ رہا ہوں تو اس کی وضاحت کردیں۔ میری یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ جب ذراع بازو تک ہے تو اگر سیدھے ہاتھ کی انگلیوں کو الٹے ہاتھ کی کہنی اور کندھے کی درمیان جگہ سے پکڑنا ہے۔ (اس پر کافی اہلحدیث بھائیوں کا عمل بھی دیکھا ہے )جب کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کہنی سے اوپر نہیں پکڑنا۔اور اگر کہنی تک پکڑا جائے تو ہاتھ خود بخود سینے پر نہیں آئیں گے بلکہ سینے کے آخر ی حصے اور پیٹ کے شروع کے حصے کے بیچ میں آئیں گے۔ میں نے خود تجربہ کر کے دیکھا ۔مختلف جسامت والوں کی کیفیت مختلف ہوسکتی ہے یہ میں پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
چلیں جناب! بقول حنفی ؛ مقلدین حنفیہ کی عورتیں تو امت مسلمہ سے خارج اور کافر قرار پائیں!
بات مردوں کی ہو رہی ہے۔ ابتسامہ
عورتوں کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ایک اصول مقرر فرما دیا ’’ستر‘‘ کا لہٰذا ان کے کچھ معاملات جن کا تعلق ستر سے ہوگا ان کا حکم بھی مرد سے الگ ہوگا۔
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
آپ نے اوپر جو رِب کیج دکھایا ہے اس میں سینے کی آخری ہڈی فوق السرہ پر ہے ۔
جب ذراع بازو تک ہے تو اگر سیدھے ہاتھ کی انگلیوں کو الٹے ہاتھ کی کہنی اور کندھے کی درمیان جگہ سے پکڑنا ہے۔
پکڑنے کو کس نے کہا ہے ، دائیں ذرع کو بائیں ذرع پر رکھنا ہے ۔ جیسے شیخ زبیرعلی زئی رحمہ اللہ نے رکھ کر دکھایا ہے ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم
اگر میں غلط سمجھ رہا ہوں تو اس کی وضاحت کردیں۔ میری یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ جب ذراع بازو تک ہے تو اگر سیدھے ہاتھ کی انگلیوں کو الٹے ہاتھ کی کہنی اور کندھے کی درمیان جگہ سے پکڑنا ہے۔ (اس پر کافی اہلحدیث بھائیوں کا عمل بھی دیکھا ہے )جب کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ کہنی سے اوپر نہیں پکڑنا۔اور اگر کہنی تک پکڑا جائے تو ہاتھ خود بخود سینے پر نہیں آئیں گے بلکہ سینے کے آخر ی حصے اور پیٹ کے شروع کے حصے کے بیچ میں آئیں گے۔ میں نے خود تجربہ کر کے دیکھا ۔مختلف جسامت والوں کی کیفیت مختلف ہوسکتی ہے یہ میں پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں۔
بھائی جان! کہنی کے اوپر کا حصہ یعنی کندھے سے کہنے کا حصہ!
کہنی تک پکڑنے سے بھی اگر آپ کے ہاتھ سینہ پر نہیں آتے تو یا تو آپ کے ہاتھ کافی لمبے ہیں ، یا آپ کا سینہ بہت چھوٹا!
تو آپ خود کو معذور سمجھ لیں! کہ آپ اس سنت پر اپنی اس عذر کی بنا پر عمل کرنے سے قاصر ہیں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر میں غلط سمجھ رہا ہوں تو اس کی وضاحت کردیں۔
وضاحت کی جا چکی ہے، آپ بغور مطالعہ فرمایا کریں بھائی!
میری یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ جب ذراع بازو تک ہے تو اگر سیدھے ہاتھ کی انگلیوں کو الٹے ہاتھ کی کہنی اور کندھے کی درمیان جگہ سے پکڑنا ہے۔
میرے بھائی! نہ میں نے نہ مظاہر امیر نے نہ کسی اور اہل حدیث نے یہ کہا ہے!
بلکہ انگلی سے کہنی تک کو کہا ہے، نہ کہ کہنی سےکندھے تک کو!
آپ بغور مطالعہ فرمایا کریں بھائی!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عورتوں کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ایک اصول مقرر فرما دیا ’’ستر‘‘ کا لہٰذا ان کے کچھ معاملات جن کا تعلق ستر سے ہوگا ان کا حکم بھی مرد سے الگ ہوگا۔
مقلدین حنفیہ کی عورتیں نماز میں اپنا سینہ ننگا رکھتی ہیں کہ انہیں سینہ کی ستر پوشی کے لئے ہاتھوں کا سہارا لینا پڑتا ہے؟
اور جب وہ رکوع کرتی ہیں، سجدہ کرتی ہیں، تشہد کرتی ہیں تو اس وقت سینہ پر ستر نہیں ہوتا؟
 
Top