عبدالرحمن حنفی
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 15، 2017
- پیغامات
- 194
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 23
محترم اس کی سند پر بحث نہیں اس کی سند اگر صحیح بھی ہے تو صرہ سے سینہ مراد لینا کسی قرینہ صارفہ سے ثابت نہیں بلکہ خیر القرون کی پوری امتِ مسلمہ کے عمل کے خلاف ہے۔ پوری امت کا گمراہی پر جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں ممکن نہیں۔بسم الله الرحمن الرحيمسمعت أبا يعقوب(١) يقول: سمعت الخليل بن أحمد(٢) يقول: سمعت أبا الحسين الطبسي(٣) يقول: سمعت أبا سعيد الإصطخري(٤) يقول: وجاءه رجل وقال له: أيجوز الاستنجاء بالعظم؟ قال: لا، قال: لم؟ قال: لأن رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: "هو زاد إخوانكم من الجن" قال: فقال له: الإنس أفضل أم الجن؟ قال: بل الإنس، قال: فلم يجوز الاستنجاء بالماء وهو زاد الإنس؟ قال: فنزا عليه وأخذ بحلقه، وهو يقول: يا زنديق! تعارض رسول الله صلي الله عليه وسلم؟! وجعل يخنقه، فلو لا أني أدركته لقتله، أو كما قال.
نبی ﷺ کی حدیث کا دفاع
ابو سعید الحسن بن احمد بن یزید الاصطخری رحمہ اللہ (متوفی۳۲۸ھ) کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا: کیا ہڈی سے استنجا جائز ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں، اس نے پوچھا: کیوں؟ انھوں نے فرمایا: کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: یہ تمھارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔اس نے پوچھا: انسان افضل ہیں یا جن؟ انھوں نے فرمایا: انسان، اس نے کہا: پانی کے ساتھ استنجا کیوں جائز ہے جبکہ وہ انسانوں کی خوراک ہے، راوی (ابو الحسین الطبسی) کہتے ہیں کہ ابو سعید الاصطخری نے حملہ کرکے اس آدمی کی گردن دبوچ لی اور اس کا گلہ گھونٹتے ہوئے فرمانے لگے: ‘‘زندیق (بے دین، گمراہ)! تو رسول اللہ ﷺ کا رد کرتا ہے’’ اگر میں اس آدمی کو نہ چھڑا تا تو وہ اسے قتل کریتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
{أخرجه: أبو إسماعيل عبد الله بن محمد بن علي بن محمد بن أحمد بن علي بن جعفر بن منصور بن مت الأنصاري الهروي (م٤٨١ھ) في الكتاب: ذم الكلام وأهله: [الطبقة السابعة وفيهم نجمت الكلابية] ج٤ ص٣٨٤-٣٨٥، ح١٢٥٨، بتحقيق أبو جابر عبد الله بن محمد بن عثمان الأنصاري. ونسخة الثاني: ج٦ ص١٧٩-١٨٠، ح١٢٤٩، بتحقيق عبد الرحمن بن عبد العزيز الشبل}.
{ ابو طاہر زبیر علی زئی (م۱۴۳۵ھ) نے اس روایت کی سند کو"وسندہ حسن" کہا ہے، دیکھئے کتاب: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: ج۲ ص۵۶۷-۵۶۸}۔
{(١)أبو يعقوب إسحاق بن أبي إسحاق إبراهيم بن محمد بن عبد الرحمن القراب السرخسي ثم الهروي (م٤٢٩ھ) قال: شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي (م٧٤٨ھ) "الإمام الجليل محدث هراة" في الكتاب: تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام: ج٩ ص٤٥٨، ت٢٩٧، بتحقيق الدكتور بشار عواد معروف، ونسخة الثاني: ج٢٩ ص٢٥٦، ت٢٩٥، بتحقيق الدكتور عمر عبد السلام التدمري}.
{(٢)أبو سعيد الخليل بن أحمد بن محمد بن الخليل بن موسى بن عبد الله بن عاصم بن جنك السجزي الحنفي (م٣٧٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة مصنف فقيه جليل القدر" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٤٨٦-٤٩٠، ت٣٥٤}.
{(٣)أبو الحسين أحمد بن محمد بن سهل الطبسي (م٣٥٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة فقيه بارع" في الكتاب: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ج١ ص٢٩٥، ت١٦٩}.
{(٤)أبو سعيد الحسن بن أحمد بن يزيد بن عيسى بن الفضل بن بشار بن عبد الحميد بن عبد الله بن هانئ بن قبيصة بن عمرو بن عامر الإصطخري (م٣٢٨ھ) قال: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري "ثقة زاهد وفقيه مقدم" في الكتاب: الدليل المغني لشيوخ الإمام أبي الحسن الدارقطني: ص١٧٣-١٧٤، ت١٥٥}.
پوری امت کے فقہاء، علماء اور عامی یا تو ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے یا ناف کے اوپر۔ سینہ پر ہاتھ باندھنے کا ذکر کسی ایک نے بھی نہیں کیا۔
لازم آتا ہے کہ ’’علی صدرہ‘‘ کی تفہیم میں غلطی ہو رہی ہے اور یہ لفظ ’’ظہرہ‘‘ کے متضاد معنیٰ میں بھی مستعمل ہے اور اس کا یہی معنیٰ کہ اس سے مراد ’’سامنے کیطرف‘‘ یعنی جہت لینا ہی اولیٰ ہے وگر نہ پوری امت کو گمراہی پر ماننا لازم آئے گا اور یہ محال ہے۔