• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
حدثنا يوسف بن عيسى، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اخبرنا الفضل بن موسى، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اخبرنا الاعمش، ‏‏‏‏‏‏عن سالم، ‏‏‏‏‏‏عن كريب مولى ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏عن ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏عن ميمونة، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ "وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءا لجنابة فاكفا بيمينه على شماله مرتين او ثلاثا، ‏‏‏‏‏‏ثم غسل فرجه، ‏‏‏‏‏‏ثم ضرب يده بالارض او الحائط مرتين او ثلاثا، ‏‏‏‏‏‏ثم مضمض واستنشق وغسل وجهه وذراعيه، ‏‏‏‏‏‏ثم افاض على راسه الماء، ‏‏‏‏‏‏ثم غسل جسده، ‏‏‏‏‏‏ثم تنحى فغسل رجليه، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ فاتيته بخرقة فلم يردها، ‏‏‏‏‏‏فجعل ينفض بيده".
ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے فضل بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا انہوں نے سالم کے واسطہ سے، انہوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، انہوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے۔ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں ایک کپڑا لائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے۔

اس حدیث میں بازوؤں کو کہاں تک دھویا؟
دیکھیں اگر تو بات کو سمجھنا ہے تو بات بالکل سیدھی اور صاف کہی گئی کہ دائیں ہاتھ کو الٹے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھیں گے تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پوری ذراع پر نہیں آئے گا۔ بات ذراع کی نہیں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پوری ذراع پر رکھنے کی ہو رہی ہے اور آپ پوری ذراع دھونے کی بات سے پوری ذراع پر ہاتھ رکھنے پر استدلال لے رہے ہو اور وہ بھی آپ کا اپنا فہم نہیں بلکہ سرقہ ہے اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ نے یہ تخیل کہاں سے چرایا ہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
یہ انبیاء کی سنت ہے جسے حاصل کرنے کے لئے ’’محدث فورم‘‘ پر آتا ہوں۔
برنول لگا لو اب

یہ انبیاء کی سنت ہے جسے حاصل کرنے کے لئے ’’محدث فورم‘‘ پر آتا ہوں۔


آپ نے یہ جتنی بھی تحریریں لکھی ہیں ان میں قرینہ صارفہ موجود ہے کہ یہاں ’’صدر‘‘ سے انسانی جسم کا حصہ مراد لیا جائے جبکہ غیر مقلدین کی پیش کردہ ’’علیٰ صدرہ‘‘ والی ساری احادیث میں یہ قرینہ صارفہ نہیں پایا جاتا۔ تجھوڑا غور ٖرور فرمائیے گا اگر تھوڑی دیر کے لئے تعصب سے نکل پاؤ تب۔
آپ کو کیا مرنے کے بعد والی زندگی پر یقین نہیں؟
ترجمہ کرلیتے تو شاید یہ جہالت کبھی نہیں دکھاتے لیکن عقل سے ہی فارغ ہو تو اس میں ہمارا قصور نہیں

دیکھیں اگر تو بات کو سمجھنا ہے تو بات بالکل سیدھی اور صاف کہی گئی کہ دائیں ہاتھ کو الٹے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھیں گے تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پوری ذراع پر نہیں آئے گا۔ بات ذراع کی نہیں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پوری ذراع پر رکھنے کی ہو رہی ہے اور آپ پوری ذراع دھونے کی بات سے پوری ذراع پر ہاتھ رکھنے پر استدلال لے رہے ہو اور وہ بھی آپ کا اپنا فہم نہیں بلکہ سرقہ ہے اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ نے یہ تخیل کہاں سے چرایا ہے۔
خود کون سے مصنف ہو اور مجھ پر چور کا الزام لگانے سے پہلے اپنے ہی گھر کے ہی اور اپنے ہی امام اعظم کو دیکھو
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعني ابن المبارك: ان اصحابي ليلو موننى في الرواية عن ابى حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه.
نا عبد الرحمن أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى حدثنى اسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامى: سرق ابو حنيفة كتب حماد منى.

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم

تأليف الامام الحافظ شيخ الاسلام ابى محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس بن المنذر التميمي الحنظلي الرازي
(المتوفى 327 هـ رحمه الله)
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
دیکھیں اگر تو بات کو سمجھنا ہے تو بات بالکل سیدھی اور صاف کہی گئی کہ دائیں ہاتھ کو الٹے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھیں گے تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پوری ذراع پر نہیں آئے گا۔ بات ذراع کی نہیں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پوری ذراع پر رکھنے کی ہو رہی ہے اور آپ پوری ذراع دھونے کی بات سے پوری ذراع پر ہاتھ رکھنے پر استدلال لے رہے ہو اور وہ بھی آپ کا اپنا فہم نہیں بلکہ سرقہ ہے اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ نے یہ تخیل کہاں سے چرایا ہے۔
محترم بھائی ہمارے @عدیل سلفی بھائی نے جو آپ کو روایت پیش کی الزامی جواب کے طور پر وہ بلکل صحیح پیش کی ہے جس کے بعد مجھے لگتا ہے آپ کے پاس جواب نہیں اگر آپ کا اصول مان لیا جائے تو پھر اس حدیث میں ذراع کے الفاظ کا معنی آپ کے جیسا معنی ہوگا جس پر عمل کرنے سے کسی کا بھی وضو مکمل نہیں ہوگا نہ آپ کا اور نہ ہمارا
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم بھائی ہمارے @عدیل سلفی بھائی نے جو آپ کو روایت پیش کی الزامی جواب کے طور پر وہ بلکل صحیح پیش کی ہے جس کے بعد مجھے لگتا ہے آپ کے پاس جواب نہیں اگر آپ کا اصول مان لیا جائے تو پھر اس حدیث میں ذراع کے الفاظ کا معنی آپ کے جیسا معنی ہوگا جس پر عمل کرنے سے کسی کا بھی وضو مکمل نہیں ہوگا نہ آپ کا اور نہ ہمارا
فراز بھائی السلام علیکم
عدیل بھائی جو حدیث پیش کی ہے اگر اس میں جو بازوؤں کو دیکھنے کا ذکر ہے تو بازو مکمل دھونے کیلئے آپ کو کندھوں کے اوپر سے پانی ڈالنے پڑے گا ۔ اگر اس سے بازو نہیں بھی مراد لیے جائیں تو بھی غسل ہوجائے گا ۔ واضح رہے جس حدیث کا تذکرہ ہورہا ہے وہ غسل کے بارے میں ہے وضو میں تو عموما بازو دھوتے ہی نہیں ہیں جب کہ بازو دھونے کی حدیث بھی موجو د ہے جس پر عمل نہیں دیکھا۔
پھر سر پر پانی بہایا اور
سارے بدن کا غسل کیا۔
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
سماک بن حرب کی توثیق محدثین سے
امام شعبہ: روی عنه (صحیح مسلم:۲۲۴)
امام شعبہ کے بارے میں ایک قاعدہ ہے کہ وہ(عام طور پر اپنے نزدیک)صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ دیکھے تہذیب التہذیب (ج۱ ص۵،۴)وقواعد فی علوم الحدیث للتھانوی الدیوبندی (ص۲۱۷)
امام سفیان الثوری: مایسقط لسماك بن حرب حدیث
سماک بن حرب کی کوئی حدیث ساقط نہیں ہوئی۔
(تاریخ بغداد ۲۱۵/۹)

امام العجلی: جائز الحدیث (تاریخ بغداد ۲۱۵/۹)
ابن شاہین: ذکره في کتاب الثقات (۵۰۵)
امام حاکم: صحح له فی المستدرك (۲۹۷/۱)
امام الذہبی: صحح له في تلخیص الستدرك ۲۹۷/۱
وقال الذہبی: صدوق جلیل (المغنی الضعفاء ۲۶۴۹)
وقال: الحافظالإمام الكبیر (سیراعلام النبلاء ۲۴۵/۵)
وقال: وكان من حملة الحجة ببلده (ایضا ص ۲۴۶)
امام ابن حبان: احتج به في صحیحه (اقوال الجرح ۲/۴)
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
فراز بھائی السلام علیکم
عدیل بھائی جو حدیث پیش کی ہے اگر اس میں جو بازوؤں کو دیکھنے کا ذکر ہے تو بازو مکمل دھونے کیلئے آپ کو کندھوں کے اوپر سے پانی ڈالنے پڑے گا ۔ اگر اس سے بازو نہیں بھی مراد لیے جائیں تو بھی غسل ہوجائے گا ۔ واضح رہے جس حدیث کا تذکرہ ہورہا ہے وہ غسل کے بارے میں ہے وضو میں تو عموما بازو دھوتے ہی نہیں ہیں جب کہ بازو دھونے کی حدیث بھی موجو د ہے جس پر عمل نہیں دیکھا۔
محترم بات یہاں ذراع لفظ کی ہورہی ہے اور اس کے معنی کی
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
سماک بن حرب کی توثیق محدثین سے
امام ابن خزیمہ: صحح له في صحیحه (۸/۱ ح۸)
امام البغوی: قال ھذا حدیث حسن (شرح السنة ۳۱/۳ ح۵۷۰)
امام نووی: حسن له فی المجموع شرح المھذب (۴۹۰/۲)
امام ابن عبدالبر: صحح له فی الاستیعاب (۶۱۵/۳)
امام ابن الجارود: ذکر حدیثه فی المنتقی (ح۲۵)
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس کی حدیث پر سکوت کیا۔
(۲۲۴/۲ تحت ح ۷۴۰)
ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ ایسی روایت حافظ ابن حجر کے نزدیک صحیح یا حسن ہوتی ہے(لہذا یہ راوی ان کے نزدیک صحیح الحدیث یا حسن الحدیث ہیں۔)
دیکھے قواعد فی علوم الحدیث:ص۸۹
 

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
154
پوائنٹ
116
سماک بن حرب کی توثیق محدثین سے
امام ابونعیم الاصبہانی: احتج به في صحیحه المستخرج علی صحیح مسلم (۲۹۰،۲۸۹/۱ح۵۳۵)
ابن سیدالناس: صحح حدیثه في شرح الترمذي، قاله شیخنا الامام ابو محمد بدیع الدین الراشدي السندي
(دیکھے نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا ص۱۰ ح ۳)
حافظ ابن حبان نے خود اپنی صحیح میں سماک بن حرب سے بہت سی روایتیں لی ہیں مثلا دیکھے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان
(۱۴۳۱/۱ح۶۶ ص۱۴۴ ح۶۸،۶۹) اور اتحاف المہرة (۶۵،۶۴،۶۳/۳)
حافظ ابن حبان نے اپنی کتاب مشاھیر علماء الامصار میں سماک بن حرب کو ذکر کیا اور کوئی جرح نہیں کی (ص۱۱۰ ت ۸۴۰) یعنی خود ابن حبان کے نزدیک بھی ان پر جرح باطل و مردود ہے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
فراز بھائی میں نے عرض کیا ھتا
؎؎امام نسائی فرماتے ہیں سماک بن حرب جب منفرد ہو تو حجت نہیں۔(میزان ج2 ص232) اور اس میں یہ منفرد ہے
دوسرا سفیان کا عمل اس روایت کے خلاف ہے ، میرے پاس مسلم شرح نووی نہیں ہے اس میں آپ چیک کرلیں ۔
 
Last edited by a moderator:
Top