• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
کیا کہے گے @عبدالرحمن بھٹی صاحب اس فتویٰ کے بارے میں
محترم! حنفی مسلک میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے ہی مسنون ہیں اور اسی پر احادیث دلالت کرتی ہیں جیسا کہ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں پھر سے لکھے دیتا ہوں۔

سنن أبي داود حدیث نمبر 646 عَنْ ابْنِ جَرِيرٍ الضَّبِّيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
يُمْسِكُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ عَلَى الرُّسْغِ فَوْقَ السُّرَّةِ

ابن جریر ضبی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے
علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیکھاانہوں نے بائیں (ہاتھ) کو داہنے
(ہاتھ) سے کلائی پر ناف کے اوپر پکڑ (روک) رکھا تھا۔
ابوداؤد کہتے ہیں سعید بن جبیر سے "ناف کے اوپر"کی روایت ہے ابو مجلز نے"ناف کے نیچے"کا ذکر کیا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی (ناف کے نیچے کی حدیث)مروی ہے اور وہ (حدیث) قوی (صحیح) نہیں ہے۔

سنن أبي داود حدیث نمبر 647عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ
أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ

ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہبیان کرتے ہیں نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے زیر ناف پکڑنا چاہیئے۔
ابو داؤد کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حنبل کو سنا وہ عبد الرحمٰن بن اسحٰق کوفی کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
نوٹ: عبد الرحمٰن بن اسحٰق نے یہ روایت سیار ابی الحکم سے لی ہے۔ سیار ابی الحکم کی وفات 122 ہجری میں ہوئی ہے۔سیار ابی الحکم اور اس سے اوپر کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

مسند أحمد حدیث عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
إِنَّ مِنْ السُّنَّةِ فِي الصَّلَاةِ وَضْعُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ تَحْتَ السُّرَّةِ

علی رضی اللہ تعالیٰ عنہفرماتے ہیں کہ نماز میں ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھنا سنت ہے
یادرہے کہ ناف چونکہ کپڑے کے نیچے چھپی ہوتی ہے اور یہ محدود سی جگہ ہے اس لئے یہ کہنا کہ ہاتھ کہاں ہیں ناف کے اوپر یا ناف کے نیچے مشکل ہے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تصریح فرما دی کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھنے سنت ہے۔

سنن الترمذي:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال ثم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه
قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد
قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا ثم أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے ــــــ ــــــــــ الخ

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ

تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا
اوپر درج تمام روایات میں ہاتھ باندھنے کا مقام ناف ہی ہے۔ یہ حدیث چونکہ ”فعلی“ ہے (قولی یا تقریری نہیں) لہٰذا دیکھنے والے کو اندازہ کرنے میں غلطی لگ سکتی ہے کہ ناف ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور مستور ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
محمد بن عبداللہ بن عمار الموصلی: "یقولون انہ کان یغلط ویختلفون فی حدیثہ"(تاریخ بغداد ۲۱۶/۹ وسندہ صحیح)
اس میں یقولون کا فاعل نامعلوم ہے۔
ابن عمار الموصلی نے کہا سماک بن حرب کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ وہ غلطی کرتے تھے اور محدثین ان کی حدیث میں اختلاف کرتے ہیں ۔
اگر کوئی کہے کہ محض غلطی کرنے سے کوئی ضعیف نہیں ہو جاتا لیکن غلطی کرنے سے وہ اس قابل نہیں رہ جاتا کہ اگر وہ کسی روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس سے حجت قائم کی جاسکے ۔ابن حبان رحمہ اللہ نے تو الثقات ( ج ٤ ص ٣٣٩ ) میں سماک کو یخطيء کثیرا یعنی بہت زیادہ غلطیاں کرنے والا بھی کہا ہے۔

اگر یہ ابن عمار الموصلی کا یہ اپنا قول نہ بھی ہو تو انہوں نے محدثین کی طرف منسوب کیا اور ہم نے ہمارے پچھلے مراسلات میں ان محدثین کی نشاندہی کی ہے جو سماک پر غیر عکرمہ کی سند پر بھی کلام کرتے تھے۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
گزارش ہے کہ ایک ہی جگہ بات کر لی جاۓ. کم از کم اس تھریڈ کو بخش دیا جاۓ.
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
* عبدالرحمن بن یوسف بن خراش: "فی حدیثہ لین" (تاریخ بغداد ۶۱۶/۹)
ابن خراش کے شاگرد محمد بن محمد بن داؤد الکرجی کے حالات ِتوثیق مطلوب ہیں اور ابن خراش بذات خود جمہور کے نزدیک مجروح ہے ، دیکھئے میزان الاعتدال (۶۰۰/۲ت۵۰۰۹)
شیخ کفایت اللہ اور شیخ زبیر علی زائی جنہیں ذہبی عصر اور امیر المومنین فی الحدیث کہتے ہیں یعنی شیخ معلمی خود التنکیل میں جلد ١ ص ٤٤١ پر ابن خراش سے ایک راوی کی توثیق کرتے ہیں اور جب اصل ماخذ یعنی تاریخ بغداد(جلد ٨ ص ٢٦٧ )میں اس قول کی سند دیکہی جائے تو وہاں بھی سند میں محمد بن محمد بن داؤد الکرجی ملتے ہیں۔
ابن خراش کا قول سماک بن حرب کی حدیث میں کمزوری ہے معتبر ہے تبھی تو محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا دیکہیے
ابن الجوزی (الضعفاء والمتروکین ج 2 ص 26 )
امام مزی ( تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج 12 ص 121)
امام ذہبی ( المغنی فی الضعفاء ج 1 ص 285 )
(من تکلم فیه وهو موثق ج 1 ص 95 )
(تاریخ الاسلام ج 8 ص 125 )
بدر الدین عینی (مغانی الاخیار ج 1 ص 453 )
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
گزارش ہے کہ ایک ہی جگہ بات کر لی جاۓ. کم از کم اس تھریڈ کو بخش دیا جاۓ.
معافی چاہتا ہوں لیکن مجھے اس تھریڈ میں کافی دقتیں ہورہی تھی اقتباس لینے میں اسلیے یہاں پر جواب بھیجا ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
۱۔ اگر ابن حبان کے نزدیک سماک "یخطئ کثیراً" ہے تو ثقہ نہیں ہے لہٰذا اسے کتاب الثقات میں ذکر کیوں کیا؟ اور اگر ثقہ ہے تو "یخطئ کثیراً" نہیں ہے، مشہور محدث شیخ ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ ایک راوی پر حافظ ابن حبان البستی کی جرح " کان یخطئ کثیراً" نقل کرکے لکھتے ہیں:
"وھذا من افرادہ وتناقضہ، اذلوکان یخطئ کثیراًلم یکن ثقۃ"
یہ ان کی منفرد باتوں اور تناقضات میں سے ہے کیونکہ اگر وہ غلطیاں زیادہ کرتے تھے تو ثقہ نہیں تھے۔ ! (الضعفیۃ ۳۳۳/۲ ح ۹۳۰)
۲۔ حافظ ابن حبان نے خود اپنی صحیح میں سماک بن حرب سے بہت سی روایتیں لی ہیں مثلاً دیکھئے الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان (۱۴۳/۱ ح ۶۶ص ۱۴۴ ح ۶۸، ۶۹) واتحاف المہرۃ (۶۳/۳، ۶۴، ۶۵)
لہٰذا ابن حبان کے نزدیک اس جرح کاتعلق حدیث سے نہیں ہے اسی لیے تو وہ سماک کی روایات کو صحیح قراردیتے ہیں۔
۳۔ حافظ ابن حبان نے اپنی کتاب "مشاہیر علما الامصار" میں سماک بن حرب کو ذکر کیا ہے اور کوئی جرح نہیں (ص ۱۱۰ت۸۴۰) یعنی خود ابن حبان کے نزدیک بھی جرح باطل ومردود ہے۔
ہم بتا دیں کے سماک منفرد نہیں جن پر ابن حبان نے ثقات میں ذکر کرنے کے ساتھ یخطیء کثیرا کی جرح کی ہے۔
کچھ مثالیں پیش خدمت ہے

١-سدوس بن حبیب (الثقات ج ٤ ص ٣٤٩)
٢- شبيب بن بشر (الثقات ج ٤ ص ٣٥٩)
٣-مختار بن فلفل (الثقات ج ٥ ص ٤٢٩)
٤- يزيد بن درهم (الثقات ج ٥ ص ٥٣٨ )
٥-ربيعة بن سيف ( الثقات ج ٦ ص ٣٠١ )

کوئی کہتے ہیں ان کی توثیق اصطلاحی مراد نہیں ہوتی بلکہ محض دیانت داری مراد ہوتی ہے یعنی کہ ابن حبان نے انہیں دیانت داری کے لحاظ سے ثقہ بتلایا ہے اور ضبط کے لحاظ سے جرح کی ہے
ہم نے بھی محدثین کے اقوال سے بتلایا ہے کہ سماک ضبط اور حفظ کے اعتبار سے کمزور ہے اور غلطیاں کرتے تھے اور اس طرح کی جرح کرنے میں ابن حبان منفرد نہیں ہے جیسا کہ امام دار قطنی نے بھی سماک پر سئ الحفظ کی جرح کی ہے (علل الدار قطنی ج ١٣ ص ١٨٤) اور ابن عمار الموصلی نے بھی محدثین کی طرف اشارہ کیا ہے وہ سماک کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ غلطی کرتے تھے (تاريخ بغداد ج ٩ ص٢١٤ واسناده صحيح ) اور ابن خراش نے بھی ان کی حدیثوں میں کمزوری بتلائی ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے بھی کہا کہ سماک حدیث میں اضطراب کا شکار ہوجاتے تھے۔(الجرح والتعفیل لابن ابی حاتم ج ٤ ص ٢٧٩ )

نوٹ : یہاں امام احمد نے کوئی قید نہیں لگائی کہ کسی خاص سے روایت کرنے میں ہی اضطراب کا شکار ہوتے تھے بلکہ انہوں نے تو عموما کہا۔

لہذا ابن حبان جرح کرنے میں منفرد نہیں ہے اسلیے ان کی جرح معتبر ہوگی۔
ابن حبان رحمہ اللہ کی ایک راوی پر اسطرح کی جرح کے تعلق سے شیخ البانی بھی کہتے ہیں

انه كان يخطىء حتى خرج عن حد الاحتجاج به إذا انفرد (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ج٢ ص ٣٠١ )
ترجمه : شیخ البانی کہتے ہیں کہ وہ غلطی کرتا تھا حتی کہ وہ احتجاج پکڑے جانے کے حد سے باہر نکل گیا۔

شیخ البانی جس راوی کے تعلق سے یہ کہے رہے ہیں اس پر تو ابن حبان نے صرف غلطی کرنے کی جرح کی ہے جبکہ سماک پر تو کثیر غلطیاں کرنے کی جرح کی ہے تو سماک جس روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہوتو کیسے ان سے حجت قائم کی جائیگی۔؟؟

اب اگر کوئی کہے کہ ابن حبان نے اپنی جرح کا اعتبار نہیں کیا اور اپنی صحیح میں ان سے روایت کی ہے۔
اس طرح سے کہنا درست بھی معلوم نہیں ہوتا کیونکہ حافظ ابن حجر بھی النکت میں کہتے ہیں

احتجاج ابن خزيمة وابن حبان بأحاديث أهل الطبقة الثانية؛ الذين يخرج مسلم أحاديثهم في المتابعات: كابن إسحاق، وأسامة بن زيد الليثي، ومحمد بن عجلان، ومحمد بن عمرو بن علقمة، وغير هؤلاء، اهـ.

ابن خزیمۃ اور ابن حبان رحمہم اللہ نے طبقہ ثانیہ کے راویوں سے احتجاج کیا یے اور امام مسلم نے ان لوگوں سے احادیث متابعات میں لی ہے جن میں ابن اسحق، اسامہ بن زید اليثي اور محمد بن عجلان اور محمد بن عمرو بن علقمہ اور ان کے علاوہ سے۔

معلوم ہوا محدثین ایسے راویوں کے روایت متابعات میں لیتے تھے اور اگر ان میں سے کسی کا متابع موجود نہ ہو اس سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔


لہذا ابن حبان کے نزدیک بھی سماک بن حرب کا درجہ یہ ہے کہ جب وہ منفرد ہو تو ان سے حجت قائم نہیں کی جائیگی۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ہم بتا دیں کے سماک منفرد نہیں جن پر ابن حبان نے ثقات میں ذکر کرنے کے ساتھ یخطیء کثیرا کی جرح کی ہے۔
کچھ مثالیں پیش خدمت ہے

١-سدوس بن حبیب (الثقات ج ٤ ص ٣٤٩)
٢- شبيب بن بشر (الثقات ج ٤ ص ٣٥٩)
٣-مختار بن فلفل (الثقات ج ٥ ص ٤٢٩)
٤- يزيد بن درهم (الثقات ج ٥ ص ٥٣٨ )
٥-ربيعة بن سيف ( الثقات ج ٦ ص ٣٠١ )

کوئی کہتے ہیں ان کی توثیق اصطلاحی مراد نہیں ہوتی بلکہ محض دیانت داری مراد ہوتی ہے یعنی کہ ابن حبان نے انہیں دیانت داری کے لحاظ سے ثقہ بتلایا ہے اور ضبط کے لحاظ سے جرح کی ہے
ہم نے بھی محدثین کے اقوال سے بتلایا ہے کہ سماک ضبط اور حفظ کے اعتبار سے کمزور ہے اور غلطیاں کرتے تھے اور اس طرح کی جرح کرنے میں ابن حبان منفرد نہیں ہے جیسا کہ امام دار قطنی نے بھی سماک پر سئ الحفظ کی جرح کی ہے (علل الدار قطنی ج ١٣ ص ١٨٤) اور ابن عمار الموصلی نے بھی محدثین کی طرف اشارہ کیا ہے وہ سماک کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ غلطی کرتے تھے (تاريخ بغداد ج ٩ ص٢١٤ واسناده صحيح ) اور ابن خراش نے بھی ان کی حدیثوں میں کمزوری بتلائی ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ نے بھی کہا کہ سماک حدیث میں اضطراب کا شکار ہوجاتے تھے۔(الجرح والتعفیل لابن ابی حاتم ج ٤ ص ٢٧٩ )

نوٹ : یہاں امام احمد نے کوئی قید نہیں لگائی کہ کسی خاص سے روایت کرنے میں ہی اضطراب کا شکار ہوتے تھے بلکہ انہوں نے تو عموما کہا۔

لہذا ابن حبان جرح کرنے میں منفرد نہیں ہے اسلیے ان کی جرح معتبر ہوگی۔
ابن حبان رحمہ اللہ کی ایک راوی پر اسطرح کی جرح کے تعلق سے شیخ البانی بھی کہتے ہیں

انه كان يخطىء حتى خرج عن حد الاحتجاج به إذا انفرد (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ج٢ ص ٣٠١ )
ترجمه : شیخ البانی کہتے ہیں کہ وہ غلطی کرتا تھا حتی کہ وہ احتجاج پکڑے جانے کے حد سے باہر نکل گیا۔

شیخ البانی جس راوی کے تعلق سے یہ کہے رہے ہیں اس پر تو ابن حبان نے صرف غلطی کرنے کی جرح کی ہے جبکہ سماک پر تو کثیر غلطیاں کرنے کی جرح کی ہے تو سماک جس روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہوتو کیسے ان سے حجت قائم کی جائیگی۔؟؟

اب اگر کوئی کہے کہ ابن حبان نے اپنی جرح کا اعتبار نہیں کیا اور اپنی صحیح میں ان سے روایت کی ہے۔
اس طرح سے کہنا درست بھی معلوم نہیں ہوتا کیونکہ حافظ ابن حجر بھی النکت میں کہتے ہیں

احتجاج ابن خزيمة وابن حبان بأحاديث أهل الطبقة الثانية؛ الذين يخرج مسلم أحاديثهم في المتابعات: كابن إسحاق، وأسامة بن زيد الليثي، ومحمد بن عجلان، ومحمد بن عمرو بن علقمة، وغير هؤلاء، اهـ.

ابن خزیمۃ اور ابن حبان رحمہم اللہ نے طبقہ ثانیہ کے راویوں سے احتجاج کیا یے اور امام مسلم نے ان لوگوں سے احادیث متابعات میں لی ہے جن میں ابن اسحق، اسامہ بن زید اليثي اور محمد بن عجلان اور محمد بن عمرو بن علقمہ اور ان کے علاوہ سے۔

معلوم ہوا محدثین ایسے راویوں کے روایت متابعات میں لیتے تھے اور اگر ان میں سے کسی کا متابع موجود نہ ہو اس سے احتجاج نہیں کرتے تھے۔


لہذا ابن حبان کے نزدیک بھی سماک بن حرب کا درجہ یہ ہے کہ جب وہ منفرد ہو تو ان سے حجت قائم نہیں کی جائیگی۔
یہ نیچے اردو میں لکھا ہے شاید!!!!!!!!!!!!!!

گزارش ہے کہ ایک ہی جگہ بات کر لی جاۓ. کم از کم اس تھریڈ کو بخش دیا جاۓ.
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
منتظمین سے درخواست ہے الفاظ کی تصحیح کرلیں الجرح والتعدیل کی جگہ الجرح والتعفیل ہوگیا۔
شکریہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
یہ نیچے اردو میں لکھا ہے شاید!!!!!!!!!!!!!!
کوئی فائدہ نہیں ہے. جسکو نوٹس لینا چاہئے اسکا کوئی اتہ پتہ نہیں.
تبصرہ کرنے سے روک نہیں رہا. لیکن دس دس تھریڈ اسی موضوع پر؟؟؟ چہ معنی دارد؟؟؟
اور ہر جگہ وہی بات. حد ہے یار.
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
اگر ان کو روکیں گے تو یہ الزام ہم پر ہی دیں گے شاید اس لئے نظر انداز کیا جا رہا ہے
 
Top