ذراع عربی میں کہنی سے لے کر ہاتھ تک کو کہتے ہیں گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
قارئین کرام!
میری اس تحریر کو توجہ اور غور سے پڑھیں اور دیکھیں کہ غیر مقلدین کی فہم و فراست کتنی ہے اور اندھی تقلید میں یہ لوگ کس قدر جامد ہیں۔ یہ لوگ ’’احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پر نہیں بلکہ ان احادیث سے جو مفہوم انہوں نے یا ان کے بڑوں نے سمجھا ہے اسی ’’حدیثِ نفس‘‘ پر عمل کرتے ہیں۔
محترم ڈاکٹر عادل ایوب سلفی صاحب نے لکھا ’’گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا‘‘ اور یہ مفہوم اخذ کیا انہوں نے حدیث کے لفظ ’’ذراع‘‘ سے۔ حالانکہ کسی بھی حدیث میں نہیں ہے کہ ہاتھ کی انگلیاں کہنی کے قریب رکھیں۔ اس حدیث سے چونکہ یہ استنباط کیا جاسکتا تھا اور اس کا فائدہ ان کو یہ نظر آیا کہ اگر اس کا یہ مفہوم دیں تو حنفیوں کے ہاتھ باندھنے کے طریقہ کی نفی خود بخود ہو جاتی ہے جیسا کہ ڈاکٹر عادل ایوب سلفی صاحب نے لکھا ’’گر پوری ذراع پر ہاتھ رکھا جائے تو وہ ناف سے نیچے نہیں آتا‘‘ ۔
حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب مختصر صحیح نماز نبوی (تکبیر تحریمہ سے سلام تک) ناشر مکتبہ اسلامیہ میں لکھا؛
اقتباسِ کتاب:
قارئین کرام حدیث کی طرف مراجعت فرمائیں اور دیکھیں کہ حدیث کے الفاظ ہیں؛
كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں
یہاں صرف یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھیں۔ اگر دایاں ہاتھ بائیں ذراع (ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک) کے کسی بھی حصہ پر رکھیں تو وہ ’ذراع‘ پر ہی کہلائے گا۔
جو طریقہ ڈاکٹر عادل ایوب سلفی اور زبیر علی زئی صاحبان نے لکھا ہے وہ درج ذیل احادیث کے خلاف ہے؛
1 صحيح البخاري أَبْوَابُ الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ فی الباب عن ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
وَوَضَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَفَّهُ عَلَى رُسْغِهِ الْأَيْسَرِ
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ پر رکھی
2 سنن أبي داود حدیث نمبر 624 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ
فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ
ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
پس ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ وہ کانوں کے برابر ہوگئے پھر بائیں (ہاتھ) کو دائیں(ہاتھ) سے پکڑا
3 سنن الترمذي حدیث نمبر 234 عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ
فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنا
4سنن النسائي حدیث نمبر 877 عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ
قَبَضَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ
دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑا
5سنن النسائي حدیث نمبر 879 وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ
ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ
پھر دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے جوڑ کے پاس کلائی پر رکھا
6سنن ابن ماجه حدیث نمبر 801 عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّنَا
فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کراتے پس وہ دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے
7سنن ابن ماجه حدیث نمبر 802 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ
رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي
فَأَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ
میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا انہوں نے دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑ رکھا تھا
سنت پر صحیح طور پر عمل کرنے والے حنفی اس طرح ہاتھ باندھتے ہیں؛
سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی اٹے ہاتھ کی ہتھیلی پر گٹ (ہتھیلی اور کلائی کا درمیانی جوڑ) کے پاس رکھتے ہیں اور بائیں کلائی کو پکر لیتے ہیں اور دائیں ہاتھ کا کچھ حصہ بائیں کلائی پر بچھا دیتے ہیں۔یہ طریقہ تمام احادیث کے مطابق ہے کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں۔ مگر ضد ہٹ دھرمی عناد اور تعصب کا ستیاناس ہو کہ غیر مقلدین نے لکھ مارا؛
کتاب: نمازِ نبوی (احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں)
تالیف: ناصر الدین البانی
ترجمہ و تالیف: مولانا محمد صادق خلیل
ناشر: ادارۃ الترجمہ والتالیف رحمت آباد (حاجی آباد) فون نمبر 780141 فیصل آباد
اقتباسِ کتاب:
قارئین کرام ! دیکھیں کہ جو طریقہ تمام احادیث کے مطابق ہے اس کو بدعت کہہ رہے ہیں اور جوتمام احادیث کے خلاف ہے اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ باور کر ا رہے ہیں۔