• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز وتر میں دعا قنوت پڑھنے کا مقام اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کا حکم

ابو عقاشہ

مبتدی
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
20
ری ایکشن اسکور
120
پوائنٹ
24
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں کہ نماز وتر میں دعا قنوت کب پڑھنی چاہیے؟
اور دوسرا یہ کہ کیا دعائے قنوت کیلئے ہاتھ اُٹھانا درست ہے؟

برائے مہربانی صحیح احادیث کے حوالے کے ساتھ وضاحت کریں۔

جزاک اللہ خیراًً
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

محترم اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں کہ
۱۔ نماز وتر میں دعا قنوت کب پڑھنی چاہیے؟
۲۔ اور دوسرا یہ کہ کیا دعائے قنوت کیلئے ہاتھ اُٹھانا درست ہے؟

برائے مہربانی صحیح احادیث کے حوالے کے ساتھ وضاحت کریں۔

جزاک اللہ خیراًً
۱۔ دعائے قنوت وتر رکوع سے قبل اور رکوع کے بعد دونوں میں سے کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے ۔
رکوع سے پہلے قنوت وتر کی دلیل یہ ہے :
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ فَإِذَا فَرَغَ قَالَ عِنْدَ فَرَاغِهِ سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يُطِيلُ فِي آخِرِهِنَّ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے ، پہلی رکعت میں سورۃ الاعلى دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص کی تلاوت فرماتے اور رکوع سے قبل قنوت کرتے اور جب فارغ ہوتے تو تین مرتبہ یہ دعاء پڑھتے " سبحان الملک القدوس اور آخری لفظ کو لمبا کھینچتے ۔
سنن نسائی کتاب قیام اللیل باب کیف الوتر بثلاث ح ۱۶۹۹
اور رکوع کے بعد قنوت کرنے کی دلیل یہ ہے :
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي وِتْرِي إِذَا رَفَعْتُ رَأْسِي وَلَمْ يَبْقَ إِلا السُّجُودُ: " اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ".
مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھایا کہ اپنے وتر میں جب میں رکوع سے سر اٹھاؤں اور سجدہ کے سوا اور کچھ باقی نہ بچے تو یہ دعاء پڑھوں اللہم اہدنی فیمن ہدیت ۔۔۔۔۔۔۔ الخ
مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۲۲
۲۔ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں !
کچھ لوگ اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں لیکن یہ قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ قیاس ، قیاس مع الفارق بنتا ہے قیاس صحیح نہیں !!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزکم اللہ خیرا محترم رفیق طاہر بھائی!
اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
ما شاء اللہ! آپ کے جوابات کافی مدلل ہوتے ہیں، لیکن اگر حدیث مبارکہ کوٹ کرنے کے ساتھ اگر آپ ان احادیث کی صحت کے حوالے سے کسی محدث کی رائے بھی نقل کر دیا کریں تو کیا زیادہ مناسب نہ ہوگا، ہمیں الحمد للہ آپ سے مکمل حسن ظن ہے کہ آپ صحیح احادیث پیش کرتے ہیں، لیکن حوالہ دیکھ کر بہرحال اطمینانِ قلب بھی حاصل ہو جاتا ہے۔
ابو عکاشہ بھائی نے بھی لکھا ہے کہ
برائے مہربانی صحیح احادیث کے حوالے کے ساتھ وضاحت کریں۔
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
جزکم اللہ خیرا محترم رفیق طاہر بھائی!
اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
ما شاء اللہ! آپ کے جوابات کافی مدلل ہوتے ہیں، لیکن اگر حدیث مبارکہ کوٹ کرنے کے ساتھ اگر آپ ان احادیث کی صحت کے حوالے سے کسی محدث کی رائے بھی نقل کر دیا کریں تو کیا زیادہ مناسب نہ ہوگا، ہمیں الحمد للہ آپ سے مکمل حسن ظن ہے کہ آپ صحیح احادیث پیش کرتے ہیں، لیکن حوالہ دیکھ کر بہرحال اطمینانِ قلب بھی حاصل ہو جاتا ہے۔
در اصل میں خود روایات پر حکم لگاتا ہوں بسا اوقات مجھے محققین سے اختلاف بھی ہوتا ہے ۔ اس لیے میں اپنے سوا کسی بھی محدث کا حکم اس وقت نہیں پیش کرتا جب تک اس بحث کی ضرورت نہ پیش آئے ۔ اور یہ کام اس لیے کرتا ہوں کہ اس نیٹ کی دنیا پر بالخصوص جب کوئی شخص کسی محدث کی بات کو پیش کرتا ہے اور اسکے بعد اسکے کسی قول یا تحقیق سے اختلاف کرتا ہے تو بحث برائے بحث شروع ہو جاتی ہے ۔ اس لیے میں اکثر یہ کہہ دیتا ہوں کہ " اس حدیث کو میں نے صحیح یا حسن یا ضعیف یا موضوع کہا ہے "
بہر حال آپکی فرمائش پر ان دونوں روایات کے بارہ میں عرض ہے کہ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ان دونوں روایات کو صحیح کہا ہے اسی طرح شعیب الانؤوط نے سنن نسائی والی حدیث اور مستدرک حاکم والی حدیث کو حسین سلیم اسد نے صحیح قرار دیا ہے ۔ یہ تو تھی معاصرین کی بات اور جہاں تک متقدمین کی بات ہے تو مجھے نہیں معلوم کہ متقدمین میں سے کسی محدث نے ان روایات کو ضعیف کہا ہو ۔
واللہ تعالى اعلم
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
در اصل میں خود روایات پر حکم لگاتا ہوں بسا اوقات مجھے محققین سے اختلاف بھی ہوتا ہے ۔ اس لیے میں اپنے سوا کسی بھی محدث کا حکم اس وقت نہیں پیش کرتا جب تک اس بحث کی ضرورت نہ پیش آئے ۔ اور یہ کام اس لیے کرتا ہوں کہ اس نیٹ کی دنیا پر بالخصوص جب کوئی شخص کسی محدث کی بات کو پیش کرتا ہے اور اسکے بعد اسکے کسی قول یا تحقیق سے اختلاف کرتا ہے تو بحث برائے بحث شروع ہو جاتی ہے ۔ اس لیے میں اکثر یہ کہہ دیتا ہوں کہ " اس حدیث کو میں نے صحیح یا حسن یا ضعیف یا موضوع کہا ہے "
واللہ تعالى اعلم
مجھے آپ کے طرزِ استدلال پر کافی حیرانگی ہے، اس کا مطلب ہے کہ جب آپ حدیث مبارکہ پر اسلاف کا حکم نہیں، بلکہ اپنا ہی حکم لگاتے ہیں، صرف اس بناء پر کہ آپ کو بعض جگہ ان سے اختلاف ہوتا ہے، تو گویا آپ کسی شرعی مسئلے میں بھی اسلاف کی کوئی رائے ذکر نہیں کریں گے، بلکہ صرف اپنی رائے ہی ذکر کریں گے، کیونکہ لا محالہ اسلاف کی بعض باتوں سے آپ کو اختلاف ہو سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ اہل الحدیث کا طرزِ فکر ہے۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,980
پوائنٹ
323
میرے علم کے مطابق تو اہل الحدیث کا طرز فکر یہ ہے کہ کتاب وسنت کی دلیل ذکر کی جائے اور اس سے مستنبط مسئلہ بیان کیا جائے قیل وقال کے بغیر ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ حدیث مبارکہ پر اسلاف کا حکم نہیں، بلکہ اپنا ہی حکم لگاتے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی جان برائے مہربانی یہ بتادیں کہ اسلاف سے آپ کی کیا مرادہے؟
یعنی کس دورکے اورکن کن محدثین کے حکم کی آپ بات کررہے ہیں ؟
یہ بتانا بہت آسان ہے کیونکہ اسلاف میں سے جنہوں نے بھی احادیث پر حکم لگانے کا اہتمام کیا ہے وہ معدود ہیں۔
جواب کا منتظر

آپ کابھائی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
میرے علم کے مطابق تو اہل الحدیث کا طرز فکر یہ ہے کہ کتاب وسنت کی دلیل ذکر کی جائے اور اس سے مستنبط مسئلہ بیان کیا جائے قیل وقال کے بغیر ۔
بجا فرمایا بھائی جان۔ لیکن یہ منہج تو جماعت المسلمین اور توحیدی گروہ کا بھی ہے۔ اہل حدیث کی فکر میں کتاب و سنت کی دلیل کے ساتھ ایک اہم شرط ’سلف صالحین کا متفقہ فہم‘ بھی شامل ہے۔ اور یہی شرط یا اصول مجلہ الحدیث حضرو میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی بیان کر رکھا ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
بجا فرمایا بھائی جان۔ لیکن یہ منہج تو جماعت المسلمین اور توحیدی گروہ کا بھی ہے۔ اہل حدیث کی فکر میں کتاب و سنت کی دلیل کے ساتھ ایک اہم شرط ’سلف صالحین کا متفقہ فہم‘ بھی شامل ہے۔ اور یہی شرط یا اصول مجلہ الحدیث حضرو میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے بھی بیان کر رکھا ہے۔
بجافرمایا بھائی جان آپ نے بھی فہم سلف کا التزام ہی تو وہ خاصہ ہے جواہل حدیث کو دیگر تمام گروہوں سے ممتاز کرتاہے ورنہ کتاب وسنت کا منکرتوشاید ہی کوئی گروہ ہو۔
لیکن فہم سلف کے التزام کاحکم بھی کتاب وسنت میں موجودہے ، لہذا کتاب وسنت کو ماننے میں فہم سلف کاماننا خود بخود آگیا جس طرح اجماع کی حجیت کتاب وسنت سے ثابت ہے تو کتاب وسنت کا نام لینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اجماع کا انکار کیا جارہا ہے یہ وضاحت بھی حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے بہت سے مقامات پر کی ہے بلکہ ایک درس میں بھی کہا ہے جس کی ویڈیو میرے پاس موجودہے۔
ٹھیک اسی طرح کتاب وسنت کی بات سے فہم سلف کا انکار نہ سمجھا جائے۔
رہی قیل وقال سے اجتناب کی بات تو ممکن ہے اس سے مراد محترم شیخ رفیق طاہرحفظہ اللہ کی نظرمیں نام نہاد فقہاء کی قیل وقال ہو، یا کسی مسئلہ میں مختلف اقوال نہ کہ ’’سلف صالحین کا متفقہ فہم‘‘ واللہ اعلم۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
بھائی جان برائے مہربانی یہ بتادیں کہ اسلاف سے آپ کی کیا مرادہے؟
یعنی کس دورکے اورکن کن محدثین کے حکم کی آپ بات کررہے ہیں ؟
یہ بتانا بہت آسان ہے کیونکہ اسلاف میں سے جنہوں نے بھی احادیث پر حکم لگانے کا اہتمام کیا ہے وہ معدود ہیں۔
جواب کا منتظر
آپ کابھائی۔
انتہائی محترم بھائی! اسلاف سے میری مراد وہ محدثین ہیں جو احادیث مبارکہ پر صحت وضعف کا حکم لگاتے ہیں، اور اس سلسلے میں ان پر اعتماد کیا جاتا ہے، متقدمین میں سے مثلاً امام ترمذی، حاکم، ذہبی، ابن حجر﷭ وغیرہم اور متاخرین میں علامہ البانی، شیخ مقبل بن ہادی وحافظ زبیر احمد زئی وغیرہم۔
 
Top