السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم اس مسئلے کی وضاحت فرما دیں کہ
۱۔ نماز وتر میں دعا قنوت کب پڑھنی چاہیے؟
۲۔ اور دوسرا یہ کہ کیا دعائے قنوت کیلئے ہاتھ اُٹھانا درست ہے؟
برائے مہربانی صحیح احادیث کے حوالے کے ساتھ وضاحت کریں۔
جزاک اللہ خیراًً
۱۔ دعائے قنوت وتر رکوع سے قبل اور رکوع کے بعد دونوں میں سے کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے ۔
رکوع سے پہلے قنوت وتر کی دلیل یہ ہے :
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ بِثَلَاثِ رَكَعَاتٍ كَانَ يَقْرَأُ فِي الْأُولَى بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَفِي الثَّانِيَةِ بِقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَفِي الثَّالِثَةِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَيَقْنُتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ فَإِذَا فَرَغَ قَالَ عِنْدَ فَرَاغِهِ سُبْحَانَ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يُطِيلُ فِي آخِرِهِنَّ
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے تھے ، پہلی رکعت میں سورۃ الاعلى دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص کی تلاوت فرماتے اور رکوع سے قبل قنوت کرتے اور جب فارغ ہوتے تو تین مرتبہ یہ دعاء پڑھتے " سبحان الملک القدوس اور آخری لفظ کو لمبا کھینچتے ۔
سنن نسائی کتاب قیام اللیل باب کیف الوتر بثلاث ح ۱۶۹۹
اور رکوع کے بعد قنوت کرنے کی دلیل یہ ہے :
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي وِتْرِي إِذَا رَفَعْتُ رَأْسِي وَلَمْ يَبْقَ إِلا السُّجُودُ: " اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ ".
مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے سکھایا کہ اپنے وتر میں جب میں رکوع سے سر اٹھاؤں اور سجدہ کے سوا اور کچھ باقی نہ بچے تو یہ دعاء پڑھوں اللہم اہدنی فیمن ہدیت ۔۔۔۔۔۔۔ الخ
مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۱۲۲
۲۔ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں !
کچھ لوگ اسے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہیں لیکن یہ قیاس کرنا درست نہیں کیونکہ یہ قیاس ، قیاس مع الفارق بنتا ہے قیاس صحیح نہیں !!