• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کا درست طریقہ - عبد اللہ حیدر

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے 12 اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے 13 اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا14۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو تھام لیا کرتے تھے 15۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ افضل یہ ہے کہ کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے ۔
محترم اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ خدانخواستہ آقا علیہ السلام مستقل مزاج نہ تھے بلکہ متلون مزاج تھے۔ بلکہ آقا علیہ السلام مستقل مزاج تھے اور کسی عمل کو بغیر کسی وجہ کے چھوڑ کر دوسرا عمل نہیں کرتے تھے۔ سنت صرف اسی عمل کو کہیں گے جو آخری ہو۔ جسے آقا علیہ السلام نے ترک کر دیا ہو وہ حدیث میں تو موجود ہوسکتا ہے مگر اس کو سنت نہیں کہیں گے۔ دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ ’’ہر سنت کا ذکر حدیث میں ہے مگر ہر حدیث سنت نہیں‘‘۔
ہاتھ باندھنے کا سنت طریقہ ایک ہی تھا کہ آقا علیہ السلام دائیں ہاتھ کی ہتھیلی الٹے ہاتھ کے گٹ کے پاس رکھتے اور سیدھے ہاتھ سے الٹے ہاتھ کو پکڑ لیتے اور دائیں ہاتھ کا کچھ حصہ بائیں کلائی پر بچھا دیتے۔ یہ ہاتھ باندھنے کا طریقہ تمام احادیث کے مطابق ہے کسی بھی حدیث کے خلاف نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ ہات کہاں باندھے جائیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
والسلام
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
[QUOTE="Aamir, post: 131032, member: 15
سیدنا عبد اللہ بن عباس ﷜ بیان فرماتے ہیں: «
صَلَّى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فِي فَضَاءٍ لَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ شَيْءٌ»
رسول اللہ ﷺ نے کھلی جگہ میں نماز پڑھی اور آپﷺ کے سا منے کو ئی چیز (بطور سترہ) نہ تھی۔
[مصنف ابن أبی شیبۃ، کتاب الصلوات، باب من رخص فی الفضاء أن یصلی بھا، (2866)، مسند أحمد، (1965)، مسند أبی یعلی، (2601)]

سیدنا عبدالله بن عباس ﷜عنہ فرماتے ہیں: «
اقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَار
ٍ» میں گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ ان دنو ں میں قریب البلوغت تھا اور رسول اللہ ﷺ منی میں بغیر دیوار کے نماز پڑھ رہے تھے ۔
[صحیح البخاري، كتاب العلم، باب متی یصح سماع الصغیر؟ (76)]
اس باب میں حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں مسند بزار کے حو الے سے تائیداً یہ روایت ذکر کی ہے: «
وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ لَيْسَ لِشَيْءٍ يَسْتُرُهُ»
. نبی ﷺ فرض نماز ادا کر رہے تھے۔ آپ ﷺ کے آگے کو ئی ایسی چیز نہ تھی جو آپ ﷺ کا سترہ بنتی۔
[فتح الباری: 1/171، طبع: دار المعرفۃ، بیروت، مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنھما (4951)]
ابن بطال نے شرح بخاری 2/129 میں اس کی سند ذکر کی ہے جو کہ حسن ہے۔

سیدنا ابن عباس ﷜ فرماتے ہیں كہ: «
جِئْتُ أَنَا وَغُلَامٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ عَلَى حِمَارٍ " فَمَرَرْنَا بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَنَزَلْنَا عَنْهُ وَتَرَكْنَا الْحِمَارَ يَأْكُلُ مِنْ بَقْلِ الْأَرْضِ أَوْ قَالَ: مِنْ نَبَاتِ الْأَرْضِ فَدَخَلْنَا مَعَهُ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ رَجُلٌ: أَكَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ؟ قَالَ: لَا»
میں اور بنی ہاشم کا ایک لڑکا گدھے پر سوار ہو کر آئے ۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے گزرے تو آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے تو ہم (گدھے سے) اترے اور اس کو زمین کی نباتا ت کھانے کے لئے چھوڑدیا اور ہم آپ ﷺ کے ساتھ نماز میں داخل ہو گئے۔ ایک آدمی نے (ابن عباس ﷜سے ) پو چھا کیا آپﷺ کے آگے لاٹھی یا نیزہ (بطور سترہ)تھا؟ تو فرمایا: نہیں ۔
[مسند أبي یعلی، أول مسند ابن عباس: 4/311 (2423)]
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے ۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلاً ''نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے ، منہ طرف کعبہ شریف'' وغیرہ ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے ۔ البتہ انہوں نے اس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلاف کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیا ہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سے منع کرتے ہوئے ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے :
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 157
"اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے "
اس کے بدعت ہونے پر کیا دلیل ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اس کے بدعت ہونے پر کیا دلیل ہے؟
نماز کے شروع میں زبان سے کہنا :
" میں فلاں نماز کے لیے وضو کی نیت کرتا ہوں" یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب اور سنت سے کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی عقل مند لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست، پاگل شخص اور بیمار ذھن ہی ہوتا ہے۔
میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیں کہ میں فلاں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
یا جب آپ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کرنے کی نیت کرتا ہوں؟
يا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا کرادہ کرتے ہیں تو تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلاں بنت فلاں سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کرتا ہوں؟
ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اور مجنون ہی ہوسکتا ہے-
تمام عقل مند انسانوں اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے نہ کہ زبان، کسی چيز کے بارے میں میں آپ کے ارادے کور نیت کہتے ہیں جس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو ماضح کریں-
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(( انما الااعمال بالنیات و انما لکل امری مانوی۔۔۔۔۔۔۔۔))
"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو (مثلا ثواب وعذاب) اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا"-
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]
یعنی اعمال وہی معتبر ہیں جن کی نیت اور عمل کے ساتھ تصدیق کی جائے- حدیث بالا کے باقی الفاط اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ زبان کے ساتھ (رٹے رٹائے) الفاظ کہنے کو نیت نہیں کہتے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
(( فمن کانت ھجرۃ الی اللہ ورسولہ فھجرۃ الی اللہ و رسولہ ومن کانت ھجرۃ الی دنیا یصیبھا او امراۃ ینکحھا فھجرۃ ماھاجر الیہ))
" پس جس نے اللہ اور اس کے رسولۖ کےلیے ھجرت کی تو اس ھجرت اللہ اور اس کے رسولۖ کے لیے ہی ہوگی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ھجرت کی ہوگی تو اس کی ھجرت اسی مقصد کے لیے ہوگی (نہ کہ اللہ اور رسولۖ کے لیے)۔
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]

کسی شخص نے بھی یہ بات نہیں کی کہ نکاح یا حصول دنیا مثلا خرید و فروخت یا تجارت کے لیے کپا گھر بار چھوڑے تو کس پر زبان سے نیت کرنا لازم ہے' بلکہ کی نیت اس کے طرز عمل سے معلوم ہوتی ہے- اگر وہ شخص ان چيزوں میں زبان سے نیت کرنک شروع کردے تو عقل مند لوگ اسے پاگل اور مجنون ہی قرار دیں گے-
یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیلکے جائز نہیں بلیہ حرام ہے، اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے-
عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی- زبان سے نیت کرنے والا شخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتا تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کردے اور اگر وہ رٹے رٹائے الفاظ بطور عبادت کہتا ہے تو اس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے شروع میں " میں نیت کرتا ہوں رفع حدث کے لیے يا نماز پڑھنے کے لیے " وغیرہ الفاظ بلکل نہیں کہتے تھے اور نہ آپ کے اصحابہ کرام سے یہ بات ثابت ہے اور اس سلسلہ میں ایک حرف بھی آپ سے مروی نہیں' نہ صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے-
( زادالمعاد: 1/196)
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کے اقوال تفصیل سے ذکر کیے ہیں، علم کے ساتھ نیت انتہائی آسان ہے، یہ وسوسوں، خود ساختہ بندشوں اور نام نہاد زنجیرون کی محتاج نہیں ہے اور اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ آدمی کو وسوسہ اس وقت آتا ہے جب وہ فاتر العقل يا شریعت کے بارے میں جاہل ہوتا ہے-
لوگوں نے اس بات کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا زبان سے نیت کرنا مستحب ہے؟
امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے بعض کہتے ہین کہ ایسا کہنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے-
اما مالک اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے ایک گروھ کا یہ کہنا ہے کہ ایسا کرنا مستحب نہیں بلکہ نیت سے زبان سے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور تابعین سے نماز اور وضو یا روزوں میں یہ چيز بلکل جائز نہیں ہے-
علماء یہ کہتے ہیں کہ کسی فعل کے بارے میں علم کے ساتھ ہی نیت حاصل ہوجاتی ہے- لہاذا زبان کے ساتھ رٹے رٹائے الفاظ پڑھنا ہوس پرستی، فضول اور ہذیان ہے۔
نیت انسان کے دل میں ہوتی ہے اور زبان کے ساتھ نیت کرنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نیت کا تعلق دل سے نہیں، اسی لیے وہ اپنی زبان سے نیت حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حاصل شدہ چيز کے حصول کی ہوس تحصیل حاصل کے زمرے میں آتی ہے- اس مذکورہ غلط عقیدہ کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان وسوسوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں- (مجموع الفتاوی: 18/263،264)
امام ابن رجب الحمبلی رحم اللہ علیہ اپنی کتاب" جامع العلوم (ص40)" میں فرماتے ہیں کہ " ان مسائل میں کوئی حوالہ ہم نہ سلف صالحین سے پاتے ہیں اور نہ کسی اور امام سے-
ان سطور کے تحریر کرنے کے بعد مجھے گمراہ بدعتوں کے ایک سردار اور سقاف اردن کے باری میں معلوم ہوا کہ یہ خبیث شخص ام المومنین حضرت عائشہ رصی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال کرتا ہے، جس میں آیا ہے کہ" جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے کھانے کے بارے میں میں پوچھا اور انہوں نے کہا کہ کھانا موجود نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمايا میں روزا رکھتا ہوں"-
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز صوم النافلۃ بنیۃ من النھار قبل زوال [1154])
سقاف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام حج میں اس قول سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا تھا کہ:
(( لبیک بعمرۃوالحج))
اے اللہ میں حج و عمرہ کے ساتھ لبیک کہ رہا ہوں-
[ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب احلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم وھدیۃ: 1251]
اور حالانکہ اس کا یہ استدلال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے-
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال غلط ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حال اور کیفیت کی خبر دی ہے نہ کہ نیت کی، اگر آپ لفظی نیت کرتے تو اس طرح کہتے کہ" میں روزے کی نیت کرتا ہوں" یا اس کے مشابہ کوئی بات فرماتے-
تلبیہ کے وقت آپ کا (( لبیک بعمرۃ والحج)) کہنا بھی لفظی نیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، ورنہ آپ یوں کہتے کہ" میں عمرہ اور حج کا ارادہ کرتا ہوں" یا " میں حج و عمرہ کی نیت کرتا ہوں"۔ ان الفاظ کا تعلق اس سنت نبوی سے ہے جو تلبیہ ( لبیک کہنے) سے ہے نہ کہ لفظی نیت سے-
حج اور عمرہ میں لفظی نیت کے بری اور مذموم بدعت ہونے پر دلیل حافظ ابن رجبؒ کا وہ قول بھی ہے جو انہوں نے " جامع العلوم (ص20)" پر لکھا ہے:
" ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو احرام کے وقت یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں تو انہوں نے (ناراض ہوکر) اسے کہا کہ کیا تو لوگوں کو (اپنی نیت و ارادہ کے بارے میں) بتانا چاہتا ہے (کہ تو نیکی کا بڑا کام کررہا ہے)؟ کیا اللہ تعالی تیرے دل کے بھیدوں سے (بھی) واقف نہیں ہے؟"
تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ زبان کے ساتھ نیت کرنا مستحب نہیں ہے اور نہ ہی اصلاحن جائز ہے۔ واللہ الموفق
اقتباس از: " عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد "
ترجمہ و تحقیق: حافظ زبیر علی زئی"
https://archive.org/stream/Ibadaat-Main-Bidat-aur-Sunnat-e-Nabwi-say-unn-ka-Radd#page/n46
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
نماز کی تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا دل میں کوئی نیت ہونی چاہیئے کہ نہیں؟
یا کہ مسجد میں آکر صرف تکبیر تحریمہ کہ کر نماز شروع کر دی جائے؟
جواب اصلاحی ہو نا کہ مناظرانہ۔ شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
نماز کی تکبیر تحریمہ سے پہلے کیا دل میں کوئی نیت ہونی چاہیئے کہ نہیں؟
یا کہ مسجد میں آکر صرف تکبیر تحریمہ کہ کر نماز شروع کر دی جائے؟
جواب اصلاحی ہو نا کہ مناظرانہ۔ شکریہ
محترم بھائی !
ہر عمل کیلئے نیت لازمی ہے ،
نیت کا مطلب ہے "کسی کام کا دلی عزم اور ارادہ کرنا"۔
(نیت کی موجودگی) اور درست طور پر موجودگی کوتمام عبادات میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
نیت دِل میں کیے گئے عزم و ارادے کا نام ہے ، لہٰذازبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(( انما الاعمال بالنیات و انما لکل امری مانوی۔۔۔۔۔۔۔۔))
"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو (مثلا ثواب وعذاب) اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا"-
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]
یعنی اعمال وہی معتبر ہیں جن کی نیت اور عمل کے ساتھ تصدیق کی جائے- حدیث بالا کے باقی الفاط اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ زبان کے ساتھ (رٹے رٹائے) الفاظ کہنے کو نیت نہیں کہتے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
((
فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها، أو امرأة يتزوجها، فهجرته إلى ما هاجر إليه»
" پس جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کےلیے ہجرت کی تو اسکی ہجرت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی ہوگی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی ہوگی تو اس کی ھجرت اسی مقصد کے لیے ہوگی (نہ کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے)۔
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مشہور دیوبندی عالم مولوی انور شاہ کاشمیری ۔۔ فیض الباری شرح صحیح بخاری ۔۔ میں لکھتے ہیں :
"
(( أن التلفظَ بالنية لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلّم مدة عُمُره، ولا عن واحد من الصحابة والتابعين، ولا من الأئمة الأربعة رحمهم الله تعالى.))

ترجمہ :
یعنی الفاظ کے ساتھ نیت کرنا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں کہیں ثابت نہیں ،اور نہ صحابہ کرام میں سے کسی ایک سے بھی ثابت ہے ،نہ ہی تابعین کرام سے ثابت ہے ، اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کسی امام سے ثابت ہے ، ))
تھوڑا آگے چل کر لکھتے ہیں :
(( فالنية أمرٌ قلبي لا مَنَاص عنها في الأفعال الاختيارية )) اختیاری اعمال میں نیت دل کا فعل ہے ، جس سے چھٹکارا نہیں ))
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
نماز کی نیت دل میں کیسے کی جائے؟
انفرادی اور باجماعت سب قسم کی نمازوں کے بارے میں بتا دیجئے گا۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
ظہر کی چار سنت پڑھنے لگوں تو دل میں کس طرح نیت کروں؟
جب امام کی اقتدا میں ظہر کے فرض پڑھنے لگوں تب کیسے دل میں نیت کروں؟
ان کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں جلد از جلد دے کر ممنون فرمائیں۔
جناب اسحاق سلفی صاحب
 
Top