" میں فلاں نماز کے لیے وضو کی نیت کرتا ہوں" یہ ایسی منکر بدعت ہے جس پر کتاب اور سنت سے کوئی دلیل نہیں اور نہ ہی عقل مند لوگوں کا کام ہے بلکہ اس فعل کا مرتکب صرف وسوسہ پرست، پاگل شخص اور بیمار ذھن ہی ہوتا ہے۔
میں اللہ کی قسم دیتے ہوئے آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ جب کھانے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرتے ہیں کہ میں فلاں فلاں قسم کے صبح کے کھانے کی نیت کرتا ہوں؟!
یا جب آپ قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہیں تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں پیشاب یا پاخانہ کرنے کی نیت کرتا ہوں؟
يا جب آپ اپنی بیوی سے جماع کا کرادہ کرتے ہیں تو تو کیا یہ کہتے ہیں کہ میں اپنی بیوی فلاں بنت فلاں سے نکاح کے بعد جائز شرعی جماع کرتا ہوں؟
ایسا کرنے والا شخص یقینا پاگل اور مجنون ہی ہوسکتا ہے-
تمام عقل مند انسانوں اس پر اجماع ہے کہ نیت کا مقام دل ہے نہ کہ زبان، کسی چيز کے بارے میں میں آپ کے ارادے کور نیت کہتے ہیں جس کے لیے آپ کو زبان کے ساتھ نیت کے تکلف کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ایسے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے جو آپ کے ہونے والے عمل کو ماضح کریں-
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((
انما الااعمال بالنیات و انما لکل امری مانوی۔۔۔۔۔۔۔۔))
"اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر آدمی کو (مثلا ثواب وعذاب) اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا"-
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]
یعنی اعمال وہی معتبر ہیں جن کی نیت اور عمل کے ساتھ تصدیق کی جائے- حدیث بالا کے باقی الفاط اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ زبان کے ساتھ (رٹے رٹائے) الفاظ کہنے کو نیت نہیں کہتے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
(( فمن کانت ھجرۃ الی اللہ ورسولہ فھجرۃ الی اللہ و رسولہ ومن کانت ھجرۃ الی دنیا یصیبھا او امراۃ ینکحھا فھجرۃ ماھاجر الیہ))
" پس جس نے اللہ اور اس کے رسولۖ کےلیے ھجرت کی تو اس ھجرت اللہ اور اس کے رسولۖ کے لیے ہی ہوگی اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ھجرت کی ہوگی تو اس کی ھجرت اسی مقصد کے لیے ہوگی (نہ کہ اللہ اور رسولۖ کے لیے)۔
[ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ماجاء ان الاعمال بالنیۃ والحسبۃ (54)]
کسی شخص نے بھی یہ بات نہیں کی کہ نکاح یا حصول دنیا مثلا خرید و فروخت یا تجارت کے لیے کپا گھر بار چھوڑے تو کس پر زبان سے نیت کرنا لازم ہے' بلکہ کی نیت اس کے طرز عمل سے معلوم ہوتی ہے- اگر وہ شخص ان چيزوں میں زبان سے نیت کرنک شروع کردے تو عقل مند لوگ اسے پاگل اور مجنون ہی قرار دیں گے-
یہ بھی یاد رہے کہ عبادات میں اصل حرت ہے یعنی کوئی عبادت بغیر شرعی دلیلکے جائز نہیں بلیہ حرام ہے، اللہ آپ کو اور مجھے اتباع سنت پر قائم رکھے-
عبادات میں یہ حرمت بغیر کسی شرعی دلیل کے جواز نہیں بن جاتی- زبان سے نیت کرنے والا شخص اگر اسے عبادت نہیں سمجھتا تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اسے عبادت سے منسلک کردے اور اگر وہ رٹے رٹائے الفاظ بطور عبادت کہتا ہے تو اس پر یہ لازم ہے کہ اس فعل کے جواز پر شرعی دلیل پیش کرے اور حالانکہ اس کے پاس اس فعل پر سرے سے کوئی دلیل ہے ہی نہیں۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو کے شروع میں " میں نیت کرتا ہوں رفع حدث کے لیے يا نماز پڑھنے کے لیے " وغیرہ الفاظ بلکل نہیں کہتے تھے اور نہ آپ کے اصحابہ کرام سے یہ بات ثابت ہے اور اس سلسلہ میں ایک حرف بھی آپ سے مروی نہیں' نہ صحیح سند سے اور نہ ہی ضعیف سند سے-
( زادالمعاد: 1/196)
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کے اقوال تفصیل سے ذکر کیے ہیں، علم کے ساتھ نیت انتہائی آسان ہے، یہ وسوسوں، خود ساختہ بندشوں اور نام نہاد زنجیرون کی محتاج نہیں ہے اور اسی لیے بعض علماء کہتے ہیں کہ آدمی کو وسوسہ اس وقت آتا ہے جب وہ فاتر العقل يا شریعت کے بارے میں جاہل ہوتا ہے-
لوگوں نے اس بات کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ کیا زبان سے نیت کرنا مستحب ہے؟
امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے بعض کہتے ہین کہ ایسا کہنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے-
اما مالک اور امام احمد کے ساتھیوں میں سے ایک گروھ کا یہ کہنا ہے کہ ایسا کرنا مستحب نہیں بلکہ نیت سے زبان سے الفاظ ادا کرنا بدعت ہے، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے صحابہ کرام اور تابعین سے نماز اور وضو یا روزوں میں یہ چيز بلکل جائز نہیں ہے-
علماء یہ کہتے ہیں کہ کسی فعل کے بارے میں علم کے ساتھ ہی نیت حاصل ہوجاتی ہے- لہاذا زبان کے ساتھ رٹے رٹائے الفاظ پڑھنا ہوس پرستی، فضول اور ہذیان ہے۔
نیت انسان کے دل میں ہوتی ہے اور زبان کے ساتھ نیت کرنے والا یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ نیت کا تعلق دل سے نہیں، اسی لیے وہ اپنی زبان سے نیت حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حاصل شدہ چيز کے حصول کی ہوس تحصیل حاصل کے زمرے میں آتی ہے- اس مذکورہ غلط عقیدہ کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان وسوسوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں- (مجموع الفتاوی: 18/263،264)
امام ابن رجب الحمبلی رحم اللہ علیہ اپنی کتاب" جامع العلوم (ص40)" میں فرماتے ہیں کہ " ان مسائل میں کوئی حوالہ ہم نہ سلف صالحین سے پاتے ہیں اور نہ کسی اور امام سے-
ان سطور کے تحریر کرنے کے بعد مجھے گمراہ بدعتوں کے ایک سردار اور سقاف اردن کے باری میں معلوم ہوا کہ یہ خبیث شخص ام المومنین حضرت عائشہ رصی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال کرتا ہے، جس میں آیا ہے کہ" جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے کھانے کے بارے میں میں پوچھا اور انہوں نے کہا کہ کھانا موجود نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمايا میں روزا رکھتا ہوں"-
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب جواز صوم النافلۃ بنیۃ من النھار قبل زوال [1154])
سقاف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایام حج میں اس قول سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا تھا کہ:
(( لبیک بعمرۃوالحج))
اے اللہ میں حج و عمرہ کے ساتھ لبیک کہ رہا ہوں-
[ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب احلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم وھدیۃ: 1251]
اور حالانکہ اس کا یہ استدلال مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے-
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نیت کے تلفظ پر استدلال غلط ہے کیونکہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حال اور کیفیت کی خبر دی ہے نہ کہ نیت کی، اگر آپ لفظی نیت کرتے تو اس طرح کہتے کہ" میں روزے کی نیت کرتا ہوں" یا اس کے مشابہ کوئی بات فرماتے-
تلبیہ کے وقت آپ کا (( لبیک بعمرۃ والحج)) کہنا بھی لفظی نیت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، ورنہ آپ یوں کہتے کہ" میں عمرہ اور حج کا ارادہ کرتا ہوں" یا " میں حج و عمرہ کی نیت کرتا ہوں"۔ ان الفاظ کا تعلق اس سنت نبوی سے ہے جو تلبیہ ( لبیک کہنے) سے ہے نہ کہ لفظی نیت سے-
حج اور عمرہ میں لفظی نیت کے بری اور مذموم بدعت ہونے پر دلیل حافظ ابن رجبؒ کا وہ قول بھی ہے جو انہوں نے " جامع العلوم (ص20)" پر لکھا ہے:
" ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ صحیح سند سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو احرام کے وقت یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حج اور عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں تو انہوں نے (ناراض ہوکر) اسے کہا کہ کیا تو لوگوں کو (اپنی نیت و ارادہ کے بارے میں) بتانا چاہتا ہے (کہ تو نیکی کا بڑا کام کررہا ہے)؟ کیا اللہ تعالی تیرے دل کے بھیدوں سے (بھی) واقف نہیں ہے؟"
تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ زبان کے ساتھ نیت کرنا مستحب نہیں ہے اور نہ ہی اصلاحن جائز ہے۔ واللہ الموفق
اقتباس از: "
عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد "
ترجمہ و تحقیق: حافظ زبیر علی زئی"
https://archive.org/stream/Ibadaat-Main-Bidat-aur-Sunnat-e-Nabwi-say-unn-ka-Radd#page/n46