• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز کا درست طریقہ - عبد اللہ حیدر

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------​
نوٹ: یہ کتاب میرے پاس نا مکمل حصے کی صورت میں موجود تھی اسی لئے اس کتاب کا جتنا حصہ موجود تھا اتنا ہی پوسٹ کیا جا رہا ہے، ،،، الحمد للہ
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------​
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
عامر بھائی! اللہ آپ کو خوش رکھے اور دنیا و آخرت کی بھلائیاں عطا فرمائے۔ آپ نے ان مضامین کو ایک ہی جگہ اکٹھا کر کے بڑا اچھا کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور نافع بنائے۔
شاکر بھائی! اس سلسلے کا آخری مضمون جلسہ استراحت کے بارے میں اردو محفل کی اس دھاگے میں پوسٹ کیا گیا تھا۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/نماز-کا-طریقہ-صحیح-احادیث-کی-روشنی-میں.27885/page-3
اس کتاب کی تکمیل میری بڑی خواہشات میں سے ہے۔شاید یہ کام بھی’’علم ینتفع بہ‘‘ کے زمرے میں قبول کر لیا جائے اور قبر کے اندھیروں میں بھی نیکیوں میں اضافے کا سبب بنتا رہے۔ آپ بھائی میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ کام لے لے اور جن مشکلات کا سامنا ہے اپنی رحمت سے انہیں دور فرمائے۔
والسلام علیکم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
سترے کے مسائل

سترے کی اہمیت اور وجوب
نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے آگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگر کوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزر جائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔
سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنیٰ نہیں فرمایا ہے جیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَداً يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ
(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)
''تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے ، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے ''
سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔ زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)
''جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے ، تو اس کے قریب ہو جائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے ) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے ''

کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے 3 اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے 4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے 5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8 اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے ) دوسری جانب کون گزر رہا ہے ''
اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے ۔ سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریباً ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے ، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نے توجہ منتشر ہونے کے ڈر سے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے ۔

نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا
نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کے ساتھ روکنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے ۔ نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے ) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے ''؟ فرمایا:
لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)
(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے )
''نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرے سامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے ۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے ) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے 11''
دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع) ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے ) سے (بچنے ) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دے اور پوری قوت سے اسے ہٹائے ۔ ( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے ) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے ''
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْراً لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )
''اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے ''

سترے کی غیر موجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں
اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ (مسلم و ابو داؤد)
''اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا ''سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے ''
اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے ۔
امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے ، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سے گزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ (اصل صفۃ صلاۃ ص 135)

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا فرمان ذی شان ہے :
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا (مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)
''قبروں کی طرف منہ کر کے نماز مت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو''
اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے
اس بات کو ثابت کونے کے لیے شارحین حدیث کی راے کو سامنے لانا ضروری ہے ، کن کن علماء نے اس حدیث سے نماز کا باطل ہونا مراد لیا ہے ذرا وضاحت فرما دیں جزاک اللہ خیرا
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے
اس بات کو ثابت کونے کے لیے شارحین حدیث کی راے کو سامنے لانا ضروری ہے ، کن کن علماء نے اس حدیث سے نماز کا باطل ہونا مراد لیا ہے ذرا وضاحت فرما دیں جزاک اللہ خیرا
جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عورت ، کتا اور گدھا وغیرہ نماز کو توڑ دیتے ہیں۔ ان احادیث سے مراد کیا ہے؟ فقہائے کرام نے ان سے کیا مراد لیا ہے؟ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لیے یا اس کی معلومات فراہم کرنے کے لیے اس کا پس منظر ضروری ہے۔ کاش کہ آپ ان احادیث کے پس منظر پر غور کر لیتے تو آج یہ غلط فہمی کبھی جنم نہ لیتی۔
احادیث میں جو عورت، گدھا اور کالے کتے کاذکر ہے یہ وہ اشیا ہیں جو انسان کی نماز کی بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔ کیونکہ نماز کے آگے سے ان اشیا کا گزرنا خشوع اور خضوع کو مٹانے کے مترادف ہے۔ یہی حدیث کا مقصود ہے۔
امام نووی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''وتاٴول ھولاء حدیث ابی ذر رضی اللہ عنہعلی ان المراد بالقطع نقص الصلاة لشغل القلب بھذہ الاشیاء ولیس المراد ابطالھا''(شرح مسلم، ج۴، ص۲۳۰)
ترجمہ: ''یعنی جو حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہکی ہے اس سے مراد نماز میں کمی ہونے کے ہیں (کیونکہ ان اشیا کا گزرنا) شغل قلب کا باعث ہے، اور اس سے مراد نماز کا باطل ہونا نہیں ہے (بلکہ خشوع و خضوع میں فرق آنا ہے)۔''
امام شوکانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''قال العراقی: واحادیث الباب تدل علی ان الکلب والمراة والحمار تقطع الصلاة، والمراد بقطع الصلاة ابطالھا، وقد ذھب الی ذالک جماعة من الصحابة منھم ابو ہریرة، وانس، وابن عباس رضی اللہ عنہم'' (نیل الاوطار، ج۳، ص۱۷)
ترجمہ: '' علاقہ عراقی فرماتے ہیں کہ جو احادیث اس باب پر دلالت کرتی ہیں کہ کتاب، عورت اور گدھا نماز کو قطع کر دیتے ہیں تو اس سے مراد نماز کا قطع ہونا (خشوع و خضوع میں) باطل ہونا ہے اور اسی طرف صحابہ کرام کی ایک جماعت گئی جن میں ابو ہریرہ ، انس اور ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔''
اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ نمازی کے آگے مندرجہ بالا اشیا کا گزرنا نماز کو فاسد کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ان اشیا کا ذکر کیوں کیا گیا ہے تو واقعی میں یہ اشیا نماز کو فاسد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً
اگر آپ نماز ادا کر رہے ہیں اور کتا وہ بھی کالا آپ کے سامنے بھونکنا شروع کر دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی نماز سے خشوع و خضوع جاتا رہے گا۔ اسی طریقے سے اگر آپ نماز کی حالت میں ہیں اور ایک عورت آپ کے سامنے سے گزر جائے تب بھی آپ کی نماز میں خلل واقع ہو سکتا ہے اور بعینہ یہی حالت گدھے کی ہے جب وہ اپنی بد صورت آواز سے ہنکے گا تو یقیناً نماز میں خلل اور خرابی واقع ہوگی۔
صفی الرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں:
''واّما تخصیص المراة والکلب والحمار بالذکر فلیس معناہ ان غیرھا لا یقطع برکة الصلاة، والا لم یکن لتاثیم الرجل لاجل مرورہ بین یدی المصلی معنی ، بل لان ھذہ الثلاث مظان لوجود الشیطان وفتنتہ ، فیکون القطع من اجلھا ابلغ واشد وافظع، فقد روی الترمذی عن ابن مسعود مرفوعاً (ان المراة عورة فاذا خرجت استشرفھا الشیطان) وروی مسلم عن جابر مرفوعا ان المراة تقبل فی صورة شیطان وتدبر فی صورة شیطان وورد فی نھیق الحمار: انہ ینھق حین یری الشیطان۔ اما الکلب فقد ورد فی ھذا الحدیث نفسہ ان الکلب الاسود شیطان، وقف علم خبث مطلق الکلب بان الملائکة لا تدخل بیتا فیہ کلب، وان من اقتنی کلبا۔ فیما لم یاذن فیہ الشرع۔ انتقص من اجرہ کل یوم قیراطان۔ اما وصف الکلب الاسود بانہ شیطان فلکثرة خبثہ وشدة سوء منظرہ وفظاعتہ۔'' (منة المنعم شرح مسلم، ج۱، ص۳۲۸)
ترجمہ: ''اور جو ذکر میں تخصیص کی گئی ہے کہ عورت ، کتّا اور گدھا (نماز کو باطل کر دیتے ہیں) تو پس اس کا معنی یہ نہیں کہ ان تینوں اشیا کے علاوہ کوئی اور چیز نماز کی برکت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ حکمتیں نہ ہوتیں (یعنی عورت، کتا اور گدھا کے گزرنے کی) تو مرد کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ بلکہ یہ تینوں چیزیں شیطان کے وجود اور فتنہ کی جگہیں ہیں۔ تاکہ (نماز) ختم ہو جائے اور شیطان کی وجہ سے سخت پریشان ہو جائے۔ ترمذی نے ابن مسعود سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ عورت یقیناً پردے کی جگہ ہے اور جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ، اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ یقیناً عورت جب آتی اور جاتی ہے شیطان کی صورت میں، اور گدھے کے ہینگنے کے بارے میں بھی موجود ہے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر اپنی آواز نکالتا ہے (ہینگتا ہے) اور جہاں تک کتے کے بارے میں ہے تو حدیث میں کالے کتے کے ساتھ یہ مخصوص ہے ۔ کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہا گیا ہے۔ یقیناً کتے کا مطلب خبث ہونا موجود ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتے ہوں یا جس نے کتے کو پالا ہو اس کے بارے میں شریعت نے اجازت مرحمت فرمائی ۔ (بلاوجہ کتا پالنا شریعت میں اس کی رخصت نہیں)''
شبیر احمد عثمانی ''فتح الملھم'' میں فرماتے ہیں:
''المراة بالقطع فی حدیث الباب قطع الوصلة بین العبد وبین الرب جل جلالہ لا ابطال الصلاة نفسھا'' (فتح الملھم شرح صحیح مسلم، ج۳، ص۳۳۴)
ترجمہ: ''یعنی نماز ختم کرنے کا جو یہاں مقصد ہے اس حدیث کے باب میں تو قطع سے مراد بندے اور رب کے درمیان رابطہ کا انقطاع ہے اور نماز کا اپنی ذات کے اعتبار سے باطل ہونا مراد نہیں۔''
امام قرطبی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''یقطع الصلاة المراة والحمار، فان ذالک مبالغہ فی الخوف علی قطعھا وافسادھا بالشغل بھذہ المزکورات، وذالک ان المراة تفتن ، والحمار ینھق، والکلب یروع فیتشوش المتفکر فی ذالک حتی تنقطع علیہ الصلاة وتفسد''
(المفھم شرح مسلم ، ج۲، ص۱۰۹)

ترجمہ: ''یعنی نماز کا قطع ہونا عورت اور گدھے کی وجہ سے تو یہ مبالغہ ہے اس سبب کہ نماز کا قطع ہونا اور اس کی بنیاد کی وجہ سے ان اشیا کے شغل کے سبب ، کیونکہ عورت فتنہ میں ڈالتی ہے اور گدھے کا ہینگنا (وہ بھی خرابی کا باعث بنتا ہے) اور کتا ڈراتا ہے نمازی کو یہاں تک کہ اسے تشویش میں ڈالتا ہے حتی کہ اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے یا (خشوع و خضوع میں )بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔''
جلال الدین سیوطی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:
''وان المراد بالقطع فی الحدیث نقص الصلاة یشغل القلب بھذہ الاشیاء''
(الدیباج، ج۱، ص۶۴۰)

ترجمہ: ''یہ کہ نماز کا قطع سے مراد یہاں حدیث میں نماز کی کمی ہے کیونکہ دل ان اشیا کی وجہ سے شغل میں پڑ جاتا ہے۔''
الحمدللہ بات عیاں ہوئی کہ ان تین اشیا کا جو ذکر احادیث صحیحہ میں موجود ہے آخر اس میں کیا حکمت ہے۔ اس کی حکمتین دوسری احادیث نے مترشح کر دیں کہ ان کا اصل سبب (نماز کا خراب ہونا) شیطان کے عمل دخل کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ جب بندہ صلاة کو ادا کرتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اور شیطان کا کام ہی بندہ کا تعلق رحمٰن سے توڑنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان بندے کی نماز کو ان اشیا کے ذریعے باطل کرنے کی کوشش کرتا ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
سترے کے مسائل

سترے کی اہمیت اور وجوب
نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے آگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگر کوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزر جائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔
سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنیٰ نہیں فرمایا ہے جیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَداً يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ
(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)
''تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے ، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے ''
سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔ زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)
''جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے ، تو اس کے قریب ہو جائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے ) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے ''

کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے 3 اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے 4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے 5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8 اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے ) دوسری جانب کون گزر رہا ہے ''
اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے ۔ سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریباً ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے ، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نے توجہ منتشر ہونے کے ڈر سے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے ۔

نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا
نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کے ساتھ روکنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے ۔ نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے ) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے ''؟ فرمایا:
لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)
(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے )
''نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرے سامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے ۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے ) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے 11''
دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع) ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے ) سے (بچنے ) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دے اور پوری قوت سے اسے ہٹائے ۔ ( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے ) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے ''
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْراً لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )
''اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے ''

سترے کی غیر موجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں
اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ (مسلم و ابو داؤد)
''اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا ''سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے ''
اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے ۔
امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے ، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سے گزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ (اصل صفۃ صلاۃ ص 135)

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا فرمان ذی شان ہے :
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا (مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)
''قبروں کی طرف منہ کر کے نماز مت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو''
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریباً ڈیڑھ بالشت) ہو۔
آپ کی بیان کردہ مقدار کچھ کم ہے ، پوری مقدار اس طرح بیان ہوئی ہے:
۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "آخرۃ الرحل ذراع فما فوقہ"

[سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ، باب ما یستر المصلی (۶۸۶)]

اونٹ کے کجاوے کا پچھلا حصہ ذراع یا اس سے زیادہ (اونچا) ہوتا ہے۔

*
ذراع ہتھیلی کو کھول کر کہنی تک کا حصہ ذراع کہلاتا ہے اور یہ تقریباً ڈیڑھ فٹ ( فٹ ) ہوتا ہے
۔

تو گویا نمازی اپنے آگے تقریباً ڈیڑھ فٹ بلند چیز رکھے تو وہ اس کا سترہ بن سکے گی اس سے کم اونچائی والی چیز سترہ کا کام نہیں دے دیتی۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریباً ڈیڑھ بالشت) ہو۔
آپ کی بیان کردہ مقدار کچھ کم ہے ، پوری مقدار اس طرح بیان ہوئی ہے:
۔ عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "آخرۃ الرحل ذراع فما فوقہ"

[سنن ابی داؤد،کتاب الصلاۃ ، باب ما یستر المصلی (۶۸۶)]

اونٹ کے کجاوے کا پچھلا حصہ ذراع یا اس سے زیادہ (اونچا) ہوتا ہے۔

*
ذراع ہتھیلی کو کھول کر کہنی تک کا حصہ ذراع کہلاتا ہے اور یہ تقریباً ڈیڑھ فٹ ( فٹ ) ہوتا ہے
۔

تو گویا نمازی اپنے آگے تقریباً ڈیڑھ فٹ بلند چیز رکھے تو وہ اس کا سترہ بن سکے گی اس سے کم اونچائی والی چیز سترہ کا کام نہیں دے دیتی۔
خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو
کیا لیٹی ہوئی عورت اونچائی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ سترے کو کفیت کر جاے؟جہاں تک حضرت عائشہ کی روایت تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ چار پائی پر لیٹی ہوتی تھیںورنہ لیٹی ہوئی عورت اتنی چوڑی نہیںہوتی کہ وہ سترے کو کفایت کر جاے اللہ اعلم بالصواب
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,018
پوائنٹ
120
السلام علیکم، برادر حافظ عمران،
اس سلسلے کو شروع کرنے کا مقصد محدث العصر الشیخ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’اصل صفۃ صلاۃ النبی ‘‘ کی اردو میں تلخیص کرنا ہے۔ ظاہر ہے خلاصے میں وہ ساری باتیں بیان نہیں کی جا سکتیں جو ایک محقق کی تسلی کے لیے کافی ہوں۔ آپ کو جس مسئلے کی تفصیل مطلوب ہو اسے ’’اصل صفۃ صلاۃ النبی‘‘ میں تلاش کیجیے۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:
http://www.alalbany.net/4460
فقہی اور جزئی مسائل کی تحقیق اس دھاگے کا موضوع نہیں ہے البتہ اگر کوئی ایسی بات آپ کی نظر سے گزری ہو جہاں امام البانی کا موقف بیان کرنے میں مجھے غلطی لگی ہے تو ضرور بتائیے۔ میں شکر گزار ہوں گا۔
والسلام علیکم
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم، برادر حافظ عمران،
اس سلسلے کو شروع کرنے کا مقصد محدث العصر الشیخ ناصر الدین الالبانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’اصل صفۃ صلاۃ النبی ‘‘ کی اردو میں تلخیص کرنا ہے۔ ظاہر ہے خلاصے میں وہ ساری باتیں بیان نہیں کی جا سکتیں جو ایک محقق کی تسلی کے لیے کافی ہوں۔ آپ کو جس مسئلے کی تفصیل مطلوب ہو اسے ’’اصل صفۃ صلاۃ النبی‘‘ میں تلاش کیجیے۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہے:
http://www.alalbany.net/4460
فقہی اور جزئی مسائل کی تحقیق اس دھاگے کا موضوع نہیں ہے البتہ اگر کوئی ایسی بات آپ کی نظر سے گزری ہو جہاں امام البانی کا موقف بیان کرنے میں مجھے غلطی لگی ہے تو ضرور بتائیے۔ میں شکر گزار ہوں گا۔
والسلام علیکم
وعلیکم السلام
بھا ئی جان جب آپ سترے کی لمبائی ڈیڈھ بالشت بتائین گے تو یہ واضح غلطی ہے جس کی اصلاح ضروری ہے ، سب لوگوں نے یہاں سے استفادہ کرنا ہے یہاں ایسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
وعلیکم السلام
بھا ئی جان جب آپ سترے کی لمبائی ڈیڈھ بالشت بتائین گے تو یہ واضح غلطی ہے جس کی اصلاح ضروری ہے ، سب لوگوں نے یہاں سے استفادہ کرنا ہے یہاں ایسی غلطی کی گنجائش نہیں ہے
اگر کوئی ایسی بات آپ کی نظر سے گزری ہو جہاں امام البانی کا موقف بیان کرنے میں مجھے غلطی لگی ہے تو ضرور بتائیے۔
اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہےکیا یہ علامہ البانی کا موقف ہے؟
 
Top