سترے کے مسائل
سترے کی اہمیت اور وجوب
نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے آگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگر کوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزر جائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔
سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنے والوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنیٰ نہیں فرمایا ہے جیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَداً يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ
(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)
''تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے ، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے ''
سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔ زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)
''جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے ، تو اس کے قریب ہو جائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے ) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے ''
کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے 3 اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے 4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے 5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8 اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:
إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ (صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے ) دوسری جانب کون گزر رہا ہے ''
اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے ۔ سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریباً ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے ، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نے توجہ منتشر ہونے کے ڈر سے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے ۔
نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا
نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کے ساتھ روکنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے ۔ نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے ۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے ) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا ''اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے ''؟ فرمایا:
لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)
(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے )
''نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرے سامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے ۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے ) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے 11''
دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع) ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ ( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )
''جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے ) سے (بچنے ) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دے اور پوری قوت سے اسے ہٹائے ۔ ( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے ) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے ''
نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا
لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْراً لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )
''اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے ''
سترے کی غیر موجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں
اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا:
يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ و سلم كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ (مسلم و ابو داؤد)
''اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا ''سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے ''
اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے ۔
امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے ، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سے گزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ (اصل صفۃ صلاۃ ص 135)
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت
قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کا فرمان ذی شان ہے :
لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا (مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)
''قبروں کی طرف منہ کر کے نماز مت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو''